Perishing legend king-92-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 92

آج اپنے آپ اس کی رونا چھوٹ پڑی۔ آج اپنا نام ویر كے منہ سے سنتے وقت اس کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ کیوں کہ وہ جانتی تھی اس آواز میں کتنی فکر تھی ، کتنی گھبراہٹ تھی۔


اور یہ  فکر ویر کی ان دونوں كے لیے تھی۔ سوال وہی تھا


آخر کیووں ؟ ؟ ؟


خیر بہت سے سوال من میں لیئے وہ آخر کار اپنی منزل پر پہنچ گئی۔


قسمت سے راگنی اور باقی سبھی پورچ میں ہی اسے مل گئی۔


راگنی :

ارے ! ؟ آ گئی تم دونوں ! ؟ آؤ؟؟؟ ییہ، یہ کیا ؟ ؟ ؟ تم دونوں كے چہرے کا رنگ کیوں اڑا ہوا ہے ایسے ؟ کککاویہ ! ؟ ؟ رو کیوں رہی ہو تم ؟ اروحی  تم بھی ! ؟ ؟


جیسے ہی ان کی حالت راگنی نے دیکھی وہ ہڑبڑاكے باہر آئی۔  وہ اور آنیسہ اِس وقت ویر کو ہی ڈھونڈ رہی تھی کیوں کہ اچانک وہ بنا کچھ بتائے گھر سے نکل گیا تھا اور فون بھی نہیں اٹھا رہا تھا۔ ظاہر سی بات تھی وہ سبھی  فکرمند  تھے۔


اروحی : 

ببھ-بھابھی ! ! ! وہ۔۔۔وہ۔۔


اس کے بَعْد اروحی نے شروع سے آخر تک ساری بات بتا  دی ، جسے سن کر راگنی سمیت سبھی ٹینشن میں آ گئے۔


راگنی :

ہے بھگوان !تم دونوں ٹھیک تو ہو نا ؟ او، اور ویر ؟ ؟ ؟ و،ووہ وہاں اکیلا ہے؟؟  ننناہی،  نہیں! !

 
وہ اگلے ہی لمحے بھاگ كر اپنا فون اٹھائی اور پولیس کو کال ملادی۔



آج تہوار کا یہ ماحول اتنا ٹینشن سے بھر گیا ۔سبھی كے چہرے پر بس ڈر ، گھبراہٹ اور بے چینی تھی ۔


اور سبھی پولیس کا انتظار کرنے لگے۔اروحی اور کاویہ تو جیسے  تیسے بچ گئی تھی ۔مگر یہی بات ویر كے لیے کہنا تھوڑا مشکل تھا۔


ارے ۔۔۔ ! ؟ تتتم ! ؟ ؟

ویر كے سامنے اِس وقت ایک شخص کھڑا تھا ، جسے ویر ٹرین میں ملا تھا۔

 

 دانش۔

مگر یہ وقت اس کے لیے سوچنے کا نہیں تھا۔دانش كے آنے سے جو آدمی ویر کو پیچھے سے  دبوچے ہوئے تھا، اس کا دھیان بھی بھٹک چکا تھا۔


اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، ویر نے اپنی کہنی سیدھا اس کی پسلی میں دے ماری۔

 

” اررغھہ  ہہہ! “


وہ دَرْد كے مارے کرااہا اور اپنی پسلی پکڑ کرجھک گیا اور ۔۔۔۔

پووووووووووو*

 ایک زوردار گھسا اس کے گال پر آکے پڑا جو اسے پُورا ہلا كے رکھ دیا۔


” 
فککک یو ! ”

نیکسٹ سیکنڈ ہی ، ویر نے فل طاقت سے ایک کک اور جڑ دی اس کے پیٹ میں۔


اور وہ بندہ پیچھے جا گرا۔


دانش بھاگتے ہوئے اس کی طرف آیا۔ویر نے دیکھا کہ ایک سائیکل زمین پر پڑی ہوئی تھی جس کا پچھلا پہیہ ہلکا ہلکا  ابھی بھی گھوم رہا تھا۔

 مطلب دانش  یہاں سائیکل سے  گزر رہا تھا اور اس نے جیسے ہی یہ سب دیکھا تو مدد كے لیے آن پڑا۔


دانش :

ارے بھائی ۔۔۔ تم پھرسے ؟ ؟ اور یہ چکر کیا ہے ؟ سارے آدمی تمہارے پیچھے کیوں لگے ہیں ؟ ٹھیک تو ہو ؟ کککیا تھا یہ سب ؟

ویر

مممیں ٹھیک ہوں۔ بہت بہت شکریہ ، میری مدد کرنے كے لیے۔ اس دن ٹرین میں بھی تم نے۔۔۔ پر تم یہاں ؟ ویٹ ! کیا ہی اتفاق ہے یہ۔۔۔! ؟ اس دن بھی تم نے ہی مجھے بچایا تھا  اور آج بھی۔۔۔


دانش :

ہا ہا ہا۔۔۔ قسمت  بھائی۔ جب جسے ملا  دے۔   ویسی نام تو یاد ہے ناں  میرا ؟

تمہارا تو ویر ہے۔ مجھے یاد ہے۔

ویر :

اینڈ تم دانش ! ؟مجھے بھی یاد ہے۔

 
دانش :

ہا ہا ہا ~ بالکل !
چلو یاد تو ہے کم سے کم۔۔ پر یہ سب ! ؟ کیا تھا ؟


ویر :

کچھ دشمنی ہے میری ان سے شاید ۔ جو یہ میرے پریوار كے پیچھے پڑے ہیں۔ تہہ تک جانا پڑیگا  مجھے اس کی۔  نا جانے کون ہے ان سب كے پیچھے۔


دانش :

اُوں !

ویر :

مگر تم یہاں۔۔۔! ؟

سنسان راستے میں ! ؟ وہ بھی سائیکل پر ! ؟


دانش :

اپنا کیا ہے بھائی۔۔۔اس دن میں بھی اپنے گاؤں كے لیے نکلا تھا، ٹرین سے۔ کیوں کہ وہیں  اپن کی  جانمبھومی  (جائے پیدائش)  ہے۔ اپنا کوئی ہیچ نہیں۔۔۔ آشْرَم میں پالا بڑا ہوں، پھر 18 برس کی عمر كے بَعْد پیسہ کمانے ادھر ممبئی آگیا۔ سنا تھا پیسہ کمانا ہے تو مایانگری  جاؤ۔  ہا  ہا


ویر : . . . .


دانش :

میں ادھر ہی پیچھے ایک ہوٹل ہے ۔وہاں کام کرتا ہوں۔ کھانا پینا  وہیں ہو جاتا ہے۔ رہنے کا کوئی نہ کوئی جگاڑ ہو ہی جاتا ہے۔


آج دیوالی کی خرچہ لینے گیا تھا ۔ بس اب جاکے ہوٹل كے ہی کچھ دوست لوگ ہیں ان کے ساتھ دیوالی مناؤنگا۔

 

ویر :

اُوں ! ! تمہاری زندگی بھی، کافی۔۔۔۔۔


دانش :

زندگی کا کیا ہے بھائی۔ ایک دن سب کو مرنا  ہی ہے۔ تب تک جتنے مزے لے سکو لے لو۔ ایک اچھا جیون گزارو اور کیا۔ اپن کا تو ایک ہی سپنا ہے۔
ہمیشہ سے چاہتا تھا کہ ایک عیش و آرام کی زندگی جیئوں، پر ،،، سالا قسمت ہیچ گانڈو نکلی ہا ہا ۔

ویر ( اسمائیلز ) :

قسمت گانڈو ہی ہوتی ہے۔

 

(و-وااٹٹٹ ماسٹر!؟؟  بھولیئے  مت ۔۔۔ میرا آپ کے اندر آنا بھی قسمت ہی تھی۔ قسمت کو ایسا نہ بولئے۔۔۔ ماسٹر !

 
اوہ ریلی ناؤ ! ؟

 
تبھی اچانک ہی دانش نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور ویر کی طرف کیا۔


دانش (اسمائیلز ) :

ویسےتو تم کسی بڑے گھر كے لگتے ہو۔ پر اگر مجھ جیسوں سے تمہیں پریشانی نہ ہو تو ۔۔۔ آج سے ہم دوست ! ؟ ؟ ؟


ہو ! ؟

 

آج ۔۔۔۔


آج یہ پہلی بار تھا ، جب ویر کی طرف کسی نے اپنی طرف سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ کبھی کسی نے بھی اس کا دوست بننے کی پہل نہیں کی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ویر کسی نہ کسی پریشانی میں رہتا ہے اور اس کا پالا خطرناک آدمیوں سے ہے ، پھر بھی آج دانش نے اس کی طرف یہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔

ایسے میں ۔۔۔


دانش :

ہو ؟ ؟  او او بھائی ۔۔۔ تم رو کیوں رہے ہو ؟ ارے میں اتنا برا بھی نہیں ہوں  یار ۔۔۔ تم تو ۔۔۔ دیکھو بھائی ایسی بےعزتی نہ کرو یار۔۔۔


ویر: * اسمائیلز * 

(ہنستےہوئے آنسو پوچھ کر ) نہیں ۔۔۔ وہ اس سے پہلے کبھی کسی نے میرا دوست بننے کی کوشش نہ کی ۔۔۔ آج یہ پہلی بار ہے۔ اسلئے۔ اسلئے۔ بب بالکل۔آج سے ہم دوست ہوئے۔


اور اگلے ہی لمحے ویر نے کس كے دانش کا ہاتھ تھام لیا۔


دانش :

اتنے جذباتی نہ ہونا  بھائی۔

زندگی میں چِل مارنے کا۔ ٹینشن نہیں لینے کا۔ اور کسی نے ہاتھ نہیں بڑھایا تو کیا ہوا ؟ اب میں نے تو بڑھا دیا ہے ناااا ؟  ہا ہا


ویر ( اسمائیلز ) :

ہممم !

دونوں کو آج ایک نیا دوست ملا تھا۔ جہاں ویر دانش  کا احسان مند تھا اور اس کے رویئے  سے امپریسڈ تھا  تو وہیں دانش بھی اِس بات سے خوش تھا کہ ویر جیسا بڑے گھر کا لڑکا آج اس کا یوں دوست بن گیا تھا۔


پر جیسے۔۔۔۔۔


دونوں کی اِس خوشی پر کسی کی نظر لگ چکی تھی۔


کیوں کہ اگلے ہی پل۔۔۔۔


گاڑیوں میں سے 5 سے 6 آدمی نکلے اور ویر اور دانش پہ ٹوٹ پڑے۔

سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ دونوں کو کچھ سوچنے کا ٹائم ہی نہیں ملا۔ دو سے تِین بندوں کو جھیلنا تو ویر ویسے بھی کافی حد تک ہینڈل کر لیتا۔ پر 5 سے 6 ! ؟

یہ تو ناممکن جیسا کام تھا اس کے لیے۔ اس کے اسٹیٹس ابھی اتنے نہیں تھے۔


دانش بھی کوئی فائیٹر نہیں تھا ۔ وہ دبلا اور لمبا سا لڑکا تھا۔ لڑائی بھیڑنے سے شروع سے ہی دور رہنے  والا۔


نتیجہ صاف تھا۔


جہاں دانش کو مار مار كے انہوں نے بے ہوش کر دیا تھا تو وہیں ویر کچھ پل ان سے لڑ کر وہاں ان کا سامنا کرتا رہا۔ پر۔۔۔

وہ آؤٹ نمبر ہو چکا تھا ۔


بندے زیادہ تھے ، اور وہ اکیلا۔

( ماسٹٹٹٹٹر ! ! ! )


پری کی  فکرمندی سے بھری  آواز آئی تو اسے اشارہ سمجھ کر ویر مڑا  پر۔۔۔۔


تھوڑ *

اس کے سر كے پیچھے سے ایک وار آیا اور وہ سرپکڑ کےنیچے گرنے لگا۔

نووو ! مااسٹررررر ! ! آنکھیں اس کی بند ہونے لگی۔


بیہوشی میں جانے سے پہلے اسے بس ایک ہی آواز من میں  سنائی دی۔


*
ڈنگ *

مشن: سیو کاویہ اینڈ اروحی بفور  اٹ گیٹس ٹُو لیٹ ہیز بین کمپلیٹڈ۔

 40
پوائنٹس ہیو بین ریوارڈڈ۔

’ 
کککاویہ۔۔۔اروحی ۔۔۔من میں وہ اپنی بہنوں كے بارے میں سوچ کر بیہوشی میں چلا گیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page