A Dance of Sparks–03–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔

رقصِ آتش قسط نمبر 03

موت کے ان فرشتوں کو اپنے سامنے دیکھ کر فرقان اور شمیم آراء کی حالت غیر ہو گئی۔

 روحان کا چہرہ بھی دھواں ہو گیا۔ اسے صورت حال کا اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی تھی۔ کار رکتے دیکھ کر پہلے تو وہ سمجھا تھا کہ شاید اس کے ڈیڈی کے دوست آئے ہیں لیکن وہ لوگ جس طرح عجلت میں کار سے اترے تھے، وہ انداز دوستانہ نہیں تھا پھر دوستوں کے ہاتھوں میں اسلحہ نہیں ہوتا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے بھی صورت حال بھانپ لی تھی۔ ٹیکسی کا انجن اسٹارٹ تھا اور اس نے ابھی تک کرا یہ نہیں لیا تھا لیکن کارسے اترنے والے ان لوگوں کے ہاتھوں میں اسلحہ دیکھ کر اس کی چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور اس نے کرایہ لیے بغیر بڑی پھرتی سے گاڑی کو گیئر میں ڈالا اور اسے زبر دست جھٹکے سے آگے بڑھا دیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر فرقان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ گزشتہ بارہ سال سے جن لوگوں سے پہچنے کی کوشش کرتا رہا تھا آج بالآخر انہوں نے اسے گھیر لیا تھا۔ ان کی تعداد پانچ تھی۔ ایک کار کے اسٹیئرنگ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ کار کا انجن اسٹارٹ تھا۔ چار آدمی کار سے اترے تھے۔ ان میں سب سے آگے رانا تھا جس کے ہاتھ میں ریوالور تھا۔ اس کے ساتھ کارسے اترنے والے تین آدمیوں میں سے دو تو چینی تھے اور ایک غالباً یوریشین تھا۔ ان سب کے ہاتھوں میں چاقو اور خنجر تھے اور چہروں پر بے پناہ سفا کی تھی۔ فرقان کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ سب کرائے کے غنڈے تھے اور رانا نے بھاری معاوضہ دے کر ان کی خدمات حاصل کی ہوں گی۔ فرقان کا دل بڑی شدت سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے گردن گھما کر شمیم آراء اور روحان کی طرف دیکھا ،پھر دوسرے ہی لمحے چیخ اٹھا۔

بھاگ جاؤ۔ تم لوگ بھاگ جاؤ۔

 بھاگ کے کہاں جاؤ گے۔ ۔۔ رانا نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ چھرے کی طرح اس کے لہجے میں بے پناہ سفا کی تھی۔۔۔ اپنے آپ کو بہت چالاک سمجھتے تھے لیکن بالآخر ہم نے تمہیں تلاش کر ہی لیا ۔ تمہیں دنیا کے کسی کونے میں ہم سے پناہ نہیں مل سکتی۔ تم اگر پاتال میں بھی چھپے ہوتے تو ہم تمہیں ڈھونڈ نکالتے۔

 تت تم کیا چاہتے ہو رانا۔ ۔۔ فرقان ہکلایا۔

یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔۔ رانا نے کہا ۔۔۔تم نے ملک نوازش علی کے ساتھ غداری کی تھی۔ اسے دھوکا دیا تھا۔ اسے کروڑوں کا نقصان پہنچایا تھا۔ تم اگر چہ ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تھے مگر ملک نوازش علی تمہیں نہیں بھولا تھا۔ تمہاری تلاش جاری رہی اور بالآخر ہم نے تمہیں ڈھونڈ ہی لیا۔ مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ فرقان ۔

 مجھے مار کر تم لوگوں کو کیا ملے گا۔ ۔۔ فرقان نے اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔میں تم لوگوں سے بالکل لا تعلق ہو چکا ہوں۔ مجھ سے تم لوگوں کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میرا اب پاکستان آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں۔۔۔۔

تم ہمارے لیے خطرہ بن سکتے ہو۔۔۔رانا نے اس کی بات کاٹ دی ہم نے آسٹریلیا میں اپنے مال کی کھپت کے لیے ایک نئی منڈی تلاش کی ہے۔  سنگا پور کو ہم علاقائی ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور تم جیسے لوگ یہاں ہمارے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ویسے بھی تم سے تو پرانا حساب چکانا ہے۔ تمہیں زندہ نہیں چھوڑا جا سکتا۔

چی فانگ ۔۔۔وہ ایک چینی غنڈے کی طرف مڑگیا ۔۔۔ختم کر دواسے۔

 

نہیں ۔۔۔ شمیم آراء چیختے ہوئے آگے آگئی۔ رانا پستول لیے کھڑا رہا اور تینوں غنڈوں نے خنجروں سے فرقان پر حملہ کردیا۔ شمیم آراء اپنے شوہر کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ خنجر کے کئی وار اس کے جسم پر بھی لگے۔ شمیم آراء اور فرقان اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن خنجر کا ہر وارا نہیں چیخنے پر مجبور کر دیتا۔ ان کی چیخوں کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھیں۔

روحان ایک طرف کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں خوف و دہشت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ ایک غنڈے نے اس پر بھی حملہ کرنا چاہا مگر عین وقت پر فرقان سامنے آگیا۔

بھاگ جاؤ۔ روحان۔ بھاگ جاؤ۔۔۔ فرقان  چیخا۔

 روحان چیختا ہوا ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا لیکن وہ زیا دہ دورنہیں گیا۔ ایک بنگلے کے سامنے لان کی باڑھ میں چھپ گیا اور اس طرف دیکھنے لگا۔ وہ تینوں غنڈے فرقان اور شمیم آراء پر خنجروں کے وار کر رہے تھے اور وہ دونوں بری طرح چیخ رہے تھے۔

ان کی چیخیں دور دور تک گونج رہی تھیں لیکن کوئی ان کی مدد کے لیے باہر نہیں آیا ۔ قریب کھڑا ہوا دا را وقفے وقفے سے پستول سے فائرنگ کر رہا تھا۔ فائرنگ کی آواز نے ہی لوگوں کو اپنے گھروں میں بند رہنے پر مجبور کر رکھا تھا۔

چی فانگ نامی چینی غنڈا شمیم آراء کو پکڑے ہوئے تھا۔ شمیم آراء کا جسم لہولہان ہو رہا تھا۔ اس کے جسم پر کئی گہرے زخم آچکے تھے۔ جن سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو چھڑا کر ایک طرف دوڑی۔ چی فانگ بھی خنجر لیے اس کے پیچھے لپکا۔ شمیم آراء شمشیر سنگھ والے بنگلے کے سامنے لان کی باڑھ سے الجھ کر گری۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن چی فانگ نے اس پر چھلانگ لگا دی اور اس کے سینے پر پے در پے وار کرنے لگا۔

فرقان زخموں سے چور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بالآخر اسے بھی موقع مل گیا اور وہ ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا لیکن زخموں سے چور ہونے کے باعث زیادہ دور نہیں جا سکا اور لڑکھڑا کر سامنے والے بنگلے کے لان کے قریب گر گیا۔ ایک حملہ اور خنجر تانے اس کی طرف لپکا لیکن ٹھیک اسی وقت پچھلے موڑسے ایک گاڑی گلی میں مڑی۔

بھا گو۔۔۔دا راچیخا۔۔ چی فانگ بھاگو ۔ گاڑی میں۔

 وہ سب اپنی کار کی طرف لپکے۔ کار حرکت میں آگئی تھی۔ وہ دوڑتے ہوئے کار میں گھس گئے اور کار تیز رفتاری سے اگلا موڑ گھوم کر نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ دوسری کارگلی میں چند قدم آگے آچکی۔

روحان جھاڑیوں سے نکل کر اپنی ماں کی طرف دوڑا۔

ممی ممی۔۔۔ وہ شمیم آراء کو جھنجوڑتے ہوئے چیخ رہا تھا مگر شمیم آراء اس کی پکار کا جواب دینے کے لیے زندہ نہیں رہی تھی۔ روحان باپ کی طرف دوڑا اور اس سے لپٹ کر چیخنے لگا۔ فرقان کے جسم پر کئی زخم تھے۔ سینے پر بھی کئی جگہوں سےخون نکل نکل کر بہہ رہا تھا لیکن وہ ابھی زندہ تھا۔

 روحان ۔۔۔ فرقان کے منہ سے کمزور سی آواز نکلی۔۔۔ بھاگ جاؤ۔ یہ لوگ تمہیں بھی مار ڈالیں گئے۔۔۔اپنی ماں کو۔۔۔ لے کر

بھاگ ۔۔۔ جاؤ

گلی میں داخل ہونے والی کار قریب آکر رک گئی۔ دو آدمی نیچے اترے۔ ان میں ایک شمشیر سنگھ اور دوسرا اس کا دوست نریش کمار تھا۔ کار کے ہیڈ لیمپس کی روشنی میں وہ منظر دیکھ کر شمشیر سنگھ کانپ اٹھا اور چیختا ہوا روحان کی طرف دوڑا۔

اوئے کیا ہوا کاکے۔ یہ سب کیا ہوا؟۔۔۔ پرتاب سنگھ نے روحان کو فرقان سے الگ کرتے ہوئے چیخ کر کہا۔

چاچا۔۔۔ روحان چیخ کر اس سے لپٹ گیا ۔۔۔انہوں نے میرےابو کو مار دیا ۔ میری ممی کو بھی مار ڈالا۔

شمشیر سنگھ اپنے بنگلے کی طرف دوڑا۔ گیٹ کے ساتھ ہی لان کی باڑھ میں شمیم آراء پھنسی ہوئی تھی۔ شمشیر سنگھ اسے دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ وہ ختم ہو چکی تھی۔ وہ دوڑ کر دوبارہ فرقان کے قریب آگیا۔

او بھائی فرقان ۔ یہ سب کیا ہوا ۔ کون تھے وہ لوگ۔۔۔ وہ فرقان کو اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے چیخا۔

شمشیر سنگھ۔ ۔۔ فرقان کر رہا۔۔۔ مجھے مت اٹھاؤ۔۔ مجھے کہیں لے جانے کا ابھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ میرے جسم پر اتنے زخم لگے ہیں کہ میرا زندہ بچنا ممکن نہیں۔ میرے پاس وقت بہت کم ہے۔ میری بات ۔۔ غور سے سنو۔

 تم بچ جاؤ گے فرقان ۔۔ میں تمہیں مرنے نہیں دوں گا۔ تم بچ جاؤ گے۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا اور اپنے دوست کی طرف دیکھ کر چیخا

 نریش کمار ! ڈاکٹر کو بلاؤ۔ پولیس کو فون کرو۔ جلدی کرو۔ میرے یار کو بچاؤ۔

ڈاکٹر کو بلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا شمشیر سنگھ ۔۔۔ شمیم آراء نے کراہتے ہوئے کہا ۔۔۔میرے پاس وقت نہیں ہے۔ میری بات  غورسے سن لو۔

ہاں ہاں۔ بولو۔ میں سن رہا ہوں۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا۔ اس نے فرقان کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔

انہوں نے شمیم آراء کو مار ڈالا۔ میں بھی مر رہا ہوں۔۔۔ فرقان رک رک کر کہہ رہا تھا۔۔۔ میرا بیٹا اکیلا رہ جائے گا۔ اس کا خیال

رکھنا۔

تم فکر مت کرو فرقان ۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا ۔۔۔ روحان میرا پترہے۔ میں اسے اپنے پتر کی طرح پالوں گا۔ سوں رب دی۔

 ایک بات اور سن لو۔۔۔ فرقان نے کہا ۔۔۔ ملک نوازش علی اپنے کالے دھندے کے لیے سنگا پور میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے یہاں میری موجودگی کا پتا چل گیا تھا۔ وہ مجھے اپنے لیے خطرہ سمجھ رہا تھا۔ مجھے راستے سے ہٹانے کے لیے اس نے رانا جیسے درندے کو یہاں بھیج دیا ۔ ہم اس کے بارے میں شش و پنج کا شکار رہے، لیکن وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے علاوہ۔۔۔۔ فرقان خاموش ہو گیا۔

خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اس کی رنگت بالکل پیلی پڑ گئی تھی اور بولنے کی سکت نہیں رہی تھی۔

 سوں رب دی ۔ ۔۔ شمشیر سنگھ بولا۔۔۔میں ان درندوں سےتمہارے اور پا بھو کے قتل کا بدلہ ضرور لوں گا۔

 تم نہیں ۔۔۔ فرقان بولا ۔۔۔انتقام میرا بیٹا لے گا۔ اس کی پرورش اس طرح کرنا کہ اس کے سینے میں انتقام کی آگ بھڑکتی رہے۔

تم فکر ہی مت کرو۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا۔۔۔میں اسے انتقام کا شعلہ بنا دوں گا لاوا بھر دوں گا اس کے جسم میں۔ آگ  اُس کے ہم رقاب رہےگی اُس کے آگے پیچھے رقص کرے گی۔ جب وہ اشارہ کرے گا تو سب کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ وہ تمہارا انتقام ضرور لے گا۔

میں تمہیں ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں۔۔۔ فرقان نے کہا۔ اس کی آواز کچھ اور کمزور ہی ہو گئی تھی۔۔۔روحان کی پرورش کے لیے تمہیں ۔۔۔ دولت کی کمی نہیں ہوگی۔ میں اس کے لیے اتنا  کچھ چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اُسے ساری زندگی کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

میرا سب کچھ بھی تو اسی کا ہے فرقان۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا۔

میں تمہیں جو بات بتانا چاہتا ہوں وہ غور سے سنو شمشیر سنگھ۔۔۔ فرقان رک رک کر بولا۔۔۔ ملک نوازش علی بظاہر تو ایک زمین دار ہے لیکن دراصل وہ ایک بہت بڑا بین الاقوامی اسمگلر ہے۔ بارہ سال پہلے اس کے اسمگل شدہ سونے کی ایک کھیپ میرے ہاتھ لگ گئی تھی۔ میں نے پانچ کروڑ مالیت کا وہ سونا غائب کر دیا تھا اور اسے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ وہ سونا میں نے راوی کے پل سے دریا میں پھینک دیا تھا۔ وہ میرا بد ترین دشمن بن گیا۔ اس نے میرے گھر کو آگ لگا کر مجھے میری بیوی اور میرے بچے کو زندہ جلانے کی کوشش کی لیکن میں بچ نکلا اور چوری چُھپے پاکستان سے فرار ہو کر یہاں آگیا۔ مجھے بعد میں اپنے ایک دوست کے ذریعے پتا چلا کہ اس نے غالباً میری اس بات کا یقین کر لیا تھا کہ پانچ کروڑ روپے مالیت کا وہ سونا میں نے دریا میں پھینک دیا تھا۔ وہ سونے کی تلاش کے ساتھ مجھے بھی ڈھونڈتا رہا اور بالآخر اس کے آدمی مجھ تک پہنچ گئے اور اپنا وار کر گزرے۔ م۔۔ میں۔۔ میں نے وہ سونا دریا میں نہیں پھینکا تھا۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ سونا کہاں ہے۔۔۔ وہ چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر جب بولا تو اس کی آواز کچھ اور بھی کمزور ہو گئی تھی۔

اس دوران میں آہٹ سن کر شمشیر سنگھ نے پیچھے مڑ کردیکھا۔ نریش کمار اس کے قریب کھڑا تھا۔

میں نے پولیس کو اطلاع دے دی ہے۔ اسپتال بھی فون کر دیا ہے۔ ایمبولینس بھی آنے والی ہے۔ ۔۔نریش کمار نے اسے اپنی طرف متوجہ پا کر کہا۔

پانی لاؤ تھوڑا ۔۔ جلدی کرو۔ ۔شمشیر سنگھ بولا  اس دوران میں آس پاس کے بنگلوں سے کچھ لوگ بھی نکل آئے تھے لیکن آگے کوئی نہیں آیا تھا۔ سب اپنے اپنے دروازوں کے سامنے کھڑے تھے۔ نریش کمار ایک گھر سے پانی مانگ لایا۔ شمشیر سنگھ ، فرقان کے حلق میں پانی نیکانے لگا مگر پانی اس کے ہونٹوں سے باہر بہہ رہا تھا۔ فرقان نے قریب بیٹھے ہوئے روحان کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ اس کے جسم کو ہلکا سا جھٹکا لگا اور پھر وہ بے حس و حرکت ہو گیا۔ شمشیر سنگھ اس کی نبض ٹٹولنے لگا۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا لیکن فرقان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ شمشیرسنگھ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے فرقان کی آنکھیں بند کردیں اور اس کا سر بڑی آہستگی سے زمین پر ٹکا دیا اور روحان کو سینے سے لپٹا لیا۔ روحان دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور پھر شمشیر سنگھ کی بانہوں میں جھول گیا۔

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page