Perishing legend king-99-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 99

کاویہ :

و ، وہ۔۔۔میم ۔۔۔۔میں،  میں آپ کو پوری بات بتاتی ہوں،  دراصل۔۔۔ دیوالی کی نائٹ پر، میں اور اروحی دیدی/باجی یہاں پر آ رہے تھے ۔  تب راستے میں ہی کچھ غنڈے ہمارے پیچھے پڑ گئے تھے۔ میں نے ویر بھئیا کو کال کرکے بلایا تھا اور انہوں نے ہی ہمیں بچایا تھا۔ پر اس دن ان لوگوں نے ویر بھئیا کو کافی تکلیف دی  تھی۔


نندنی:

 کیاااا ؟


کاویہ :

ہممم ! اور پھر کل ۔۔۔ اچانک ہی بھئیا بولے کہ انہیں کچھ کام ہے اور رات میں ہی قریب 7:30 بجے گھر سے نکل گئے۔ مگر۔۔۔

 

خاموشی *

 

مگر۔۔۔ بولتے بولتے کاویہ  یوں رونے لگی تو اس کی بات کو اروحی نے پُورا کیا ۔


اروحی :

مگر رات میں ہی کل ویر  ہمیں گھر كے باہر اسی حالت میں  ملا۔ ویر کو بہت چوٹیں آئی ہوئی تھیں۔ ابھی بھی اس کے بدن پر چوٹ كے نشان ہیں۔ ڈاکٹر نے ٹریٹمنٹ کیا اور میڈیسن دیکھ کے چلا گیا تھا وہ۔ مگر اس کے بعد سے ۔۔۔  ویر نہ تو کچھ کھا رہا ہے ،  نہ کسی سے بات کر رہا ہےاور کچھ بتا بھی نہیں رہا ہے۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے میم ۔۔۔وہ لوگ کون تھے ! ؟ اور کیوں ہمارے پیچھے پڑے ہوئے تھے ؟ اور ویر کہاں گیا تھا کل جو اس کی یہ حالت ہوگئی؟ اگر آپ کچھ حَل نکال سکتی ہے تو پلیز۔۔۔۔


پری:

ماسٹر ! لکنندنی کو آپ کی کتنی فکر ہے۔ پلیز !لِسن ٹو  ہر ۔


نندنی :

ویر ! میری طرف دیکھو ، کدھر گئے تھے تم کل ! ؟ بتاؤ ! میں کچھ پوچھ رہی ہوں تم سے ویر ! میری باتوں کو یوں  اَن سُنا کر دوگے؟؟ ؟  میں تمہاری میم ہوں نا ! ؟ بولو ! ؟


وہ اسے تھوڑا سا ہلاتے ہوئے پوچھ رہی تھی مگر۔۔۔۔۔۔


ویر تو جیسے کسی مُردے کی طرح ہو چکا تھا۔ کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا۔


نو ! نو ! نو ! دِس اِز بیڈ۔ ماسٹر کا ایموشنل سٹیٹ اتنا انسٹیبل کیسے! ؟ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ماسٹر  پکا  ڈپریشن میں چلے جائینگے۔۔۔نووو ! مجھے کچھ کرنا ہوگا۔۔۔


اور اگلے ہی پل۔۔۔۔

 

مم ماااسسٹٹٹرررر ر !


’ 
ہوہہ ! ؟


پری اس کے اندر اتنی زور سے چلائی جس کی وجہ سے ویر کو کچھ ہوش آیا۔


پری:

وہ آدمی اب آپ کی نندنی
میم کو مارے گا۔ 


یہ سنتے ہی ویر کی آنکھیں پھیلتی  چلی گئی!


ہو ! ؟ مم میم ؟ ؟ نن نوو ۔

پری:

یس ! اِیون شریا کو۔۔۔آپ کی کاویہ کو۔۔۔۔۔ اروحی کو۔

راگنی  کو ۔ سب کو مارےگا وہ۔


’ 
نن-ناہی۔۔ایسا نہیں ہوسکتا۔

پری:

آف کورس ! اور کبھی آپ نے زرا بھی فکر کی ! ؟


؟  ؟  ؟


پری:

کہ اگر آپ کی جوہی کو کچھ ہوا تو ! ؟


جوہی کا نام سنتے ہی ویر كے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس پیاری سی بچی کا کھلکھلاتا چہرہ اس کے من میں آیا اگر اسے غلطی سے بھی کچھ ہوا۔


یہ سوچتے ہی ویر اتنا  ڈر گیا کہ اس کا بدن کانپنے لگا۔


پری:

آف کورس ! “ہِی وِل کِل دیم آل” کیوں کہ آپ تو یہاں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہوگے۔ اس کے لیے کام آسان ہو جائیگا۔  یہی تو چاہتا ہے وہ۔

 

’ نن-نہیں ں  ں ں ں ں  ایسا ۔۔۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا

پری:

بالکل ہو سکتا ہے۔ اگر آپ نے جلد ہی ایکشن نہیں لیا تو ایسا ہی ہوگا۔ کبھی سوچا ہے؟ کہ اگر  اس رات کاویہ یا اروحی میں سے کوئی بھی پکڑی جاتی تو کیا حال ہوتا ان کا ! ؟ پھر آپ ۔۔۔ اپنی ہی بہن كے ہتھیارے ہوجاتے  ماسٹر۔ آپ کی ایک بہن کی جان جاتی ، یا  دونوں کی ہی جا سکتی تھی۔

 

یہ بات جیسے کسی بھاری پتھر کی طرح آکے ویر كے اوپر گری۔ اور اس کا پُورے شریر کوجیسے ہلا کر رکھ دیا ۔


پری:
آپ کی یہ نندنی میم!کبھی سوچا ہے کہ وہ آدمی اگر ان کے پیچھے پڑ جائے تو ! ؟


پری کی بات سن کر ویر نے نندنی کو دیکھا جو اسے ہی  پریشان کُن نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

 

پری:

( یو ول لوز  ہر ۔۔۔ یو ول لوز ایوری تھنگ۔ شی ول ڈائی )

’ 
نن-نہیں ’

پری:

بالکل ! یہی ہوگا ! آپ سب کچھ کھو دوگے ماسٹر۔ کہاں گئی آپ کی وہ پرائڈ ؟ کہاں گیا آپ کے اندر کا وہ جوش ؟ کیا یوں  ہی ہار مان جاؤگے آپ ؟

بھول گئے اپنا  مقصد! ؟ آپ کو تو ایک بہت بڑا آدمی بننا ہے نا ؟ کیا ہوگا اس وعدے کا جو آپ نے جوہی کو دیا تھا ؟ اس کے لیے چاکلیٹ کی پوری فیکٹری کھولنے والے تھے نا آپ ؟


کیا نندنی جی کو اس رجعت كے چنگل سےنہیں نکالیں گے آپ؟  بھول گئے کہ ابھی آپ کو اپنی سالوں سے بچھڑی ماں کو بھی ڈھونڈنا ہے ؟

 کہاں گئے وہ سارے وعدے جو آپ نے مجھ سے کیے تھے ؟ کیا وہ سب ڈھونگ تھا ؟


اگر ایسے ہی رہے آپ ۔ تو سب کچھ گنوا بیٹھوگے ماسٹر۔ نندنی ، شریا ، کاویہ۔۔۔ یہ سب آپ کے سامنے مارے جائیں گے اور آپ کچھ نہیں کر پاؤگے۔

 

 ’ نن-نوووو ۔۔۔آئی ڈونٹ وانٹ ٹو  لوز  ہر ۔۔۔ آئی ڈونٹ وانٹ ٹو لوز اینی ون۔۔۔میں کسی کو بھی نہیں کھونا چاہتا۔

نووو۔۔۔ آئی ریلی ڈونٹ۔۔۔

اور اگلے ہی پل ویر نے آگے بڑھ کر نندنی کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔


آں ! ؟ ویرر ! ؟


نندنی اِس حملے سے تھوڑی حیران  ضرور تھی مگر جب اسے ویر کا کانپتا ہوا بدن محسوس ہوا اور جب اسے اپنے ننگے کاندھے پر ویر كے آنسوؤ کا احساس ہوا تو نندنی کچھ نہ بولی اور اس کے ہاتھ اپنے آپ ہی ویر كے ارد گرد لپٹ کر کس گئے۔ اس نے اس کے سركے پیچھے ہاتھ لے جاکر اسے تھاما اور اپنے سے لگا لیا۔ دھیرے دھیرے وہ  ویر کی پیٹھ سہلاتے ہوئے اسے شانت کرنے لگی۔


ادھر کاویہ اور اروحی دونوں ہی حیرت كے مارے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ مگر کہیں نہ کہیں انہیں اِس بات سے زیادہ خوشی تھی کہ ویر  ایٹ لسٹ اب کچھ مومینٹس تو شو کر رہا تھا۔


پری:
اففف ! ماسٹر کا دِل بہت کمزور ہے۔ ان کی فیملی نے ان کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا ہے۔ آاار ہ   ! آئی ہیٹ دیم آل۔ ہممم ؟ نندنی کی پسندیدگی 56؟   دیٹس گڈ ! کاویہ کی۔ ! ؟ 78!!  اوہ!اینڈ اروحی؟ ہو؟؟  40!؟؟


واؤ ! دِس اِز سر پرائزنگ۔  ماسٹر کو بعد میں بتا دونگی میں۔


میں ۔۔۔ میں انہیں کھونا نہیں چاہتا ۔۔۔ آئی وِل کِل ہِم ۔ میں، کچھ نہیں ہونے دونگا کسی کو ۔ آئی آئی ۔۔۔۔


” 
ہاہہ ہاااہہ ہاااہہ . . . “

اور اچانک ہی ویر کی سانسیں اتنی تیز ہو گئیں کہ وہاں موجود سبھی لڑکیاں گھبرا گئیں۔


نندنی :

ویر ؟ ؟ ؟  یہ۔یہ۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔! ؟ کیا ہوا تمہیں ؟


وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا اور اچانک ہی اس نے اپنا سینہ زور سے  ہاتھوں سے بینچ لیا۔


” 
ہااااہ ۔۔۔ہاااہہ” 

 

 کاویہ : 

بھئیاااااااا۔۔۔۔۔۔

کاویہ چلائی۔۔۔  تو اروحی بنا سمے گنوائے بھاگتی ہوئی نیچے گئی  اور راگنی کو بلا کر لائی۔


راگنی سمیت آنیسہ اور باقی سبھی بھاگتی ہوئی آئیں اور ویر کی حالت دیکھ  کرراگنی نے کوئی غلطی نہیں کی اور سیدھے ہی ڈاکٹر کو فون لگا دیا۔


ڈاکٹر کا گھر پاس میں ہی تھا اور اس کا کلینک بھی اس کے گھر سے بغل میں تھا تو وہ فوراََ ہی کچھ منٹس میں آگیا وہ۔

 


کچھ دیر بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔


ویر بستر پر لیٹا ہوا تھا ، اس کی آنکھیں بند تھی اور شرٹ کی ساری بٹنز کھلی تھی جس کی وجہ سے اس کا سارا سینہ نظر آ رہا تھا۔  شاید ڈاکٹر نے ابھی چیک اپ کیا تھا۔


راگنی :

کک۔۔۔کیا ہوا تھا ڈاکٹر ویر کو ؟

ڈاکٹر :

ہی  واز ہائپر وینٹیلیٹنگ۔


کاویہ :

ہو ؟ ؟ ؟


ڈاکٹر

سمجھاتا ہوں۔
ایموشنل سٹریس یا ایموشنل  بریکڈاؤن،  اِنزائٹی کی وجہ سے کبھی کبھی آدمی پےنِک کر جاتا ہے اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگتا ہے اور اسے ہم  ہائپروینٹی لیشن  کہتے ہیں۔


کاویہ :

؟ ؟؟


ڈاکٹر :

انسان آکْسِیْجَن کو اندر لیتا ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو باہر  چھوڑتا ہے  رائٹ ؟


کاویہ :

ہممم !

ڈاکٹر

ہائپر وینٹیلیشن کے وقت۔آپ آکسیجن سانس لینے کی صلاحیت سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو باہر نکالنا شروع کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے جسم میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور یہ صورتحال پیدا ہوجاتی  ہے۔

 

 کاویہ :

اوہ آں !


نندنی :

تت تو ،  تو ٹھیک تو ہے نااا  ویر اب!؟

ڈاکٹر :

جی ہاں ! بس تھوڑا آرام کی ضرورت ہے۔ انہیں ریسٹ کرنے دیجیئے۔

اچھا !راگنی جی ! اب میں چلتا ہوں اگر پھر سے کوئی مسلہ پیدا ہوا  تو آپ ڈائریکٹ کال کرلیجئے۔


راگنی

جججی ! تھینک یو سو مچ ڈاکٹر !

ڈاکٹر :

یہ تو ہمارا کام ہے راگنی جی !

اور اتنا بول ڈاکٹر فیس لے کے وہاں سے نکل گیا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page