رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔
-
-
-
Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025 -
Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر
May 28, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر 04
روحان بے ہوش ہو گیا تھا۔ ٹھیک اسی وقت پولیس کے سائرن کی آواز سنائی دی جو لمحہ بہ لمحہ قریب آتی جارہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد پولیس کی جیپ اس گلی میں مڑی۔ اس کے پیچھے ہی ایمبولینس بھی تھی۔ دونوں گاڑیاں جائے وقوعہ سے چند گز کے فاصلے پر رک گئیں۔ جیپ رکھتے ہی نصف درجن پولیس والے اتر کر ادھر ادھر پھیل گئے۔ اُس پولیس پارٹی کا انچارج شمشیر سنگھ کا دوست چیانگ شو تھا۔ لوگ پولیس کو دیکھ کر اپنے اپنے گھروں میں گھس گئے تھے۔
چیانگ شو!۔۔۔ شمشیر سنگھ اسے دیکھتے ہی چیخا ۔۔۔یہ ۔۔ یہ دیکھوکیا ہو گیا ۔ انہوں نے میرے یار اور پا بھو کو مار ڈالا ۔
وہ لوگ بچ کر نہیں جائیں گے۔۔۔ چیانگ شو نے کہا ۔۔۔ہم کوبتاؤ۔ یہ سب کیا ہوا۔ تم نے ان لوگ کو دیکھا؟
نہیں۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا۔۔۔میں اپنے دوست نریش کمار کے ساتھ آیا تھا۔ ہماری کار جیسے ہی اس گلی میں مڑی وہ لوگ ایک کار میں بیٹھ کر فرار ہو گئے لیکن میں جانتا ہوں وہ رانا تھا۔ فرقان کو اس سے جان کا خطرہ تھا۔
چیانگ شو ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ شمشیر سنگھ ابھی تک فرقان کی لاش کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ بے ہوش روحان اس کی گود میں
تھا۔
اس بچے کو کیا ہوا ؟۔۔۔ چیانگ شو نے پوچھا۔۔۔ کیا یہ بھی۔
نہیں۔ یہ بے ہوش ہو گیا ہے۔ ۔۔شمشیر سنگھ نے جواب دیا یہ فرقان کا بیٹا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے ماں باپ کو قتل کیا گیا ہے۔ یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکا۔ بے ہوش ہو گیا ، اگر اسے ہوش میں نہ لایا گیا تو اس کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
اسی وقت سامنے والے گھر سے ایک ادھیڑ عمر آدمی اور ایک عورت نکل کر شمشیر سنگھ کے قریب آگئے۔ شمشیر سنگھ نے روحان کو ان کے حوالے کر دیا ۔ وہ آدمی روحان کو گود میں اٹھا کر اپنے بنگلے میں لے گیا۔ پڑوس کی دو تین عورتیں ان کے پیچھے ہی بنگلے میں داخل ہو گئی تھیں۔
انسپکٹر چیانگ شو فرقان کی لاش کا معائنہ کر رہا تھا پھر وہ شمیم آراء کی لاش کے قریب چلا گیا۔ کچھ دیر تک اس کا معائنہ کرتا رہا پھر اپنی جیپ کے پاس آگیا اور ریڈیو ٹرانسمیٹر پر ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کرکے فوٹو گرافر اور دیگر ماہرین کو جائے وقوعہ پر بھیجنے کی درخواست کی اور ریڈیو آن کر کے اپنے آدمیوں کو کچھ ہدایات دیتے ہوئے جائے واردات کا جائزہ لینے لگا۔ آس پاس کے بنگلوں میں رہنے والے کچھ لوگ اب پھر گھروں سے نکل آئے تھے۔ فرقان اور شمیم آراء کی لاشیں دیکھ کر سب ہی لوگ افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ انسپکٹر چیانگ شو، شمیم آراء کی لاش سے چند قدم آگے رک گیا۔ جھاڑیوں کے قریب ہاتھی دانت کے دستے والا ایک خنجر پڑا ہوا تھا۔ خنجر کا بلیڈ خون آلود تھا۔ کچھ خون دستے پر بھی لگا ہوا تھا۔ چیانگ شو نے جیب سے رومال نکالا اور اس کی مدد سے بڑی احتیاط سے خنجر اٹھا کر اس کا معائنہ کرنے لگا۔ خنجر کے بلیڈ پر لگا ہوا خون ابھی پوری طرح جما نہیں تھا۔
یہ خنجر احتیاط سے رکھ لو۔۔۔چیانگ شو نے خنجر اپنے ایک ماتحت کے حوالے کر دیا اور ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
اپنے گھروں کے سامنے کھڑے ہوئے لوگ کچھ اور آگے آگئے تھے۔ ان میں ہندوستانی بھی تھے چینی بھی اور دوسری قوموں کے باشندے بھی
آپ لوگوں میں سے کوئی اس واردات کے بارے میں کچھ جانتا ہو تو پلیز آگے آکر ہمیں بتائے تاکہ ہم قاتلوں کو آسانی سے تلاش کر سکیں۔ ۔۔ چیانگ شو نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ لیکن کوئی بھی آگے نہیں آیا ۔ سب لوگ اپنی جگہوں پر کھڑے رہے۔
دیکھیے !۔۔۔ چیانگ شو ایک بار پھر لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ قاتلوں کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں کچھ نشانیاں درکار ہیں۔ اگر کوئی کچھ جانتا ہو تو ہماری مدد کرے۔
اس مرتبہ فرقان کے سامنے والے بنگلے میں رہنے والا تائی شی نامی ایک ادھیڑ عمر چینی آگے آگیا۔
یس مسٹر !۔۔۔ چیانگ شو اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔۔۔ آپ کچھ جانتے ہیں؟
میں اس وقت کچن میں تھا۔۔۔ تائی شی نے کہا ۔۔۔ پہلے میں نے ایک گاڑی کے رکنے کی آواز سنی۔ اس کے چند ہی سیکنڈ بعد ایک اور گاڑی بریکوں کی تیز چر چراہٹ کی آواز کے ساتھ ہمارے بنگلے کے سامنے رکی اور پھر شور کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ان میں ایک آواز فرقان کی تھی جو چیخ چیخ کر اپنی بیوی اور بیٹے سے کچھ کہہ رہا تھا ۔پھر اس کی بیوی اور بیٹے کی چیخوں کی آواز یں بھی سنائی دینے لگیں۔ میں کچن سے نکل کر باہر کے گیٹ کے پاس آگیا۔ گیٹ کھولنے سے پہلے میں نے جھری میں سے باہر جھانک کر دیکھا تو کانپ کر رہ گیا۔ تین چار آدمی فرقان اور اس کی بیوی پر خنجروں سے حملے کر رہے تھے۔ لمبے قد کا ایک آدمی کار کے قریب کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔ اس نے ہاتھ اوپر اٹھا کر ہوائی فائر کر دیا اور پھر وہ وقفے وقفے سے فائر کرتا رہا۔ میرے خیال میں اس طرح اس کی فائرنگ کا مقصد یہ تھا کہ کوئی شخص اپنے گھر سے باہر نہ نکل سکے۔۔۔تائی شی چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا
حملہ آور بے دردی سے فرقان اور اس کی بیوی پر خنجروں سے وار کر رہے تھے۔ ان کا بیٹا بھاگ کر جھاڑیوں میں چھپ گیا تھا۔ میں دوڑ کر اندر آگیا۔ میں ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا لیکن پولیس کو تو اطلاع دے سکتا تھا۔ یہی سوچ کر میں دوڑتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔ میں نے پولیس کو اطلاع دینے کے لیے فون کا ریسیور اٹھایا تو پتا چلا کہ فون ڈیڈ پڑا ہے۔ میں دوبارہ گیٹ کے پاس آگیا۔ اس وقت حملہ آور سیاہ رنگ کی ایک کار میں فرار ہو رہے تھے۔ میں نے ان میں سے صرف ایک آدمی کو دیکھا تھا۔ وہ لمبے قد کا قدرے بھاری بھر کم آدمی تھا۔ ہندوستانی یا شاید پاکستانی تھا۔۔۔ وہ چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر اس شخص کا حلیہ بتانے لگا۔
اس کے ساتھی کون تھے ؟ ۔۔۔انسپکٹر چیانگ شو نے پوچھا۔
چینی تھے لیکن میں ان کی شکلیں اچھی طرح نہیں دیکھ سکاتھا۔ ۔۔ تائی شی نے کہا۔
تم نے اس کار کا نمبر دیکھا تھا مسٹر تائی شی؟۔۔۔ چیانگ شو نے پوچھا۔
نہیں۔ میں نمبر نہیں دیکھ سکا تھا لیکن وہ سیاہ رنگ کی ٹویوٹاتھی۔۔۔ تائی شی نے بتایا۔
اگر دوبارہ اس آدمی کو دیکھ لو تو پہچان لوگے؟۔۔۔ چیانگ شو نےپوچھا۔
شاید ۔۔۔ تائی شی نے مختصر سا جواب دیا۔
ٹھیک ہے۔ ۔۔ چیانگ شو بولا۔۔۔ میں آپ کا تحریری بیان لینے کے لیے آپ کو دوبارہ زحمت دوں گا۔ کسی کو کوئی اور بات معلوم ہو
تو پلیز ہماری مدد کرے۔
لیکن کوئی آگے نہیں آیا۔ اسی دوران میں پولیس کی ایک اور گاڑی گلی میں آکر رکی۔ اس میں سے تین آدمی نیچے اترے۔ ایک تو پولیس کا فوٹو گرافر تھا اور دو ہومی سائیڈ کے ماہرین۔ فوٹوگرافر چیانگ شو کی ہدایت پر جائے واردات اور لاشوں کی تصویریں کھینچنے لگا جبکہ ہومی سائیڈ کے ماہرین نے اپنے طور پر تحقیق شروع کردی تھی۔
مختلف لوگوں کے بیانات لیے گئے۔ واردات کا چشم دید گواہ کوئی نہیں تھا۔ تائی شی کے علاوہ سب ہی نے یہ بتایا تھا کہ انہوں نے چیخنے اور فائرنگ کی آوازیں سنی تھیں لیکن خوف کی وجہ سے کوئی بھی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ البتہ یہ بیان سب نے دیا تھا کہ فرقان ایک شریف آدمی تھا۔ اس کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی۔ یہ مکان اس نے تقریباً چھ سال پہلے خریدا تھا۔ تمام پڑوسیوں سے اس کے تعلقات بہت خوشگوار تھے۔ چھ سال کے اس عرصے میں کسی سے اس کا کوئی معمولی سا جھگڑا بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی بیوی شمیم آراء بھی بہت خوش اخلاق اور ملنسار عورت تھی۔ پڑوس میں سب گھروں میں اس کا آنا جانا تھا اور اس گلی میں رہنے والی تمام خواتین سے اس کے تعلقات بہت خوش گوار تھے۔ پولیس آفیسر گلی کے لوگوں کے بیانات لے رہا تھا کہ کسی نےآکر بتایا کہ روحان ہوش میں آگیا ہے۔
روحان کون ہے؟۔۔۔ ہومی سائیڈ کے ایک آفیسر نے چیانگ شو کی طرف دیکھا۔
مقتولین کا بارہ سالہ بیٹا اور اس واردات کا واحد چشم دیدگواہ۔۔۔ انسپکٹر چیانگ شو نے بتایا۔
اوہ !۔۔۔ ہومی سائیڈ آفیسر چونک گیا ۔۔۔اس کا بیان بہت ضروری ہے۔ وہ ہمیں قاتلوں کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتا ہے۔
وہ لوگ اس بنگلے میں آگئے جہاں روحان ایک بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ بالکل پیلا ہو رہا تھا۔ جیسے جسم کا سارا خون نچڑ گیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں ویرانی جھلک رہی تھی اور وہ پلک جھپکے بغیر سامنے والی دیوار کو گھور رہا تھا۔
کاکا۔۔۔ شمشیر سنگھ اس کے قریب پلنگ پر بیٹھ گیا اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا۔۔۔ اب کیسے ہو بیٹا۔
چاچا۔۔۔ روحان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔۔۔میری ممی ۔۔ میرے ابو۔۔
حوصلہ کر بیٹا۔۔۔ شمشیر سنگھ نے اسے اٹھا کر گلے سے لگا لیا۔
روحان ڈئیر !۔۔۔ ہومی سائیڈ آفیسر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ تم نے ان لوگوں کو اپنے ڈیڈی اورممی پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ بتا سکتے ہو وہ کون لوگ تھے ؟
را۔۔ رانا۔۔۔ روحان روتے ہوئے بولا ۔۔۔ابو نے اسے رانا کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ اس کے ساتھ تین آدمی اور تھے۔
وہ تین آدمی کون تھے ؟۔۔۔ آفیسر نے پوچھا۔
روحان جواب دینے کے بجائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
آفیسر !۔۔۔ شمشیر سنگھ ہومی سائیڈ آفیسر کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔ یہ بچہ ابھی اس قابل نہیں ہے کہ تفصیل سے کوئی بیان دے سکے۔ اس وقت اس سے کوئی سوال نہ کریں۔ یہ صدمے سے نڈھال ہو رہا ہے۔
ٹھیک ہے مسٹر شمشیر سنگھ ۔۔۔ ہومی سائیڈ آفیسر نے کہا ۔۔۔ آپ ان کے پڑوسی ہیں۔ یہ بچہ آپ کی تحویل میں رہے گا۔ ان کے کوئی اور رشتے دار ہوں تو انہیں بھی اطلاع دے دیں۔ اس بچے کی دیکھ بھال بہت ضروری ہے اور حفاظت بھی۔
ہومی سائیڈ آفیسر، چیانگ شو کی طرف مڑگیا
انسپکٹر ! یہ بچہ اس واردات کا واحد چشم دید گواہ ہے۔ اس کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ اگر مسٹر شمشیر سنگھ کی گاڑی اس وقت گلی میں نہ مڑتی تو شاید وہ لوگ اسے بھی مار دیتے۔ مجھے یقین ہے کہ اب وہ لوگ اسے بھی ختم کرنے کی کوشش کریں گے اس لیے اس کی حفاظت بہت ضروری ہے ۔
فکر مت کرو آفیسر۔۔۔ چیانگ شو نے جواب دیا ۔۔۔میں اس مکان پر دو مسلح کانسٹیبلوں کی ڈیوٹی لگا دیتا ہوں۔
وہ لوگ مکان سے باہر آ آگئے۔ لاشیں اٹھوانے سے پہلے فرقان کے لباس کی تلاشی لی گئی تھی اور جیبوں سے برآمد ہونے والی تمام اشیا کی فہرست بنا کر مشیر نامہ تیار کیا گیا۔ مکان کی چابیاں شمشیر سنگھ کے حوالے کردی گئیں ۔
کچھ دیر بعد جب لاشیں اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالی گئیں تو روحان دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ وہ سنگھ سے سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا۔ یہ اندوہ ناک منظردیکھ کر وہاں کھڑے ہوئے لوگوں کی آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں۔
روحان ایک بار پھر بے ہوش ہو گیا۔ شمشیر سنگھ اسے اپنے گھر میں لے آیا اور اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد روحان ہوش میں آگیا ، لیکن شمشیر سنگھ کو خطرہ تھا کہ اس کا ذہنی توازن نہ بگڑ جائے۔ اس معصوم بچے پر قیامت ہی ٹوٹ پڑی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے ماں باپ کو قتل کیا گیا تھا۔ یہ تو بچہ تھا۔ کوئی بڑا بھی ہو تا تو شاید اپنے آپ کو نہ سنبھال پاتا۔
شمشیر سنگھ کے مکان میں کچھ اور لوگ بھی جمع ہو گئے تھے۔ ان میں خواتین بھی تھیں جو روحان کو سینے سے لپٹا لپٹا کر اسے دلا سا دے رہی تھیں۔ گلی کے تمام گھروں میں روحان کا آنا جانا تھا۔ وہ ان تمام خواتین سے مانوس تھا۔ ہر ایک سے لپٹ لپٹ کر رورہا تھا۔
نریش کمار۔۔۔شمشیر سنگھ اپنے دوست کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ ڈاکٹر شکیل کو فون کرد و۔ مجھے ڈر ہے کہ روحان کو کچھ ہو نہ جائے۔ سوں رب دی۔ اسے کچھ ہو گیا تو میں … تم ڈاکٹر شکیل کو فون کرو۔” نریش کمار لاؤنج میں رکھے ہوئے فون کے قریب آگیا اور ریسیور اٹھا کر ڈاکٹر شکیل کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔ اس وقت رات کے تین بج رہے تھے۔ کال کافی دیر بعد ریسیو کی گئی تھی۔ ڈاکٹر شکیل ، شمشیر سنگھ اور فرقان کا مشترکہ دوست تھا بلکہ پہلے اس کی دوستی فرقان سے ہوئی تھی اور اس کے بعد شمشیر سنگھ متعارف ہوا تھا۔ ان تینوں میں بڑی گہری دوستی ہو گئی تھی۔ نریش کمار کی بھی کبھی کبھی اس سے ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–115–رقصِ آتش قسط نمبر
May 25, 2025 -
A Dance of Sparks–114–رقصِ آتش قسط نمبر
May 25, 2025 -
A Dance of Sparks–113–رقصِ آتش قسط نمبر
May 25, 2025 -
A Dance of Sparks–112–رقصِ آتش قسط نمبر
May 25, 2025 -
A Dance of Sparks–111–رقصِ آتش قسط نمبر
May 25, 2025 -
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر
