رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔
-
Smuggler –230–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –229–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –228–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –227–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –226–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025 -
Smuggler –225–سمگلر قسط نمبر
July 31, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر 01
وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہو اس کی بیوی شمیم آراء سے دیکھ کرپریشان ہوگئی۔
کیا بات ہے فرقان ! تم اتنے بد حواس کیوں ہو رہے ہو۔ خیریت تو ہے نا ؟ شمیم آراء نے پوچھا۔
ہاں۔ کوئی خاص بات نہیں۔ دکان پر بیٹھے بیٹھے طبیعت خراب ہو گئی تھی۔
فرقان نے جواب دیا اور بیٹے کی طرف متوجہ ہو گیا جو اپنے کمرے سے نکل کر وہاں آگیا تھا۔
فرقان رات کو گھر آتے ہوئے عام طور پر کوئی پھل وغیرہ لے آیا کرتا تھا لیکن آج وہ خالی ہاتھ تھا۔ کمسن روحان نے بھی تاڑ لیا تھا کہ اس کا باپ کچھ پریشان ہے۔ اس لیے اس نے یہ پوچھا بھی نہیں کہ وہ خالی ہاتھ کیوں آیا ہے۔
اچھا تم منہ ہاتھ دھو کر کپڑے بدل لو۔ میں کھانا لگاتی ہوں۔ روحان نے بھی آج ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔ شمیم آراء کہتے ہوئے کچن کی طرف چلی گئی۔
فرقان اپنے کمرے میں آگیا۔ وہ چند لمحے کمرے میں کھڑا رہا اور پھر باتھ روم میں گھس گیا۔ تقریباً دس منٹ بعد وہ باہر نکلا تو شمیم آراء میز پر کھانا لگا چکی تھی۔ روحان پہلے ہی میز پر بیٹھا ہوا تھا۔
لگتا ہے آج تمہیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔ فرقان اس کے قریب دوسری کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
جی ابو۔ آج آپ نے بہت دیر کردی۔۔۔ روحان نے جواب دیا
آج تو میں نے دکان بھی جلدی بند کر دی تھی لیکن راستے میں کام پڑ گیا جس کی وجہ سے دیر ہوگئی۔ اچھا ! چلواب کھانا شروع کرو۔
شمیم آراء بھی فرقان کے سامنے اپنی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔ وہ لوگ کھانا کھانے لگے۔ فرقان نے ابھی چند ہی لقمے کھائے تھے کہ لاؤنج میں رکھے ہوئے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ فرقان نے اپنی جگہ سے اٹھنا چاہا کہ شمیم آراء اس سے پہلے ہی اٹھ گئی۔
آپ کھانا کھائیں میں دیکھتی ہوں۔
شمیم آراء اٹھ کر لاونج میں آگئی۔ فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھالیا
ہیلو ۔۔شمیم آراء ماؤتھ میں بولی لیکن جواب میں خاموشی رہی۔ اس نے دوسری مرتبا ہیلو کہا تو جواب میں ایسی آواز سنائی دی جیسے کوئی گہری سانس لے رہا ہو۔
کون بد تمیز ہے۔ ۔۔شمیم آراء قدرے درشت لہجے میں بولی۔
اس مرتبہ پھرریسیور پر گہرے سانسوں کی آواز سنائی دی تو شمیم آراء نے ریسیور پٹخ دیا اور دوبارہ کھانے کی میز پر آگئی۔
کون تھا ؟۔۔۔ فرقان نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
پتا نہیں کون بد تمیز تھا۔۔۔ شمیم آراء نے جواب دیا۔۔۔میں نے پوچھا کون ہے تو جواب میں گہرے گہرے سانسوں کی آواز سنائی دینے لگی۔
وہ ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ ٹیلی فون کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ شمیم آراء نے دوبارہ اٹھنا چاہا لیکن اس مرتبہ فرقان پہلے اٹھ گیا اور لاؤنج میں آکر فون کا ریسیور اٹھا لیا۔
ہیلو !۔۔ وہ ماؤتھ ہیں میں بولا۔ جواب میں گہرے گہرے سانسوں کی آواز سنائی دینے لگی اور پھر ایسی آواز سنائی دی جیسے کوئی غرا رہا ہو۔ فرقان کا چہرہ دھواں دھواں ہو گیا۔ اس نے جلدی سے ریسیور رکھ دیا۔ اس کے دل کی دھڑ کن ایک دم تیز ہو گئی تھی۔ وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا ۔پھر کھانے کی میز پر آگیا۔
کیا ہوا ۔۔ کون تھا؟۔ تم ایک دم پریشان کیوں ہو گئے ہو؟شمیم آراءء نے پوچھا۔
فرقان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی ، کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔
کچھ نہیں۔۔۔ فرقان اپنی اندرونی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا ۔۔۔ پتا نہیں کون بد تمیز ہے۔ چلو کھانا
کھاؤ۔
اس کے بعد فون کی گھنٹی نہیں بجی۔ کھانا ختم کرنے کے بعد وہ لاؤنج میں آگئے۔ روحان بھی ان کے ساتھ تھا۔ وہ سمجھدار بچہ اپنے ماں باپ کو پریشان دیکھ کر الجھن میں مبتلا ہو گیا تھا۔
جاؤ بیٹا۔ تم جا کر سو جاؤ۔ صبح اسکول جاتا ہے۔ فرقان نے روحان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
روحان نے باری باری دونوں کی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
کیا بات ہے فرقان !۔۔۔ شمیم آراء اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے بولی ۔۔۔جب سے تم گھر میں داخل ہوئے ہو تمہیں پریشان دیکھ رہی ہوں۔ اس فون کال کے بعد تو تمہارے چہرے پر عجیب سےتاثرات ابھر آئے تھے۔ تم نے آج تک مجھ سے کچھ نہیں چھپایا لیکن آج کوئی ایسی بات ضرور ہے جو تم مجھ سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔
نہیں شمیم آراء ۔ میں تم سے کوئی بات نہیں چھپاؤں گا۔
فرقان نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔۔
تو پھر بتاؤ نا کیا بات ہے؟۔۔۔ شمیم آراء نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
تمہیں ملک نوازش علی یاد ہے ؟ ۔۔فرقان نے پوچھا۔
اس شیطان کو میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ شمیم آراء نے گرا سانس لیتے ہوئے جواب دیا اس خبیث کی وجہ سے ہی تو ہمیں نہ صرف اپنا گھر بلکہ اپنا وطن بھی چھوڑنا پڑا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ روحان اس وقت صرف دو مہینوں کا تھا۔ ہم اس معصوم بچے کو لیے کس طرح اس شیطان سے چھتے پھر رہے تھے۔ اس شیطان کو میں کیسے بھول سکتی ہوں۔ لیکن آج تمہیں ملک نوازش علی کیسے یاد آگیا؟
جس طرح بارہ سال گزرنے کے بعد ہم ملک نوازش علی کو نہیں بھولے اسی طرح شاید وہ بھی ہمیں نہیں بھولا۔
کیا مطلب ! کیا کہنا چاہتے ہو ؟ ۔۔۔شمیم آراء کا چہرہ ایک دم دھواں دھوواں ہوگیا۔
اگر تم ملک نوازش علی کو نہیں بھولی ہو تو تمہیں رانا بھی یادہو گا۔ فرقان بولا ۔
دا را !۔۔۔ شمیم آراء کے چہرے کے تاثرات بگڑ گئے ۔۔۔وہ تو انسان نہیں درندہ ہے۔ اسے تو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ اس نے ہمارے گھر کو آگ لگا کر ہمیں زندہ جلانے کی کوشش کی تھی۔ ہم آگ میں گھرے ہوئے تھے اور وہ قہقہے لگا رہا تھا۔ اس کے شیطانی قہقہے تو آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔ اس روز اگر پولیس بروقت نہ پہنچ جاتی تو ہم بھی اس مکان کے ساتھ جل کر راکھ ہو چکےہوتے۔
میں اسی رانا کی بات کر رہا ہوں۔۔۔فرقان نے کہا ۔۔۔آج وہ میری دکان پر آیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا جسے میں نہیں جانتا۔ پہلے تو میں یہی سمجھا تھا کہ شاید اس نے مجھے نہیں دیکھا کیونکہ اس کے دکان میں داخل ہونے سے پہلے ہی میں نے اسے دیکھ لیا تھا اور کاؤنٹر سے اٹھ کر دکان کے پیچےوالے کمرے میں چلا گیا تھا۔ رانا پانچ چھ منٹ تک دکان میں رہا تھا اور اسٹیٹ ایکسپریس کا ڈبا خرید کر واپس چلا گیا ۔ میرا خیال تھا کہ اس کا میری دکان پر آنا محض اتفاق تھا اور اس نے مجھے نہیں دیکھا تھا ۔لیکن یہ ٹیلی فون کالز مجھے یقین ہے کہ فون اس نے کیا تھا۔ اگرچہ اس نے زبان سے کچھ نہیں کہا لیکن اس نے مجھے سنگا پور میں اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا ہے۔
اب کیا ہو گا؟ ۔۔۔شمیم آراء کا چہرہ ایک دم پیلا پڑ گیا ۔۔۔کیا ہمیں یہاں سے بھی بھاگنا پڑے گا؟۔ روحان کو یہ سب کچھ معلوم ہو گا تو وہ کیا سوچے گا۔ بارہ سال پہلے جب ہم پاکستان سے بھاگے تھے تو وہ صرف دو مہینے کا تھا۔ کچھ نہیں سمجھتا تھا۔ کچھ نہیں جانتا تھا۔ لیکن اب وہ بارہ سال کا ہو چکا ہے۔ سمجھ دار ہے۔ وہ صورت حال کو سمجھ سکتا ہے۔ کیا سوچے گا۔ کیا ہو گا ۔۔۔
کچھ نہیں ہو گا۔۔۔فرقان نے اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔یہ لاہور نہیں ہے۔ سنگا پور ہے۔ یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ رانا اگر ہماری ہی تلاش میں یہاں آیا ہے تو یہاں اسے کچھ کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔
یہ مت بھولو کہ رانا ایک جرائم پیشہ آدمی ہے اور اس جیسے لوگ ہر جگہ اپنا کام کر گزرتے ہیں۔۔۔ شمیم آراء نے کہا اور چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولی۔۔۔ میری مانو تو سردار شمشیر سنگھ سے بات کرو۔ وہ ہمارے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ اسے علم ہے کہ ہم یہاں کن حالات میں آئے تھے۔ سب سے پہلے ہماری ملاقات اس سےہوئی تھی۔ ہمیں یہاں سیٹل ہونے میں اس نے مدد دی تھی۔ اس کے یہاں کے بڑے لوگوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ اس سے بات کرو۔ وہ یقیناً اس معاملے میں بھی ہماری مدد کرے گا۔ شاید تم ٹھیک کہتی ہو۔ ۔۔ فرقان نے کہا۔۔۔ شمشیر سنگھ سےبات کرنی ہی پڑے گی۔
وہ ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ دروازے کی کال بیل بجی۔ خاموشی میں گھنٹی کی آواز ان دونوں کے لیے بم کے دھماکے سے کم نہیں تھی۔ وہ دونوں اچھل پڑے۔ جس قسم کی صورت حال سے وہ دوچار تھے، اس کے پیش نظر ان کا خوف زدہ ہو جانا فطری بات تھی۔ شمیم آراء کو یوں لگا تھا جیسے اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا ہو۔ شمیم آراء کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو گئی تھی۔ وہ دونوں اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔
تم یہیں رکو۔ میں دیکھتا ہوں۔۔۔ فرقان دروازے کی طرف بڑھا
شمیم آراء اپنی جگہ پر کھڑی رہی۔ وہ جیسے ہی کمرے کے دروازے سے باہر نکلا ، شمیم آراء نے بڑی پھرتی سے آگے بڑھ کر ڈریسنگ ٹیبل کی سب سے نیچے والی دراز کھولی اور اس میں رکھا ہوا پستول نکال لیا۔ یہ جرمن لوگر پستول انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے رکھا ہوا تھا۔ اس کے استعمال کی نوبت اگر چہ کبھی نہیں آئی تھی مگر فرقان وقتا فوقتاً اس کی صفائی کرتا رہتا تھا۔ شمیم آراء پستول لے کر کمرے سے باہر آگئی اور دبے قدموں چلتی ہوئی لاؤنج کے دروازے کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔
فرقان کمپاؤنڈ میں قدم اٹھاتا ہوا بیرونی دروازے کے قریب پہنچ چکا تھا اس دوران میں کال بیل ایک مرتبہ اور بج چکی تھی۔
کون ہے۔ باہر کون ہے؟۔۔۔ فرقان نے دروازے کے قریب رک کر پوچھا۔
میں ہوں یار۔۔۔ باہر سے سردار شمشیر سنگھ کی آواز سنائی دی ۔۔۔دروازہ کھولو۔ سو گئے تھے کیا ؟
اوہ !۔۔ فرقان کے منہ سے بے اختیار گہرا سانس نکل گیا۔اس نے دروازہ کھول دیا ۔
شمشیر سنگھ کے اندر آنے کے بعد فرقان نے دروازہ بند کر دیا اور وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے اندر کی طرف آنے لگے۔ شمیم آراء نے بھی شمشیر سنگھ کی آواز سن لی تھی۔ اس کے منہ سے بے اختیار گہرا سانس نکل گیا۔ وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی رہی۔ پستول اس کے ہاتھ میں تھا۔ دروازے میں داخل ہونے کے بعد سردار شمشیر سنگھ ادھراُدھر دیکھنے لگا۔
یہ خاموشی کیسی ہے۔ پا بھو سو گئی ہے کیا ؟ ۔۔۔اس نے پوچھا۔
نہیں۔ شمیم آراء بھی جاگ رہی ہے۔ ۔۔ فرقان نے جواب دیا ۔
آج تم میرے ہاں نہیں آئے۔ سوچا میں ہی چکر لگالوں۔۔۔شمشیر سنگھ نے کہا اور پھر کپڑوں کی سرسراہٹ سن کر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ شمیم آراء کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر وہ چونکے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
کیا گل ہے پا بھو۔ ۔۔ شمشیر سنگھ بولا ۔۔۔ آج یہ اسلحہ کیوں اٹھایا ہوا ہے؟
اوہ ! کچھ نہیں بھائی جی۔۔۔ شمیم آراء مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ایسے ہی۔ میں نے سوچا کوئی چور ڈاکو نہ ہو اس لیے میں نے۔۔۔
واہ پا بھو واہ۔۔۔شمشیر سنگھ نے اس کی بات کاٹ دی۔۔۔ہمیں ہی چور ڈاکو سمجھ لیا۔
نہیں بھائی جی یہ بات نہیں ہے۔۔۔ شمیم آراء جلدی سے بولی ۔۔۔صورت حال ہی ایسی پیدا ہو گئی ہے کہ ہمیں احتیاط سے کام لینا پڑ
رہا ہے۔
کیا بات ہے بھائی فرقان ؟۔۔۔ شمشیر سنگھ فرقان کی طرف گھوم گیا۔ اس کے لہجے میں ایک دم سنجیدگی آگئی تھی۔۔۔کیا مسئلہ ہے۔ مجھے نہیں بتاؤ گے اپنے یار کو۔ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہے تو جلدی بتاؤ۔ سوں رب دی۔
ایک گھمبیر مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔۔۔ فرقان اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔۔۔میں کچھ دیر میں تمہاری طرف آنے ہی والا تھا۔ آؤ ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہیں۔۔۔ شمیم آراء تم چائے بنا کر وہیں آجاؤ۔
شمیم آراء کچن کی طرف چلی گئی اور وہ دونوں ڈرائنگ روم میں آگئے۔ شمشیر سنگھ ادھر ادھر دیکھتا ہوا ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ ڈرائنگ روم دیکھ کر فرقان کی مالی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ اس نے یہ گھر بنانے میں بڑی محنت کی تھی لیکن اب اسے یہ چھوٹا سا آشیانہ بھی طوفانوں کی زد میں نظر آرہا تھا۔
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–130–رقصِ آتش قسط نمبر
July 29, 2025 -
A Dance of Sparks–129–رقصِ آتش قسط نمبر
July 29, 2025 -
A Dance of Sparks–128–رقصِ آتش قسط نمبر
July 29, 2025 -
A Dance of Sparks–127–رقصِ آتش قسط نمبر
July 29, 2025 -
A Dance of Sparks–126–رقصِ آتش قسط نمبر
July 29, 2025 -
A Dance of Sparks–125–رقصِ آتش قسط نمبر
July 29, 2025

Smuggler –230–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –229–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –228–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –227–سمگلر قسط نمبر

Smuggler –226–سمگلر قسط نمبر
