رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر 10
جب وہ اپنے مکان والی گلی میں داخل ہوا تو اسے اطمینان سا ہوا۔ گلی میں کسی گڑبڑ کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ اس نے کار اپنے بنگلے کے سامنے روک لی اور انجن بند کر کے نیچے اتر آیا ۔ ایک پولیس والا گیٹ کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور دو سرا رائفل کندھے پر لٹکائے اس کے آس پاس ہی ٹہل رہا تھا۔ وہ دونوں آپس میں باتیں بھی کر رہے تھے۔
خیریت ہے نا۔ یہاں کوئی گڑ بڑ تو نہیں ہوئی ؟۔۔۔ شمشیر سنگھ نے پوچھا۔
نو سر۔۔۔ ایک پولیس والے نے جواب دیا ۔۔۔کوئی گڑ بڑ نہیں ہوا۔ سب او کے ہے۔
شمشیر سنگھ گیٹ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ صحن سے گزرتے ہوئے اس نے گردن اٹھا کر اوپر دیکھا۔ اس کا ایک باڈی گارڈ چھت پر منڈیر کے قریب بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اس کی طرف ہاتھ ہلا تا ہوا اندرداخل ہو گیا۔
روحان اور سوتر سنگھ لاؤنج میں قالین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ روحان کی کتابیں بکھری ہوئی تھیں اور وہ ایک کاپی پر کچھ لکھ رہا تھا۔
اوئے سوتر سنگھ۔ ۔۔ شمشیر سنگھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ پڑھ لے اوئے تو بھی پڑھ لے۔ اس بچے سے ہی کچھ پڑھ لے۔
سردار جی !۔۔۔ سوتر سنگھ مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔میرے تو پیونے نہیں پڑھا تو میں پڑھ کر کیا کروں گا۔
تم کھوتے کے کھوتے ہی رہو گے۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا۔۔۔اچھا جا۔ چائے بنا کر لا۔
وہ روحان کے پاس بیٹھ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔ شمشیر سنگھ کو بہرحال اس بات کی خوشی تھی کہ پڑھائی شروع کر دینے سے روحان کا دھیان بٹ گیا تھا۔
کچھ دیر بعد سو تر سنگھ چائے بنا کر لے آیا ۔ اس نے ان دونوں کے سامنے ایک ایک کپ رکھ دیا۔ اور تیسرا کپ خود لے لیا ۔
سردار جی۔۔۔ وہ شمشیر سنگھ کی طرف دیکھے ہوئے بولا ۔۔۔ لگتا ہے کپڑوں سمیت کسی سے کشتی لڑکے آرہے ہو۔
ہاں۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا ۔۔۔راستے میں ایک کانگڑی پہلوان مل گیا تھا۔ اس نے کشتی کے لیے چیلنج کردیا اور مجھے کپڑے اتارنے کا موقع نہیں مل سکا۔
کشتی کا فیصلہ کیا ہوا سردار جی؟۔۔۔ سو تر سنگھ نے پوچھا۔
فیصلہ کیا ہونا تھا۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا ۔۔۔وہ کانگڑی پہلوان بھاگ گیا اور میں سڑک پر کھڑا کپڑے جھاڑ تا رہ گیا۔
اس کا مطلب ہے کہ۔۔۔
ہاں ہاں۔۔۔ شمشیر سنگھ نے اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔مطلب وہی ہے جو تو سمجھ رہا ہے۔ اب بات کو آگے نہ بڑھا۔
سو تر سنگھ خاموش ہو گیا۔ تقریباً ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ شمشیر سنگھ نے سنگا پور شاپنگ سینٹر میں واقع ایک ریسٹورنٹ کو فون کر کے اپنے اور روحان کے لیے کھانا منگوالیا۔ ریسٹورنٹ کا منیجر بھی سکھ ہی تھا اور شمشیر سنگھ کو اچھی طرح جانتا تھا اس لیے وہ فون کرنے پر کھانا پیک کر کے فورا ہی بھیج دیا کرتا تھا۔ سو تر سنگھ وغیرہ اپنے لیے کھانا خود ہی لے آیا کرتے تھے۔
کھانا کھانے کے بعد روحان اور شمشیر سنگھ باتیں کرتے رہے۔ گیارہ بجے کے لگ بھگ روحان سوگیا۔ شمشیر سنگھ کو فرقان کی ڈائری کا خیال آگیا۔ اس نے میز کی دراز سے ڈائری نکال لی اور پلنگ پر نیم دراز ہو کر پڑھنے لگا۔
بارہ سال پہلے جب فرقان سنگا پور آیا تھا تو شمشیر سنگھ نے اسے یہاں سیٹل ہونے میں بڑی مدد دی تھی۔ فرقان نے اسے اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا لیکن اب فرقان کی ڈائری پڑھتے ہوئے شمشیر سنگھ اپنے آپ میں ایک عجیب سی کیفیت محسوس کر رہا تھا۔ فرقان نے اپنے بارے میں جو کچھ بھی بتایا تھا، وہ سب کچھ سچ تھا لیکن اس ڈائری سے اس پر ایسے ایسے سنسنی خیز انکشافات ہو رہے تھے کہ شمشیر سنگھ دنگ رہ گیا۔ فرقان کی ڈائری کی تحریر ایک طرح کی سرگزشت تھی۔
اس تحریر کے مطابق فرقان لاہور کے ایک نواحی گاؤں رکھاں والی کا رہنے والا تھا۔ یہ گاؤں پاک بھارت سرحد پر واقع تھا۔ سرحد کے دوسری طرف ضلع امرتسر کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ تقسیم ہند سے پہلے ان دونوں بستیوں کے لوگوں میں بڑے خوشگوار تعلقات تھے اور یہ تعلقات ملک تقسیم ہونے کے بعد بھی قائم رہے تھے۔
فرقان کا باپ چوہدری حاکم ایک چھوٹا ز میندار تھا۔ اس کی زمین سرحد پر تھی۔ بعض کھیت تو سرحد سے ملے ہوئے تھے۔ ملک رمضان اس گاؤں کا سب سے بڑا زمیندار تھا۔ اس کی زمینیں اگر چہ گاؤں کے دوسری طرف تھیں لیکن وہ سرحد کے ساتھ والی کچھ زمین بھی خریدنا چاہتا تھا۔ اس نے کئی مرتبہ چوہدری حاکم سے بات کی تھی کہ وہ سرحد سے ملے ہوئے چند کھیت اس کے ہاتھوں فروخت کر دے لیکن چوہدری حاکم اس بات پر آمادہ نہیں تھا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ملک رمضان سرحد سے ملی ہوئی وہ زمین کیوں خریدنا چاہتا ہے۔
ملک رمضان کے سرحد کے دوسری طرف واقع بھارتی گاؤں رام پور کے چوہدری کرم داس سے بہت گہرے تعلقات تھے۔ وہ رات کی تاریکی میں چوری چھپے سرحد پار کر کے ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے تھے۔
ملک تقسیم ہونے کے بعد سرحد کے دونوں طرف بہت سے مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ اس صورت حال کا فائدہ ان لوگوں نے اٹھایا تھا۔ جنہیں صرف اور صرف اپنا فائدہ عزیز تھا اپنے ذاتی مفاد کے لیئے وہ دوسروں کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا سکتے تھے۔ سرحد کی پٹی قائم ہو جانے کے بعد ایسے ہی لوگوں نے فائدہ اٹھایا تھا۔ ملک رمضان کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہو تا تھا جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے کسی کو کوئی بھی نقصان پہنچا سکتے تھے۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ یہ نقصان کسی فرد کو پہنچ رہا ہے یا اجتماعی طور پر پوری قوم یا پورا ملک اس سے متاثر ہو رہا ہے۔
ملک تقسیم ہونے کے بعد دونوں طرف جو گھمبیر مسائل پیدا ہوئے تھے ان کا فائدہ انہی لوگوں نے اٹھایا تھا۔ ملک رمضان اور کرم داس نے سرحد پر کاروبار شروع کر دیا تھا۔ غیر قانونی طور پر مال سرحد کے اِدھر اُدھر لے جانے کو وہ لوگ بزنس ہی کہتے تھے۔ ان کا یہ بزنس پہلے محدود پیمانے پر تھا پھر اس میں اضافہ ہو تا گیا۔
ملک رمضان پہلے سرحد پار کرنے کے لیے دوسروں کی زمین استعمال کرتا تھا۔ اسمگلنگ کا دھندا ترقی کرگیا تو اس نے چوہدری حاکم کی زمین خریدنے کی کوشش شروع کردی۔ پہلے وہ دوستانہ انداز میں بات کرتا رہا پھر دباؤ ڈالنے لگا۔ اس نے گاؤں کے دوسرے لوگوں کے ذریعے بھی دباؤ ڈلوانے کی کوشش کی۔ وہ اگر چہ اصل سے دگنی قیمت دے رہا تھا مگر چو ہدری حاکم کسی قیمت پر بھی اپنی زمین بیچنے کو تیار نہیں تھا۔ اپنی ان کوششوں میں ناکام ہونے کے بعد ملک رمضان اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ۔ دھمکیاں تو وہ دیتا ہی رہتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے حاکم کا کھلیان جلا دیا۔
فرقان ان دنوں لاہور کے اسلامیہ کالج میں زیر تعلیم تھا۔ لاہور میں بھی ان کا ایک گھر تھا۔ فرقان فائنل کا اسٹوڈنٹ تھا۔ وہ اگر چہ ہفتے میں ایک بار گاؤں آجایا کرتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ امتحان دینے کے بعد مستقل طور پر گاؤں آجائے گا اور کھیتی باڑی سنبھال لے گا۔
امتحان ختم ہونے کے بعد وہ گاؤں جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اسے وہ اندوہناک اطلاع ملی جس نے اس کی دنیا اندھیر کر دی۔ اس کے باپ کو کسی نے قتل کر دیا تھا۔ اطلاع دینے والے نے بتایا تھا کہ چوہدری حاکم صبح سویرے اپنے کھیتوں پر کام کر رہا تھا کہ چند گھوڑا سوار وہاں آگئے۔ انہوں نے چہروں پر ڈھاٹے باندھ رکھے تھے۔ انہوں نے آتے ہی فائرنگ شروع کردی جس سے چوہدری حاکم اور دو مزارع موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ فرقان بھاگم بھاگ وہاں پہنچ گیا۔ چوہدری حاکم کی لاش شہر کے اسپتال بھجوائی جا چکی تھی لیکن پولیس گاؤں میں موجود تھی۔ فرقان پولیس سے الجھا رہا ۔ پھر شام کو اسپتال سے لاش وصول کر کے لے آیا اور تدفین کردی گئی۔
گاوں کے سب ہی لوگ جانتے تھے کہ یہ کس کے اشارے پر ہوا تھا لیکن کوئی بھی شخص وہاں پر ملک رمضان اور اس کے بیٹے نوازش کا نام لینے کو تیار نہیں تھا۔ سب ان سے ڈرتے تھے۔ فرقان بھی جانتا تھا کہ یہ کس کی حرکت ہو سکتی ہے لیکن اس کے پاس ملک رمضان اور اس کے بیٹے نوازش کے خلاف کوئی شہادت نہیں تھی۔ پولیس نے اگر چہ ملک رمضان اور اس کے بیٹے کو بھی تفتیش میں شامل کیا تھا لیکن ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ واردات کے وقت وہ شہر میں تھے اور پھر پیسے نے بھی بہت کام دکھایا تھا اس لیے وہ دونوں صاف بچ نکلے تھے۔
چھ مہینے گزر گئے۔ پولیس چوہدری حاکم کے قاتل کا سراغ نہیں لگا سکی تھی۔ اس دوران میں ایک اور واقعہ رونما ہوا ۔ملک رمضان گھوڑی پر سوار ایک دوسرے گاؤں سے اپنے گاؤں آرہا تھا کہ اچانک ہی گھوڑی کسی چیزسے بڑک کر سرپٹ دوڑنے لگی ۔ ملک رمضان نے اسے سنبھالنے کی بھر پور کوشش کی مگر اُس کی کوشش کارآمد نہ ہوسکی ۔ گھوڑی سرپٹ دوڑ رہی تھی۔ تقریباً دو سو گز آگے ایک بڑی اور گہری نہر تھی اور ملک رمضان جانتا تھا کہ اگر گھوڑی کو قابو نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ بہت خطرناک نکلے گا۔ وہ گھوڑی کو قابو کرنے کی بھر پور کوشش کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہو سکا ۔ نہر بالکل قریب آچکی تھی۔ ملک رمضان بد حو اس ہو رہا تھا۔ گھوڑی نے چھلانگ لگا کر نہر پار کرنے کی کوشش کی مگر اس کے اگلے دونوں پیر نہر کے دوسرے کنارے پر ٹکے اور وہ الٹ کر نہر میں گر گئی۔
ملک رمضان گھوڑی سے گر گیا مگر اس کا پیر رکاب میں پھنسا رہا۔ وہ گھوڑی کے نیچے نہر میں دب گیا۔ گھوڑی نہر سے نکل کر پھر سے دوڑنے لگی۔ ملک رمضان کا پیر رکاب میں پھنسا ہوا تھا۔ وہ سرکے بل تقریباً ایک فرلانگ تک گھوڑی کے ساتھ گھسٹتا رہا۔ کھیتوں میں کام کرنے والے لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، لیکن ملک رمضان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے۔آخر کار ملک رمضان کا پیر رکاب سے نکل گیا۔ وہ وہیں گر گیا اور گھوڑی اسے کچلتی ہوئی آگے نکل گئی۔ لوگ دو ڑ کر وہاں پہنچ گئے لیکن ملک رمضان میں کچھ نہیں بچا تھا۔ مسلسل زمین پر گھسیٹنے اور گھوڑی کے پیر وں کے نیچے آنے سے اس کی کھوپڑی پاش پاش ہو گئی تھی۔ اس کا چہرہ اس طرح رگڑا گیا تھا کہ پہچان مشکل ہو گئی تھی۔
ملک رمضان کی اس عبرت ناک موت پر گاؤں میں دبے لفظوں میں اس پر باتیں ہونے لگیں۔ ہر شخص دبے لفظوں میں کہہ رہا تھا کہ رمضان سے قدرت نے چوہدری حاکم کے قتل کا انتقام لیا ۔
اس واقعے کے تین مہینے بعد ایک اور شوشہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ملک رمضان کے بیٹے ملک نوازش نے فرقان کی ان زمینوں پر قبضہ کر لیا جو سرحد کے ساتھ واقع تھیں۔ اس نے اپنے مسلح آدمی اس زمین پر بٹھا دیے تھے اور لوگوں سے یہ کہا تھا کہ یہ زمین چوہدری حاکم نے اس کے باپ کے پاس بیچ دی تھی۔ اس نے کاغذات بھی دکھائے تھے۔ کاغذات پر اسی گاؤں کے دو آدمیوں کے بطور گواہ دستخط بھی موجود تھے۔ وہ دونوں آدمی ملک نوازش کے نمک خوار تھے۔
فرقان کے لیے یہ انکشاف مزید سنسنی خیز ثابت ہوا کہ ملک رمضان نے پٹواری کو پیسہ کھلا کر سرکاری کاغذات میں بھی ردوبدل کروالی تھی۔ زمین فروخت کرنے اور ملک رمضان کے نام اراضی کی منتقلی کی تاریخ چوہدری حاکم علی کی موت سے صرف پند رہ دن پہلے کی تھی۔ ملک نوازش کے کہنے کے مطابق وہ اب تک اس لیئے خاموش رہا تھا کہ پہلے چوہدری حاکم کا انتقال ہوگیا پھر اس کا باپ اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ لیکن اب وہ مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ اس لیے اس نے زمین پر قبضہ کر لیا تھا۔ فرقان کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس کی زمین ہتھیانے کے لیے ایک گہری سازش تیار کی گئی تھی جس میں پٹواری اور محکمہ اراضی کے بعض دوسرے لوگ بھی شریک تھے اور ظاہر ہے ان سب کو پیسہ دیا گیا تھا۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
