Unique Gangster–142– انوکھا گینگسٹر قسط نمبر

انوکھا گینگسٹر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ  کی طرف سے پڑھنے  کیلئے آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے۔ ایکشن ، رومانس اورسسپنس سے بھرپور ناول  انوکھا گینگسٹر ۔

انوکھا گینگسٹر — ایک ایسے نوجوان کی داستان جس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا بازار گرم کیا جاتا  ہے۔ معاشرے  میں  کوئی  بھی اُس کی مدد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اس کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کو صرف اس لیے  چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی کمزور اور بے بس  ہوتا۔

لیکن وہ اپنے دل میں ٹھان لیتاہے کہ اُس نے اپنے خاندان کا بدلہ لینا ہے ۔تو کیا وہ اپنے خاندان کا بدلہ لے پائے گا ۔۔کیا اپنے خاندان کا بدلہ لینے کے لیئے اُس نے  غلط راستوں کا انتخاب کیا۔۔۔۔یہ سب جاننے  کے لیے انوکھا گینگسٹر  ناول کو پڑھتے ہیں

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

انوکھا گینگسٹر قسط نمبر -142

ناصرہ ایک بار پھر انتہا پر پہنچ گئی اور خود ہی مستی میں اپنے بال نوچتے ہوئے جھٹکے کھاتی جھڑنے لگی۔ وہ میرے اوپر گر گئی۔ میں نے پھر سے ناصرہ کو پلٹ کر نیچے کیا اور ان کی ٹانگیں اٹھا کر زوردار دھکے مارنے لگا۔ اب میرا بھی ٹائم قریب ہوچکا تھا۔ اِس لیے میری سپیڈ بہت تیز ہوگئی تھی۔ لنڈ اور پھدی کے ملن سے نکلتی پچک پچک کی آوازیں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں۔ لاسٹ میں، میں تیز غراہٹ کے ساتھ جڑ تک لنڈ پھدی میں گھسائے ناصرہ پر ڈھیر ہوگیا اور وہ بھی مجھے بانہوں میں زور سے کَس کرتی میری پیٹھ میں اپنے ناخن گاڑھتے ہوئے مستی میں ڈوب چکی تھی۔ لنڈ پچکاریاں مارتے ہوئے ناصرہ کی پھدی بھر رہا تھا۔اور ہم دونوں نڈھال ہوچکے تھے۔

لیکن چند لمحے بعد اچانک نیچے سے آواز سن کر ہم ہوش میں آگئے۔ اور جلدی سے اپنا اپنا حلیہ درست کرکے نیچے اترنے لگے۔

نیچے اترتے ہی نمرہ اور سمینہ صحن میں کھڑی ہوئی  آپس میں باتیں کررہی تھیں۔

نمرہ بولی۔ سلطان اپنے کمرے کی یاد آتی  بھی ہے یا نہیں؟

میں بولا کیوں نہیں۔۔۔ اس لئے تو ابھی دیکھنے  چلا آیا  اوپر۔

ہمارے درمیان خوش گپیوں کا سلسلہ اگلے ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا  جب کہ اس دوران سمینہ کی نظریں ناصرہ اور مجھ پر بار بار اٹھ رہی تھی۔ اور میں دھیان ہٹاتا  رہا۔

چند پل مزید بیٹھنے کے بعدپھر میں وہاں سب سے اجازت لے کر اپنی حویلی چلا آیا۔

حویلی پہنچ کر جب میں نے حویلی کا نقشہ دیکھا تو میں ایک دفعہ تو دنگ رہ گیا۔

مجھے لگا ہی نہیں کہ میں اپنی حویلی آیا ہوں،  مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میں کسی اور جگہ گھس آیا ہوں۔

 باہر مین گیٹ سے لے کر اندر دروازے تک پھول ہی پھول تھے۔

اور یہی نہیں کہ جہاں دل کیا وہاں لگا دیا ایسا بلکل نہیں تھا ہر چیز بہت زیادہ ڈسپلن کے ساتھ اپنی جگہ پر تھی۔

میں نے بائیک سامنے بنے گیراج میں پارک کی اور اندر کی طرف بڑھا۔

جب میں دروازہ کھول کر اندر گیا تو ایک دفعہ پھر داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔

سامنے مکمل سیٹنگ چینج تھی۔ حویلی  کا  نقشہ ہی چینج ہو چکا تھا۔

لبنی نے ان 15 دنوں میں حویلی کو مکمل طور پر بدل دیا تھا اس حویلی کی خاص بات یہ تھی کہ یہ جتنی اوپر تھی اتنی نیچے تھی مطلب اس کے تہہ خانے میں بھی اتنے ہی کمرے موجود تھے۔

اندر سامنے ہال میں صوفے پر لبنی اور علیزے بیٹھی ہوئی آپس میں گپيں مار رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی دونوں کھڑی ہو گئیں اور  مجھے سلام کیا۔ میں نے بھی ان کے سلام کا جواب دیا اور لبنی کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔ 

مجھے تم سے یہی امید تھی تم نے میری سوچ سے زیادہ اچھا کام کیا ہے ۔

وه بولی۔ شکریہ

جب تک ہم دونوں بات کر رہے تھے۔ اتنے میں باقی ساری لڑکیاں بھی اوپر آ گئیں اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ سبھی نے ایک طرح کے ڈریس پہن رکھے تھے۔

میں بولا یہ سب کس کا آئیڈیا تھا اور یہ ڈریس کوٹ بالکل ایک جیسا یہ کس لیے۔۔۔

وه بولی۔ یہ ڈریس کوٹ کا آئیڈیا میرا تھا کہ جب ہم پریکٹس کے لیے جائیں تو ہم سب کا ڈریس ایک جیسا ہو اور جب سونے کے لیے بھی جائیں تب بھی سب کا ڈریس ایک جیسا ہو ۔

میں بولا۔ یہ اچھا آئیڈیا ہے مجھے پسند آیا اور باقی یہ بتاؤ تمہاری ٹریننگ کہاں تک پہنچی ہے۔

وہ بولیں۔۔۔ ہماری ٹریننگ بہت اچھی چل رہی ہیں اور کافی کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے اب ہم لوگ اٹیک اور ڈیفنس دونوں میں ماسٹر ہو چکے ہیں اور ماسٹر کہہ رہے تھے کہ اب ایک دو دِنوں میں آپ لوگوں کو گن کی ٹریننگ بھی دی جائے گی۔

میں بولا۔۔۔ گڈ۔۔!  اگر مجھ سے کوئی ہیلپ چاہیے ہو تو مجھے بتا دینا۔

وه بولیں۔ ٹھیک ہے ہم بتا دیں گے اور آپ بتائیں آپ کا کام ہوا جس کےلیے گئے تھے۔

میں بولا ۔ ہاں وه کام ہو گیا ہے۔

لبنی بولی۔ چلو اپنا بیگ یہاں رکھ دیں اور چلیں میرے ساتھ آپ کو کچھ دکھانا ہے۔

میں نے اپنا بیگ وہاں پر رکھ دیا اور لبنی سے بولا چلو جی دیکھ آتے ہیں آپ نے کیا دکھانا ہے۔

لبنی بولی۔ کچھ سیٹنگ چینج کی ہے بس وہی تمہیں دکھانی ہے۔

میں بنا کچھ کہے لبنی کے ساتھ حویلی کے اندر چلا گیا تو وہ مجھے لے کر سیدھا تہہ خانے میں چلی گئی تہہ خانے کو اندر سے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ یہ وہی تہہ خانہ تھا جہاں ایک بار جانے کا بھی دل نہیں کرتا تھا۔ وہی تہہ خانہ اتنی خوبصورتی سے تیار کیا گیا تھا ہر جگہ الیکٹریسٹی کی سہولیات مہیا ہو گئی تھی اور سب کمروں کو بالکل کلین کر کے ان کے اندر بیڈ وغیرہ لگائے گئے تھے اور ایک ہال بنایا گیا تھا جسے ہم پہلے بھی استعمال کرتے تھے۔ لیکن اب کی بار وہ اور بھی زیادہ خوبصورت اور ایڈجسٹمنٹ کی گئی تھی جس کو دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔

پیسوں کےلیے بھی کمرہ نیچے ہی بنایا گیا تھا۔

ایک روم کو اس طرح تیار کیا گیا جیسے اس کے اندر تمام ضروریات کی چیزیں یعنی كمپیوٹر اور ڈیٹا کو محفوظ رکھا جا سکے۔

 اور ایک بڑی سی ایل سی ڈی لگا کر پورے گھر پر نظر رکھی جا سکے۔ 

میں لبنی کی پوری کی پوری كارکردگی سے بہت زیادہ امپریس ہوا اور اس سے بولا۔

تم نے کمال کر دیا۔ یہ پوری سیٹنگ کمال کی ہے۔

لبنی بولی۔ ابھی آپ کا کام باقی ہے ہم جس روم میں کھڑے ہیں اس کا سارا سامان منگوانا ہے اور اس کی سیٹنگ بھی کرنی ہے۔

میں بولا۔ ٹھیک ہے تم ایک لسٹ بناؤ تب تک میں تھوڑا فریش ہو کر آتا ہوں۔

وه بولی۔ گھر کا سامان بھی لانا ہے۔

میں بولا۔ ٹھیک ہے سب کی لسٹ بناؤ میں آگیا ہوں اب سب لادونگا۔

اتنا بولنے کے بعد میں سیڑھیاں چڑھتا تہہ خانے سے اوپر آگیا اور سیدھا اپنے روم میں جا کر ایک دفعہ فریش ہونے کیلئے واشروم میں جا گھسا۔کیونکہ ناصرہ کی دمدار چدائی کے بعد جسم ٹوٹتا جارہا تھا۔

نہا کر فریش ہونے کے بعدکپڑے چینج کرکے باہر نکلا تو لبنی نے لسٹ بنا رکھی تھی۔

میں نے موبائل نکال کر سب سے پہلے صبیحہ کو کال کی اور اسے کہا کہ تیار ہوجاؤ میں تمہیں لینےآ رہا ہوں۔ تھوڑی دیر میں مارکیٹ جانا ہے۔

وه بولی۔ ٹھیک ہے میں ریڈی ہوں۔

صبیحہ سے بات کرنے کے بعد میں نے اپنی بائیک نکالی اور سیدھا اس کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ دروازے پر پہنچ کر جب میں نے بیل بجائی تو دروازہ صبیحہ  نے کھولا اور سیدھا مجھے اندر کمرے میں لے گئی۔

میں اندر گیا تو اس نے بانہیں میری گردن میں ڈال لی اور بولی۔

بہت جلدی میں ہوتے ہو  ہر وقت مسٹر۔  آتے ہی ریس کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہو اور ہم غریبوں کے لیے تمہارے پاس دو منٹ کا بھی وقت نہیں ہے۔

میں بولا۔ کیا کر رہی ہو تمہاری بہن آجائے گی اور  نئی مصیبت میں پھنس جائیں گے  نہ کرو۔ 

وه بولی۔ وه ابھی نہیں آئے گی بازار گئی ہوئی ہے کچھ سامان لانے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

Leave a Reply

You cannot copy content of this page