A Dance of Sparks–07–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔

رقصِ آتش قسط نمبر 07

کئی سال تک شمشیر سنگھ یہی کام کرتا رہا پھر اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور خود امپورٹ کا کام شروع کر دیا۔ وہ ہندوستان سے مرچ مصالے منگوا کر سنگا پور میں سپلائی کرنے لگا۔ یہاں مصالا جات کے تین امپورٹر اور بھی تھے مگر شمشیر سنگھ کو اس فیلڈ میں قدم جمانے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی تھی۔ لٹل انڈیا والا مکان چھوڑ کر وہ فورٹ کینتگ روڈ والے مکان میں منتقل ہو گیا۔ لٹل انڈیا والا مکان اس کے باپ نے کرائے پر لیا تھا۔ ماں باپ کے  انتقال کے بعد جب اس کے پاس پیسے آئے تو اس نے وہ مکان خرید لیا تھا۔ اور اب جبکہ وہ فورٹ کینتگ روڈ والے مکان میں منتقل ہو چکا تھا تو اس نے وہ مکان بھی نہیں چھوڑا تھا۔

آج سے بارہ سال پہلے اس کی ملاقات فرقان سے ہوئی تھی۔ فرقان اور اس کی بیوی شمیم آراء  چند روز پہلے ہی پاکستان سے آئے تھے اور لٹل انڈیا میں واقع ایک گھٹیا سے ریسٹ ہاؤس میں ٹھرے ہوئے تھے۔ دوسرے ہی روز ان کا سامان چوری ہو گیا تھا۔ شمیم آراء کی گود میں دو ماہ کا بچہ تھا اور وہ دونوں میاں بیوی کام کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے۔

شمشیر سنگھ کے پاس بھی فرقان کام کی تلاش ہی میں آیا تھا۔ اس وقت شمیم آراء بھی اس کے ساتھ تھی جس نے دو ماہ کے بچے کو اپنے سینے سے لپٹا رکھا تھا۔ شمشیر سنگھ کو نجانے فرقان میں ایسی کیا بات نظر آئی کہ اس نے فرقان کو نہ صرف اپنے پاس ملازم رکھ لیا بلکہ رہائش کے لیے اپنا لٹل انڈیا والا مکان بھی دے دیا۔ اس نے اپنی جیب سے ایک مہینے کا راشن بھی ڈلوا دیا اور دو مہینے کی تنخواہ بھی ایڈوانس دے دی۔

چھ مہینے بعد شمشیر سنگھ نے فرقان کو سنٹر پوائنٹ میں ملازمت دلوا دی۔ سنٹر پوائنٹ سنگاپور کا سب سے بڑا شاپنگ آرکیڈ تھا۔ یہاں تنخواہ بھی زیادہ تھی اور کمیشن بھی اچھا خاصامل جاتا تھا۔

شمشیر سنگھ اور فرقان دوستی کے گہرے رشتے میں منسلک ہو چکے تھے۔ وہ شمیم آراء کو پا بھو کہتا۔ شمیم آراء بھی اس کا بہت خیال رکھتی تھی۔ لگتا تھا جیسے شمشیر سنگھ بھی اسی مختصرسے کنبے کا ایک رکن ہو۔

روحان ، شمشیر سنگھ کی گود میں پلا بڑھا تھا۔ وہ اسے چاچا کہتا تو شمشیر سنگھ جھوم اٹھتا۔ فرقان نے چند سال نوکری کی۔ اس کے پاس اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ اس نے نوکری چھوڑ کر چائنا ٹاؤن میں جنرل اسٹور کھول لیا۔ اس سے پہلے اس نے شمشیر سنگھ کے پڑوس میں وہ مکان خرید لیا تھا۔ مکان کی خرید اور اسٹور کھولنے کے سلسلے میں شمشیر سنگھ نے فرقان کی مالی مدد بھی کی تھی۔ شمشیر سنگھ کی شادی چھ سال پہلے ہوئی تھی لیکن شادی کے ایک سال بعد زچگی کے دوران میں اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ اس نے جس بچی کو جنم دیا تھا وہ بھی زندہ نہیں بچ سکی تھی۔ اس کے بعد پرتاپ سنگھ کے کئی دوستوں نے اسے دوسری شادی کا مشورہ دیا تھا لیکن شمشیر سنگھ نے اب شادی کا خیال ذہن سے نکال دیا تھا۔ اس موضوع پر ایک روز فرقان سے بھی بڑی گرما گرم بحث ہوئی تھی لیکن شمشیر سنگھ نے دوسری شادی سے صاف انکار کر دیا تھا۔

ان سب کی زندگی بڑے سکون سے گزر رہی تھی، اور پھر اچانک ہی فرقان کی زندگی میں بھونچال آگیا۔ رانا کو دیکھ کر وہ خوف زدہ ہو گیا تھا۔ شمشیر سنگھ نے اگر چہ اسے تسلی دی تھی کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی حفاظت کا بھی معقول انتظام کر دیا گیا تھا لیکن انہیں کیا معلوم کہ موت گھات لگائے بیٹھی ہے اور پھر موقع پاتے ہی موت ان پر جھپٹ پڑی تھی ۔

روحان کے ساتھ جو کچھ بیت رہی تھی شمشیر سنگھ کو اس کا احساس تھا۔ وہ بھی اس کرب سے گزر چکا تھا۔ وہ بھی چشم زدن میں اپنے ماں باپ سے محروم ہو گیا تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے یہ صدمہ برداشت کیا تھا۔ اس نے اپنی بہن اور ماں باپ کی جلی ہوئی لاشیں دیکھی تھیں۔ انہیں چیختے اور تڑپتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ جبکہ روحان نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ماں باپ کو چیختے تڑپتے اور مرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بڑا باہمت لڑکا تھا جو یہ سب کچھ سہہ گیا تھا۔ ماں باپ کے معاملے میں دونوں بد قسمت ثابت ہوئے تھے۔

شمشیر سنگھ اور روحان میں یہ فرق تھا کہ شمشیر سنگھ کے ماں باپ ایک حادثے کا شکار ہوئے تھے اور حکومت نے اسے معاوضہ بھی دے دیا تھا جس سےاُسے  اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا موقع مل گیا تھا۔ جبکہ روحان ایک مختلف صورت حال کا شکار تھا اس کے ماں باپ قتل ہوئے تھے اور وہ اس دُہرے قتل کا چشم دید گواہ تھا۔

اس نے قاتلوں کو دیکھا تھا۔ انہیں پہچان سکتا تھا۔ قاتلوں کو بھی احساس تھا کہ روحان انہیں پھانسی کے تختے پر پہنچا سکتا ہے۔ وہ یقیناً اس کی تاک میں ہوں گے۔ اس طرح روحان کی زندگی کو بھی خطرہ تھا۔ اگرچہ اس کی حفاظت کا انتظام کر دیا گیا تھا لیکن شمشیر سنگھ جانتا تھا کہ اس کے دشمن موقع ملتے ہی اس پر وار کریں تھے۔ شمشیر سنگھ گھر میں بھی سائے کی طرح روحان کے ساتھ لگا رہتا۔ ایک لمحے کو بھی اسے اپنی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیتا۔ وہ اگر ایک کمرے سے دو سرے کمرے میں جاتا تھا تو بھی شمشیر سنگھ اس کے پیچھے پہنچ جاتا۔ باہر دو سرے پولیس والے چوبیس گھنٹے موجود رہتے تھے۔ شمشیر کے اپنے دو گن مین تھے جو ہر وقت مکان کے آس پاس گھومتے رہتے تھے اور گلی سے گزرنے والے ہر شخص پر نگاہ رکھتے تھے۔

شمشیر سنگھ کو اپنے کاروبار کی فکر نہیں تھی۔ کاروبار کی دیکھ بھال کے لیے اس کے قابل اعتماد ملازمین موجود تھے۔ وہ خود بھی ٹیلی فون پر اپنی پارٹیوں سے بات کرتا رہتا تھا۔ اسے صرف روحان کی فکر تھی۔ وہ اسے نہ صرف دشمنوں سے بچانا چاہتا تھا بلکہ اس کی پرورش اس انداز سے کرنا چاہتا تھا کہ وہ بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کے قتل کا انتقام لے سکے اور اپنے دشمنوں کو خاک و خون میں لوٹا سکے۔

شمشیر سنگھ نے کالج کی تعلیم کے دوران میں مارشل آرٹ سیکھا تھا۔ وہ بلیک بیلٹ تھا اور مزید آگے جانا چاہتا تھا لیکن اس دوران میں اس کے ماں باپ کو وہ حادثہ پیش آگیا۔ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے جتن کرنے لگا۔ مارشل آرٹ سے اس کی دلچسپی ختم نہیں ہوئی تھی لیکن اب اس کے پاس وقت نہیں تھا اور اب اس صورتِ حال میں ایک بار پھر اس نے دل میں مارشل آرٹ کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ وہ روحان کو بھی مارشل آرٹ کا ما ہر بنانا چاہتا تھا تا کہ آئندہ زندگی میں اپنا دفاع کر سکے۔ اس شام وہ کئی روز بعد روحان کو ساتھ لے کر گھر سے باہر نکلا۔ دونوں پولیس کانسٹیبل بھی ان کے ساتھ تھے اور شمشیر سنگھ کے اپنے باڈی گارڈ بھی۔ اس رات شمشیر سنگھ نے سنچری پارک شیرٹن ہوٹل میں ڈنر کا پروگرام بنایا تھا۔ یہ ہوٹل اس کے مکان سے خاصا دور تھا اور شمشیر سنگھ نے اس کا انتخاب بھی اس لیے کیا تھا۔ وہ اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ کسی کی نظروں میں آتے ہیں یا نہیں۔

ایک کار میں شمشیر سنگھ اور روحان سوار تھے۔ پچھلی سیٹ پر دونوں کانسٹیبل بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسری گاڑی میں شمشیر سنگھ کے دونوں باڈی گارڈ تھے۔ دونوں گاڑیاں فورٹ کینتگ روڈ سے نکل کر کلی مینسی ایونیو پر گئیں اور تھوڑا ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد پینانگ روڈ پر مڑگئیں دونوں گاڑیوں کے درمیان تقریباً تین گز کا فاصلہ تھا۔

اسٹیرنگ کے سامنے بیٹھے ہوئے شمشیر سنگھ کی نظریں چاروں طرف گھوم رہی تھیں۔ وہ سامنے لگے ہوئے آئینے میں پیچھے آنے والی باڈی گارڈز کی گاڑی پر بھی نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ کار سمرسٹ روڈ پر امریکن ایکسپریس سنٹر کے سامنے سے گزرتی ہوئی آرچر ڈبے وارڈ کی طرف مڑگئی۔ اس وقت رات کے ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ اس کشادہ سڑک پر ٹریفک کا ہجوم تھا۔ شمشیر سنگھ بڑے محتاط انداز میں گاڑی چلا رہا تھا۔ ایک طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد کار ٹامن سن روڈ پر مڑگئی اور کچھ آگے جاکر ایک اور موڑ کاٹتے ہوئے سینٹ مارٹن ڈرائیو کی طرف گھوم گئی۔ سنچری پارک شیرٹن ہوٹل اس سڑک کے اختتام پر تھا۔

وسیع و عریض پارکنگ لاٹ پر گاڑی روکنے کے بعد وہ نیچے اتر آئے۔ دوسری گاڑی بھی ان سے کچھ فاصلے پر رک گئی تھی۔ دونوں پولیس والے با ہر ہی رک گئے لیکن پرتاب کے باڈی گارڈ ز جو سادہ لباس میں تھے، ان کے ساتھ اندر آگئے۔ شمشیر نے پہلے ہی میز بک کروا رکھی تھی۔ وہ جیسے ہی ڈائننگ ہال میں داخل ہوئے ہیڈ ویٹر نے انہیں ان کی میز پر پہنچا دیا ۔

روحان اپنے ماں باپ کے ساتھ اکثر ہوٹلوں میں جاتا رہا تھا لیکن یہاں وہ پہلی بار آیا تھا۔ اس کے لیے ہر چیز نئی تھی۔ وہ بڑی دلچسپی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ان کی میز پر کھانا سرد کردیا گیا۔ کھانا سرو کرنے والی حسین ویٹریس نے بڑے دلکش انداز میں مسکراتے ہوئے روحان کی طرف دیکھا اور اس کے گال پر ہلکی سی چٹکی کاٹ لی۔

کھانے کے بعد وہ تقریباً آدھا گھنٹا وہاں بیٹھے رہے اور پھر اٹھ کر ہوٹل کے شاپنگ آرکیڈ میں گھومنے لگے۔ ایک گفٹ شاپ سے شمشیر سنگھ نے روحان کو دو تین چیزیں خرید کر دیں اور پھر ہوٹل سے باہر آگئے۔

دونوں کاریں ہوٹل کی حدود سے نکل کر سڑک پر آگئیں۔ سینٹ مارٹن ڈرائیو کے اختتام پر شمشیر سنگھ نے کار آرچرڈ بلے وارڈ کے بجائے ٹھینگان روڈ پر موڑی اور کچھ ہی فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ آرچرڈ روڈ پر آگئے۔

یہ شہر کی سب سے بڑی اور بارونق سڑک تھی۔ تمام بڑے بڑے ہوٹل، شاپنگ سینٹرز بڑی بڑی عمارتیں، نائٹ کلب اور کاروباری دفاتر اس سڑک پر اور اس کے آس پاس واقع تھے۔ یہ علاقہ شہر کا دل کہلاتا تھا۔ آٹھ بجے تک بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز کھلے رہتے تھے۔ دوسری دکانیں اور ہوٹل وغیرہ دیر تک کھلے رہتے تھے اور اسی طرح تقریباً آدھی رات تک یہاں رونق رہتی تھی۔

لیڈو تھیٹرسے ذرا پہلے ایک ٹریفک سگنل پر شمشیر سنگھ کو گاڑی روک لینی پڑی۔ اس سے آگے دو گاڑیاں اور تمھیں۔ پہلے ہی گاڑیوں کی قطار لگ گئی تھی۔ روحان اپنی سیٹ پر بیٹھا ادھر ادھردیکھ رہا تھا۔ ایک موٹر سائیکل کار کے قریب ہی آکر رکی۔ موٹر سائیکل پر دو آدمی سوار تھے۔ روحان ان کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ دونوں چینی تھے۔ آگے والے آدمی کے ہاتھ موٹر سائیکل کے ہینڈل پر جتے ہوئے تھے اور وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ جیسے ہی روحان کی نظروں میں آیا وہ چیخ اٹھا۔

چاچا ۔۔۔۔ یہ ہے وہ غنڈا ۔ اس نے مارا تھا میری ممی کو ۔۔۔

 شمشیر سنگھ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ موٹر سائیکل سوار چینی نے بھی روحان کی چیخ کی آواز سن لی تھی۔ اس نے روحان کی طرف دیکھا اور پھر دو سرے ہی لمحے وہ سیدھا ہو گیا۔ موٹر سائیکل اچھل کر آگے بڑھ گئی۔

شمشیر سنگھ اور پولیس والے بڑی پھرتی سے کار سے اتر آئے لیکن موٹر سائیکل چوراہے پر پہنچ کر بڑی تیزی سے سگنل توڑتی ہوئی سامنے والے ٹریفک کے ہجوم میں غائب ہو چکی تھی۔ شمشیر سنگھ اور دونوں کانسٹیبیل دوڑ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ انجن اسٹارٹ ہی تھا۔ پرتاب نے گاڑی کو گیئر میں ڈال کر کلچ پر پیر رکھ دیا ۔ سگنل ایک منٹ بعد کھلا تھا۔ آگے والی دونوں گاڑیار جیسے ہی حرکت میں آئیں، شمشیر سنگھ نے اسٹیئرنگ موڑتے ہوئے کلچ چھوڑ دیا۔ گاڑی ایک زور دار جھٹکے سے اچھل کر آگے بڑھی۔ شمشیر سنگھ نے ایکسیلر یٹر پر پیر کا دباؤ ڈال دیا ۔ گاڑی طوفانی رفتا سے دوڑنے لگی۔

اسٹیئرنگ کے سامنے بیٹھا ہوا شمشیر سنگھ ادھر اُدھر دیکھ ر تھا۔ اسے اس موٹر سائیکل کی تلاش تھی۔ کراؤن پرنس ہوٹل ۔ موڑ پر پہنچ کر اس نے گاڑی روک لی اور گہرے گہرے سانس لیے ہوئے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ لیڈو تھیٹرسے کراؤن پر نسں ہوٹل تک راستے میں دائیں بائیں کئی چھوٹی بڑی سڑکیں پھوٹتی تھیں۔ وہ موڑ سائیکل نجانے کس طرف نکل گئی ہوگی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page