Princess Became a Prostitute -23- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 23

اور مجھے اپنے گلے لگا لیا،امی کیوں کیا آپ نے ایسا؟کیوں۔۔۔؟؟؟بتائیں وہ بھی اپنے سگے بھائی سے،اس سے بہتر تھا کہ آپ شادی کرلیتیں یا کسی غیر سے مراسم قائم کرلیتیں،لیکن ماموں جمال،نہیں امی نہیں،عامر روتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے جا رہا تھا،امی بتائیں اگر یہ بات کسی کو پتہ چل گئی تو کیا ہوگا،کتنے گھر تباہ ہو ں گئے،میں کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہوں گا،سب مجھے طعنے ماریں گے کہ یہ ہے وہ جس کی ماں نے اپنے سگے چھوٹے بھائی سے مراسم قائم کئے،بتائیں امی میں کیا کروں،کدھر جاؤں،عامر کی بات سوفیصد درست تھی۔لیکن برا ہو اس شہوت کی آگ کا جس نے مجھے یہ دن بھی دکھا دیا کہ میں اپنے ہی بیٹے کی سامنے مجرم بنی ہوئی تھی،میں نے عامر کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا،بیٹا پہلے آؤ کھانا کھا لو،پھر تمہیں ساری بات بتاتی ہو ں،اس پر عامر نے کہا اب بھی کچھ رہ گیا ہے بتانے کو جبکہ میں نے اپنی آنکھوں سے سب دیکھا ہے،میں نے کہا بیٹا کچھ باتیں ایسی ہیں جو تم نہیں جانتے،اس لئے پہلے سکون سے کھانا کھاؤ پھر بات کرتے ہیں یہ کہہ کر میں نے عامر کا ہاتھ پکڑا اور اُسے واش روم لے گئی جہاں ہم دونوں نے منہ ہاتھ دھوئے اور باہر آکر کھانا کھانے لگے،کھانے کے دوران بھی عامر کی بے چینی ظاہر ہو رہی تھی،صاف لگ رہا تھا کہ وہ کھانا کھا نہیں رہا،بلکہ محض خانہ پوری کررہا ہے،میں نے بھی زہر مار کر کھانا کھا لیا،اور پھر کام والی کو آواز کہ برتن اُٹھا کر لے جائے جب وہ کمرے سے برتن اُٹھا کر واپس جانے لگی تو میں نے اُسے کہا کہ اب ہم دونو ں ماں بیٹا کوئی خاص بات کرنے لگے ہیں ہمیں تنگ نہ کرے،کام والی کے کمرے سے جانے کے بعد میں نے کمرے کو لاک کیا اور عامر کے پاس آکر صوفے پر بیٹھ گئی،عامر میری طرف دیکھو،یہ کہہ کر میں نے عامر کی ٹھوڑی کو اپنے ہاتھ سے اپنی طرف کیا،عامر کی آنکھوں میں ابھی بھی نمی تیر رہی تھی،دیکھو بیٹامیں اگر تمھارے با پ کے مرنے کے بعددوسری شادی کر لیتی توذرا سوچو میرا تو کام بن جاتا،لیکن میرے لال تمھارا کیا ہوتا،تم کمسن ناسمجھ تھے،کیا تمھارا سوتیلا باپ تمہیں قبول کرلیتا؟اور اگر یہی کام جمال کرتا یعنی دوسری شادی تو سوتیلی ماں سحر ش کے ساتھ کیا سلوک کرتی،اس کا اندازہ ہے تمہیں۔۔۔۔۔۔؟؟ جمال اور میں نے جو کیا تم دونوں بچوں کے بھلے کے لئے کیا،ہم نے مانا کہ ایک غلط رشتہ قائم کرلیا،لیکن اس کا فائدہ کس کو ہوا؟تمہیں اور سحرش کو۔اگر یہ سب نہ ہوتا اور آج تم دونوں بچے سوتیلی ماں اور سوتیلے باپ کے رحم وکرم پر ہوتے تو سوچو کیا حالت ہوتی تم دونوں کی،میں چاہتی تو باہر کسی سے بھی مراسم قائم کر سکتی تھی۔لیکن جب وہ مجھے بلیک میل کرتا تو بدنامی کس کی ہوتی،میں بھی جوان تھی،میرے بھی جذبات تھے،اُدھر جمال کا بھی یہی حال تھا۔تو اگر وہ باہر رنڈی بازی شروع کردیتا تو سحرش پر اس کا کیا اثر پڑتا،ہم نے تو یہ سب تم دونوں کی خوشی کے لئے کیا،اگر تم کہتے ہوتو میں اپنا آپ مار لیتی ہوں،اور جمال کو منع کردیتی ہوں کہ وہ اب مجھ سے کوئی ایسی اُمید نہ رکھے،بولو بیٹا جیسا تم کہو گئے ویسا ہی کروں گی میں،یہ کہہ کر میں نے عامر کی جانب دیکھا تو اس کے چہرے پر گومگو والی کیفیت تھی،جیسے وہ کوئی فیصلہ نہ کرپارہا ہو،امی عامر کے منہ سے ایک لفظ نکلا،جی میرے لال،میری جان بول،مجھے کچھ وقت دیں سوچنے کے لئے،ابھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی،عامر نے بولا،ٹھیک ہے میرے لال سوچ لو،تمھارا ہر فیصلہ مجھے قبول ہوگا،یہ کہہ کر میں نے عامر کے ماتھے پر ایک بوسہ دیا اور اُٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی،گو میں اپنی طرف سے عامر کو یہ بول آئی تھی کہ اگر وہ چاہےتومیں یہ سب چھوڑ دوں گی،اپنے بیٹے کی خوشی کے لئے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ جو چاٹ مجھے جمال نے لگا دی تھی،اس کو یکدم چھوڑ دینا ناممکن نہیں تو کافی مشکل نظر آرہا تھا،خیر انہی سوچوں میں مجھے نیندآگئی،شام کو آنکھ کھلی تو میں نے کام والی کو آوازدی چائے کے لئے،اور فریش ہوکر باہر کھانے کی میز پر آگئی لیکن عامر نظر نہیں آرہا تھا،میں نے کام والی کو کہا عامر کو بلالاؤ،تھوڑی دیر بعد عامر بھی باہر آگیا،لیکن اُس کا حلیہ اورشکل بتا رہی تھی کہ وہ کافی پریشان ہے،ہم دونوں نے خاموشی سے چائے پی،پھر کام والی چلی گئی اور میں بھی اُٹھ کر رات کا کھانا بنانے لگی کیونکہ رات کا کھانا شروع سے میں خود بناتی تھی،جبکہ عامر دوبارہ اپنے کمرے میں بند ہو گیا،رات کے کھانا میں نے عامر کی پسندکا بنایا،اور جب میں فارغ ہوئی تو رات کے آٹھ بج رہے تھے،میں نے اپنے کمرے میں جا کر تھوڑی دیر دم لیا،اور پھر دوبارہ کچن میں جا کر گرما گرم روٹیاں بنائیں اور کھانا ایک ٹرے میں رکھ کر عامر کے کمرے کی جانب بڑھ گئی،کمرے کا دروازہ بھڑا ہوا تھا میں کھول کر اندر داخل ہوئی تو عامر بیڈ پر بیٹھا سوچوں میں گم تھا،میں نے کھانا ٹیبل پر رکھا اور عامر کے پاس جا کر اس کے سر کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا بیٹا آؤ کھانا کھا لو،تمھاری پسند کا بھنا گوشت بنا ہے،میری بات سن کر عامر نے میری طرف دیکھا،اور خاموشی سے وا ش روم جا کر ہاتھ دھو کر آگیا،اور میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے لگا،کھانے کے دوران خاموشی رہی،کھانے کے بعد میں نے عامر سے پوچھا میرے لال نے پھر کیا فیصلہ کیا ہے میرے بارے میں،عامر نے کہا امی میں نے بہت سوچا،لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا،مانا کہ آپ اور ماموں نے میرے اور سحرش کے لئے قربانی دی،لیکن یہ کیسی قربانی ہے جس میں سگے بہن بھائی آپس میں میاں بیوی بن بیٹھے؟آپ کو یہ سب بند کرنا ہو گا،بس میرا یہ فیصلہ ہے،اب آپ بتائیں آپ کو میرا فیصلہ قبول ہے تو ٹھیک ورنہ میں یہ گھرچھوڑ کر کہیں دور چلا جاؤں گا،اور آپ لوگوں سے کبھی نہیں ملوں گا،عامر یہ بول کر سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھنے لگا،وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ایک طرف سگی اولاد اور دوسری طرف چھوٹا بھائی،اور بھائی بھی وہ جو میرا خصم بناہواتھا،عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیا تھا عامر نے،سمجھ سے بالاتر تھا کہ یہ سب کیسے کروں،خیر میں نے عامر کو کہا ٹھیک ہے بیٹا جیسا تم چاہو مجھے تو تمھاری خوشی عزیز ہے،میں آج ہی جمال کو کہہ دوں گی کہ مجھے اب اس کے ساتھ مراسم نہیں رکھنے،اگر وہ ناراض ہو کر اپنی بیٹی کا رشتہ توڑتا ہے تو ڑ دے،تمھارے لئے لڑکیوں کی کمی نہیں،میری بات سن کر عامرنے کہا جی امی،پھرمیں اپنے بیڈ روم میں آگئی اور عامر کے فیصلے پر سوچنے لگی کہ کیسے جمال کو منع کروں،مجھے جمال کی عادت کا پتہ تھا وہ بچپن سے ہی ضدی تھا،اپنی بات منوا کر چھوڑنے والا،اس سے بعید بھی نہیں تھا کہ وہ سحر ش کا رشتہ ہی توڑدیتا اور میرے اور عامر کے بارے میں خاندان بھر میں اُلٹی سیدھی باتیں پھیلا دیتا،کہنے کو تو میں نے عامر کو کہہ دیا سب چھوڑنے کا لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا،انہی سوچوں میں میری آنکھ لگ گئی،ددسری صبح ناشتے کی میز پر عامرحسب معمول موجود تھا،ناشتے کے بعد عامر نے مجھے کہا امی آپ نے ماموں کو فون کیا،میں نے جواب دیا نہیں،ابھی کروں گی ذرا ٹھہر کر،عامر بولا اوکے جو بھی بات ہو مجھے بتا دیجئے گا،یہ کہہ کر عامر اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا،اور میں بھی کام والی کو کام سمجھا کر اپنے بیڈ روم میں آگئی اور جمال کو فون ملایا،اور اُسے ساری بات بتا دی،میری بات سن کر جمال تو بھڑک ہی اُٹھا،اور بولامیری طرف سے آج بلکہ ابھی سحرش کا رشتہ ختم سمجھو،میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں،اورنہ ہی آج کے بعد میں تمھاری شکل دیکھوں گا،میں بھی دیکھتا ہوں تم میرے بغیر کیسے رہتی ہو،میں نے جمال کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود اس نے غصے سے کال کاٹ دی،میں نے دوبارہ کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن جمال نے میری کال نہیں ا ُٹھائی،کچھ بھی تھا،آخر وہ میرا چھوٹا بھائی تھا،مجھے رونا آگیا،اور میں اپنے بیڈ پر بیٹھ کر آنسو بہانے لگی،دفعتاًمیرے کمرے کا دروازہ کھلا اور عامر اندر داخل ہوا،مجھے یوں روتا دیکھ کر میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا امی کیا ہوا کیو ں رو رہی ہیں،میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور عامر کو اپنے ساتھ گلے لگا کر دھاڑیں مار کر رونا شروع کردیا،عامر با ربا رمجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا بات ہوئی کیوں رو رہی ہیں،لیکن میں بس روئے جارہی تھی،تھوڑی دیر بعد جب میرا رونا بند ہوا تومیں نے عامر کو کہا کہ اس کے ماموں نے سحرش کا رشتہ توڑ دیا ہے،عامر ساری بات سمجھ گیا اور بولا یہ کیا بات ہوئی اس میں سحرش یا میرا کیا قصور۔۔؟؟؟میں خود ماموں سے بات کرتا ہوں،یہ کہہ کر عامر فون کی جانب بڑھا لیکن میں نے اس کاہاتھ پکڑ کر روک دیا،نہیں تم ایسی کوئی بات نہیں کرو،جس سے کام بگڑ جائے،کچھ دن صبر کرو میں صائمہ سے بات کرکے اُسے کہوں گی کہ وہ جمال کو سمجھائے،جمال صائمہ کی بات نہیں ٹالتا،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page