Princess Became a Prostitute -10- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 10

اس پر عامر کی بجائے سحرش نے جواب دیا،میری بنو اس لئے تاکہ تمھاری گانڈ کو سوراخ بھی کھل کر رواں ہوجائے،پھر تم منہ اور پھدی کی طرح گانڈ سے بھی لن کے مزے کرنا،جیسے سب کرتے ہیں،میں چونکہ اماں اور راشدہ آنٹی کی گانڈ چدائی دیکھ چکی تھی اس لئے مجھے پتہ تھا کہ گانڈ بھی ایک نہ ایک دن ضرور پھٹنی ہی ہے میری بھی،اس لئے سحرش کو اتنا کہا لیکن باجی گانڈ میں تو چوت سے بھی زیادہ درد ہوتا ہے،اس پر عامر بولا میری جان بس شروع شروع میں گانڈ میں درد ہو گا،پھر جب گانڈ لن لینے کے لئے روا ں ہو جائے گی تو مزہ آئے گا تمہیں،پھر ہم تینوں نہا کر باہر آئے،سب نے اپنے اپنے کپڑے پہننے لگے،ابھی ہم کپڑے پہن کر فارغ ہی ہوئے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی،سحرش نے پوچھا کون،تو باہر سے ماسی جنتاں کی آواز آئی،بی بی جی ناشتہ تیار ہے،،بڑی بی بی نے کہا ہے آپ لوگ آجائیں،اس پر سحرش نے دروازہ کھول دیا اور کہا تم چلو ہم آرہے ہیں،اس کے بعد ہم تینوں باہر نکل کر ہال کمرے میں آئے،جہاں انکل جمال،اماں،راشدہ آنٹی اور فائز کھانے کی میزپر بیٹھے ہوئے تھے،اماں اور انکل جمال ساتھ ساتھ بیٹھے تھے جبکہ آنٹی راشدہ اور فائز ان کے سامنے والی کرسیوں پر بیٹھے تھے،ابا اور فائق بھائی کی کرسیاں خالی تھیں مطلب وہ لوگ ابھی واپس نہیں آئے تھے،میں جا کر فائز کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی،اور عامر اور سحرش بھی آمنے سامنے بیٹھ گئے،عامر انکل جمال کے ساتھ اور سحرش اپنی ساس راشدہ آنٹی کے ساتھ بیٹھی تھی،پھر ماسی جنتاں نے ناشتہ لگا دیا،اور سب لوگ ناشتہ کرنے لگے،ناشتے کے دوران انکل جمال نے عامر سے پوچھا سناؤ جوان رات کو نیند تو ٹھیک آئی نہ،نئی جگہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا،اس پر عامر نے پہلے سحرش اور پھر میری طرف دیکھ کر کہا جی انکل بہت مزہ آیا،ا س پر آنٹی راشدہ بولیں،مزہ تو آنا تھا،جگہ ہی ایسی ہے،میں ان لوگوں کی ذومعنی باتوں کو سن کر سمجھ گئی کہ کس موضوع پر بات ہو رہی ہے،پھر ایسی ہی باتوں میں سب نے ناشتہ ختم کیا اور ناشتے سے فارغ ہو کر انکل لوگوں نے امی سے کہا،صائمہ اب ہمیں اجازت،اماں نے کہا جیسی تم لوگوں کی مرضی میرا تو خیال تھا دن کو کھانا کھا کر چلے جاتے،اتنی دیر میں فائق اور اس کے ابا بھی آجاتے،لیکن انکل جمال نے کہا نہیں مجھے کچھ کام ہے،پھر عامر اور سحرش کو بھی ہنی مون کے لئے جانا ہے تو ان کو تیاری کرنی ہے،اس پر اماں نے کہا چلو ٹھیک ہے،ابھی یہ بات ہوہی رہی تھی کہ گھر کا فون بجا،اماں نے جا کر فون اٹھایا،دوسری طرف سے پتہ نہیں کیا کہا گیا،کہ اماں ایک دم اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ہائے او میریا ربا کہہ کروہیں گر پڑی،اور فون کا رسیور اس کے ہاتھ سے نکل گیا،یہ دیکھ کر انکل جمال نے بھاگ کر فون کا رسیور اپنے کانوں سے لگا لیا،اور بات سننے لگے،جبکہ اماں کو راشدہ آنٹی اور عامر نے سہارا دے کر اٹھایا اور قریب رکھے صوفے پر لٹا دیا،اماں نیم بے ہوش سی ہو گئی تھی،اتنی دیر میں آنٹی راشدہ نے انکل جمال سے پوچھا کیا ہوا،سب خیر تو ہے،اماں کی حالت کی وجہ سے کسی کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اماں اور انکل جمال کی فون پر کیا اور کس سے بات ہوئی،جب انکل نے فون بند کیا تو آنٹی راشدہ نے پوچھا،کیا ہوا سب خیر تو ہے؟انکل جمال کا چہرہ پریشان تھا،انھوں نے میری اور فائز کی طرف دیکھ کر کہا تم دونوں اندر جاؤ،اس پر عامر نے کہا انکل کیا ہوا،کچھ بتائیں بھی،اور یہ ان دونوں کو اندر کیوں بھیج رہے ہیں،جو بھی بات ہے ان کے سامنے کردیں،اس پر انکل جمال نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا،عامر یہ بچے یتیم ہوگئے،صائمہ بیوہ ہوگئی،شہر سے واپسی پر دشمنوں نے بھائی صاحب کی گاڑی پر فائرنگ کی ہے،جس کے نتیجے میں بھائی صاحب موقع پر دم توڑ گئے جبکہ ڈرئیوار،گن مین اور فائق زخمی ہیں،انکل جمال کی یہ بات سن کر ہم دونوں بہن بھائی دھاڑیں مار کر رونے لگے،گو مجھے بچپن سے ہی ابا کی طرف سے وہ روایتی محبت نہیں ملی جو ایک باپ اپنی بیٹی کو کرتا ہے،لیکن پھر بھی ابا کی اتنی سختی کے باوجود وہ ہمارے باپ تھے،ہمارے سر کا سایہ،ہماری ماں کا سہاگ،ہمارے خاندان کی آن بان شان سب ابا کے دم قدم سے تھی،ابا گو سخت طبعیت کے مالک تھے،لیکن اس کے باوجود ابا میں روایتی جاگیر داروں والی کوئی عادت نہیں تھی،اپنے مزارعوں اور دیگر کام کرنے والوں کے حق میں ابا ہمیشہ نرم دل رہے،یہی وجہ تھی کہ ابا کی اس نرم مزاجی کافائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمارے مخالفین نے پہلے ہماری زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنا چاہااور جب ابا اُن کے آڑے آئے تو ان کی جان ہی لے،یکدم ہماری حویلی کے باہر شور سا سنائی دیا،اور پھر پورا گاؤں اور آس پڑوس کے گاؤں دیہات کے لوگ ہماری حویلی میں جمع ہونے شروع ہوگئے،اماں کو اس دوران ہوش آچکا تھا،اور وہ ہم دونوں بہن بھائی کو اپنے سینے سے لگا ئے دھاڑیں مار مار کر روئے جارہی تھی، گھر کا وہ ماحول جو کچھ دیر پہلے ناشتہ کرتے وقت خوشگوار تھا،اب ماتم میں بدل چکا تھا،انکل جمال ابا کی میت کی وصولی کے لئے نکل گئے جب کہ عامر نے حویلی کا انتظام سنبھال لیا،اماں کو خاندان کی عورتیں سہارا دے رہی تھیں،میں اور فائز بھی وہیں اماں کی پاس بیٹھے رو رہے تھے،اماں بار بار ہمارا منہ چومتی اور کہتی ہائے میرے بچو تمھارا باپ تمھاری خوشیوں دیکھنے سے پہلے ہی چلا گیا،ہائے میں کس کے سہارے زندہ رہوں گی،شام تک ابا کی میت بھی پوسٹ مارٹم کے بعد ہمارے حوالے کردی گئی جس کو لے کر انکل جمال گاؤں آگئے،جبکہ بھائی فائق چونکہ زخمی تھے تو ان کو ہسپتال میں ہی ابا کا آخری دیدار کروا دیا گیا،دوسرے دن صبح ابا کی تدفین ہو گئی،اور تیسرے دن ابا کا قل بھی ہوگیا،اماں چونکہ اب عدت میں تھی،اس لئے اس کا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزرتا تھا،اباکے چہلم کے بعد عامر لوگ بھی اپنے گھر چلے گئے اور ہماری زندگی پھر اُسی روٹین سے چل پڑی،البتہ اب یہ فرق پڑا کہ ابا کی موت کے بعد بھائی فائق کو چہلم کے دن ہمارے خاندان کا سربراہ بنا دیا گیا،فائق بھائی چہلم سے در روز پہلے صحت یاب ہو کر گھر آگئے تھے،جبکہ ہمارا گن مین اور ڈرائیور بھی ٹھیک ہو گئے تھے۔پولیس نے ابا پر فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار کرلیا تھا،بھائی فائق اب یکدم بڑے بڑے لگنے لگے تھے،کہتے ہیں وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے،لیکن وقت زخموں پر مرہم تو رکھ دیتا ہے لیکن زندگی میں جو کمی ہو جاتی ہے وہ تا عمر نہیں پوری ہوتی،اماں کی عدت ختم ہو گئی تھی۔وہ اماں جو ابا کی زندگی میں دھوم دھڑکے اور پوری آن بان شان سے سج سنور کررہتی تھی،جس کی چہرے پر ہمیشہ تازگی اور زندگی کی رمق رہتی تھی وہ اماں اب مرجھا گئی تھی،اما ں برسوں کی مریضہ لگنے لگی تھی،اماں کی عدت ختم ہوئے تین ساڑھے تین ماہ ہو گئے تھے،موسم دوبارہ سے ہلکا سا سرد ہو نا شروع ہو گیا تھا،ایک دن انکل جمال اور آنٹی راشدہ ہمارے گھر آئے،اباکی وفات کے بعد یہ پہلی بار تھا کہ اماں انکل جمال کے سامنے آئی تھی،انکل جمال نے جب اماں کی حالت دیکھی تو بولے صائمہ میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم پر کیا گزر رہی ہے،لیکن جانے والے کے ساتھ کوئی نہیں مرتا،تم نے اگر ہمت ہار دی تو ان بچوں اور تمھاری جاگیر کا کیا ہوگا،جینا سیکھو،بھائی صاحب کو تو واپس نہیں لا سکتے لیکن ان کی کمی ہم ضرور پوری کرسکتے ہیں،اس پر آنٹی راشدہ نے کہا جمال ٹھیک کہہ رہا ہے،صائمہ خود کو سنبھالویار،کتنے دن ہو ئے ہیں تمہیں ہنستے ہوئے نہیں دیکھا،اچھا سنو آج ہم سیما کو لینے آئے ہیں،اماں نے سولیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو جمال انکل بولے وہ عامر کے گھر خوشی ہونے والی ہے،تو راشدہ اور میں نے سوچا ہے کہ اس دوران سیما سحرش کے پاس رہے گی،ویسے تو کام والی بھی موجود ہے اور راشدہ بھی لیکن سحرش اور عامر کی خواہش ہے کہ سیما ان کے پاس ہو،دوسرا سیما کا دل بھی بہل جائے گا،پھر خاندان کی پہلی خوشی ہے تو سب کا موڈ اچھا ہوگا،اماں نے جمال کی یہ سب سن کر پہلی بار زبان کھولی،جمالے سیما نوں اناں کماں دا ہالی کوئی تجربہ نہیں،اے کیویں سحر ش نوں سنبھالے گی،اس پر جمال انکل بولے صائمہ سیما کو صرف سحرش اپنا دل بہلانے کے لئے بلا رہی ہے،جہاں تک بچے کی ڈیلیوری کا معاملہ ہے وہ تو ہسپتال میں ہوگی اور گھر پر کام والی سحر ش کو دیکھے گی،سیما صرف رات کو جب کام والی نہ ہو تو چھوٹے موٹے کاموں کے لئے موجود ہوگی،اس پر اماں نے اپنی رضامندی ظاہر کردی،اماں کی بات سن کر آنٹی راشدہ نے مجھے کہا،سیما تم اپنا سامان پیک کرلو،ہم کھانا کھا کر نکل جائیں گے،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page