Princess Became a Prostitute -61- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 61

رات کے تین بج گئے تھے،ارشاد بنا صفائی کئے ہی ننگا ہی جا کر بیڈ پر لیٹ گیا،اور کچھ دیر بعد اس کے خراٹے گونجنے لگے،میں بھی واش روم گئی پیشاب کیا اور صفائی کرکے آکر بیڈ پر ننگی ہی ارشاد کے برابر میں لیٹ گئی،اور کچھ دیر بعد آنکھ لگ گئی،نجانے کتنا وقت گزر گیا،معلوم نہیں،میری آنکھ ایک درد کی تیز لہر سے اٹھی اور میرے منہ سے بیساختہ چیخ نکلی،جب میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو پیچھے سے ارشاد کا لوڑا میری گانڈ میں گھس چکا تھا،میں نے کہا۔پلیز سونے دو نا،اب نہیں کرو بہت درد ہوتا ہے گانڈ میں،میری آنکھ گانڈ میں لوڑا گھسنے سے درد ہونے پر ہی کھلی تھی،ارشاد میری طرف کروٹ لے کر اپنا لوڑا میری گانڈ میں گھسائے میری گانڈ مار رہا تھا،اور اسکے ہاتھ بھی گردش میں تھے ایک ہاتھ میرے مموں پر اور دوسرا چوت پر تھا،اور وہ میری چوت کے دانے کو مسل رہاتھا،مجھے بہت درد ہورہا تھا،اور میں اس کو بار بار لوڑا باہر نکالنے کو کہہ رہی تھی،لیکن وہ تو بس دھنادھن اپنے کام میں لگا ہواتھا،رانی تیری گانڈ تو تیری چوت سے بھی زیادہ مزہ دیتی ہے،سامنے گھڑی پر صبح کے چھ بج رہے تھے،مطلب میں کوئی تین گھنٹے ہی سوئی تھی،بیس منٹ میری گانڈ مارنے کے بعد ارشاد اندر ہی فارغ ہو گیا،اور جب اس نے لوڑا باہر نکالا تو میں نے اپنی گانڈ کو ہاتھ بڑھا کر دیکھ تو میری انگلیاں اس کی منی اور ہلکے سے خون سے بھر گئیں،مطلب میری گانڈ پھٹ چکی تھی،ارشاد کچھ دیر لمبے لمبے سانس لیتا رہا،پھر اٹھ کرمجھے بھی اپنی گود میں اٹھا کر ننگا ہی باہرکو نکل آیا،اور سیدھا سوئمنگ پول میں جا گھسا،میں اس سے پہلے کبھی سوئمنگ پول میں نہیں نہائی تھی،بس گاؤں میں اپنی زمینوں پر کبھی کبھی ٹیوب ویل پر نہانے کا تجربہ تھا،نہ مجھے تیرنا آتا تھا،روشنی پھیل چکی تھی،پول کا ٹھنڈا پانی جسم پر پڑتے ہی گانڈاور چوت کا درد بڑھ گیا،ارشاد مجھے گود میں اٹھائے ہی پول میں گھس گیا،اور مجھے درمیان میں لاکر کھڑا کردیا،پانی میرے کندھوں تک آرہا تھا،میں نے کہا مجھے تیرنا نہیں آتا،جان من میں کس لئے ہوں،ارشاد نے مجھے سر سے پکڑ کر پانی میں دبایا اور ڈبکی دی،میرا سانس رکنے لگا اور کھانسی آگئی،پھر وہ خود بھی نیچے ہوا اور پانی کے اندر ہی میرے ہونٹ چوس لئے پھر باہر نکال کر مجھے سینے سے لگائے پول میں گھومنے لگا،مجھے اب مزہ آنے لگا تھا،میں نے بھی نیچے ہاتھ لے جا کر اس کا مرجھایاہوا لوڑا پکڑ لیا،اور دبانے لگی،کیوں میری جان پھر سے دل چاہ رہا ہے لینے کو،ارشاد بولا،نہیں بابا اب نہیں ہمت،لے لو کون سا روز روز آؤ گی،میں ہنس پڑی،ہم پول میں چل رہے تھے،کہ وہی ملازم آگیا،میری نظر اس پر پڑی تو میں نے خود کو ارشاد کے پیچھے چھپا نا چاہ۔کیونکہ میں ایک تو فل ننگی تھی دوسرا ماسک بھی رات کو اتر چکا تھا،لیکن اب کیا فائدہ،ملازم نے غور سے میری جانب دیکھا اور ارشاد سے ناشتے کا پوچھنے لگا،ارشاد نے کہا،ہاں ناشتہ تیار کرو،ہم بھی آتے ہیں،پھر وہ چلا گیا،اور ارشاد نے مجھے پول کے کنارے پر لا کر وہاں بنی سیڑھیوں پر بٹھا دیا،میرا اوپر کا دھڑ پانی سے باہر تھا،اب ارشاد نے میری ٹانگیں کھول دیں اور نیچے پانی میں سر دے کر میری چوت کو چاٹنے لگا،یہ ایک نیا تجربہ تھا میرے لئے،میں نے کہا نہیں اب نہیں کرنا۔لیکن وہ ارشاد ہی کیا جو سن لے،کالے حبشی نے اپنی کھردری زبان سے مجھے ایک بار پھر گرم کردیا،اور میں اس کے منہ میں ہی فارغ ہو گئی،وہ کھڑا ہوا اور اپنا لوڑا میرے ہونٹوں اور گالوں پر مارنے لگا،میں نے اس کے لوڑے کو ہاتھ میں پکڑا اور سہلانے لگی،لوڑا تن چکا تھا میں نے اس کے ٹوپے کو منہ میں لیا اوار چوسنے لگی،تھوڑی دیر بعد ارشاد نے لوڑا میرے منہ سے نکال لیا اور مجھے لے کر پول لے باہر بنے سپلیپنگ بینچ پر لٹا دیا اورمیرے ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھ کر ایک بار پھر سے لوڑامیری چوت میں ڈال دیا،میں نے مزے سے چدنے لگی،آہ آہ اف ارشاد تم بہت وحشی ہو،جانور ہو،کتے بہت مزے دیتے ہو،چود سالے زور لگا،میری گالیوں اور مزے کی آہوں سے ارشاد بھی زور دار دھکوں سے میری چدائی کئے جارہا تھا،بیس منٹ بعد اس نے لوڑا باہر نکال کر ساری منی میرے چہرے اور مموں پر گرا دی،اور لمبے لمبے سانس لیتا ہوا نیچے فر ش پرہی لیٹ گیا،میں نے اٹھ کر اس کا لوڑاجوہم دونوں کی منی سے لتھڑا ہوا تھا کو منہ میں لیااور چوس چوس کر اس کو صاف کردیا،اور وہیں بیٹھ گئی،کچھ دیر بعد ملازم آیا،اور اس نے کہا صاحب ناشتہ تیار ہے،میں نے سوچا اس کو بھی پتہ ہے اس کا صاحب مجھے یہاں کیوں لایا ہے،اور کیا کررہاہے تو اب کیا شرم کرنی،ارشاد نے اس کو کہا بس نہا کر آتے ہیں پھر ناشتہ لگا دو،ارشاد اٹھا اور مجھے بھی ساتھ اندر بنے واش روم میں لے گیا،جہاں ہم دونوں نہائے مل کر،پھر میں نے اپنا ڈریس پہن لیا،اور نقاب بھی،لیکن اس کو منہ پر نہیں رکھا،بلکہ گلے میں لٹکا لیا،ہم باہر آئے تو ارشاد نے بیل بجا کر ملازم کو بلایا اور کہا ناشتہ لگا دو،کچھ دیر بعد ناشتہ لگ گیا،اس دوران بھی ارشاد میرے ساتھ ہلکی پھلکی مستی کرتا رہا،جان من کیسا لگامیرے ساتھ مزہ آیا،میں نے ہلکاسا مکہ اسکے سینے پر مارتے ہوئے اس کا لوڑا دبایا اور بولی مزہ تو آیا،لیکن تمھارا یہ سانڈ بہت بڑا ہے اور درد دیتا ہے،میری بات سن کر ارشاد بولا،اس کا توکام ہی یہی ہے،میں نے کہا جی بالکل،بھلے اگلے کی جان ہی نکل جائے،پھر ہم لوگ وہاں سے نکلے،میں نے نقاب ایک بار پھراوڑھ لیا تھا،ارشاد مجھے اختر بائی کی کوٹھی پر چھوڑ گیا،جہاں صرف چوکیدار ہی جاگ رہاتھا،میں بھی اندر آکر ایک بیڈ روم میں گھس کر سو گئی،دس بجے کے قریب مجھے اختر بائی نے ہی آکر جگایا،اور ناشتے کا پوچھنے

لگی،میں نے بتایا کہ ناشتہ توکرکے آئی ہوں،بس چائے پیؤں گی،پھر ہم نے چائے پی اور اختر بائی نے فائز کو فون کردیا،جو کچھ دیر بعد آکر مجھے لے گیا،گھر آکر میں سو گئی،نہ فائز نے مجھ سے رات کے بارے میں کچھ پوچھا نہ میں نے کچھ بتایا،بعد دوپہر مجھے فائز نے جگایا اور کھانے کا پوچھا،مجھے بھی بھوک لگی تھی،ہم نے باہر سے کھانا منگو

ا کر کھایا،کھانے کے بعد فائز نے مجھے چھیڑتے ہوئے کہا،سیما اب تو تم پرائی ہو گئی ہو،کتنے دن سے مجھے تم نے اپنی چوت نہیں دی،اس کی با ت سن کر میں نے ہنس کر کہا میرے بہن چود بھڑوے بھائی میں تمہیں جو رنگ برنگی پھدیاں دلواتی ہوں ان کا کیا،مزہ نہیں دیتیں کیا،وہ تو ٹھیک ہے،لیکن تمھاری بار الگ ہے،فائز بولا،اچھا ٹھیک ہے تمھارا گلہ بھی دور کردوں گی،لیکن آج نہیں ایک دو دن صبر کرو،جب تک میری چوت اور گانڈ بھی سیٹ ہو جائیں گی،یہ سن کر فائز بولا،کیا مطلب؟؟کیا ہوا تمھاری چوت اور گانڈ کو،میں نے کہا مت پوچھو کیا نہیں ہوا،ستیاناس ہو گیا،ایک رات میں،وہ کیسے،فائز نے استسفار کیا،وہ ایسے میرے ٹھوکو بھائی کہ رات کسی انسان کے ساتھ نہیں ایک جنگلی وحشی درندے کے ساتھ تھی،جس نے تمھاری ننھی منی نازک بہن کا بری طرح سے ریپ کردیا،اب دو تین دن لگیں گئے،سیٹ ہونے میں،،یہ راستہ بھی تو تم نے خود ہی چنا ہے اب میں کیا کروں،فائز بولا،ہاں ٹھیک کہا،لیکن ایک بات ہے یار،رات مزہ بھی بہت آیا،کیا مست لوڑا تھا،ظالم کا اور کیا انداز تھا چودائی کا،میری بات سن کر فائز بولا،تو پھر کیا خیال ہے کیوں نے تمہیں مستقل اسی دھندے سے لگا دیا جائے،اس کی بات سن کر ایک بار تو میری ریڑھ کی ہڈی تک سنسنا گئی،مجھے خاموش اور پریشان ہوتا دیکھ کر فائزہنسا ارے میں تومذاق کررہا ہوں،میری جان میں جان آئی،اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ راستہ ہم نے اپنی مرضی سے شوقیہ چنا تھا،لیکن مستقل اس دھندے میں پڑنے کا مطلب میں خوب جانتی تھی،میں نے بھی ہنس کر بات ٹال دی،لیکن۔۔۔۔

فائز نے یہ بات کیوں کی

اب سیما کے ساتھ وہ کیا کرنا چاہتاتھا۔۔۔

کیا سیما فائز کے وار سے بچ سکی یا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

یہ سب اسی کہانی کے اگلے او رآخری پارٹ میں ملاحظہ فرمائیں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page