Princess Became a Prostitute -12- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 12

پھر ہم دونوں نیچے آگئے،نیچے آکر عامر نے مجھے کہا سیما تم بیڈرو م میں جاؤ،سحرش اکیلی ہے،میں ذرا امی سے کچھ بات کرکے آتا ہوں،میں عامر کی بات سن کر سحرش کے پاس آگئی،جو سو رہی تھی،میں بھی جا کر اپنے بیڈ پر لیٹ گئی،اور رنگ برنگی سوچوں میں گم ہو کر نیند کی وادیوں میں چلی گئی،رات کا نہ جانے کون سا پہر ہوگا،مجھے پیشاب محسوس ہوا،میں اٹھ کر واش روم گئی واپس آنے پر میں نے دیکھا کہ بیڈروم کا دروازہ ابھی تک کھلا ہے،جب میری نظر سحرش کے بیڈ پر گئی تو وہاں بھی سحرش اکیلی سو رہی تھی،جبکہ عامر کا کوئی پتہ نہیں تھا،میں نے سوچا یہ عامر کہاں ہے،پھر مجھے یاد آیا جب میں اور عامر نیچے آئے تھے تو عامر نے کہا تھا کہ وہ آنٹی راشدہ کے کمرے میں جارہا ہے ان سے کچھ بات کرنے۔میں نے سوچا ایسی کیا بات ہے جو ابھی تک ختم نہیں ہوئی،جا کر دیکھوں تو سہی،یہی سوچ کر میں آنٹی راشدہ کے بیڈروم کی جانب بڑھی،قریب جا کر دیکھا تو اندر سے ہلکی روشنی دروازے کی درزوں سے چھن کر باہر آرہی تھی۔میں نے دروازے پر ہاتھ رکھا تو وہ کھلا ہوا تھا،میرے ہاتھ سے دبانے سے دروازہ ہلکا سا کھل گیا،میں نے اندر جھانک کردیکھ تو اندر کوئی بھی نہیں تھا،البتہ بیڈ اور اسکے نیچے آنٹی راشدہ اور عامر کی کپڑے پڑے ہوئے تھے،ایک سائیڈ پر آنٹی کا برا بھی پڑا ہوا تھا،میں یہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ یہ دونوں کہاں ہیں جب کہ ان کے کپڑے یہاں رکھے ہیں،اور دونوں نے کیا ایک ساتھ ایک ہی جگہ کپڑے اتارے ہیں،لیکن وہ تو ماں بیٹا ہیں پھر یہ سب کیا ہے،اور یہ دونوں کہاں گئے؟ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ کمرے کے ساتھ بنے واش روم کا دروازہ کھلا اور آنٹی راشدہ باہر نکلیں جن کے پیچھے عامر بھی باہر آیا،دونوں ماں بیٹا مکمل طور پر ننگے تھے،بیڈ پر آکر عامر نے راشدہ آنٹی کوپیچھے سے جھپی ڈال لی،میں یہ سارا ماجرا دیکھ کر سن ہو گئی،کہ کیا سگے ماں بیٹا بھی آپس میں چدائی کرسکتے ہیں،اف یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں،عامر کی ایسے پیچھے سے جھپی ڈالنے پر آنٹی راشدہ بولیں،راشدہ کی جان اب بس کرو۔کیا دل نہیں بھرا،دو بار میری پھدی مار کر،جو پھر سے شروع ہو گئے ہو۔اس پر عامر نے کہا جان عامر کیا کروں تمھاری مست گانڈ دیکھ کر میرا دل اور لن دونوں مچل گئے ہیں،اس پر راشدہ آنٹی نے کہا اچھا یعنی اب میری گانڈ کی باری ہے،عامر نے کہا ہاں نہ میری جان،یہ کہہ کر عامر نے نیچے بیٹھ کر آنٹی راشدہ کو گھوڑی بنا دیا اور پیچھے سے ان کے چوتڑ وں کو چومنے لگا،تو کبھی اپنی زبان آنٹی کی گانڈ کے سوراخ پر گھما نے لگا،اور اپنے ایک ہاتھ کو آنٹی کے آگئے لے جا کر ان کی پھدی کے دانے کو مسلنا شروع کردیا،عامر کے آنٹی کی پھدی کے دانے کو مسلنے اور گانڈ چاٹنے سے آنٹی راشدہ کے منہ سے آہ آہ آہ عامر اف آہ مزہ آرہا ہے،کتنا مزے سے میری گانڈ چاٹتے ہو،اف آہ آہ آہ جانو پھر عامر نے گانڈ چاٹنا بند کیا اور اپنا تنا ہوالوڑا پکڑ کر آنٹی کے سامنے جا کھڑا ہوا،جس کو دیکھتے ہی آنٹی نے اپنا منہ کھول کر اپنے بیٹے کا لن اپنے منہ میں لے لیا،اور چوسنے لگ گئیں،عامر نے تھوڑی دیر اپنا لن اپنی امی سے چسوایااور پھر لن کو راشدہ آنٹی کے منہ سے نکال کر ان کو دوبارہ گھوڑی بنا دیا اور اپنا لن ان کی گانڈ میں ڈال کر دھکے لگانے لگا،عامر کا لن اندر گھستے ہی آنٹی راشدہ کے منہ سے سسکی نکل گئی،اور وہ بولیں،آہ اوئی مر گئی،تھوڑا ہولی کر وے،ظالما مار ہی دتا ای،یہ سن کر عامر بولا،چپ سالی رنڈی،اپنے بھائی کا لیتے ہوئے تو چوں بھی نہیں کرتی جو میرے لوڑے سے بھی زیادہ موٹااور لمبا ہے،میرے سامنے نخرے دکھاتی ہے،خاموشی سے گانڈ مروا،ورنہ سارے محلے کو مردوں کو تیرے اوپر چڑھا دوں گا،عامر اپنی ماں کی گانڈ میں تیز تیز دھکے لگا رہا تھا،اور اس کے ہر دھکے سے آنٹی راشدہ پوری ہل جاتیں،اب آنٹی کو بھی مزہ آرہا تھا اور وہ عامر کو اور تیز تیز کر پھاڑ دی میری بنڈ،اف کتنا مزہ آرہا ہے،شاباش میرے شیر،دبا کے چود اپنی ماں کی گانڈ،بھر دے اس کو اپنے لن کے پانی سے،آنٹی راشدہ بیڈ کے کنارے پر دونوں ہاتھ ٹکائے گھوڑی بنی ہوئی گانڈ مروا رہی تھیں،اور عامر کے دھکوں سے کمرے میں پچک پچک اور بیڈ کے ہلنے سے چر چر کی آواز بھی گونج رہی تھی،بڑا مست نظارہ تھا،پیچھے سے عامر آنٹی راشدہ کی گانڈ ما ررہا تھا اور اس کے دونوں ہاتھوں میں آنٹی کے ممے تھے،تھوڑی دیر بعد دونوں ماں بیٹے فارغ ہونے لگ گئے،عامر نے آہ آہ آہ او میں گیا،راشدہ ڈارلنگ اف ادھر آنٹی راشدہ کی پھدی نے بھی اپنی پھوار چھوڑ دی،اور وہ بھی سسکیاں لیتے ہوئے بیڈ پر گر سی گئیں،جبکہ عامر بھی آنٹی کی گانڈ میں اپنا پانی نکال کر ان کے اوپر ہی لیٹ گیا،دونوں ماں بیٹا فارغ ہو کر لمبے لمبے سانس لے رہے تھے۔کچھ لحموں بعد آنٹی راشدہ نے کہا،راشدہ کی جان کا دل بھر گیا،اب خوش ہو،جس پر عامر نے کہا،رنڈی تیری چدائی کرکے کب دل بھرتا ہے،دل تو چاہتا ہے ساری رات اورسارا دن تیرے اندرلن ڈال کر رکھوں،تو چیز ہی بڑی مست ہے،اب بتا صائمہ کی کب دلائے گی،یہ سن کر میں حیران ہوگئی کہ عامر کی نظر میری اماں پر بھی ہے،عامر کی بات سن کر راشدہ آنٹی بولیں،بس تھوڑا صبر کر لے،تیرے ماموں نے اس کو راضی کرلیا ہے چدائی کے لئے،جیسے ہی موقع ملا اس کو تمھارے نیچے لٹا دوں گی،یہ بتا سیما کی پھر لی یا نہیں،اس پر عامر نے کہا نہیں یار آج موقع ملا تھا لیکن اس کو پیریڈ ز آئے ہوئے ہیں تو صرف چوپا لگوا یا،دو دن بعد لوں گا،اس پر آنٹی راشدہ بولیں،اپنا وعدہ یا د ہے نہ کہ سیما کی،

اصل میں بات یہ تھی کہ راشدہ کو جمال نے کہا تھا کہ صائمہ کی بیٹی کی گانڈکا افتتاح وہ کرنا چاہتا تھا،اس کے لئے سیما کو تیار کرنے کا کام عامر اور سحرش کی سپرد کیا گیا تھا،صائمہ تو شادی سے پہلے ہی جمال کو پسند کرتی تھی لیکن اپنے باپ اور دادا کی ضد کی وجہ سے اس کی شادی سیما کے ابا سے کردی گئی،لیکن جمال کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور اس کا اور صائمہ کا افیئر صائمہ کی شادی کے کچھ عرصے بعد دوبارہ شروع ہو گیاتھا شادی سے پہلے صائمہ کی بنڈ جمال نے کئی بار ماری تھی،لیکن اپنی چوت صائمہ نے شادی کے بعد اپنے شوہر کے لئے سنبھال کر رکھی تھی کیونکہ وہ اپنے خاندانی رسم ورواج سے بخوبی واقف تھی کہ اگر اس نے شادی سے پہلے اپنا کنوارہ پن کھو دیا تو سہاگ رات کو بات اس کے قتل تک جا پہنچے گی،اسی لئے سیما کے ابا کو وہ سہاگ رات کو کنورای ہی ملی،لیکن اس کی بنڈ کنواری نہ تھی،اور سوائے چوت مروانے کے صائمہ باقی سب کا جمال کے ساتھ کرچکی تھی،بچوں کی پیدائش اور اسی دوران جمال کی شادی کے وجہ سے کچھ عرصہ ان دونوں کا افیئرنہ چل سکا،سحرش کی پیدائش پر کچھ پیچیدگی کی وجہ سے جمال کی بیوی جانبر نہ ہو سکی اور ادھر جمال کی بڑی بہن راشدہ بھی اپنے شوہر کی ایک ایکسیڈنٹ میں موت ہو جانے کے باعث بیوہ ہو چکی تھی،جمال اور راشدہ کی وٹے سٹے کی شادی تھی،لیکن شومئی قسمت ایک کا شوہر اور دوسرے کی بیوی یعنی دونوں سگے بہن بھائی یکے بعد دیگرے چل بسے،عامر اس وقت ایک سال کا تھا جب سحرش کی ماں یعنی اس کی سگی پھوپھی کی وفات ہوئی،لہذا اپنے اکلوتے بیٹے عامر اور اپنے چھوٹے بھائی جمال کی اکلوتی شیر خوار بیٹی سحر ش کی پرورش راشدہ نے کی،راشدہ کو جمال کے صائمہ کے ساتھ افیئر کا پتہ تھا،لیکن صائمہ کی شادی ہو جانے کی وجہ سے وہ بھی کچھ نہ کرسکی۔گو دونوں گھرانوں یعنی صائمہ کے سسرال اور جمال کے خاندان کا آپس میں آنا جانا تھا،اور جمال نے کئی بار اشارے کنائے میں صائمہ کو اپنی طرف دوبارہ راغب کرنے کی بہت کوشش کی،لیکن صائمہ نے اسے گھاس نہیں ڈالی،البتہ جب جمال کی بیوی کا انتقال ہوا تو اس کے بعد جمال خود کو کافی اکیلا محسوس کرنے لگا،جس کو صائمہ اور راشدہ دونوں نے محسوس کیا،اور اس دوران صائمہ کا جمال کے گھر آنا جانا لگا رہا،اور صائمہ نے تو اپنی طرف سے جمال کی دلجوئی کرنے کی کوشش کی لیکن جمال نے اس کو کچھ اور ہی رنگ دے دیا،اور بات دلجوئی سے بوس وکنار تک جا پہنچی،اور پھر ایک دن جمال نے ساری حدیں پھلانگتے ہوئے بالآخر صائمہ کی پھدی کا وہ قلعہ فتح کرہی لیا جس کی فتح کے لئے وہ کب سے پے در پے حملے پہ حملہ کئے جارہا تھا،اور یوں صائمہ اور جمال کا شادی سے پہلے کا افیئر جو صرف صائمہ کا گانڈ مارنے،کسنگ کرنے اور چوپا وغیرہ لگانے تک ہی محدود تھا اب نوبت پھدی مارنے تک آگئی تھی،صائمہ کی پھدی کو جب شوہر کے علاوہ دوسرے لن کا سواد ملا تواس کی تو جیسے چاندی ہوگئی،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page