Princess Became a Prostitute -59- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 59

میں نے اس سے پہلے سب سے بڑا لوڑا جاوید کا لیا تھا،جس کو ہم سانڈ کہتے ہیں لیکن یہ تو جاوید کا بھی باپ نکلا،مجھے یوں اپنے لوڑے کی جانب سوچوں میں گم دیکھ کر ارشاد بولا،کیا ہواپسند نہیں آیا،یا ڈر گئی،گھبرا ؤ مت بہت مزہ دے گا یہ میرا شہزادہ،چلو اب دیر نہ کرو اس کو اپنے منہ کی گرمی دو،میں نے نیچے جھک کر اس کے لوڑے کو چوما اور پھر اس پر زبان پھیرنے لگی،لوڑا پانی چھوڑ رہا تھا،جس کو میں نے چاٹ لیا،اسے منہ میں لو،ارشاد کی آواز میرے کانوں میں پڑی،میں نے اپنا پورا منہ کھول کر بمشکل اسکے لوڑے کا ٹوپا اپنے منہ میں لینے کی کوشش کی لیکن موٹائی زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ اندر نہیں جارہی تھی،یہ دیکھ کر ارشاد نے میرے بالوں کو زور سے پکڑا اور میرا سر آگے کی طرف دبایا جس سے اس کا لوڑا میں حلق کو جا لگا میری تو جیسے سانس ہی رک گئی ہو،لیکن اس ظالم نے بنا کوئی رحم کئے،اپنا لوڑا آگئے پیچھے کرنا شروع کردیا،اور میرے منہ کو چودنے لگا،میری آنکھوں سے پانی بہنے لگا،اور یوں لگ رہا تھا کہ میرے منہ کا دہانہ کسی نے چیر دیا ہو،ارشاد تیزی سے اپنا لوڑا میرے منہ میں آگئے پیچھے کئے جارہا تھا،تھوڑی دیر بعد اس کا لوڑا اور زیادہ پھولنے لگا میں سمجھ گئی یہ فارغ ہونے لگا ہے،لیکن میں اس کے لوڑے کو منہ سے نکال بھی نہیں سکتی تھی کہاں وہ کالا حبشی اورکہاں میری ننھی سی جان،اچانک ارشاد کے منہ سے بھیڑیے جیسی غراہٹ نکلی اور اس نے میرے سر کو پیچھے سے دبا دیا اور اس کے لوڑے سے منی کا فوارہ نکل کر میرے حلق سے نیچے جانے لگا،اتنے سانڈ لوڑے سے منی کی پچکاری کی بجائے سمجھو نل بہہ رہا تھا،کچھ منی تو میں پی گئی،باقی میرے منہ سے باہر کو بہنے لگی،کافی دیر لوڑا منی اگلتا رہا،اورپھر جب لوڑا منی اگل کر شانت ہو گیا تو ارشاد نے لوڑا باہر نکال لیا،مجھے کھانسی کا دورہ پڑ گیا،میری باچھیں اور منہ منی سے بھر گے تھے،اور میں نے منہ میں بھری ہوئی منی ایک طرف تھوک دی،ارشاد کو لوڑا ابھی بھی ایسے ہی تن کر کھڑاہوا تھا،ارشاد نے مجھے کہا،کیوں مزا نہیں آیا جو کھانسی لگ گئی،میں خاموش رہی،پھر ارشاد کرسی سے اٹھا اور نیچے گھاس پر بیٹھ گیا،اور میری دونوں ٹانگیں کھول کر اپنا منہ میری پھدی کے قریب کیا اور اپنی زبان باہر نکال کر میری چوت چاٹنے لگا،اف،میرا سارا جسم سنسنانے لگا مزے اور شہوت سے، میں نے ارشاد کے سر پرہاتھ رکھ کر اس کو اپنی پھدی کی جانب دبایا،اور خود بھی نیچے کی جانب جھک کر پھدی کو اس کے منہ پر دبانے لگی،ایک تو میں پہلے ہی ارشاد کی ہلکی پھلکی مستیوں کی وجہ سے گرم تھی،اور میری چوت پانی چھوڑ رہی تھی،دوسرا ارشاد کا یوں میری پھدی چاٹنے سے میری ہمت دم توڑنے لگی،اور پانچ منٹ بعد میری پھدی نے ارشاد کے منہ پر پانی چھوڑ دیا،جس کو ارشاد کسی کتے کی طرح چاٹ کر پی گیا،اس دوران میں نے بہت مشکل سے اپنی آہ کی آوازوں کو کنڑول کیا،پھر ارشاد کھڑا ہوا اور اس نے میرے پیچھے آکر مجھے کرسی پر جھکا دیا اور پیچھے سے آکر اپنا لوڑا میری پھدی پر رکھ دیا،اس سے پہلے کے میں اس کو اشارے سے کنڈوم پہننے کا کہتی،اس نے ایک اپنے دونوں ہاتھ میرے پیٹ پر رکھے اور ایک زور دار جھٹکا دیا اوریوں محسوس ہوا کہ اس کا لوڑا میری پھدی کو چیرتا ہوا میرے کلیجے کو جا لگا ہو،بے ساختہ میرے منہ سے ایک چیخ نکلی ہائے امی مر گئی،بچاؤ،جنگلی،وحشی جانور نکالو اس کو باہر،میں نے گردن پیچھے موڑ کر ارشاد کو گالیاں دینا شروع کردیں،اور خود کو چھڑا نے کی کوشش کرکے آگے نکلنے لگی لیکن ارشاد نے بہت مضبوطی سے مجھے پکڑا ہوا تھا،میرے منی سے گالیا ں سن کر وہ ہنسا اور کہنے لگا،کیوں میری رانی بہت درد ہو رہا ہے جو چیخ مار کر گالیاں دے رہی ہو،پہلے تو بول ہی نہیں رہی تھی،میں نے سوچا اب کیا فائدہ چپ رہنے سے،میں نے کہاتم انسان ہو یا جانور،ایک تو تمھارا ہتھیار اتنا بھیانک اوپر سے ایک دم پورا اندر ڈال دیا،اس پر ارشاد بولا،جانم مجھے تو ایسے ہی مزہ آتا ہے،اب برداشت کرو،اور شور مچانے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ یہاں دور دور تک کوئی تمھاری آواز سننے والا نہیں،بات تو اس کی ٹھیک تھی،میں نے سوچا اب تو جو اس کو کرنا ہے وہ تو کرے گا،لیکن پھر بھی میں نے کہا،پلیز آہستہ کرو میں کہیں بھاگی تو نہیں جارہی،اور نہ ہی میں کوئی پیشہ ور ہو ں جو یہ سب سہہ سکوں،میری بات پر وہ بولا،تمھار ی چوت اور گانڈ کے سوراخ دیکھ کر لگ رہا ہے کہ بہت بڑی گشتی ہو،جسے لوڑا چوستی ہو وہ کوئی نئی لڑکی کا انداز نہیں،یہ سب باتیں کرنے کے دوران وہ دھکے لگائے جارہا تھا،اور اب آہستہ آہستہ مجھے بھی مزہ آنے لگا تھا،لیکن درد بھی ہورہا تھا میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھا ارشاد دھنا دھن دھکے پہ دھکا لگا رہا تھا اب اس نے اپنی ایک انگلی میری گانڈ کے اندر داخل کردی،ابھی چوت کا درد کم نہیں ہوا تھا کہ گانڈ میں بھی دردشروع ہوگیا،میں نے دوبارہ رحم طلب نظروں سے اس کی جانب دیکھا،لیکن وہ بس مسکرا کر چدائی کررہا تھا میری چوت کی،اور ساتھ اس کی موٹی لمبی انگلی میری گانڈ کو جائزہ لے رہی تھی،اب میری چوت بھی پھر سے گرم ہو کر اس کے لوڑے کو ایڈجسٹ کر کے پانی چھوڑ رہی تھی،اور میرے منہ سے بھی آہ آہ ہاں چودو اف آہ کی آوازیں نکلنے لگیں،ویسے یہ چوت بھی کمال کی چیز ہے،ہر سائز کے لوڑے کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھتی ہے،پہلے تو بڑا لوڑا جب اندر گھستا ہے تو درد اور تکلیف سے روتی ہے اور بعد میں اسی لوڑے کو اندر سمو کر مزے کرتی ہے یہی حال میری چوت کا بھی تھا،میں اب اپنا گانڈ خود پیچھے کرکے اس کی رانوں پر مار رہی تھی،چند لمحوں بعد میری چوت نے ایک بار پھر سے پانی چھوڑ دیا،میں نڈھال سی ہو کر آگئے کو کرسی پرڈھ سی گئی جب ارشاد نے دیکھا کہ میں فارغ ہو گئی ہوں تو اس نے اپنا لوڑا میری چوت سے نکال کر اچانک سے میری گانڈ جس میں وہ کافی دیر سے انگلی کئے جارہا تھا میں گھسا دیا،بالکل وہی تیز زوردار دھکا جیسے اس نے چوت میں لوڑا گھساتے ہوئے لگایا تھا،میں ایک بار پھر سے چیخ پڑی،بہن چود،حرامی،کتے جانور،لیکن میری گالیوں کاجواب ارشاد کی جانب سے میری چوتڑوں پر اس کے بیلچے نما ہاتھوں کی زور دار چماٹوں سے ملا،جس سے میری چوتڑ توکیا گانڈ بھی سن ہو گئی،اور میرے آنسو جیسے رک سے گئے ہوں بہنا،چپ کر سالی ورنہ اس سے بھی بڑا حشر کروں گا،چپ چاپ مزے کراور مجھے بھی کرنے دے،ارشاد کا لوڑا میری گانڈ کو چیرے جارہا تھا،اف آہستہ میں مر جاؤں گی،،پلیز ظلم نہ کرو مجھ پر،لیکن میری ہر التجا پر وہ چماٹ مار کر جواب دیتا،میں زندگی میں پہلی بار ایسے جنگلی سیکس کروا رہی تھی،اور دل ہی دل میں اختر بائی کو گالیاں دے رہی تھی جس نے مجھے اس وحشی کے ہاتھوں مروانے کے لئے بھیج دیا تھا،ارشاد نے اندازً پندرہ سے بیس منٹ میری گانڈ کا بھرتہ بنانے کے بعد اپنے لوڑے کا سارا مال گانڈ کے اندر ہی انڈیل دیا،اور پھر میرے اوپر جھک کر تیزتیز سانس لینے لگا میں اس کے وزن سے دبتی جارہی تھی،کچھ لمحے یوں گزر گئے،مجھے تو یوں لگ رہا تھا جیسے میری گانڈ اور چوت کا سوراخ ایک ہو گیا ہو،مزہ تو آیا لیکن دونوں جگہ درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں،کچھ دیر بعد ارشاد میرے اُوپر سے اُٹھا ااور سائیڈ پر پڑا اپنا چڈا اُٹھا کر پہن لیا،میری تو بالکل ہمت نہیں ہورہی تھی اُٹھنے کی،ارشاد نے مجھے کندھے سے ہلا کر کہا کیوں رانی ساری رات یہاں ہی پڑے رہنے کا ارادہ ہے کیا؟ یا اندر چلنا ہے،ابھی تو صرف ٹریلر چلا ہے تو تم ادھ موئی ہوگئی،پکچر ابھی باقی ہے،میں گرتی پڑتی اٹھی اور اپنا برا اور پیٹنی اُٹھانے لگی لیکن ارشاد نے دونوں پہلے ہی اُٹھا لی تھیں،اور ساتھ ہی میری نائٹی بھی اور بولا،ان کو اب کیا پہننے کا فائدہ جب اندر جا کر پھر ننگا ہی ہونا ہے،ایسے ہی چلو،میں نے کہا ایسے کیسے کوئی دیکھ لے تو پھرلیکن ارشاد نے میری ایک نہ سنی اور میرا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف چل دیا،جب ہم بیڈ روم کے پاس پہنچے تو وہی ملازم وہاں کھڑا تھا،اس پر نظر پڑتے ہی میں نے خود کو ارشاد کے پیچھے چھپا لیا،کیونکہ میں پوری ننگی تھی،ارشاد نے جب یہ دیکھا تو قہقہہ لگاکر ہنستے ہوئے کہنے لگا،ارے اس سے کیا شرمانا یہ کسی کو کچھ نہیں بتائے گا تم بے فکر رہو،اور مجھے کھینچ کر اندر لے گیا،البتہ جاتے جاتے ملازم کو کہنے لگا کہ تم جا کر سو جاؤ،صبح آنا،میرے منہ پر نقاب ابھی بھی موجود تھا،جس سے کم از کم یہ ہوا،کہ وہ ملازم میرا چہرہ نہیں دیکھ سکا،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page