Unique Gangster–105– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -105

وه بولیتمہارا دماغ تو ٹھیک ہے جسے تم معمولی بات بول رہے ہو وہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے ۔۔تمہیں تو یہ تک نہیں پتا کے جن لوگوں کے ساتھ تمہارا جگڑا ہوا اور جس کو تم نے تھپڑ مارا ہے وہ کتنے خطرناک ہیں ڈفر کہیں کے۔۔۔ اگر تمہاری جگہ یہ حرکت فہد نے کی ہوتی تو میں اب تک اسے ان کے پاس لے جا کر معافی منگوا چکی ہوتی۔ پر تمہیں میں ایسا کچھ نہیں کہہ سکتی اس لئے صرف اتنا ہی بولوں گی محتاط رہنا وہ لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں

میں بولا : تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں دیکھ لوں گا سب  اور  رہی بات ان کی تو ایسے بہت دیکھے ہوئے ہیں میں نے۔

وه بولی :جو بھی ہے تم اپنا خیال رکھنا مجھے بہت فکر ہو رہی تمھاری۔

میں بولا:۔ اچھا چھوڑو ان باتوں کو اور یہ بتاؤ کیا تم مجھے گاڑی چلانا سیکھا سکتی ہو ؟ مجھے سیکھنی ہے۔

وه بولی:ہاں ضرور یار اس میں پوچھنے والی کونسی بات ہے جب تم فری ہو بتا دینا میں آجاؤں گی

میں بولا: نہیں کہیں آنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کل سے کالج کے بعد روز ہی میں تمھارے ساتھ ہی  جاؤں گامیری بات سن کر کومل کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔۔وہ مسکرا کر میرے ہاتھ کو دباتے ہوۓ بولیٹھیک ہے میں تیار رہوں گی

اس کے بعد میری منڈلی بھی وہاں ہی آ گئی جن کے آتے ہی کومل نے میرے ہاتھ چھوڑ دیئے تھے ۔۔ان سب سے مل کر میں وہاں سے اپنی بائیک نکال کر کالج سے باہر نکل آیا ۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

وہیں دوسری طرف  آج بھی تمنا نے مصباح اور سمیرا سے بہت ساری باتیں کئی تھیں ۔۔اس کے گروپ کے ساتھ اتنا سب کچھ ہوا تھا لیکن وہ سب کو پیچھے رکھ کر ان کے پاس آج بھی آئی تھی  اور ان سے ہنستے ہوئے باتیں کر رہی تھیں کیونکہ اس کا ان دونوں کو اپنے ساتھ ملانا بہت زیادہ ضروری تھا اور بھلا ایسے ہو سکتا تھا کیا کے کوئی  نیا پنچھی آئے اور  تمنا اسے چھوڑ دے؟  نہیں بلکل بھی نہیں ہو سکتا تھا اسی لئے وہ وہیں مصروف تھی ۔۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

میں کالج سے نکل کر حویلی کی جانب روانہ ہوا تو راستے میں مجھے یاد آیا کے میں نے زویا کے پاس جانا تھا ۔۔ ۔۔زویا کی طرف جانا یاد آتے ہی میں نے بائیک کو وہیں پر کھڑا کیا اور اپنا موبائل نکال کر زویا کو کال ملا دی تیسری بیل پر ہی اس نے کال اٹینڈ کی اور بولی ”  زہ نصیب اتنے دنوں بعد آج کیسے میری یاد آگئی تمہیںاس کی بات سن کر میں مسکراتے ہوۓ بولایاد اسے کیا جاتا ہے جسے بندا بھول گیا ہو۔ تم تو ہر وقت مجھے یاد آتی رہتی ہو۔میری بات سن کر وہ کھلکھلا کر ہنستے ہوۓ بولی ”  اچھا اچھا زیادہ ڈرامے کرنے کی ضرورت نہیں ہے سیدھا سیدھا بتاؤ کیا کام پڑ گیا ہے اب ”  اس کی بات سن کر ایک لمحے کے لئے تو میں جھینپ سا گیا مگر جلد ہی اپنے تاثرات پر قابو پا کر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوۓ بولاکیا میں تمہیں صرف کام کے وقت یاد کرتا ہوں

وہ بولی : اچھا اچھا زیادہ مظلوم بننے کی ضرورت نہیں ہے میں نے ویسے ہی کہا تھا ۔۔ اب یہ ناراضگی کا ناٹک ختم کرو اور بتاؤ کال کیوں کی تھی آج سلطان صاحب نے

میں بولا :کچھ خاص نہیں بس تم سے ملنے کا دل تھا اگر تم فری ہو تو ؟

وه بولیتو اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے بھلا جب تمہارا دل کرے تم آجاؤ ملنے کے لئے ۔۔تمہیں اجازت لینے کی ضرورت تو نہیں ہے ۔۔یوں اجازت لے۔ کر تو تم مجھے اجنبی کر رہے ہو ”  اس کی بات سن کر میں کھلے دل سے مسکراتے ہوۓ بولانہیں ایسی بات نہیں ہے ۔۔مجھے ابھی تم سے ملنا ہے کیا تم فری ہو ؟

وہ بولی:   ہاں تم آ جاؤ میں بھی لنچ کرنے لگی ہوں

میں بولا:۔ تو ٹھیک ہے باہر کھڑے  اپنے حوالدار سے کہہ دینا  مجھے اندر جانے دیں ۔۔۔ایسا نا ہو کے وہ مجھے پکڑ کر بٹھا دے یا پھر گھر میں بیوی سے لڑ کر آیا ہو اور اس کا غصہ مجھ پر اتار دے دو تین تھپڑ لگا کر ۔۔ویسے بھی  پولیس والوں کا کوئی پتا نہیں چلتا کب ان کا دماغ کسک جائے اور کسی اور کا غصہ غریب عوام پر نکال دیں

وه بولی: اب یہ کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے ۔۔جتنا عوام کی نظروں میں ہم ولن بنے ہوۓ ہیں اتنے ہیں نہیں ۔۔۔ویسے بھی ہم تو عوام کی خدمت کے لیے یہاں موجود ہیں

باقی جو بھی باتیں ہیں ناں آکر، کر لینا۔ جلدی آؤ کہیں ایسا نہ ہو کے تمہاری باتوں کے چکر میں  کھانا ٹھنڈا ہو جاۓ۔اس کی بات سن کر میں نے اوکے کہہ کر کال کٹ کی اور بائیک کو ہوا کی رفتار سے بھگاتا ہوا  تھانے پہنچ گیا جہاں زویا اپنی کیبن میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔

 بائیک کو وہیں پارکنگ میں کھڑا کر کے میں نے لاک کیا اور وہاں سے سیدھا اندر تھانے کی۔ عمارت میں داخل ہو گیا ۔۔اندر انٹرنس پر موجود ۔حوالدار سے میں نے میڈم کے بارے پوچھا  تو پہلے تو اس نے مجھے غور سے نیچے سے لے کر اوپر تک دیکھا پھر مجھے زویا کے کمرہ کی لوکیشن بتائی اور مجھے اندر جانے کی اجازت دے دی  ۔

زویا کے کمرہ کے پاس جا کر میں نے دروازہ پر دستک دی تو اندر سے کم ان کی آواز سنائی دی ۔۔اجازت ملتے ہی میں اندر داخل ہوا تو دیکھا  زویا کے سامنے لنچ پڑا ہوا تھا پر وہ ابھی تک اسے کھا نہیں رہی تھی۔۔ میرے اندر پہنچتے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ مسکراتے ہوۓ بولیاس طرف اندر جا کر ہاتھ دھو کر جلدی سے آؤ میں کب سے تمہارا ہی انتظار کر رہی ہوںاس کی بات سن کر میں نے مزید کوئی سوال جواب کئے سیدھا اندر واش روم میں داخل ہوا اور ہاتھ منہ دھو کر باہر آکر زویا کے سامنے بیٹھ گیا ۔۔کمرہ فلی فرنشڈ تھا ۔۔سنٹر میں ٹیبل پڑا تھا جس کے اوپر ایک طرف فائل پڑی ہوئی تھیں تو ایک طرف صوفے لگے ہوۓ تھے ۔۔یہ کسی تھانے کے کمرہ سے زیادہ کسی پراپرٹی ڈیلر کا آفس معلوم ہو رہا تھا ہر چیز نہایت سلیقے سے اپنی جگہ پر موجود تھی ۔۔مجھے کمرہ میں نظر دوڑاتے دیکھ کر اس نے مجھے ٹوکتے ہوۓ کہاپہلے کھانا کھا لو اس کے بعد آفس دیکھ لینا کیسا ہےاس کی بات سن کر میں خاموشی سے اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا ۔۔کھانا کھانے کے بعد ہمارے بیچ کچھ دیر ادھر ادھر کی نارمل باتیں ہوتی رہی کچھ  باتوں کے بعد میں نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ والا کاغذ نکالا جس پر سب لڑکیوں کے یتیم خانے والے ایڈریس طے تھے اور زویا کی طرف وہ کاغذ  بڑھاتے ہوئے بولامجھے تمہاری مدد چاہیے اس معاملے میں

 وہ بولیکیسی مدد چاہئے اور اب یہ کونسا معملہ ہے ؟

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page