Perishing legend king-100-منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی ایک بہترین سلسہ وار کہانی منحوس سے بادشاہ

منحوس سے بادشاہ۔۔ ایکشن، سسپنس ، فنٹسی اور رومانس جنسی جذبات کی  بھرپور عکاسی کرتی ایک ایسے نوجوان کی کہانی جس کو اُس کے اپنے گھر والوں نے منحوس اور ناکارہ قرار دے کر گھر سے نکال دیا۔اُس کا کوئی ہمدرد اور غم گسار نہیں تھا۔ تو قدرت نے اُسے  کچھ ایسی قوتیں عطا کردی کہ وہ اپنے آپ میں ایک طاقت بن گیا۔ اور دوسروں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی مدد کرنے لگا۔ دوستوں کے لیئے ڈھال اور دشمنوں کے لیئے تباہی بن گیا۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ قسط نمبر -- 100

ادھر ویر کی کھلی شرٹ دیکھ کر، کاویہ آگے بڑھی اور ان بٹنز کو بند کرنے ہی والی تھی۔ جب اسے اپنے بغل میں اچانک ہی ایک ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔ ’ ہوہہ ! ؟


دیکھا تو پایا کہ ۔۔۔۔


اروحی اس کے بغل سے نکل  کرآگے بڑھی اور ویر كے پاس جا پہنچی۔

اپنے ہاتھوں کو آگے بڑھا كے وہ ویر کی شرٹ کی بٹنز دھیرے دھیرے بند کرنے لگی۔


کبھی بھوئیں پھیلائے وہ ویر كے چہرے کو دیکھتی تو کبھی اس کے سینے کو جن پر ہلکی ہلکی چوٹو كے نشان تھے۔


نا جانے کیا چل رہا تھا اس کے من میں۔۔۔


کاویہ نے جب یہ دیکھا تو اس کے قدم  وہیں تھم گئے۔


مگر۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے ہونٹوں پر ایک مطمئن مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

۔

۔

۔

ایک بڑے سے گھر میں اِس وقت ایک کمرے میں ایک آدمی ادھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا اور کسی الجھن میں نظر آ رہا تھا۔

تو وہیں اس کے پیچھے ایک صوفے پہ ایک اور  نوجوان  لڑکا  بیٹھا ہوا تھا۔


اور یہ ٹہلنے والا شخص کوئی اور نہیں ،  ویویک ہی تھا۔ ساتھ ہی ساتھ صوفے پر بیٹھا  ویوک  کا چھوٹا  بھائی پرانجال تھا۔


پرانجال :

ایسے ٹہلنے سے کچھ نہیں ہوگا بھئیا۔


ویویک :

تو کیا کرووں ؟ ؟ ہاں ؟ ؟ کروں کیا۔۔۔؟؟؟ راگنی، ہاں راگنی ایک نمبر کی بےوقوف عورت ہے ۔ ادھر اپنے  ہسبنڈ کا ساتھ چھوڑ كے اُدھر گھر میں رہ رہی ہے۔


سالا۔۔۔۔ کمپنی میں نجانے کیا کیا  افواہیں پھیلا  رہے ہیں ایمپلائیز۔   کہ بھاگ گئی ہوگی، اٹھاكے لے گیا کوئی، طلاق  ہوگیا ۔  فکک  فک فک! اور اوپر سے وہ سالا  ویر بھی وہیں ہیں۔

کیا سوچ كر راگنی نے اسے اپنے گھر میں رکھ لیا ؟؟؟  ہاں ؟دماغ خراب ہوگیا ہے کیا اس کا ؟

پرانجال :

دیکھا جائے تو اس میں آپ کی بھی تھوڑی غلطی تھی بھئیا۔ لڑکیاں بہت ہی سنسیٹیو ہوتی ہیں۔آپ نے جو بات کہی تھی اس کے چلتے بھابھی بہت زیادہ ناراض ہے آپ سے۔۔۔ جو کہ صاف بات ہے۔ آپ کو انہیں بہلا پُھسلا کر منانا ہوگا تب ہی کچھ ہوگا۔


ویویک :

سب کر چکا ہوں چھوٹے۔ یہاں تک کہ موم ڈیڈ کو بھی لے کے گیا تھا۔ پر سالا وہ سُننے کو ہی تیار نہیں ہے۔ اوپر سے پتہ نہیں کون سی سہیلی کو بلائی ہے جو اس کے گھر میں ڈیرا جما كے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ایک بار میں اس نے موم ڈیڈ اور میری بولتی بند کر دی تھی وہاں۔۔۔


پرانجال :

ہممم ؟ ؟ اوہ ! تھوڑا سمے دیجیئے پھر بھابھی کو۔مگر ہر ایک دو دن میں ان سے بات کرتے رہنا۔انہیں  جتایئے کہ آپ کا ان کے  بغیر من نہیں لگتا۔ دیکھنا ، وہ جلد ہی مان جائیں گی۔


ویویک :

ہممم!!! ویسےکچھ سوچا؟ پراپرٹی  كے بارے میں ! ؟


پرانجال :

آپ کی بات تائی جی سے ہوئی تھی نا ؟


ویویک :

ہممم ! ہاں ! انہیں پراپرٹی بھومیکا كے لیے چاہیے۔۔۔ ہا  ہا  ہا۔۔۔


پرانجال: ( اسمائیلز )

بڑا ہی مست پلان بنا كے انہیں اپنے سائڈ لیا تھا ہم نے ہے نا ؟ ویر کو گھر سے باہر نکلوانے میں آخر انہوں نے بھی وقتاً فوقتاً  اپنا  حصہ ڈال کر ہماری مدد کی تھی۔ اور ہم نے انہیں پراپرٹی کا کچھ حصہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ تو ؟ دوگے آپ ؟ انہیں پراپرٹی ؟


ویویک: ( اسمائیلز )

ہاہاہا ۔۔۔ پاگل ہے کیا ؟ دینے كے لیے تھوڑی ہی یہ پلان کیا ہوں۔ ایک روپیہ بھی نہیں ملنے والا  انہیں۔ وہ تو اوپر سے سوتیلی  ماں  ہے ویر کی۔ بھلا جب ویر کو کچھ نہ ملا تو ہمارے رہتے ہوئے یہ سوتیلی تائی اور ان کی بیٹی کو کہاں سے کچھ ملے گا ؟


پرانجال :

ہممم ! مگر۔۔۔۔ اگر انہوں نے یہ راز کھول دیا کہ ویر کو باہر نکلوانے میں ہمارا ہاتھ ہے تو؟

ویویک ( اسمائیلز ) :

تو ؟ تو کیا۔۔۔ ان کا منہ کیسے بند کروانا ہے اس کا بھی علاج ہے میرے پاس۔۔۔ہاہاہا

 

پرانجال :

واہ ! ویسے۔۔۔ دادا جی كے بارے میں کچھ سوچا ہے ؟ کیوں کہ جب وہ راضی ہونگے تبھی تو پراپرٹی ہمیں ملے گی بھئیا۔ اور انہوں نے تو کہہ كے رکھا ہے کہ جب تک ویر نہیں آ جاتا  تب تک وہ کوئی فیصلہ نہیں لینگے۔


ویویک :

بس ! اسی کی تو ٹینشن ہے چھوٹے۔  کچھ سمجھ نہیں آ رہا،


پرانجال :

ویسے۔۔۔میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔ اگر آپ سنو  تو۔۔۔

 
ویویک :

کیسا آئیڈیا ؟


پرانجال :

ادھر آئیں۔۔۔


ویویک کو اپنے پاس بلاكے پرانجال نے دھیرے سے اپنی کچھ بات رکھی، جسے سن كے ویویک ایکدم سے ہڑبڑا كے اٹھ گیا۔


ویویک

چچ چھوٹے ! ؟ ؟ یہ ۔۔ یہ ؟ ؟ تو ؟ یہ بہت زیادہ نہیں ہو گیا ؟


پرانجال:

 سچ میں ؟ یہی بات آپ نے مجھے تب بھی کہی تھی جب ہم ویر کو نکلوا رہے تھے۔ کہیے ! کیا تب زیادہ ہوا تھا ؟ کیا کسی کو پتہ چلا ؟ نہیں نا ! ؟ پھر ؟


ویویک :

پھر بھی چھوٹے۔۔۔۔


پرانجال :

اس میں جتنا آپ سوچ رہے ہو اتنا  رسک ہے نہیں ۔

ہاں تھوڑا معاملہ گھمبیر رہےگا بٹ سلوشن اسی سے نکلے گا آپ دیکھنا۔۔۔۔


ویویک :

ہممم ! ٹھیک ہےپھر۔۔۔ اگر یہی سہی ہے تو ۔۔۔ یاد  رکھنا۔ کوئی  گڑبڑ نہیں۔۔۔


پرانجال :

بالکل ! اس میں مجھے آپ کی مدد لگے گی۔


ویویک :

ہممم !
۔

۔

۔
واشنگٹن ،  یونائیٹڈ اسٹیٹس۔۔۔


ایک بڑے سی 5 اسٹیٹ ہوٹل میں اِس وقت ایک شاندار لگژری روم میں بستر پر ایک بےحد ہی سُندر/خوبصورت لڑکی سو رہی تھی۔


کچھ آہٹ پاتے ہی اس کی بھوئیں پھیل گئیں اور اگلے ہی پل وہ نیند سے باہر آ گئی۔


پلکیں جھپکاتی ہوئی وہ اٹھی۔
صرف ایک برا  اور نیچے پینٹی پہنی ہوئی تھی۔ بکنی پینٹی جو صرف پھدی کو چھپائے ہوئی تھی بمشکل۔ کیونکہ پھدی کے ہونٹ تھوڑے بڑے اور ابھرے  ہوئے تھے۔


اس نے جب غور کیا۔۔۔ تو دیکھا سائڈ میں ڈریسنگ ٹیبل كے پاس ایک ریڈ ہیئرڈ/لال بالوں بیوٹی کھڑی ہوئی تھی۔ اور ڈریسنگ کو اکٹھا کر رہی تھی۔


لڑکی :

ہممم ؟  خومی ؟


اس لڑکی نے پکارا تو وہ لال بالوں والی عورت فوراََ ہی پلٹی اور اسے دیکھا۔


یہ تھی خومی۔۔۔ بستر پر لیٹی ہوئی لڑکی کی ہیڈ میڈ۔ بولے تو ساری میڈز کی  ہیڈ۔


رشین بیوٹی تھی وہ۔ اس کے لال بال بڑے ہی اچھے سے ایک پونی میں باندھے ہوئے تھے۔
اور اس کی دلکشی ہی دیکھنے لائق تھی ۔

 

خومی :

مس ! یو آر آویک ! ؟
( مس ! اٹھ گئی آپ ؟ )


لڑکی :

یااا !

آگے بڑھ کر وہ ڈریسنگ كے پاس آئی تو  خومی نے فوراََ ہی اس کے جسم کو ڈھکنے كے لیے ایک نائٹی نکال کر اور اسے پیچھے سے  پہنانےلگی۔


لڑکی :

خومی ؟


خومی :

یسس مس ! ؟


لڑکی :

واٹ اِز لائف ؟


خومی :

مس ! یو آر اسکنگ می دس کویسچن فار دَ  12تھ ٹائم۔ (یہ بات آپ مجھ سے باروی  بار پوچھ رہی ہیں )


لڑکی :

جسٹ آنسر می خومی۔


خومی (آہ بھرتے ) :

پیپل آر برن مس۔ اٹس آ جرنی۔ ڈیورنگ دس جرنی ، دے میک فرینڈز ، اسٹیبلش ریلیشن شپس ، دے لوو ، دے لاؤ ، دے کرائی اینڈ دس گوز آن۔ دے میک کڈز ٹو ٹیچ دیم ہاؤ ٹو لیو اینڈ دین آگین دس گوز آن۔ ون ڈے ، وی ڈائی اینڈ ایوری تھنگ وی ارنڈ رمینز ہیئر آنلی۔

(لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ زندگی ایک سفر ہے۔ اس سفر کے دوران وہ دوست بناتے ہیں، رشتے قائم کرتے ہیں، وہ ہنستے ہیں، وہ پیار کرتے ہیں، وہ روتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ وہ بچوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانے کے لیے بناتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ایک دن ہم مر جاتے ہیں اور جو کچھ ہم نے کمایا وہ یہیں رہ جاتا ہے۔)


لڑکی:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خومی :

واز  مائی آنسر ٹو یور سیٹِس فیکشن ؟ ( کیا میرا جواب آپ کے لیے اطمینان کیلئے تھا ؟ )

لڑکی :

نو ! آئی اسٹل ڈونٹ انڈر اسٹیند۔ (مجھے اب بھی سمجھ نہیں آئی)

خومی ( آہ بھرتے ) :

سوری ! مس!(معذرت مس)

 
لڑکی :

نو ! اٹس اوکے ! پریپیئر د ٹی۔ آئی ول ٹیک آ باتْھ۔( نہیں! کوئی بات نہیں! چائے تیار کرو۔ میں نہا  لوں گی۔)


خومی :

ایز یو  وش مس!

 
اور وہ لڑکی اتنا بول کر نہانے چلی گئی۔ اور خومی صرف اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔


‘ پور مس ! اف آنلی آئی کڈ ہیلپ  ہر ‘ (’’بیچاری محترمہ! کاش میں اس کی مدد کر سکتی۔‘‘)

۔

۔

۔
۔

ممبئی۔۔۔۔۔


بیرونی علاقے میں واقع ایک عمارت کی اوپری منزل پر ایک شخص کرسی پر بیٹھا تھا۔


کہ تبھی اس کا فون بج اٹھا ۔


آدمی :

ہیلو ؟


وائس :

کیسے ہو آتَش میرے شیر ! ؟


جی ہاں ! یہ آتَش ہی تھا۔ اور فون كے دوسرے طرف سے آ رہی آواز سن کر وہ اگلے پل ہی اٹھ كے کھڑا ہو گیا۔


آتَش

سس،س سرکار  دادا آپ ! ؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منحوس سے بادشاہ کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page