رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر 02
ہاں بھئی فرقان ۔ اب بتاؤ کیا بات ہے؟۔۔۔ شمشیر سنگھ نےپوچھا۔
شمشیر سنگھ۔ ۔۔ فرقان اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میں یہاں کب اور کن حالات میں آیا تھا۔ یہاں اگر تم میری مدد نہ کرتے تو نجانے مجھ پر کیا بیت چکی ہوتی۔ میری کوئی بات تم سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ میں نے تمہیں یہ بھی بتایا تھا کہ میں اپنی بیوی اور دو ماہ کے بچے کو لے کر پاکستان سے بھاگ کر یہاں کیوں آیا تھا، اگر میں اپنے ایک دوست کی مدد سے پاکستان سے فرار ہونے میں کامیاب نہ ہو پاتا تو ملک نوازش علی ہم تینوں کو ختم کروا دیتا۔
فرقان چند لمحوں کو خاموش ہو گیا۔ اسی دوران میں شمیم آراء چائے لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔ اس نے ایک ایک کپ ان دونوں کے سامنے رکھ دیا اور ایک کپ خود لے کر بیٹھ گئی۔
مجھے معلوم ہے۔۔۔ شمشیر سنگھ نے فرقان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔تم نے مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا اور میں
تمہاری سچائی ہی سے متاثر ہوا تھا، لیکن یہ تو پرانی بات ہو چکی ہے۔اب کیا معاملہ ہے؟
اگر چہ بارہ سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے لیکن جس طرح ہم ملک نوازش ملی کو نہیں بھولے اسی طرح ملک نوازش علی نے بھی ہمیں فراموش نہیں کیا۔ فرقان بولا ۔
کیا وہ ملک یہاں آگیا ہے؟۔۔۔شمشیر سنگھ نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
ملک نوازش علی نہیں مگر اس کے آدمی یہاں پہنچ گئے ہیں۔ فرقان نے کہا اور پھر اسے رانا کے بارے میں بتانے لگا۔ آخر میں وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔میرا خیال تھا کہ شاید اس نے مجھے نہیں دیکھا لیکن اب میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نے نہ صرف مجھے دیکھا ہے بلکہ میرے بارے میں کچھ معلومات بھی حاصل کر چکا ہے۔ اس نے میرا فون نمبر معلوم کر لیا ہے اور شاید وہ گھر بھی دیکھے چکا ہے۔ فرقان نے کہا اور فون کالز کے بارے میں بتانے لگا۔
ہو سکتا ہے تمہیں غلط فہمی ہوئی ہو۔۔۔ شمشیر سنگھ نے اس کے خاموش ہونے پر کہا ۔۔۔میرا مطلب ہے اس نے واقعی تمہیں نہ دیکھا ہو اور وہ فون کالز بھی کسی کی شرارت ہو۔
نہیں شمشیر سنگھ ۔۔۔ فرقان نے کہا ۔۔۔میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہتا۔ میں نے تمہیں یہ سب کچھ اس لیے بتایا ہے کہ میں تم سے مشورہ لینا چاہتا ہوں کہ ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ کیا سنگا پور چھوڑ دوں؟
میرے خیال میں تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا۔۔۔ آج یہاں سے بھاگ جاؤ گے تو کل کہیں اور سے بھی بھاگنا پڑے گا۔ اگر رانا نے واقعی تمہیں دیکھ لیا ہے تو اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چھپنے یا بھاگنے کے بجائے صورت حال کا مقابلہ کرو۔ یہ پاکستان نہیں سنگا پور ہے۔ یہاں اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اسے پہلے دس مرتبہ سوچنا پڑتا ہے۔ اتنے عرصے میں تم بھی دیکھ چکے ہو کہ یہاں قانون کی گرفت بڑی سخت ہے۔ رانا ایسی کوئی حماقت نہیں کرے گا کہ قانون کے جال میں پھنس جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میں تصویر کے دوسرے رخ کو بھی نظر انداز نہیں کروں گا۔ اگر تمہیں اس سے اپنی جان کا خطرہ ہے تو تمہاری حفاظت کا بندوبست ہو سکتا ہے۔ میں صبح ہی اپنے دو بندے تمہاری حفاظت کے لیے مقرر کر دیتا ہوں۔ وہ دونوں آدمی مسلح ہوں گے اور چوبیس گھنٹے تمہارے ساتھ رہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی میں اپنے دوست چیانگ شو کو صورت حال سے آگاہ کر دیتا ہوں۔ چیانگ شو کو تم جانتے ہو۔ وہ ایک ذمے دار پولیس آفیسر ہے۔ وہ تمہاری حفاظت کا بندوبست کر دے گا۔
لیکن یہ حفاظتی انتظامات کب تک رہیں گے؟۔۔۔ فرقان نے کہا ۔۔۔میں ساری زندگی تو پولیس اور باڈی گارڈز کو اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔
گھبراؤ نہیں یار۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا۔۔چار چھ روز کی بات ہے۔ رانا جب تمہارے گرد حفاظتی انتظامات دیکھے گا تو خاموشی سے واپس چلا جائے گا۔ وہ جب تک یہاں رہے گا تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہیں کرے گا۔ اگر اس نے کوئی ایسی حرکت کی تو سوں رب دی وہ زندہ بچ کر نہیں جا سکے گا۔
شمشیر سنگھ کی باتوں سے فرقان اور شمیم آراء کو بڑا حوصلہ ملا تھا۔
تم فکر ہی نہ کرو پا بھو۔ ۔۔ شمشیر سنگھ شمیم آراء کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔رانا تم لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا اور بھائی فرقان ۔۔۔ وہ اس کی طرف مڑ گیا ۔۔۔ تم بھی اپنے دل سے خوف نکال کر صبح اپنی دکان پر جاؤ اور تسلی سے اپنا کاروبار کرو۔ کسی خوف کو دل میں جگہ نہ دو۔
وہ تینوں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اسی موضوع پر گفتگو کرتے رہے اور پھر رات ایک بجے کے قریب شمشیر سنگھ انہیں تسلیاں دیتا ہوا اپنے گھر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد فرقان نے خود تمام دروازے لاک کیے اور شمیم آراء کے ساتھ بیڈ روم میں آگیا۔ وہ بستر پر لیٹے دیر تک باتیں کرتے رہے ۔ نیند دونوں میں سے کسی کو بھی نہیں آرہی تھی۔ شمشیر سنگھ نے اگر چہ انہیں بھر پور تسلی دی تھی اور ان کی حفاظت کا بندوبست بھی کر دیا تھا لیکن فرقان مطمئن نہیں تھا۔ وہ ملک نوازش علی کو اچھی طرح جانتا تھا۔ اس کے درندہ صفت کارندوں سے بھی واقف تھا۔ رانا اس کا سب سے قابل اعتماد اور معتبر ساتھی تھا۔ انتہائی سفاک اور بے رحم انسان، بلکہ اسے تو انسان کہنا ہی انسانیت کی تو ہین تھی۔ انسانی زندگی اس کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی تھی۔ بارہ سال پہلے فرقان اس سے بچ نکلا تھا۔ سنگاپور آنے کے بعد فرقان مطمئن تھا کہ ملک نوازش علی اور اس کے کارندے اس کا سُراغ نہیں لگا سکیں گے لیکن بارہ سال بعد انہوں نے اسے ڈھونڈ نکالا تھا۔ رانا جتنا بے رحم تھا، اتنا ہی عیار بھی تھا۔ اس نے فرقان کو دیکھ لیا تھا مگر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ اسے نہیں دیکھ سکا ہے ، لیکن رات ہی کو خاموش فون کالز نے فرقان کو یقین دلا دیا تھا کہ رانا نے اسے دیکھ لیا ہے۔ فرقان رات بھر سوچتا رہا اور بالآخر اس نے شمشیر سنگھ کے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ شمشیر سنگھ نے ٹھیک ہی تو کہا تھا۔ بارہ سال پہلے وہ ان سے ڈر کر پاکستان سے بھاگا تھا۔ اور اب ان کے خوف سے سنگا پور چھوڑ دے گا۔ کل اسے کسی اور جگہ سے بھی بھاگنا پڑے گا ۔کیا وہ ان کے خوف سے زندگی بھر بھاگتا رہے گا۔
نہیں۔ اب ایسا نہیں ہو گا۔ ۔۔ فرقان بڑبڑایا۔۔۔ ڈر اور خوف کے سائے میں زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ اسے یہ خوف دل سے نکالنا ہو گا۔ نڈر ہو کر صورتِ حال کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ وہ یہاں سے نہیں بھاگے گا۔
ایک حتمی فیصلے پر پہنچنے کے بعد فرقان کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے سرسے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔ وہ اپنے آ پ کو پر سکون محسوس کرنے لگا۔ اس کی پلکیں نیند کے بوجھ سے جھکنے لگیں اور وہ نیند کی پر سکون وادی میں پہنچ گیا۔
صبح ناشتے کے دوران میں اس نے شمیم آراء کو بھی اپنے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا کہ وہ ملک نوازش علی اور رانا کے خوف سے یہاں سے بھاگنے کے بجائے یہیں رہ کر صورت حال کا مقابلہ کرے گا۔ ناشتے کے بعد وہ دکان پر جانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ فرقان قریب کھڑا تھا ۔ اس نے آگے بڑھ کر ریسیور اٹھالیا۔
ہیلو! وہ پرسکون لہجے میں ماؤتھ پیس میں بولا ۔
جواب میں پہلے گہری گہری سانسوں اور پھر کتے کے غرانے جیسی آواز سنائی دی۔ فرقان کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی لیکن اس نے جلد ہی اپنی کیفیت پر قابو پالیا۔ اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ رانا ہی تھا۔ فرقان کا دل چاہا کہ وہ فون پر ہی رانا کو کھری کھری سنا دے اور اس پر واضح کر دے کہ اب وہ اس سے ڈر کر بھاگے گا نہیں ، مگر یہ سب کچھ کہنے کے بجائے اس نے ریسیور پٹخ دیا ۔
کون تھا ؟۔۔۔ شمیم آراء نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
وہی بد تمیز۔ ۔۔ فرقان نے جواب دیا ۔۔۔لیکن تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ابھی شمشیر سنگھ سے بات کرتا ہوں۔ وہ چیانگ شو کو فون کر کے ایک دو پولیس والوں کو یہاں بلا لے گا۔ وہ پولیس والے تمہاری حفاظت کے لیے یہاں رہیں گے۔ تمہیں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ شمشیر سنگھ ٹھیک کہتا ہے۔دار ا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔
اپنا خیال رکھنا۔۔۔ شمیم آراء نے اس کے ساتھ بیرونی دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
فرقان نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔ ساتھ والا مکان شمشیر سنگھ کا تھا۔ فرقان نے کال بیل بجائی تو فورا ہی دروازه مکمل گیا اور شمشیر سنگھ اندر کی طرف کھڑا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے اونچی سی دھوتی باندھ رکھی تھی۔ اوپر بنیان تھی اور سر کے بال ایک جالی دار ٹوپی میں لپیٹ رکھے تھے۔
میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا بھائی فرقان ۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا۔۔۔میں نے آدھا گھنا پہلے چیانگ شو کو فون کر دیا ہے۔ اس کے بھیجے ہوئے دو کا نشیبل یہاں پہنچنے ہی والے ہیں۔ تم اطمینان سے دکان پر جاؤ۔ میرے دو آدمی تمہاری دکان پر پہنچ جائیں گے۔ سوتر سنگھ کو تم جانتے ہو نا۔ اس کے ساتھ ایک اور آدمی ہو گا۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ شیر بن کر جیو۔
ہاں۔ اب میں نے شیر بن کر ہی جینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔۔ فرقان نے کہا ۔
خوش کیتا ای واہ گرو دی قسم۔ تم نے دل خوش کر دیا۔ جاؤ۔ اب دکان پر جاؤ۔ تمہیں دیر ہو رہی ہے۔۔۔ شمشیر سنگھ نے
کہا۔
فرقان اس سے ہاتھ ملا کر مکان سے باہر نکل آیا۔ گلی سے نکلتے ہی اسے ٹریشا مل گیا اور وہ اپنے معمول کے وقت سے صرف پانچ منٹ کی تاخیرسے دکان پر پہنچ گیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد سوتر سنگھ اور اس کا ایک ساتھی بھی آگیا۔ وہ دونوں اونچے لمبے جوان تھے۔ ان میں سے ایک دکان کے باہر کھڑا ہو گیا اور دوسرا اندر۔ اس روز فرقان دکان پر سما سما سا بیٹھا رہا۔ اس کے دل میں خوف تھا۔ وہ بار بار اپنی سیٹ پر بے چینی سے پہلو بدلتا رہا۔ دکان کے سامنے سے گزرنے والا ہر شخص اسے مشتبہ نظر آتا۔ اگلے دو تین دن بھی اسی خوف کی کیفیت میں گزرے۔ اس دوران میں نہ تو رانا نظر آیا تھا اور نہ ہی اس کا وہ اجنبی ساتھی اور اس دوران میں اس کے گھر پر وہ پُراسرار خاموش فون کال بھی نہیں آئی تھی۔ ان دونوں میاں بیوی کے دل سے خوف بتدریج دور ہو تا گیا۔ اب فرقان کو یقین ہو گیا تھا کہ دکان پر رانا کی آمد محض ایک اتفاق تھی اور اس نے فرقان کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ خاموش پراسرار فون کالز بھی کسی کی شرارت تھی۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ چیانگ شو کے فراہم کردہ دو پولیس والے بدستور فرقان کے مکان کی حفاظت کر رہے تھے۔ شمشیر سنگھ کے آدمی اس کے باڈی گارڈز کے فرائض انجام دے رہے تھے اور اس دوران میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی جسے غیر معمولی قرار دیا جا سکتا۔ بالآخر فرقان اس نتیجے پر پہنچا کہ اسے کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس لیے اُسے اپنی یا اپنے گھر کی حفاظت کے لیے پولیس اور باڈی گارڈز کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ خوف اس کے دل سے نکل چکا تھا۔ اس رات اس نے شمیم آراء سے مشورہ کیا اور پھر اگلے روز شمشیر سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس نے پولیس اور باڈی گارڈز کو ہٹا دیا ۔
فرقان اب پہلے کی طرح معمول کے مطابق اپنا وقت گزارنے لگا۔ اس کے دل میں کسی قسم کا خوف نہیں رہا تھا۔ پہلے چند روز کی کیفیت کو بھیانک خواب سمجھ کر اس نے نظر انداز کر دیا وہ اتوار کا دن تھا اور اتفاق سے اس روز روحان کی سالگرہ تھی۔ وہ پورے بارہ سال کا ہو چکا تھا اور اس کی زندگی کا تیرھواں سال شروع ہونے والا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کی سالگرہ بڑی با قاعدگی سے مناتے تھے لیکن انہوں نے سالگرہ کا ہنگامہ کبھی نہیں کیا تھا۔ وہ یا تو گھر پر بڑی سادگی سے کیک کاٹ لیتے یا کسی ہوٹل میں جا کر ڈنر کر لیتے۔ انہوں نے کبھی کسی مہمان کو سالگرہ پر مدعو نہیں کیا تھا۔ شمشیر سنگھ فرقان کا بہترین دوست تھا لیکن شمیم آراء نے اسے بھی کبھی روحان کی سالگرہ پر مدعو نہیں کیا تھا۔ اس روز وہ صبح سویرے ہی سنتوشا جزیرے پر چلے گئے۔ دن بھر اس خوب صورت جزیرے پر پکنک منائی گئی۔ شام کو واپس آکر پروگرام بنالیا۔ کچھ دیر آرام کیا اور پھر ہوٹل رائل ہالی ڈے ان میں ڈنر کاپروگرام بنا لیا۔
اسکاٹس روڈ پر واقع رائل ہالی ڈے ان ہوٹل تک جانے میں تو انہیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی تھی۔ گھر سے کچھ ہی دور جا کر ٹیکسی مل گئی تھی لیکن رات گیارہ بجے جب وہ ہوٹل سے باہر نکلے تو اتفاق سے اسٹینڈ پر یا آس پاس کوئی ٹیکسی نہیں تھی۔ انہیں آرچرڈ روڈ کے چوراہے تک پیدل آنا پڑا۔ ڈائینا سٹی ہوٹل کے سامنے انہیں ٹیکسی مل گئی۔
اپنے بنگلے کے سامنے ٹیکسی سے اتر کر فرقان ڈرائیور کو کرایہ ادا کر رہا تھا کہ ایک کار تیزی سے اس گلی میں مڑی اور ان کی ٹیکسی کے قریب آکر رک گئی۔ سیاہ رنگ کی اس کار کے دروازے کھلے اور چار آدمی کار سے اتر کر فرقان ، شمیم آراء اور روحان کی طرف بڑھے۔ ان میں سب سے آگے والے آدمی کو دیکھ کر فرقان کا دل اچھل کر حلق میں آگیا اور اسے سینے میں سانس رکتا ہوا محسوس
ہونے لگا۔
وہ رانا تھا
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–115–رقصِ آتش قسط نمبر
May 25, 2025 -
A Dance of Sparks–114–رقصِ آتش قسط نمبر
May 25, 2025 -
A Dance of Sparks–113–رقصِ آتش قسط نمبر
May 25, 2025 -
A Dance of Sparks–112–رقصِ آتش قسط نمبر
May 25, 2025 -
A Dance of Sparks–111–رقصِ آتش قسط نمبر
May 25, 2025 -
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
