A Dance of Sparks–08–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔

رقصِ آتش قسط نمبر 08

نکل گئے۔ ۔۔ شمشیر سنگھ دونوں ہاتھ اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا ۔۔۔ تمہیں یقین ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے حملہ کیا تھا؟

ہاں چاچا۔ ۔۔ روحان بولا ۔۔۔ موٹر سائیکل پر جو شخص آگے بیٹھا ہوا تھا، اس نے ممی کو قتل کیا تھا۔ دوسرے کو میں نہیں جانتا لیکن ان چہروں کو تو میں کبھی نہیں بھول سکتا جنہوں نے میرے ماں باپ کو مارا ہے۔”

فکر نہ کر پتر۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا۔۔۔ یہ لوگ بچ کر نہیں جائیں گے۔ سوں رب دی میں انہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔

 چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر بولا۔۔۔میرا خیال ہے کہ وہ ہمارا پیچھا نہیں کر رہے تھے محض اتفاق سے سامنے آگئے تھے۔ تم انہیں پہچان کر چیخے  تو وہ بد حواس ہو کر بھاگ گئے۔

 اسی دوران میں دوسری گاڑی بھی ان کے پیچھے آکر رک گئی۔سوتر سنگھ نامی گارڈ اپنی گاڑی سے اتر کر ان کے قریب آگیا اور شمشیر سنگھ کی طرف کھڑکی پر جھکتے ہوئے بولا۔

کی گل ہےجی۔ آپ اتنی تیزی سے وہاں سے کیوں چلےتھے۔ ہم تو پریشان ہو گئے تھے۔ “

ایک بندہ نظر آگیا تھا۔ ۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا ۔۔۔روحان نے اسے پہچان لیا تھا۔ اس نے چیخ کر مجھے اس کے بارے میں بتایا تو وہ وہاں سے بھاگ نکلا۔ وہ تو اپنی پھٹ پھٹی نکال لے گیا لیکن میرے آگے دو گاڑیاں تھیں۔ مجھے سگنل کھلنے کا انتظار کرنا پڑا۔ سگنل کھلتے ہی میں نے گاڑی دوڑا دی لیکن وہ پتا نہیں کہاں غائب ہوگئے۔

سوتر سنگھ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ ایک موٹر سائیکل وہاں آکر ر کی۔ وہ پولیس کا سارجنٹ تھا۔ اسے دیکھ کر شمشیر سنگھ کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ اسے یاد آگیا کہ سڑک پر اس طرح گاڑی کھڑی کرنا خلاف قانون ہے۔ اس نے جلدی سے انجن اسٹارٹ کر دیا لیکن اس دوران میں سارجنٹ موٹر سائیکل سے اتر کر اس کے قریب آچکا تھا۔ وہ چینی تھا۔

تم کو معلوم اس طرح گاڑی کھڑی کرنا جرم ہے؟

 معلوم ہے معلوم ۔۔۔ شمشیر سنگھ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔۔۔ غلطی ہو گئی سرکار۔ اس مرتبہ معاف کردو۔ آئندہ ایسی غلطی

نہیں ہوگی۔

معاف کر دیا ۔ ۔۔ چینی سارجنٹ بولا ۔۔۔ہم تم کو وار ننگ دیتا ۔ آئندہ ایسا غلطی مت کرنا مانگتا۔

نہیں مانگتا سرکار ۔ ۔۔ شمشیر سنگھ نے کہتے ہوئے گاڑی کو گیئر میں ڈال دیا اور اسے ہلکے سے جھٹکے سے آگے بڑھا دیا ۔ اس دوران میں سوتر سگے بھی اپنی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ اگلے ہی لمہے اس کی گاڑی بھی حرکت میں آچکی تھی۔

شمشیر سنگھ کی کار کی رفتار ہلکی تھی۔ وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ شاید وہ موٹر سائیکل سوار کہیں نظر آجائیں مگر وہ بھی اتنے بے وقوف نہیں تھے کہ پہچان لیے جانے کے بعد بھی اس علاقے میں گھومتے رہتے۔

گھر پہنچنے کے  بعد شمشیر سنگھ دیر تک سوچتا رہا کہ فرقان اور شمیم آراء کے قاتلوں نے ابھی تک غالباً یہ بات نہیں سوچی تھی کہ اس واردات میں زندہ بچ جانے والا بچہ ان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لیکن اب جبکہ روحان نے ان میں سے ایک کو پہچان لیا تھا انہیں خطرے کا احساس ہو جائے گا اور وہ خاموشن نہیں بیٹھیں گے۔

روحان کے لیے اب خطرہ کچھ اور بڑھ گیا تھا۔ ماں باپ کے قتل کے بعد سے روحان اپنے گھر نہیں گیا تھا۔ وہ شمشیر سنگھ کے گھر پر ہی رہ رہا تھا لیکن آج اچانک ہی اسے گھر کی یاد آگئی۔

چاہا۔۔۔ وہ شمشیر سنگھ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ مجھے گھر یاد آرہا ہے۔ لے چلو نا مجھے۔

میں نے تمہارے مکان کی چابیاں پتا نہیں کہاں رکھ دی ؟ پتر۔۔۔ شمشیر سنگھ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔میں صبح تمہیں  لے چلوں گا۔

چابیاں شمشیر سنگھ کے تکئے کے نیچے رکھی ہوئی تھیں۔ گھر بھی زیادہ دور نہیں تھا۔ ساتھ والا دروازہ تو تھا لیکن اس نے جا ن بوجھ کر ٹال دیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اپنے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک ایک چیز کو دیکھ کر روحان کو اپنے ماں باپ کی یاد آجائے گی، وہ رونا شروع کر دے گا۔ اس کی طبیعت خراب ہو جائے گی اورا س کی رات بے چینی میں گزرے گی۔

وہ روحان کو بہلانے کے لیے دیر تک اس سے باتیں کرتارہا۔اس چینی کے بارے میں بھی اس نے کئی سوال کیے تھے۔

اس کی شکل میں کبھی نہیں بھول سکتا چا چا۔۔۔ روحان  نے اس کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔اسے تو میں جہاں بھی دیکھ لوں گا پہچان لوں گا اور ہاں ۔۔۔۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ رانا نے اسے کسی نام سے بھی مخاطب کیا تھا۔وہ نام کیا تھا۔

 وہ خاموش ہوکر  سوچنے لگا لیکن نام  اسے یاد نہیں آیا ۔۔۔ا بھی یاد نہیں آرہا ۔۔۔ اس کے لہجے میں بے بسی تھی ۔۔۔لیکن یاد آجائے گا۔ میں رات بھر سوچو گا۔

مجھے یقین ہے کہ رانا نے تمہارے ماں باپ پر حملہ کرا نے کے لیے کرائے کے قاتلوں کی خدمات حاصل کی ہوں گی اور وہ ان میں سے ایک ہوگا۔ اگر اس کا نام معلوم ہو جائے تو اُسے  آسانی سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ زیر زمین دنیا میں میرے بھی جانے والے ہیں۔ کسی نہ کسی سے اس کا پتا چل جائے گا۔

 فکر مت کرو چاچا ۔۔۔ روحان نے پراعتماد لہجے میں کہا ۔۔۔میں  نے اسے صورت سے پہچان لیا ہے تو اس کا نام بھی مجھے یاد آجائے گا۔

اچھا پتر۔۔۔ شمشیر سنگھ نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔۔۔تم سو جاؤ۔ صبح بات کریں گے۔

میں کب تک گھر میں بند رہوں گا چا چا ۔۔۔ روحان اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ میرے اسکول کا کیا ہو گا۔ میری پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے۔

ابھی چند روز تک تو تمہیں اسکول سے چھٹی کرنی پڑے جب تک یہ لوگ پکڑے نہیں جاتے، آزادی سے گھومنا ؟ تمہارے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ جہاں تک تمہارا پڑھائی کا تعلق ہے تو ایسا کرو۔ کل سے میں تمہیں پڑھا دیا کروں گا۔

ٹھیک ہے چا چا لیکن اگر وہ لوگ نہ پکڑے گئے تو کیا میں گھرسے نہیں نکل سکوں گا ۔۔۔ روحان نے کہا۔

وہ لوگ پکڑے جائیں گے۔ ضرور پکڑے جائیں گے۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا ۔۔۔اگر قانون ان کا سراغ نہ لگا سکا تو میں انہیں ڈھونڈ نکالوں گا۔ تمہارے ماں باپ کے قاتلوں کی تلاش کو میں نے اپنا مشن بنالیا ہے۔ جب تک ان سے انتقام نہیں لے لوں گا، مجھے بھی چین نہیں آئے گا۔ تو فکر نہ کر۔ میں زندہ ہوں۔ نہ تمہیں کوئی نقصان پہنچنے دوں گا اور نہ ہی فرقان اور پا بھو شمیم آراء کے قاتلوں  کو  معاف  کروں  گا۔

میں بھی تمہارے ساتھ رہوں گا چاچا۔۔۔ روحان نےپُراعتماد لہجے میں کہا۔

ہاں پتر۔ ۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا۔۔۔انتقام ہم دونوں کا مشن ہے اور ہم اسے پایہ تکمیل تک ضرور پہنچا ئیں گے۔

 روحان جواب میں کچھ کہنے کے بجائے خاموشی سے چھت کو گھورتا رہا۔ شمشیر سنگھ بھی خاموش رہا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد روحان تو سو گیا مگر شمشیر سنگھ جاگتا رہا اور سوچتا رہا۔ صبح جب وہ بیدار ہوا تو روحان پہلے ہی جاگ چکا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد ناشتے سے نمٹ کر شمشیر سنگھ نے چابیاں اٹھا ئیں اور روحان کو لے کر مکان سے باہر آگیا۔ کچھ دیر تک وہ گلی میں کھڑا ادھر ادھر دیکھتا رہا ۔ اسی دوران میں گلی میں رہنے والا کیقباد نامی ایک پاردری اپنے گھر سے نکل کر وہاں آگیا۔ وہ لوگ کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے پھر کیقباد کے جانے کے بعد شمشیر سنگھ نے جیب سے چابیوں کا کچھا نکالا اور فرقان کے مکان کے گیٹ کا تالا کھولنے لگا۔

دو تین منٹ بعد وہ مکان کے اندر موجود تھے۔ مکان کا دروازہ کئی روز بعد کھلا تھا۔ ہر چیز گرد آلود تھی۔ اسے یاد تھا شمیم آراء صفائی کا بڑا خیال رکھتی تھی۔ گھر کی ہر چیز سلیقے سے اپنی جگہ رکھی ہوئی اور صاف ستھری نظر آتی مگر اب ہر چیز پر گرد جمی ہوئی تھی۔ شمشیر سنگھ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ سیکیوں کی آواز سن کر چونک گیا۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ روحان لاؤنج میں نظر نہیں آرہا تھا۔ سسکیوں کی آواز بیڈ روم سے آرہی تھی۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ، بیڈ روم میں داخل ہو گیا۔

روحان آتش دان کے سامنے کھڑا تھا۔ کارنس پر اسٹین لیس پر  اسٹیل کے خوب صورت فریم میں فرقان اور شمیم آراء کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ شمیم آراء کی گود میں روحان تھا۔ جس وقت یہ تصویر لی گئی تھی اس وقت روحان کی عمر ایک سال یا اس کے لگ بھگ

رہی ہوگی۔

روحان نے دونوں ہاتھوں سے فریم کو تھام رکھا تھا اور تصویر کو دیکھ کر سسکیاں بھر رہا تھا۔ شمشیر سنگھ نے اس کے قریب پہنچ کر دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ دیے۔

روحان پتر !۔۔۔ وہ نرم لہجے میں بولا۔۔۔ مجھے معلوم ہے تمہارے دل پر گہرے زخم لگے ہیں۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔

میں نے بھی اپنے ماں باپ کی جلی ہوئی لاشیں دیکھی تھیں تو میں تو اپنے آپ کو  کھو بیٹھا تھا۔ لیکن تم نے جس حو صلے سے یہ صدمہ جھیلا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اب صبر کرو پتر! جانے والے واپس نہیں آتے مگر اپنی یا دیں چھوڑ جاتے ہیں۔ تم جس اذیت اور کرب سے گزر رہے ہو، اس کا مجھے اندازہ ہے مگر اب صبر کرو۔ حوصلہ اور صبر ہی اس دکھ کا علاج ہے۔ حوصلے سے کام لو پتر !۔

  اتنا حوصلہ کہاں سے لاؤں چا چا۔۔۔ روحان کہتے ہوئے اس سے لپٹ گیا اور بلک بلک کر رونے لگا۔

 شمشیر سنگھ اس کا کندھا تھپتھپا تا رہا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ اس کی اپنی آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں۔ کتنی دیر بعد روحان اپنی کیفیت پر قابو پا سکا تھا۔ روحان پورے گھر میں گھوم رہا تھا اور ایک ایک چیز کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ شمشیر سنگھ اس کے ساتھ ساتھ تھا۔ وہ دونوں ایک بار پھر بیڈ روم میں آگئے۔

بیڈ روم میں ایک دیوار کے ساتھ تقریباً چھ فٹ چوڑی اور آٹھ فٹ اونچی لکڑی کی الماری بنی ہوئی تھی۔ جس کے تین دروازے تھے۔ ایک دروازے میں چابیوں کا گچھا بھی لٹکا ہوا تھا۔ روحان نے چابی گھما کر وہ دروازہ کھول دیا۔ الماری کے اس حصے میں شمیم آراء کے کپڑے ہینگروں پر ٹنگے ہوئے تھے۔ زیادہ تر ساریاں تھیں۔ نچلے حصے میں شیلفوں پر استری  شدہ کپڑے رکھے ہوئے تھے۔ اس نے دروازہ بند کر کے الماری کا دوسرا حصہ کھول لیا۔ اس الماری میں فرقان کے کپڑے تھے۔ روحان کچھ دیر ان کپڑوں کو دیکھتا رہا پھر اس نے الماری کا تیسرا دروازہ کھول لیا۔ الماری کے اس حصے میں اوپر نیچے کئی شیلف بنے ہوئے تھے۔ جس میں فائلیں اور رجسٹر وغیرہ سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔ سب سے نیچے ایک دراز تھی۔ روحان نے جھک کر وہ دراز کھول لی۔ شمشیر سنگھ اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ روحان جب سیدھا ہوا تو اس کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر شمشیر سنگھ چونک گیا۔

 ارے بیٹا ! یہ کیا۔ لاؤ یہ پستول مجھے دے دو۔۔۔شمشیر سنگھ بولا۔

نہیں چاچا۔۔۔ روحان نے پستول پر مضبوطی سے گرفت جماتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہ پستول میرے پاس ہی رہے گا۔ میں اس پستول کی گولیوں سے ان لوگوں کے سینے چھلنی کردوں گا جنہوں نے میرے ماں باپ کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔

 شمشیر سنگھ کو یوں لگا جیسے روحان ایک دم جوان ہو گیا ہو۔

 نہیں پتر!۔۔۔ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔ بھی یہ پستول تمہارے پاس رہنا مناسب نہیں ہے۔ جب وقت آئے گا تو میں خود پستول تمہارے ہاتھ میں دوں گا۔ لاؤ۔ اس وقت یہ مجھے دے دو۔۔۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔

وعدہ چاچا ؟۔۔۔ روحان نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ 

ہاں۔ وعدہ ۔۔۔ شمشیر سنگھ مسکرایا۔

روحان نے پستول اس کے ہاتھ میں دے دیا اور مڑ کر دراز میں رکھی ہوئی چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ شمشیر سنگھ قریب ہی کھڑا تھا۔ اس دراز میں اور بہت سی دوسری چیزوں کے علاوہ ایک پرانی سی ڈائری بھی رکھی ہوئی تھی۔ روحان نے وہ ڈائری نکال لی اور وہ اسے کھول کر دیکھنے لگا۔ شمشیر سنگھ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے ڈائری لے لی اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ ڈائری بہت پرانی تھی۔ اس کے کاغذ پیلے پڑ چکے تھے۔ پہلے صفحے پر فرقان کا نام اور اس کے ساتھ لکھی ہوئی تاریخ دیکھ کر شمشیر سنگھ چونک گیا۔ بارہ سال پہلے کی تاریخ تھی۔ شمشیر سنگھ کا خیال تھا کہ فرقان چونکہ کاروباری آدمی تھا اس لیے اس ڈائری میں بھی حساب کتاب ہی ہو گا لیکن جب اس نے اوراق پلٹے تو اسے ایک بار پھر چونک جانا پڑا ،  اس ڈائری میں حساب کتاب نہیں تھا بلکہ مختلف تاریخوں میں یادداشتیں لکھی ہوئی تھیں۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page