رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر 09
اس ڈائری میں تمہارے ڈیڈی کی یادداشتیں ہیں۔۔۔ شمشیر نگھ بولا۔۔۔ اگر تم اجازت دو تو میں اسے اپنے پاس رکھ لوں۔ پڑھنے کے بعد تمہیں لوٹا دوں گا۔
”مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے چا چا۔ ۔۔ روحان نے کہا۔
شمشیر سنگھ نے ڈائری بند کر کے بغل میں دبالی اور روحان کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر مکان میں گھومنے لگا۔ وہ تین چار گھنٹوں تک اس مکان میں رہے اور جب باہر نکلنے لگے تو روحان نے اپنا بستہ بھی اٹھا لیا تھا۔
اپنے گھر میں آکر شمشیر سنگھ نے ڈائری میز کی دراز میں رکھ دی اور سوتر سنگھ کو بلا کر دوپہر کے کھانے کے بارے میں ہدایات دینے لگا۔ گھر میں صرف صبح کا ناشتا تیار ہوتا تھا یا چائے بنتی تھی۔ کھانا ہوٹل ہی سے آتا تھا۔
ڈیڑھ بجے کے لگ بھگ انہوں نے کھانا کھالیا۔ کھانے کے بعد روحان قالین پر اپنی کتابیں پھیلا کر بیٹھ گیا اور شمشیر سنگھ ٹیلی فون پر کسی سے بات کرنے لگا۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد جب شمشیر سنگھ ، روحان والے کمرے میں آیا تو وہ قالین پر سورہا تھا۔ اور اس کے چاروں طرف کتابیں اور کا پیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ شمشیر سنگھ کو ایک ضروری کام سے باہر جاتا تھا۔ اس نے سوتر سنگھ کو بلا کر گھر میں بٹھا دیا۔ کچھ ہدایات دیں اور باہر چلا گیا۔ اس کا اپنا دفتر لٹل انڈیا میں سیران گون روڈ کی بغل میں واقع ایک تنگ سی گلی میں تھا۔ اس علاقے میں آکر یہی لگتا تھا جیسے کوئی ہندوستان کے قدیم علاقے میں آگیا ہو۔ تنگ اور پر ہجوم گلیاں سامان سے بھری ہوئی دکا نیں۔ شمشیر سنگھ کا دفتر جس گلی میں تھا وہ بھی خاصی تنگ تھی۔ اس طرف زیادہ تر مرچ مسالوں اورکریانے کی دکانیں تھیں۔ ایک خستہ سے دو منزلہ مکان کے گراؤنڈ فلور پر دکانیں تھیں۔ پہلی منزل پر شمشیر سنگھ کا دفتر تھا اور اس سے اوپر والی منزل پر ایک ہند و فیملی رہائش پذیر تھی۔ شمشیر سنگھ کئی روز بعد اپنے دفتر آیا تھا۔ وہ کام میں اس قدر مصروف ہوا کہ اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں رہا۔ جب سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو دیوار گیر گھڑی آٹھ بجارہی تھی۔ وہ کھاتے بند کرتا ہوا ایک دم اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
اچھا بھئی او تار سنگھ ۔۔۔ وہ اپنے منشی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ صبح سب سے پہلے تم کل آنے والا کنسا ئنمنٹ کلیئر کروالینا۔ میں دوپہر کے بعد چکر لگاؤں گا۔
وہ دفتر سے نکل کر تنگ سی گلیوں میں چلتا ہوا سیران گون روڈ پر اس پارکنگ لاٹ پر آگیا جہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی۔ اس نے جیب سے چابی نکال کر دروازہ کھولا اور اسٹیئرنگ کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے انجن اسٹارٹ کیا ہی تھا کہ پیچھے سے ایک آواز سن کر اچھل پڑا۔
یہاں سے تم سیدھا چائنا ٹاؤن چلو گے۔ نہیں۔۔۔ اپنی جگہ سے حرکت کرنے کی ضرورت نہیں۔ سیدھے بیٹھے رہو اور گاڑی آگے بڑھاؤ۔۔۔ شمشیر سنگھ کے منہ سے بے اختیار گہرا سانس نکل گیا۔
کون ہو بھئی تم ؟ تم میری گاڑی میں۔۔۔۔
بولو مت۔ گاڑی چلاؤ۔۔۔ غراتی ہوئی آواز میں کہا گیا۔
وہ جوکوئی بھی تھا بات اگر چہ اردو میں کر رہا تھا لیکن لہجہ چینی تھا۔ شمشیر سنگھ نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ پارکنگ لاٹ سے نکل کر سڑک پر آتے ہوئے اس نے سامنے لگے ہوئے آئینے کا زاویہ درست کرنے کی کوشش کی مگر پیچھے بیٹھے ہوئے شخص نے پستول کی نال اس کے ہاتھ پر ماری۔ شمشیر سنگھ کے منہ سے اوہ کی آواز نکلی اور وہ زور زور سے ہاتھ جھنکنے لگا۔
آرام سے بیٹھا رہ جانور دیا پڑا۔۔۔وہ بولا
پیچھے مڑکر دیکھے بغیرگاڑی چلاتے رہو ۔ خاموشی سے۔۔۔ وہ شخص غرایا اور اس کے ساتھ ہی پستول کی نال شمشیر سنگھ کی گردن سے لگ گئی۔شمشیر سنگھ ایک بار پھر گہرا سانس لے کر رہ گیا اور گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔
سڑکوں پر ٹریفک تھا۔ شمشیر سنگھ کار ڈرائیو کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ وہ کوئی ایسا موقع تلاش کر رہا تھا کہ اس شخص کے خلاف کوئی جوابی کارروائی کر سکے لیکن کوئی ایسا موقع نہیں مل سکا۔
چائنا ٹاؤن کی طرف آنے کے لیے اُسے ایک طویل چکر کاٹنا پڑا تھا۔ کار اس وقت کیرن بل روڈ پر تھی۔ یہ زیادہ تر رہائشی علاقہ تھا۔ سڑکوں پر ٹریفک زیادہ نہیں تھا۔ شمشیر سنگھ نے کار کی رفتار بڑھا دی۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا وہ شخص آگے کو جھکا ہوا تھا اور پستول کی نال اس نے شمشیر سنگھ کی گردن سے لگا رکھی تھی۔
اے۔ کیا کرتا ہے۔ گاڑی آہستہ چلاؤ۔۔۔ وہ شخص غرایا۔
رفتار بتانے والی سوئی اس وقت پچہتر(75) اور اسی (80) کے درمیان تھرک رہی تھی۔ شمشیر سنگھ نے دونوں ہاتھ مضبوطی سے اسٹیئرنگ پر جھما دیے اور پوری قوت سے بریک لگا دیا ۔ بریکوں کی تیز چرچراہٹ کی آواز فضا میں گونجی۔ کار سڑک پر لٹوکی طرح گھوم گئی۔ زور دار جھٹکا لگنے سے پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا وہ شخص اچھل کر اگلی سیٹ کی پشت سے ٹکرایا ۔ شمشیر سنگھ بڑی پھرتی سے اپنی سیٹ پر گھوم گیا۔ اس نے گھومتے ہی اس شخص کی گردن پر ہاتھ ڈال دیا تھا۔ اس شخص کا ہاتھ دروازے پر لگا۔ اتفاق سے اس کا ہاتھ ہینڈل پر پڑا تھا۔ اس نے دو انگلیاں اندر ڈال کر ہینڈل اٹھا دیا ۔ ایک جھٹکے سے دروازہ کھل گیا۔ وہ شخص مچھلی کی طرح شمشیر سنگھ کے ہاتھوں سے پھسل کر دروازے سے باہر گرا۔ شمشیر سنگھ تیزی سے پلٹا۔ اس نے بھی دروازہ کھول کر با ہر چھلانگ لگا دی۔ زمین پر گرا ہوا وہ شخص سنبھلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے شمشیر سنگھ کو کار سے اترتے ہوئے دیکھا تو فائر کر دیا ۔ گولی شمشیر سنگھ کی پگڑی کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ شمشیر سنگھ بڑی تیزی سے نیچے جھکا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے لات گھمادی تھی۔ پیر کی ٹھو کر اس شخص کے پستول والے ہاتھ پر لگی اور پستول اس کے ہاتھ سے نکل کر ہوا میں اڑتا ہوا دور جا گرا۔ شمشیر سنگھ نے دوسری ٹھو کر مارنا چاہی مگر اس شخص نے دونوں ہاتھوں سے اس کا پیر پکڑ کر زور دار جھٹکا دیا ۔ شمشیر سنگھ لڑکھڑاتا ہوا گرا ۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا اس شخص نے شمشیر سنگھ پر چھلانگ لگا دی۔ وہ شخص اگر چہ دُبلا پتلا تھا مگر اس میں بلا کی طاقت بھری ہوئی تھی۔ اس نے دونوں ہا تھوں سے شمشیر سنگھ کا گلا دبوچ رکھا تھا۔ شمشیر سنگھ کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا گلا کسی آہنی شکنجے میں پھنس گیا ہو۔ اسے سینے میں سانس رکتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اس نے دونوں ہاتھ اس شخص کی کلائیوں پر جما دیے اور اپنے گلے پر سے گرفت چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی ایک ٹانگ موڑ کر پیر اس شخص کے پیٹ پر رکھا اور پوری قوت سے اسے اوپر اٹھانے لگا۔ وہ شخص شمشیر سنگھ کے اوپر سے ہوتا ہوا پشت کے بل پیچھے گرا۔
شمشیر سنگھ بڑی پھرتی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس شخص نے بھی اٹھنے میں بڑی پھرتی دکھائی تھی۔ شمشیر سنگھ نے سنبھانے کا موقع دیے بغیر کھڑی ہتھیلی سے وار کیا۔ چوپ اس شخص کے کندھے سے ذرا نیچے بازو پر لگا۔ شمشیر سنگھ نے دوسرا وار کیا مگر اس شخص نے بڑی تیزی سے ایک ہاتھ سے بلاک کیا اور دوسرے ہاتھ سے وار کر دیا۔ کھڑی ہتھیلی کا وار شمشیر سنگھ کے بائیں کندھے پر لگا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وزنی ہتھوڑے سے ضرب لگائی گئی ہو۔
تکلیف سے وہ نیچے جھک گیا تھا لیکن فورا ہی سنبھل گیا۔ وہ شخص بھی سنبھل چکا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ آگے نکال لیے تھے۔ اس کے انداز کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ بھی مارشل آرٹ کا ماہر ہے۔ وہ شمشیر سنگھ پر حملے کے لیے پر تول رہا تھا لیکن شمشیر سنگھ نے موقع دیے بغیر اس پر حملہ کر دیا ۔ اس نے دائیں ٹانگ کو اس طرح حرکت دی تھی جیسے اسٹریٹ کک لگانا چاہتا ہو۔ دوسرے شخص نے اسٹریٹ لگ سے بچنے کے لیے اپنی جگہ سے حرکت کی مگر شمشیر سنگھ اسٹریٹ کک لگانے کے بجائے بڑی تیزی سے اپنی جگہ پر گھوم گیا۔ اس کی اسپین کک اس شخص کی پسلیوں پر لگی۔ وہ بلبلا کر لڑکھڑا گیا۔ شمشیر سنگھ نے ایک اور اسپین کک لگائی، وہ شخص نیچے گرا۔ شمشیر سنگھ کو تیسرا وار کرنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ وہ شخص کسی طاقت ور اسپرنگ کی طرح اپنی جگہ سے اچھلا۔ اُس نے بڑی قوت سے شمشیر سنگھ کے سینے پر فلائنگ کک لگائی ۔ شمشیر سنگھ لڑکھڑا تا ہوا پشت کے بل گرا۔ وہ شخص شمشیر سنگھ پر حملہ کرنے کے لیے پھر آگے بڑھا لیکن ٹھیک اسی وقت ایک کار اس سڑک پر مڑی۔ وہ دونوں کار کے ہیڈ لیمپس کی روشنی میں نہا گئے۔ وہ شخص ایک جھٹکے سے رک گیا۔ اس نے کار کی طرف دیکھا اور پھر شمشیر سنگھ پر حملہ کرنے کے بجائے ایک طرف چھلانگ لگا دی۔ وہ ایک بنگلے کی دیوار پر چڑھ کر دوسری طرف کود گیا۔
کار بریکوں کی تیز چر چراہٹ کی آواز کے ساتھ رک گئی۔ تین آدمی نیچے اتر کر شمشیر سنگھ کی طرف دوڑے جو اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک آدمی نے اسے سہارا دے کر اٹھا دیا ۔ وہ تینوں ہندوستانی تھے۔
کیا ہوا ۔ کون ہو تم اور وہ کون تھا؟ ۔۔۔ایک آدمی نے پوچھا۔
شرافت کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔۔۔ شمشیر سنگھ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولا۔
اس لڑائی میں اس کی پگڑی سر سے گر گئی تھی اور لمبے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے بالوں کو سمیٹ کر سر کے اوپر جوڑا بنایا اور زمین پر پڑی ہوئی پگڑی سر پر جمالی۔
لیکن ہوا کیا۔ یہ آدمی کون تھا جو تمہیں مار رہا تھا۔ ۔۔ ایک دوسرےآدمی نے پوچھا۔
وہی تو بتا رہا ہوں بھائی جی کہ شرافت کا زمانہ ہی نہیں رہا۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا ۔۔۔اس بندر نے لفٹ مانگی تھی۔ میں نے اسے کار میں بٹھا لیا۔ یہاں پہنچ کر اس نے سڑک سنسان دیکھی تو پستول نکال لیا۔ وہ مجھے لوٹنا چاہتا تھا لیکن بھائی جی! اپنی محنت کی کمائی کوئی آسانی سے تو کسی کے حوالے نہیں کرتا نا۔ میں نے اسے زیر کرہی لیا ہو تا لیکن آپ لوگوں کی گاڑی اس طرف مڑتے دیکھ کر بھاگ گیا۔
اچھا ہوا بھاگ گیا ورنہ ہو سکتا ہے وہ آپ کو کوئی نقصان پہنچا دیتا۔۔۔ ایک اور آدمی نے کہا ۔۔۔ آپ کو چاہیے کہ فورا ً پولیس کو اطلاع دیں۔
پولیس میں رپورٹ کرنے کا کیا فائدہ ہو گا۔ ۔۔ شمشیر سنگھ کپڑے جھاڑتے ہوئے بولا۔۔۔ ایسے لوگوں کو تلاش کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ میں نے ہی اس کی شکل اچھی طرح نہیں دیکھی تھیں۔ پولیس کیسے تلاش کرے گی اسے۔ بہرحال آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ۔ آپ لوگوں کی وجہ سے معاملہ رفع دفع ہو گیا۔
وہ لوگ اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے اور گاڑی وہاں سے رخصت ہو گئی۔ شمشیر سنگھ اِدھر اُدھر گھوم کر کچھ تلاش کرنے لگا۔ بالآخر اسے حملہ آور کا وہ پستول مل گیا جو اس کی کار سے چند گز دور پڑا تھا۔ اس نے پستول اٹھا کر چیک کیا اور پھر جیب میں رکھ لیا ۔ پتر جی ! اب تمہارے اس پستول کی گولیاں تمہارے جسم میں اُتاروں گا۔
وہ بڑ بڑا تا ہوا کار میں بیٹھ گیا اور انجن اسٹارٹ کر کے گاڑی آگے بڑھا دی۔ وہ اس وقت کیرن ہل روڈ پر تھا۔ اگلے موڑ پر اس نے گاڑی بائیڈ فورڈ روڈ پر موڑ دی اور اس سڑک پرسے ہوتا ہوا آرچرڈ روڈ پر پہنچ گیا۔
شمشیر سنگھ کا ذہن الجھا ہوا تھا۔ یہ آدمی پہلے سے اس کی کار میں چھپا ہوا تھا۔ جس سے اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ اس کا تعلق رانا گروپ سے تھا۔ رانا یقینا اس بات سے باخبر ہو گا کہ روحان اس کی تحویل میں ہے۔ روحان اس لرزہ خیز واردات کا واحد چشم دید گواہ تھا اور رانا کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا۔ وہ اسے یقیناً اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرے گا۔ مکان پر پولیس کا پہرا تھا۔ دو پرائیویٹ گارڈز بھی موجود تھے۔ وہاں وہ حملہ کرنے کی حماقت نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے غالباً یہی سوچا ہو گا کہ شمشیر سنگھ کو قابو میں کیا جائے اور پھر اس کے ذریعے روحان کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا جائے لیکن اس کا یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ رانا نے شمشیر سنگھ کو پکڑنے کے لیے جو آدمی بھیجا تھا اسے خود ہی اپنی جان چھڑا کر بھاگنا پڑا تھا۔ وہ آدمی شمشیر سنگھ کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا لیکن اب شمشیر سنگھ کو روحان کی طرف سے پریشانی ہو رہی تھی۔ اس کے ذہن میں اچانک ہی یہ خیال آیا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ رانا نے ایک طرف اسے اغوا کرنے کی کوشش کی ہو اور دوسری طرف روحان کو اٹھانے کے لیے اس کے مکان پر حملہ کر دیا ہو۔ یہ خیال آتے ہی اس نے کار کی رفتار بڑھا دی۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
