Princess Became a Prostitute -24- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 24

یہ سن کر عامر بولا صائمہ آنٹی وہی نہ جو اُس رات آپ لوگوں کے ساتھ تھی،یہ سن کر میرا سر شرم سے جھک گیا اور،میں خاموش ہوگئی اس پر عامر بولا نہیں امی اب آپ کسی سے بھی یہ بات نہیں کریں گی،خاص طور پر صائمہ سے تو ہرگز نہیں ہم یہ شہر چھوڑ دیں گے،اور آپ بھی جو ہوا اس کو بھول جائیں،میں ایک دودن میں کسی دوسرے شہر میں رہنے کا انتظام کرتا ہوں،میں نے صرف اتنا کہا جو تمہیں مناسب لگے بیٹا کرو،میرا کیا ہے اب،پھر دن گزرتے گئے میری جمال اور صائمہ سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی،البتہ عامر کے بقول اس کی سحر ش سے بات ہوتی رہتی تھی اس کو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کے باپ نے منگنی کیوں توڑ دی،وقت گزرتا رہا،اور عامر اپنی تگ ودو میں تھا کہ کہیں مناسب گھر مل جائے تو یہاں سے ساری جائیداد فروخت کرکے ہم ماں بیٹا منتقل ہوجائیں،لیکن فی الحال کوئی ایسی جگہ ملی نہیں تھی اس دوران تین مہینے سے زائد کا وقت گز ر گیا،ایک دن کی بات ہی مجھے صائمہ کی کال آئی،ہم نے ایک دوسرے سے حال احوال پوچھا،تو صائمہ نے بتایا کہ اُسے جمال نے منع کیا ہے کہ تم راشدہ سے کوئی رابطہ نہ کرنا،لیکن آج کل ایک تو جمال ملک سے باہر ہے،دوسرا مجھ سے رہ نہ گیا تو سوچا تم سے بات ہی کرلوں،کون سا جمال کو پتہ چلنا ہے،صائمہ نے کچھ دیر میرے ساتھ بات کی اور آخر بھی اس کی ایک بات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور میرے اندر کئی ماہ سے دبی ہوئی چنگاری پھر سے بھڑک اُٹھی،سنا راشدہ کی حال اے تیری پھدی دا،جمالے نوں چھڈ کے اج کل کیڑے لوڑے دا سواد لیندی پئی ایں،یا فیر انگل تے بینگن نال کام چل رئیااے،میں نے کہا کچھ بھی نہیں،کئی مہینے ہوگئے،نہ لن تے نہ بینگن،ہاں اک دو واری انگلی مارلئی سی،ہن بس میں انگلی جوگی ای رہ گئی آں،میری قسمت وچ ہن لن نئیں اے،صائمہ بولی یار دس میں ہن کی کرسکدی آں،جے توں بولیں تے میں آجاندی آں،اس پر میں نے کہا نہیں تم نہ آنا اگر جمال یا عامر کو پتہ چلگیا تو غضب ہو جائے گا،پھر تھوڑی دیر اپنا دکھ سکھ بیان کرنے کے بعد ہماری بات چیت ختم ہو گئی،اُسی رات کھانے کے بعد عامر نے مجھے کہا امی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے میرے کمرے میں آئیں،میں سمجھی شاید کوئی یہاں سے منتقل ہونے کا انتظام ہوگیا ہے تو اس لئے میں نے کہا اچھا میں برتن وغیرہ دھو کر آتی ہوں،کچن کے کاموں سے فارغ ہو کر میں عامر کے کمرے میں چلی گئی،عامر بیڈ پر بیٹھا تھا،مجھے بھی اس نے ایک سائیڈ پر بیٹھنے کو کہا،میں نے کہا ہاں بیٹا اب بول کیا بات ہے۔۔؟؟عامر نے جو بات کی وہ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھی،کہ عامر یہ بات کرے گا،عامر بولاامی اتنے دن ہو گئے میں آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ روز بروز بے چین اور چڑچڑی سی ہوتی جارہی ہیں،بات بے بات کام والی کو ڈانٹ دیتی ہیں،پہلے تو آپ ایسی نہ تھیں،پہلے تو میں سمجھا آپ کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لیکن آج دن کو آپ کے کمرے کے باہر سے گزرتے ہوئے جب میں نے آپ اورصائمہ آنٹی کی باتیں سن لیں تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے کیا غلطی کردی،میں خود غرض ہو گیا تھا،یہ نہ سوچا کہ آپ بھی انسان ہیں آپ کے بھی جذبات ہیں،یہ کہہ کر عامر نے میرا ہاتھ پکڑ کر سہلانا شروع کردیا،گو عامر میرا بیٹا تھا لیکن ایک جوان مرد بھی تھا اتنے دن بعد کسی جوان مرد کا یوں میرا ہاتھ سہلانا مجھے گرم کرنے لگا،لیکن پھر خیال آیا یہ میرا بیٹا ہے،یہ میرے ساتھ یا میں اس کے ساتھ ایسا کیسے کرسکتی ہوں،عامر کی باتیں سن کر میرا سر جھکا ہوا تھا،عامر نے دوسرے ہاتھ سے میراچہرہ اُوپر کرتے ہوئے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایسی بات کی جس کی اُمید میں عامر سے نہ کرسکتی تھی،امی اگر میں آپ کو اجازت دے دوں کہ آپ ماموں کے ساتھ اپنا رشتہ دوبارہ سے قائم کرلیں اور مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو۔۔؟؟میں نے آنکھیں اُٹھا کر عامر کی جانب دیکھا او ر بولی کیا مطلب تمھارا تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔؟؟عامر بولا وہی جو آپ چاہتی ہیں،اس پر میرا دماغ گھوم گیا اور میں بولی تم نے مجھے کیا اتنا سستا سمجھ لیا ہے کہ جب تم چاہو گے میں تمھارے ماموں کے نیچے لیٹ جایا کروں اور جب تم روکو گے رک جاؤں گی،نہیں اب ایسا نہیں ہوسکتا،جمال کیا سوچے گا کہ باجی چند ماہ نہیں رہ سکی اس کے بغیر اور پھر آگئی میرے پاس،نہ بیٹا اب نہیں،یہ ممکن نہیں،میں نے اپنا آپ مار لیا،صبر آجائے گا مجھے،اس پر عامر بولا اگر آپ نے اپنا آپ مار لیا ہے تو پھر یہ سب کیا تھا جو آپ صائمہ آنٹی کو کہہ رہی تھیں،میں نے سب سن لیا ہے اور سمجھ بھی رہا ہوں،اسی لئے آپ کو اجازت دے رہا ہوں،اس سے پہلے کہ آپ اپنے جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر کوئی انتہائی قدم اُٹھا لیں،ماموں جمال آپ کے لئے ایک بہتر آپشن ہیں،میری بات مان لیں،اس دوران عامر کا ہاتھ جو میرے ہاتھ کو سہلا رہا تھا کب میری ران پر آن پہنچا مجھے خبر نہ ہوئی،عامر اب آہستہ آہستہ میری ران سہلا رہا تھا جس سے میری پھدی کا کئی دن سے بند دریا بہہ کر میری رانوں او ر شلوار کو بھگونے لگا،جیسے ہی میری پھدی نے پانی چھوڑا مجھے خیال آیا کہ یہ کیا میں اپنے ہی بیٹے کے ہاتھ سہلانے سے ہی فارغ ہو گئی،اگر عامر کو یہ بات پتہ چل گئی تو وہ کیا سوچے گا کہ اُس کی ماں پہلے تو اپنی بھائی کی داشتہ بنی ہوئی ہے،اور اب بیٹے کو بھی اُسی راہ پر لگانے کے در پہ ہے،میں نے اپنا ہاتھ چھڑا یا اور اور پیچھے ہوکر بیٹھ گئی جس سے عامر کو وہ ہاتھ بھی جو میری ران پر تھا ہٹ گیا،عامر نے یہ بات محسوس کرلی،اور بولا،امی کیا ہوا۔۔؟میں نے کہا کچھ نہیں،اور بیڈ سے اُٹھ کھڑی ہوئی،لیکن عامر نے اپنا ہاتھ آگئے بڑھا کر پھر سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اب کہ عامر نے جو حرکت کی وہ میرے لئے حیران کن تھی،عامر نے مجھے کھینچ کر اپنے اُوپر گرا لیا،اب پوزیشن یہ تھی کہ میری ٹانگیں تو بیڈ سے نیچے ہوا میں تھیں اور میرا اُوپر کا جسم عامر کے سینے سے لگا ہوا تھا،اور عامر کے ہاتھ میری کمر پر ہم دونوں کے چہرے ایک دوسرے سے بمشکل چند انچ کے فاصلے پر تھے،میں نے گھبرا کر اور غصے سے عامر کو کہا عامر یہ کیا حرکت ہے،میں تم سے ایسی بدتمیزی کی توقع نہیں کرسکتی تھی،چھوڑو مجھے میں تمھاری ماں ہوں،میرے ممے عامر کے سینے میں دب رہے تھے،اور میری رانوں میں کچھ چبھ رہا تھا،جو یقینا کچھ اور نہیں عامر کا لوڑا تھا،لیکن عامر نے میری بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے ایک حیران کن اور میری توقع کے برعکس حرکت کردی،جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا،عامر نے میری گردن پر اپنا ہاتھ رکھا اور میرا سر اپنے چہرے کی طرف دباتے ہوئے میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں پر رکھ دئیے اور میرے ہونٹ چوسنے لگا،میں ابھی عامر کے میری ران اور ہاتھ سہلانے اور اس کی جانب سے مجھے اپنے اُوپر گرانے پر ہی غصہ ہو رہی تھی کہ عامر نے یہ تیسرا حملہ کردیا،جس نے میرے اوسان خطا کردئیے،پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ یکدم کیا ہوا،پھر میں نے عامر کے جسم سے اپنا آپ اُٹھانے کی کو شش کی اور ایک زور دار دھکے کے ساتھ خود کو چھڑا کر کھڑی ہوئی اور عامر کے منہ پر ایک زور دارتھپڑ مار کر بھاگ کر اپنے کمرے میں آگئی اور کمرہ بند کرکے بیڈ پر بیٹھ کر رونے لگی،حقیقتاً مجھے اس وقت اپنا مرحوم شوہر بہت یا د آیا،اگر آج وہ زندہ ہوتا تو میں اس ذلت سے نہ دوچار ہو تی کہ پہلے بیٹے کے سامنے شرمندہ ہوئی اور بعد میں وہی بیٹا مجھے وہ سب کرنے کی نہ صرف اجازت دے رہا ہے بلکہ خود بھی اپنی ماں پر چودنے کے چکر میں ہے،اس سے پہلے مجھے عامر کی کسی بات یا حرکت سے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ مجھ پر گندی نظر رکھے ہوئے ہے،لیکن آج جو کچھ ہوا،میں اسکے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی،کہ میرا بیٹا ہی مجھے ننگا کرنے کی خواہش رکھتا ہے،نجانے کتنا وقت گزر گیا شاید رات ہو گئی تھی لیکن میں اپنے کمرے میں بند بیڈ پر بیٹھی روتی رہی،مجھے نہ تو خود کے کھانے کا ہوش تھا اور نہ ہی عامر کے،وہ رات ایسے ہی سوتے جاگتے گزری میری،کبھی تو عامر کی طرف سے دوبارہ جمال سے مراسم قائم کرنے کی اجازت دینے پر خوشی ہوتی کہ چلو میری پھدی کی پیاس کا پھر سے انتظام ہوگیا،اور دوسری طرف عامر کی حرکت جب آنکھوں کے سامنے آتی تو سب کچھ بھول کر بدن میں غصے کی لہر دوڑ جاتی،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page