Princess Became a Prostitute -64- گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی بہترین کہانیوں میں سے ایک کہانی ۔گھر کی رانی بنی بازار کی بائی۔ جنس کے کھیل اور جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی تحریر۔

بنیادی طور پر ہم ایک منافق معاشرے کے لوگ ہیں،ہمارا ظاہراجلا لیکن باطن تاریک ہے۔ یقین جانئے عورت کو کہیں جائیداد کے نام پر تو کہیں عزت اور غیرت کے نام پر زندہ درگو کیا جارہا ہے،عورت جو قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے،ایک مکمل انسان ہے،جو دل رکھتی ہے،جذبات رکھتی ہے،احساسات کی حامل ہے، لیکن مرد محض اپنی تسکین کی خاطر اس کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے،لیکن اس میں سارا قصور مرد کابھی  نہیں ہوتا،اگر دیکھا جائے تو عورت کی اصل دشمن ایک عورت ہی ہے۔ اس کہانی میں آپ کو سیکس کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ملے گا۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ ایک بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی لیکن وقت کا پہیہ ایسا چلا کہ وہ وہ اپنی خوشی اور اپنوں کی سپورٹ سے گھر سے بازار پہنچ گئی۔ اور بن گئی ۔۔گھر کی رانی  بازار کی بائی

 کہانی کے کرداروں اور مقامات کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں،کسی قسم کی مطابقت اتفاقیہ ہوگی،شکریہ

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی -- 64

پھر ہم نے کچھ دیر ریسٹ کیا،میں نے سب کو دودھ گرم کرکے دیا،دودھ پینے کے بعد کامران نے مجھے اپنی جانب کھینچ لیا اور بولا،جان من ہمیں بھی اپنے جسم کے مزے کرنے دو نا،بہت دن سے تیری چوت اور گانڈ نہیں ماری،میں نے بھی ہنس کر اس کو گلے لگا لیا،اور اس کے ہونٹ چوسنے لگی،یہ دیکھ کر کامران کی بہن سائرہ کو فائز نے کہا کہ میرا لن چوسو،اگر تمھارا بھائی میری بہن کو میرے سامنے چود سکتا ہے تو اس کی بہن کو میں بھی چود سکتا ہوں،سائرہ نے فائز کا لن اپنے منہ میں لے لیا،اور جاوید کو عینی نے پکڑ لیا،اور یوں ہماری چودائی کا تیسرا راونڈ شروع ہوا جو بیس منٹ جاری رہا،جس میں کامران نے میری گانڈ اور چوت دبا کر چودڈالیں،ہم سب بری طرح تھک چکے تھے،اور آدھی رات سے زیادہ کا وقت ہو چکا تھا،فائز نے سب کو سونے کا کہا،میں فائز کے ساتھ وہیں بیڈ پر سو نے کو لیٹ گئی،جبکہ وہ چاروں ساتھ والے بیڈ رومز میں چلے گئے،فائز میرے ساتھ یوں ہی ننگا سو گیا،صبح میری آنکھ کھلی تو دس بجے کا وقت تھا،میں نے سائیڈ پر دیکھا تو فائز غائب تھا،میں سمجھی واش روم میں ہو گا،لیکن جب واش روم کی طرف نظر گئی تو دروازہ کھلا تھا،مطلب فائز باہر ہال میں تھا،میں ابھی نیند میں ہی تھی،یکدم میرے کانوں میں سسکیوں کی آواز پڑی،جب میں اٹھ کر باہر ہال میں آئی تو دیکھا،عینی اور فائز چودائی میں مصروف تھے،عینی فائز کے لن پر بیٹھی سواری کررہی تھی،جب ان کی نظر مجھ پر پڑی تو میں نے کہا کیا وجہ رات پیاس بجھی نہیں جو صبح اٹھتے ساتھ شروع ہو گئے،اس پر فائز نے کہا کیا کروں تم سو رہی تھی،او ر میرا لن صبح سے کھڑا تھا،باہر نکلا تودیکھا عینی بھی جاگ گئی ہے اور ہال میں بیٹھی تھی تو اس کو ہی پکڑلیا،میں نے کہا ٹھیک ہے میرے بہن چود بھائی لگے رہو،میں ناشتہ بناتی ہو ں،جب تک باقی لوگ بھی اُٹھ جائیں گئے،میں کچن میں گئی اور چائے کا پانی رکھ دیا چولہے پر،ابھی میں وہیں کھڑی تھی کہ جاوید اندر داخل ہوا وہ بھی میری طرح فل ننگا تھا،مجھے کچن میں دیکھ کر وہ آگئے بڑھا اور مجھے پیچھے سے اپنے سینے سے لگا کر میرے ممے دبانے لگا اور میری گردن کو چومنے لگا،میں نے کہا کیا ہوا،تمہیں بھی فائزکی طرح جوش آگیا،یہ سن کر وہ بولا باہر تمھارا بھائی عینی کو چود رہا ہے،اندر وہ دونوں بہن بھائی لگے ہیں تو میں نے سوچا میں بھی مزے کرلوں،میں نے ہاتھ پیچھے لے جا کر اس کا لوڑا پکڑ لیا جو تن کر میرے چوتڑوں میں گھس رہا تھا،میرا ہاتھ اپنے لن پر رکھا دیکھ کر جاویدنے مجھے گھمایا اور نیچے بٹھا کر لن میرے منہ میں ڈال دیا،اور میں اس کالوڑا چوسنے لگی،کچھ دیر بعد جاوید نے مجھے وہیں کچن کی سلیب پر بٹھا کر میری ٹانگیں کھولیں اور میری پھدی کو چاٹ کر گیلا کیااور اپنا لن اندر ڈال کر چودنے لگا،یوں کچن میں صبح کے وقت چودائی کا مجھے بہت مزہ آرہا تھا،میرے منہ سے آہیں نکلنے لگیں،آہ آہ آہ آہ جاوید زور سے چودو آہ آہ چودو اف بہت مزہ آرہا ہے،میری پھدی پانی چھوڑنے پر آگئی میں نے جاویدکو اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنا ساتھ چپکا لیا،اور چند لمحوں بعد میری پھدی نے پانی چھوڑدیا،جاوید نے کچھ دیر بعد اپنا لن میری پھدی سے نکال لیا اور مجھے نیچے اتار کر گھمایا اور سلیب پر جھکا کر پیچھے سے لن میری گانڈ میں گھسا کردھکے لگانے لگا،دس منٹ بعد اس کے لن نے میری گانڈ میں ہی منی چھوڑ دی،اور وہ کچھ دیرمیرے اوپر ہی پڑا اپنا سانس درست کرتا رہا پھر میرے ہونٹ چوم کر باہر نکل گیا،میں نے چائے کا پانی دیکھا تو سوکھ چکا تھا،میں نے چولہا بند کیا اور واش روم چلی گئی،اور نہانے لگی،نہا کر میں نے کپڑے پہنے اور دوبارہ کچن میں جا کر ناشتہ بنایا،اتنی دیر میں سب لوگ اپنی گرمی نکال کر نہادھو کر کپڑے پہن چکے تھے،ناشتے کے دوران سب کی ایک دوسرے کے ساتھ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ جاری رہی،پھر وہ چاروں اپنے گھروں کو نکل گئے،اور فائزبھی مجھے ساتھ لے کر مارکیٹ نکل گیا،جہاں سے ہم نے ہفتے بھر کے لئے سبزی،گوشت وغیرہ لیا،اورگھر آگئے،دن کو میں نے کھانا بنایا،ابھی ہم کھانا کھاہی رہے تھے کہ باہر گیٹ کی بیل بجی،فائز نے جا کر گیٹ کھولا تو باہر فائق بھائی کی گاڑی کھڑی تھی،فائز نے بڑا دروازہ کھول دیا،فائق بھائی اند ر آگئے،میں ان کو دیکھا کر کھڑی ہوگئی،فائق بھائی نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا،اور بیٹھ گئے ہم نے ان سے کھانے کا پوچھاتو وہ منع کرنے لگے کہ میں کھانا کھا کر آیا ہوں،فائق بھائی کا یوں اچانک گاؤں سے آنا ہمارے لئے کوئی پریشانی کا باعث نہیں تھا،وہ اکثر ایسے ہی بنا بتائے آجایا کرتے تھے،ہم دونوں نے کھاناکھایا،کھانے کے بعد میں نے سب کے لئے چائے بنائی،چائے کے دوران فائق بھائی نے بتایاکہ وہ ایک کام سے آئے تھے شہر تو سوچا ملتا چلوں،انھوں نے مجھ سے پوچھا گاؤں جانے کے لئے میں نے فائز کی طرف دیکھا،فائق بھائی نے یوں مجھے فائز کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا،اس کی طرف کیا دیکھ رہی ہو،یہ کوئی منع تھوڑی کرے گا،میں نے کہا نہیں بھائی ایسی بات نہیں،وہ یہاں کھانے پکانے کا مسئلہ ہوتاہے اس لئے،میری بات سن کر فائق بھائی نے کہا کوئی نہیں کچھ دن ہوٹل سے کھا لے گا،تم چلو گاؤں کچھ کا م بھی ہے تم سے،میں نے کہا جی ٹھیک،پھر ہم دونوں بہن بھائی گاؤں کی طرف نکل پڑے،راستے میں بھائی کے ساتھ ہلکی پھلکی باتیں ہوئی شام کو ہم لوگ گاؤ ں پہنچے،میں کافی دن بعد آئی تھی تو بہت اچھا لگ رہا تھا،اپنی حویلی،کھیت،ٹیوب ویل،کھلی فضا،سب بھلا لگ رہا تھا،ریشماں مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی،وہ پہلے سے زیادہ موٹی لگ رہی تھی،وہ تو بعد میں پتہ چلا،کہ اُمید سے ہے اور آٹھواں مہینہ چل رہا ہے،ریشماں اب صر ف حویلی کے کاموں کی نگرانی کرتی تھی،کیونکہ اس کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی،رات کو بھی مجھے اماں کے بیڈروم میں اکیلے سونا پڑا،بہت دنوں بعد ایک تو اکیلے دوسرا حویلی میں سونے سے ڈر بھی لگ رہا تھا اور ساتھ ذہن پر یادوں کا بوجھ بھی لد آیا،مجھے اماں اور ابا یاد آگئے،اور چند سال پہلے والی سیدھی سادھی سیما،جو زمانے کی اونچ نیچ سے ناواقف تھی،اور رہا سیکس تو اسکے بارے میں کوری،لیکن ان چند سالوں نے اس کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا،بیتے دن آنکھ کے پردے پر ایک ایک کرکے گزرنے لگے،اور میں لیٹی سوچ رہی تھی کہ آگے اس سب کا انجام کیا ہوگا؟؟؟اور ساتھ ہی فائق کی بات یاد آگئی کہ کام ہے ضروری گاؤں چلو،اس ادھیڑ بن میں نیند کی وادیوں میں جا کھوئی،صبح آنکھ کھلی تو سات بج رہے تھے۔میں نے منہ ہاتھ دھویا کمرے سے باہر آئی تو کام والی آچکی تھی اس کے ساتھ ریشماں بھی تھی،انھوں نے مجھے ناشتہ کروایا،ناشتہ کرکے میں کچھ دیر حویلی میں ہی گھومتی رہی،پھر ریشماں کو ساتھ لے کر گاؤں کے دورے پر نکل گئی،فائق تو ابھی بھی رات کو ڈیرے پر ہی ہوتا تھا،اس لئے اس کا مجھ سے آمنا سامنا نہیں ہوا،دن کو کھانے کے وقت ہم لوگ واپس آئے،کھانا کھا کر میں نے کچھ دیر آرام کیا،شام کو چائے پر فائق بھائی بھی آگئے،انھوں نے مجھے کہا کہ اماں اور ابا تو ا ب رہے نہیں،میں ہی تم دونوں کا بڑا ہوں،لہذا میں تمہیں اسلئے گاؤں لایا ہوں کہ تمھارے ساتھ کچھ بات کرسکوں،دیکھو اب تم بڑی ہو گئی ہو،تمھاری شادی کی عمر ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خاندان میں تمھارے برابر کا کوئی لڑکا موجود نہیں،اس لئے میں نے روایت سے ہٹ کر فیصلہ کیا ہے کہ تمھارے حصے کی جائیداد تمھارے نا م کردوں اور تم شہر میں اپنی پسند کی شادی کرسکتی ہو،میں فائق بھائی کی بات سن کر رونے لگی،ہمارے خاندان میں آج تک ایسا نہیں ہوا تھا،کہ لڑکی کو جائیداد میں سے حصہ دیا جائے،یا اس کو پسند کی شادی کرنے کے اجازت دی جائے،لیکن فائق بھائی یہ راویت توڑ کرایک نیا رواج ڈال رہے تھے،میں نے ان کی بات سن کر بس اتناکہا،جیسے آپ کی مرضی بھائی،فائز بھائی نے پوچھا تمہیں کوئی پسند ہے،میں نے کہا نہیں،اس پر انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا،اور اندر چلے گئے،کچھ دیر بعد جب وہ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک فائل تھی،جو انھوں نے مجھے دی،سیمایہ تمھاری جائیداد کے کاغذات ہیں ان کو سنبھال کررکھنا،اب کے شہر جاؤ،تو اپنا بنک اکاؤنٹ کھلوا لینا،میں پیسے تمھارے اکاؤنٹ میں جمع کروا دوں گا،میں نے جی بھائی ٹھیک ہے،آ پ کے ہوتے مجھے کسی چیزکی ضرورت نہیں،سیما ہم دشمن دار لوگ ہیں،زندگی موت کا کوئی بھروسہ نہیں،میں نے فائز کے نام بھی اس کے حصے کی جائیداد کروا دی ہے اور اس کے اکاؤنٹ میں رقم بھی منتقل کردی ہے،میں اپنی فائل اٹھائے اند ر اپنے بیڈ روم آگئی،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گھر کی رانی بنی بازار کی بائی ۔۔کی اگلی قسط بہت جلد  

پچھلی اقساط کے لیئے نیچے کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page