جدوجہد کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے ۔
جدوجہد کہانی ہے ایک کمپیوٹر انجینئر کی جو کریٹیو دماغ کا حامل تھا ۔ اُس نے مستقبل کا کمپیوٹر بنایا لیکن حکومت وقت نے اُس کی کوئی پزیرائی نہیں کی ۔ تو اُس کو ایک اور شخص ملا جس نے اُس سے اُس کے دماغ کی خریدنے کا سودا کیا ، اور اُس کی زندگی کے 4 خرید لیئے ۔ کس لیئے ؟ ۔ کمپیوٹر انجینئر نے اُس کے لیئے آخر ایسا کیا کام کیا۔ دیکھتے ہے کہانی پڑھ کر ۔
-
Raas Leela–10– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–09– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–08– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–07– راس لیلا
October 11, 2025 -
Raas Leela–06– راس لیلا
October 11, 2025 -
Strenghtman -35- شکتی مان پراسرار قوتوں کا ماہر
October 11, 2025
جدوجہد قسط نمبر 02
مجھے کیا کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کے اپ کہاں چلے گئے تھے۔۔۔ یہ تو اپ کو ہی معلوم ہو گا کہ اپ کہاں گئے تھے ۔
اس کی بات سن کر میں بولا۔۔۔کمال کی بات ہے مجھے کچھ یاد نہیں آرہا ؟۔خیر اس صبح جب میں کمرے میں نہیں ملا تو تم نے کیا کیا تھا ؟۔۔۔ میں نے بختو سے پوچھا
تو وہ بولا۔۔۔ ہونا کیا تھا میرا تو دماغ کام کرنا بند کر گیا تھا۔ میں کچھ بھی سوچ نہیں پا رہا تھا میں حیران پریشان ہر جگہ آپ کو آوازیں دے رہا تھا۔ مالک مالک کہہ کر بلا رہا تھا۔ لیکن آپ کی آواز کہیں سے بھی نہیں آرہی تھی اور آتی بھی کیسے آپ ہوتے تو جواب دیتے ۔۔میں انتہائی پریشانی کی حالت میں اِدھر اُدھر دوڑ رہا تھا۔۔ مجھے اپنی روزانہ کی روٹین اچھی طرح سے یاد ہے۔ آپ نے کہا تھا کے آپ رات کو بھلے ہی کتنے بھی لیٹ سوئیں ہوں لیکن صبح سات بجے میں آپ کو بیڈ پر چائے لا کر دوں۔ وہی میں نے اس صبح بھی کیا تھا، آپ بیڈ پہ نہیں تھے۔ تو میں تھوڑا سا حیران ہوا تھوڑا چونکا بھی میں نے سوچا آپ باتھ روم میں گئے ہوں گے ،اور میں اونچی آواز میں چائے کا کہہ کر جانے لگا تھا کہ میں نے باتھ روم کا دروازہ دیکھا کنڈی باہر کی طرف سے لگی ہوئی تھی ۔ میں باتھ روم تک گیا اور کنڈی کو دیکھتے ہوئے سوچا کہ اگرآپ واش روم میں بھی نہیں ہیں تو آپ کہاں ہو سکتے ہیں ۔اب تو میں پاگلوں کی طرح سارے فلیٹ میں آوازیں دے دے کر ڈھونڈنے لگا ۔مگر اپ کہیں نہیں ملے۔ پھر میری نظر اس کھڑکی پہ پڑی جو پیچھے والی سروس لائن میں کھلتی ہے ۔وہ کھلی ہوئی تھی ۔ میں بری طرح چونکا کیونکہ آپ اسے کبھی نہیں کھولتے تھے ۔ایک بار میں نے کھول دی تھی تو آپ بہت ناراض ہوئے تھے۔ کہا تھا کے آئندہ اسے نہ کھولنا ،اِدھر سے بدبو اتی ہے ۔ ویسے بھی اے سی میں سوتے تھے تو اسے کھولنے کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔ کمرے کے اے سی اسی طرح چل رہا تھا۔یہ سب دیکھ کے مجھے لگا کہ شاید آپ کے ساتھ کوئی انہونی ہوئی ہے۔
میں بختو کی بات بڑے ہی غور سے سن رہا تھا ۔۔چند لمحے خاموش رہ کر ان سبھی باتوں پر غور کرنے کے بعد میں نے دوبارہ اس سے پوچھا کے اس کے بعد کیا ہوا؟؟؟؟؟
تو بختو نے جواب دیا ۔۔۔جب میری کچھ سمجھ میں نہ آیا تو سب سے پہلا فون میں نے سارا میم صاحب کو کیا ۔
بختو کے منہ سے سارا کا نام سن کر میرے ذہن میں ایک دھماکہ سا ہوا حیرانگی کے سبب میری آنکھیں کھل گئی تھی۔ مجھے اس طرح حیران ہوتا دیکھ کر بختو دوبارہ بولا
کیا آپ کو ان کے بارے میں کچھ یاد نہیں ؟
ابھی وہ اتنا ہی کہ پایا تھا کے آگے سے میں جواب دیتے ہوئے بولا ۔۔۔وہ سب یاد ہے مجھے اس رات کی بھی سب باتیں یاد ہیں، لیکن خیر پہلے تو بتا فون کرنے پہ سارا یہاں آئی تھی کیا؟
میری بات سن کر وہ بولا۔۔۔کیا بات کرتے ہیں مالک ایسے بھلا ہو سکتا ہے کہ آپ کے بارے میں فون پر ایسی بات بتاتا اور سارا میم صاحب نہ آتی، وہ بیچاری اس وقت تک نہائی بھی نہیں تھی ، نہ ہی فریش ہوئی تھی ان کا حلیہ دیکھ کے ہی پتہ چل رہا تھا کہ وہ ابھی ابھی بستر سے ہی اُٹھی ہیں ، جس حال میں تھی اسی حال میں دوڑی چلی آئی آپ کے غائب ہونے پہ مجھ سے بھی زیادہ وہ گھبرا گئی تھی۔ انہوں نے فورا ہی پولیس کو فون کیا ، پولیس نے تحقیقات کے بعد کہا کہ کھڑکی کے راستے سے آپ خود ہی کہیں چلے گئے ہیں۔ مگر یہ بات میرے حلق سے نہیں اُتری کیونکہ آپ کو کہیں جانا ہوتا تو آپ دروازے سے جاتے آپ کو روکنے والا کون تھا؟۔ یہ گھر آپ کا ہے میں نوکر ہوں آپ کا میں آپ کو کیسے روک سکتا تھا۔ آپ کھڑکی کے راستے سے جانے کے بجائے دروازے کا راستہ استعمال کرتے ،آپ بھلا اس راستے کو کیوں استعمال کرتے جس راستے کی بدبو بھی آپ سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔
ٹھیک کہہ رہے ہو تم ۔۔۔ارمان نے کہا ۔۔۔اپنی مرضی سے نہیں گیا تھا میں۔
ارمان نے اپنے دماغ کو کھنگالنے کی کوشش کی ۔
اس کا مطلب سب کچھ یاد آرہا ہےآپ کو ۔۔۔بختو نے کہا
نہیں سب کچھ تو نہیں مگر اس رات کے کچھ خیالات ضرور یاد آرہے ہیں ۔۔۔ارمان نے کہا
کیا یاد ا رہا ہے آپ کو ؟۔۔۔بختو نے پوچھا
ارمان کا منہ جواب دینے کے لیے کھلا ، مگر دماغ نے اسے بیچ میں ہی روک دیا کہ یہ باتیں بختو کے لیول کی نہیں ہیں انہیں ان باتوں کی سمجھ کہاں ،اب ارمان کو بہت کچھ یاد آ رہا تھا۔ جام ہوا دماغ ایک دم چلنا شروع ہو گیا تھا۔ جیسے بند پڑی کوئی مشین ایک دم کرنٹ سپلائی ہونے پر چل پڑتی ہے۔ 24 اگست 2000 کی رات ایک بڑے پردے پر اس کے دماغ میں فلم کی طرح چلنا شروع ہو گئی تھی۔
چوبیس اگست دوہزار بیس کی رات تین بجے
بات سرینا ہوٹل کی ہے روز کی طرح کافی رش تھا آج بھی، عام طور پر وہاں کسی کو کسی سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ سب اپنے اپنے گروپس میں مست رہتے تھے، مگر آج کی بات ذرا الگ تھی ، آج پاکستان انڈیا کا کرکٹ میچ تھا سبھی کی نظر ٹی وی سکرین پہ جمی تھی۔ مگر ارمان کو جیسے اس رش سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا ۔اس کے ساتھ اس کی تنہائی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ خود میں گم ایک ٹیبل پر بیٹھا، وسکی کی چسکیاں لے رہا تھا وہ ، تبھی ایک لڑکی نزدیک آئی لڑکی کیا تھی شعلہ تھی آگ تھی ، اس کے جسم کی گرمی کو ارمان نے محسوس کیا، انتہا کی حسین بلا کی خوبصورت۔
کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں ۔۔۔لڑکی نے ایسا کہا
تو ارمان کو لگا جیسے کسی فقیر کی لاٹری نکل آئی ہو ، لڑکی کے جسم کے ساتھ چپکے ہوئے لباس سے اس کا ایک ایک جسم کا حصہ خوب نمایاں ہو رہا تھا۔
اُف کمال ۔۔۔منہ سے صرف ایک یہی لفظ نکلا
ارمان یک ٹک اُس کو دیکھے جارہاتھا۔اُس کا لمبا قد، پتلی کمر اور جو حصے بھاری ہونے چاہیے وہ اپنی مناسبت سے اسی طرح بھاری تھے، اندر کو گیا پیٹ ، اور باہر کو نکلے پستان ،اور باہر کو نکلی ہوئی اُس کی خوبصورت گانڈ۔
تبھی اس کے بالوں کی ایک لٹ باقی لوٹوں سے بغاوت کر کے دائیں گال پہ جھول گئی۔ اور بار بار اس کے گال کو چھونے لگی ۔ ارمان کو لگا کالی ناگن اس کے دل پہ منڈلا رہی ہے۔ اس نے اپنی نیل پالش لگی ہوئی نازک انگلیوں سے اس لٹک کو اپنے کان کے پیچھے سیٹ کرتے ہوئے کہا
میں نے اپ سے یہاں بیٹھنے کی اجازت چاہی تھی؟۔
ارمان اس کو بیٹھنے کی اجازت تو دینا چاہتا تھا مگر اس وقت وہ کسی کی موجودگی کو اپنے قریب نہیں چاہتا تھا ، کسی سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اُسے خود میں ڈوب کے خود سے باتیں کرنے میں مزہ آرہا تھا ۔
اس لیےارمان نے معافی طلب نگاہوں سے لڑکی کی طرف دیکھا اور بولا۔۔۔ سوری
وہ ہلکا سا مسکرائی اور مسکرانے سے اس کے پیارے گورے گالوں میں ڈمپل پڑ گئے اس نے کہا۔۔۔ اس کا مطلب آپ مجھے پہچان نہیں پائے ہم پہلے مل چکے ہیں۔
ارمان نے لڑکی کو غور سے دیکھا اس کے بعد بھی جب وہ یاد نہیں کر پایا تو اس نے کہا ۔۔۔معذرت چاہتا ہوں میں نے آپ کو بالکل نہیں پہچانا۔
لڑکی نے کہا۔۔ اُمید تو نہیں تھی ایسی۔ سارہ نے تو کہا تھا کہ تم اس کے ایک اکلوتے اور سب سے اچھے دوست ہو ۔
ہاں۔۔۔
مگر لڑکی نے اس کی بات کو بیچ میں ٹوکا اور کہا ۔۔۔اور اگر آپ اس کے اتنے اچھے دوست ہیں، تو اس کی دوسری فرینڈ کو پہچان نہیں پا رہے ہیں جبکہ۔۔۔
ارمان نے اس کی بات کو بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ کہیں تم وہ تو نہیں جو اس رات۔۔۔
ہاں ۔۔۔لڑکی نے کہا ۔
میں اور سارا ڈیلائٹ سینما سے فلم دیکھ کے نکل رہے تھے ، تب تم ملی تھی۔
شکر ہے کچھ یاد تو آیا۔۔۔ وہ بولی ۔۔۔اب تو میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں نا ؟۔میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ اتنا شاندار میچ چل رہا ہے یہاں ، آپ بھی اکیلے ہیں اور میں بھی تنہا ہوں۔ مگر اتنا ضرور کہوں گی ،کہ سارا نے آپ کے بارے میں کچھ کہا تھا ۔ مجھے اس بارے میں آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔
ضروری باتیں ۔۔۔ ارمان نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا
سب سے پہلی بات تویہی کے حالات چاہے جتنے بھی مایوس کن کیوں نہ ہوں، ایک ٹیلنٹڈ انسان کو ہمیشہ اپنے آپ پر بھروسہ ہونا چاہیے۔ چھوٹی موٹی رکاوٹوں سے گز رکر کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔
ارمان چونکا اور اس نے حیرانی سے پوچھا ۔۔۔ آپ کی ان باتوں کا کیا مطلب ہے؟؟
اس ملک کی حکومت اگر تمہارے ٹیلنٹ کی قدر نہیں کر پا رہی ہے تو یہ تمہارا نہیں بلکہ حکومت کی بدقسمتی ہے ۔
اب ارمان بری طرح چونکا اور کافی دیر تک اس لڑکی کی طرف دیکھتا رہا اور بولا۔۔۔ تمہاری ان باتوں کا مطلب کیا ہے تم یہ کیسے جانتی ہو کہ میں نے حکومت کے سامنے کوئی اپنا پلان رکھا تھا؟
شاید تم بھول گئے کہ سارہ نے تمہارے بارے میں مجھ سے باتیں کی تھی ۔ مگر کیا میں ایسے کھڑے کھڑے ہی آپ کے سارے سوالوں کے جواب دوں؟
ارمان کے منہ سے صرف دو ہی لفظ نکلے۔۔۔ بیٹھ جائیں
تھینک یو ۔۔۔کہنے کے ساتھ لڑکی جب بیٹھی تو پہلی بار ارمان کی نظر اس کے پستانوں پر پڑی بے شک سنگ مرمر سے بدن کو کیا خوب تراشا گیا تھا۔ ارمان کی نظر بار بار وہاں پر جاتی اور اٹک جاتی ، خود کو اس کے جادو سے رہا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ارمان نے کہا
اب کہو سارہ نے میرے بارے میں تم سے اور کیا کیا کہا ہے؟
مسٹر ارمان کیا تم ضرورت سے زیادہ جلدی میں نہیں ہو؟۔ جبکہ اخلاقیات تو یہ کہتی ہے کہ ایسی باتیں کرنے سے پہلے تمہیں میرا نام جان لینا چاہیے، کہ میں کون ہوں ،کیونکہ میں محسوس کر رہی ہوں کہ ڈی لائٹ سینما پر ہوئی ملاقات بھلے تمہیں یاد آگئی ، لیکن میرا نام یاد نہیں آیا ہے۔ اس بار اُس کے ہونٹوں پہ ایک شرارتی مسکان ابھری تھی ۔
سوری صبا او یس ابھی یاد آیا، اچھا نام ہے آپ کی طرح خوبصورت ۔۔۔
ایک بار پھر صبا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ اتنی جلدی میں کیوں ہو۔ کیا میں اپنے لیے ایک ڈرنک منگوا کے پھر ارام سے بات کروں ؟۔
ارمان کی انکھوں میں انکھیں ڈال کے اس نے بڑے کانفیڈنس سے یہ بات کہی
پریشان مت ہو تمہاری اور اپنے ڈرنک کی پیمنٹ میں کر کے ہی جاؤں گی۔
اس بار کچھ بولا نہیں ارمان اشارے سے ویٹر کو بلایا اور صبا سے پوچھا ۔۔۔کیا لیں گی؟
ایک لارج وسکی ود ائس ۔۔۔صبا نے کہا اور ساتھ ہی میں ٹیبل پر پڑے بنسن کے پیکٹ میں سے ایک سگرٹ اٹھایا اور ا ہونٹوں پہ لگا لی ، میوزیکل لائٹر سے سگریٹ جلانے کے بعد دھواں ارمان کے منہ کی طرف اڑاتے ہوئے ارمان کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔
دونوں ہی خاموش تھے جب تک کہ اس کی وسکی کا پیک نہیں آگیا ۔ویٹر سے بات کرتے ہوئے ارمان کا دھیان اُس پر نہیں گیا ، کہ صبا نظروں ہی نظروں میں دور کھڑے کسی شخص کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔۔۔
ملتے ہیں تیسری اپڈیٹ میں دوسری اپڈیٹ کے بارے میں اپنی قیمتی رائے سے اگاہ کیجئے گا کہانی ابھی جاری ہے
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
Struggle –07– جدوجہد قسط نمبر
December 25, 2024 -
Struggle –06– جدوجہد قسط نمبر
December 25, 2024 -
Struggle –05– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –04– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –03– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024 -
Struggle –02– جدوجہد قسط نمبر
December 16, 2024

Raas Leela–10– راس لیلا

Raas Leela–09– راس لیلا

Raas Leela–08– راس لیلا

Raas Leela–07– راس لیلا

Raas Leela–06– راس لیلا
