A Dance of Sparks–06–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔

رقصِ آتش قسط نمبر 06

اس وقت شام کے چھ بج رہے تھے اور گھر میں شمشیر سنگھ کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ وہ کمرے میں آکر کچھ دیر تک روحان سے باتیں کرتا رہا پھر کچن میں آکر چائے بنانے لگا۔

شمشیر سنگھ اس گھر میں اکیلا ہی رہتا تھا۔ اس کی عمر اگرچہ پچاس کے لگ بھگ تھی لیکن صحت قابل رشک تھی۔ اچھی صحت کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے بہت کم لگتا تھا۔

شمشیر سنگھ جب اپنے ماں باپ کے ساتھ سنگا پور آیا تھا تو اس کی عمر پندرہ سال تھی۔ یہاں آنے کے بعد اس نے اپنے باپ کے ساتھ بڑی محنت کی تھی۔ اس کے باپ گو رکھ سنگھ کی جالندھر میں کریانے کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ ایک چھوٹا سا مکان تھا۔

لیکن دکان اتنی نہیں چلتی تھی۔ سرمائے کی کمی کی وجہ سے دکان کا سامان پورا نہیں تھا۔ اکثر گاہک مطلوبہ چیز نہ ملنے کے باعث واپس چلے جاتے تھے۔

انہی دنوں کو رکھ سنگھ کا ایک رشتے دار دو سال سنگا پور میں رہنے کے بعد واپس آیا تو اسے دیکھ کر گورکھ سنگھ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ شخص جب جالندھر سے گیا تھا تو اس کے پاس صرف تن کے کپڑے تھے اور دو سال بعد واپس آیا تو محلے والے بھی اسے دیکھ کر دانتوں میں انگلیاں دب کر رہ گئے تھے۔ وہ اتنا پیسہ اور سامان لے کر آیا تھا کہ لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کچھ اس نے صرف دو سال میں کمایا ہے۔ حالانکہ دو سال کے اس عرصے کے دوران میں بھی وہ اپنے گھر والوں کو ہر مہینے پیسے بھیجتا رہتا تھا۔

اسے دیکھ کر گورکھ سنگھ یہی سمجھا کہ سنگا پور میں ہن برستا ہے۔ جالندھر میں رہ کر وہ غربت اور افلاس کی چکی میں پس رہا تھا۔ کہنے کو وہ دکان دار تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ دکان کی کمائی سے اس کا اپنے گھر کا خرچ پورا نہیں ہو رہا تھا۔ حالانکہ ان کا کنبہ صرف چار افراد پر مشتمل تھا۔ وہ خود اس کی بیوی اور دو بچے۔ ایک شمشیر سنگھ اور دوسری اس کی بہن سریندر کور۔ گور کھ سنگھ نے بھی سنگا پور جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے دکان اور مکان بیچ دیا اور ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر سنگا پور پہنچ گیا۔ یہاں آکر اسے پتا چلا کہ سنگا پور میں بھی جائز ذرائع سے دولت کمانا آسان نہیں ہے۔ وہ کچھ عرصہ محنت مزدوری کرتا رہا پھر اسے ایک پرانی ٹیکسی سستے داموں مل گئی اور وہ ٹیکسی چلانے لگا۔ شمشیر سنگھ کو پڑھنے کا شوق تھا۔ اسے تاریخ سے دلچپسی تھی۔ اس خوب صورت جزیرے کی سیرو سیاحت کے دوران میں اسے احساس ہوا کہ جزیرے کی تاریخ پر ایک دلچسپ کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اس نے محکمہ سیاحت سے رابطہ قائم کیا تو ا سے یہ جان کر بڑی مایوسی ہوئی کہ محکمہ سیاحت پہلے ہی اپنی ایک نہیں کئی کتابیں چھاپ چکا ہے مگر شمشیر سنگھ نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر ایک مہربان کے توسط سے سنگا پور کے ایک سپرڈ یلکس ہوٹل سے اس کا معاہدہ ہو گیا۔

ہوٹل نے مختلف ممالک میں اپنی پبلیسٹی  کے لیے پہلے ہی سے ایک منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس منصوبے کے تحت مختلف زبانوں میں کئی کتا بچے چھپ چکے تھے۔ شمشیر سنگھ سے ہندی زبان میں کتا بچہ لکھنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ شمشیر سنگھ ہندی زبان بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ اسے یہ مختصر سا کتابچہ لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔

اس کا لکھا ہوا کتا بچہ بہت پسند کیا گیا تھا۔ خوب صورت تصاویر نے اس میں اور بھی خوب صورتی پیدا کردی تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ اپنے طور پر سنگا پور کی تاریخ مرتب کرنے میں شمشیر سنگھ نے بڑی محنت کی تھی اور اس میں کئی مہینے لگے تھے۔ ۶۲۲ مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلے ہوئے اس جزیرے کو جنوبی ایشیا کا دروازہ کہا جاسکتا ہے۔ یہاں ایشیا کی تمام تہذیبیں موجود ہیں۔ یہ چھوٹا سا خوب صورت جزیرہ ملائشیا کے قدموں میں واقع ہے اور ایک تنگ سی سمندری پٹی اسے ملائشیا کے مین لینڈ سے الگ کرتی ہے۔ مڈل ایسٹ، جنوبی ایشیا اور  چین کے سمندری راستوں کے سنگم پر ہونے کی وجہ سے سیاحت اور تجارت کا بہت بڑا مرکز ہے۔

سنگاپور میں ہندوستانی باشندوں کی آمد ۱۸۰۰ء میں شروع ہوئی۔ ایک تجارتی معاہدے کے تحت کلکتہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے برطانوی افسروں نے سنگا پور میں کام لینے کے لیے ہندوستانی قیدیوں کو وہاں بھیجنا شروع کر دیا۔ وہاں انہیں جیلوں میں رکھنے کے بجائے مکمل آزادی دے دی گئی اور وہ اپنی پسند کے کاروبار کرنے لگے۔ہندوستانی باشندے جس علاقے میں آباد ہیں ، ا سے لٹل انڈیا

کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ سٹرن گون روڈ پر واقع ہے۔ یہاں پہنچ کر یہی محسوس ہوتا ہے جیسے بھارت کے کسی قدیم علاقے میں آگئے ہوں۔ یہاں ہر قسم کی دکانیں ہیں اور ضرورت کی ہر چیز ملتی ہے۔ پرتاپ سنگھ کا مرتب کیا ہوا ہندی زبان میں چھپا ہوا یہ کتابچہ اس سپرڈ یلکس ہوٹل کی طرف سے ہندوستان میں تقسیم کیا گیا تھا اور شمشیر سنگھ کو اس کتابچے کی تیاری کے سلسلے میں ایک ہزار ڈالر ملے تھے۔ اس کام کا یہ معاوضہ اگر چہ بہت کم تھا لیکن شمشیر نگھ نے اسے بھی غنیمت سمجھا تھا۔ اس آمدنی کے علاوہ اسے کتابچے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا تھا کہ سنگا پور کی تاریخ سے آگاہی کے علاوہ اسے اس جزیرے کے بچے بچے سے واقفیت ہو گئی تھی۔

شمشیر سنگھ کالج کے آخری سال میں تھا۔ فائنل ایگزیمز ہونے میں تقریباً دو مہینے باقی تھے۔ اس روز وہ کالج سے واپسی پر اپنے ایک دوست کے ہاں چلا گیا۔ وہاں سے واپس آیا تو شام کے چھ بج چکے تھے۔ سارا دن اس کا باپ گورکھ سنگھ ٹیکسی چلاتا تھا رات آٹھ بجے کے بعد شمشیر سنگھ ٹیکسی چلایا کرتا تھا۔ ان دنوں اس کی رہائیشی لٹل انڈیا میں واقع ایک تنگ سی گلی کے چھوٹے سے مکان میں تھی۔ ٹیکسی باہر مین روڈ پر کرائے کے ایک گیراج میں کھڑی کی جاتی تھی۔ اس روز گھر کی طرف جاتے ہوئے اسے گیراج کے سامنے ٹیکسی کھڑی ہوئی نظر آگئی۔ اسے اس وقت ٹیکسی دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کیونکہ عام طور پر اس کا باپ شام سات بجے واپس آیا کرتا تھا۔

کی گل ہے باپو۔ آج تم جلدی آگئے۔ ۔۔ اس نے گھر میں داخل ہو کر باپ کا سامنا ہوتے ہی پوچھا۔

 ا ہو پتر۔۔۔ گو رکھ سنگھ نے جواب دیا ۔۔۔پاکستان سے ایک فیملی سیرو تفریح کے لیے آئی ہے۔ انہوں نے مجھے رات بھر کے لیے بک کر کیا ہے۔ سات بجے جانا ہے۔ میں نے سوچا کہ ٹیکسی کو کچھ آرام کرا دوں۔

مجھے جانا ہو گا؟۔۔۔ شمشیر سنگھ نے سوالیہ نگاہوں سے باپ کی طرف دیکھا۔

 نہیں، میں ہی جاؤں گا۔۔۔ گورکھ سنگھ نے جواب دیا ۔۔۔تمہاری ماں اور بہن کھارا سنگھ کے گھر جارہی ہیں۔ میں انہیں چھوڑتا ہوا چلا جاؤں گا۔ تم رات دس بجے کے قریب انہیں جا کر لے آنا۔

ٹھیک ہے باپو۔ اس دوران میں تھوڑا پڑھ لوں گا۔۔۔ شمشیرسنگھ نے کہا۔

پانچ دس منٹ بعد شمشیر سنگھ کے گھر والے چلے گئے اور وہ پڑھنے کے لیے بیٹھ گیا اور پھر اس کے بعد اسے اپنی بہن اور ماں باپ  کو دیکھنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ نو بجے کے قریب اسے اطلاع ملی کہ اس کے گھر والوں کو حادثہ پیش آگیا ہے۔ اطلاع لانے والا بھی ایک ٹیکسی ڈرائیور ہی تھا۔ شمشیر سنگھ اس کے ساتھ ہی چل پڑا ۔ برکت نام کا وہ ادھیڑ عمر ٹیکسی ڈرائیور مسلمان تھا۔ شمشیر سنگھ بھی اسے ذاتی طور پر جانتا تھا۔ برکت راستے میں اسے بتا رہا تھا کہ گورکھ سنگھ کی ٹیکسی کو حادثہ ڈرائے کاٹ ایونیو پر ٹینگلن کلب کے قریب پیش آیا تھا۔ شمشیر سنگھ کے دل میں طرح طرح کے وسوسے آرہے تھے۔ اس کے باپ کا دوست کھارا سنگھ ٹینگلن کلب میں کام کرتا تھا اور اس کی رہائش بھی کلب کے قریب ہی تھی۔ شمشیر سنگھ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ ٹیکسی کو حادثہ کلب کی طرف جاتے ہوئے پیش آیا تھا یا واپسی پر۔

با پو ٹیکسی میں اکیلا تھا یا اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔۔۔ شمشیر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے برکت سے پوچھا

میرا مطلب ہے میری بہن اور بے بے بھی گاڑی میں تھیں یا نہیں۔ وہ انہیں کھارا سنگھ کے گھر چھوڑنے گیا تھا۔ اس کے بعد باپو کو کہیں اور جانا تھا۔ پاکستان سے آنے والی کسی فیملی نے رات بھر کے لیے اس کی ٹیکسی بک کروائی تھی ۔

اس کے ساتھ دو عورتیں بھی تھیں اور وہ یقینا تمہاری ماں اور بہن ہوں گی۔۔۔ برکت نے ٹیکسی کو ایک دوسری سڑک پر

موڑتے ہوئے جواب دیا۔

یہ حادیہ کیسے پیش آیا ۔ تم نے دیکھا ہے انہیں۔ وہ کیسےہیں؟۔۔۔ شمشیر سنگھ نے پوچھا۔ اس کی بے چینی بڑھ رہی تھی۔ وہ بار بار خشک ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا۔

ڈرائے کاٹ ایونیو پر ایک موڑ کاٹتے ہوئے پیٹرول کا ایک تیز رفتار ٹینکر ٹیکسی سے ٹکرا گیا تھا۔۔۔ برکت نے جواب دیا۔ وہ پوری بات گول کر گیا تھا۔

شمشیر سنگھ کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔ ٹیکسی کے پیٹرول ٹینکر سے ٹکرانے کا مطلب وہ اچھی طرح سمجھتا تھا۔ وہ اپنے سوال کا جواب سننے کی اپنے اندر ہمت نہیں پا رہا تھا۔

 حوصلہ رکھ یار۔۔۔ برکت نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ایسے حادثے تو زندگی میں ہوتے ہی رہتے ہیں۔ زندگی حادثوں ہی

کا تو نام ہے۔

شمشیر سنگھ خاموش بیٹھا خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتا رہا۔ تقریباً چالیس منٹ بعد وہ ڈرائے کاٹ ایونیو پر پہنچ گئے۔ کچھ آگے جا کر برکت کو ٹیکسی روک لینی پڑی۔آگے ٹریفک جام تھا اور اس سے کچھ آگے لوگوں کا ہجوم نظر آ رہا تھا۔ شمشیر سنگھ ٹیکسی سے اتر کر دوڑنے لگا۔ ہجوم کے قریب پہنچ کر وہ لوگوں کو دھکیلتا ہوا آگے بڑھا لیکن آگے نکلتے ہی اسے ایک جھٹکے سے رک جانا پڑا ۔ اس کے ساتھ ہی اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا اور سینے میں سانس رکتا ہوا محسوس ہونے لگا۔

بڑا ہی خوف ناک منظر تھا اس کے سامنے۔ پوری سڑک پر تیل بکھرا ہوا تھا۔ سڑک کے عین وسط میں پیٹرول کا ٹینکر الٹا پڑا تھا۔ ٹینکر جلا ہوا تھا۔ اس کی آگ غالباً کچھ دیر پہلے ہی بجھائی گئی تھی۔ کہیں کہیں سے اب بھی دھواں اٹھ رہا تھا۔ ٹینکر سے تقریباً دس گز آگے اس کے باپ کی ٹیکسی بھی الٹی پڑی تھی۔ ٹیکسی بھی جل کر کو کوئلا ہو چکی تھی۔ پچھلی طرف کا کچھ حصہ جلنے سے محفوظ رہ گیا تھا اور لائسنس پلیٹ کا نمبر صاف نظر آرہا تھا۔ چار پانچ پولیس والے جلی ہوئی ٹیکسی کے قریب کھڑے تھے۔ پولیس والوں نے لوگوں کو دور رکھنے کے لیے سڑک کو گھیر رکھا تھا۔ شمشیر سنگھ لوگوں کو ہٹاتا ہوا جیسے ہی آگے بڑھا دو پولیس والوں نے اسے روک لیا۔

اُوئے سردار رک جاؤ ۔ تم آگے نہیں جاسکتے۔ پیچھے ہو۔ ۔۔ایک پولیس والے نے چیخ کر کہا۔

یہ یہ ۔۔ہ ہ ما ۔۔ہماری ٹیکسی ہے۔ اس میں میرا باپو اور۔۔۔اور۔۔۔۔شمشیر سنگھ ہکلا کر رہ گیا۔ وہ جملہ مکمل نہیں کر سکا تھا۔

 پولیس والا عجیب سی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے نہ صرف شمشیر سنگھ کو آگے جانے کی اجازت دے دی بلکہ خود بھی اس کے ساتھ چل پڑا۔ قریب پہنچ کر اس نے ایک آفیسر کو شمشیر سنگھ کے بارے میں بتایا۔

شمشیر سنگھ ایک پولیس آفیسر کو ہٹاتا ہوا آگے بڑھ گیا اور پھر اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس پر قیامت ٹوٹ پڑی ہو۔ ٹیکسی بری طرح پچکی ہوئی تھی۔ پیٹرول کا ٹینکر غالباً اسے دور تک گھسیٹتا ہوا لایا تھا۔ ٹیکسی کے دروازے اندر کو دھنس کر پھنس گئے تھے اور ٹیکسی میں تین لاشیں پڑی تھیں۔ جلی ہوئی لاشیں۔ اس کے باپو ، ماں اور بہن کی لاشیں جل کر کو ئلا ہو چکی تھیں۔ شمشیر سنگھ اس اندوہناک منظر کی تاب نہ لا سکا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ وہ اپنی جگہ کھڑے کھڑے لہرایا اور پھر دھڑام سے نیچے گر گیا۔

شمشیر سنگھ کئی روز بعد اپنے آپ کو سنبھال سکا تھا۔ اس کی بہن اور ماں باپ ختم ہو چکے تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی بدل نہیں تھا لیکن حکومت کی طرف سے اسے اتنا معاوضہ مل گیا کہ اسے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا سہارا مل گیا۔ اگر وہ پیٹرول ٹینکر گورنمنٹ کا نہ ہوتا تو اسے کچھ بھی نہ ملتا۔

امتحان سے فارغ ہوتے ہی اس نے کسی کام دھندے کے بارے میں سوچا۔ وہ ٹیکسی چلا سکتا تھا۔ اس کے پاس اتنی رقم تھی کہ ایک نہیں چار ٹیکسیاں خرید سکتا تھا لیکن ٹیکسی چلانے کا خیال اس نے ذہن سے نکال دیا۔ سنگا پور کی تمام مارکیٹوں میں گھومنے اور جائزہ لینے کے بعد اس نے وہ کام شروع کر دیا جس میں نقصان کا اندیشہ کم تھا۔ وہ بڑے بیوپاریوں سے مال لے کر چھوٹے دکان داروں کو سپلائی کرنے لگا۔ اس میں اگر چہ محنت زیادہ تھی لیکن چار پیسے بچ جاتے تھے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page