A Dance of Sparks–11–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔

رقصِ آتش قسط نمبر- 11

فرقان نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ۔ ظاہر ہے ایسے مقدمات کا فیصلہ دو چار دن یا مہینہ دو مہینہ میں نہیں ہوتا۔ ایسے مقدمات تو برسوں چلتے ہیں۔ فرقان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ یہ مقدمہ برسوں تک چلتا رہا۔ ہر مہینے دو مہینے بعد  عدالت میں پیشی ہوتی اور پھر آگے  کی پیشی پڑ جاتی۔ ملک نوازش پیسے والا تھا۔ زمینوں کے علاوہ اس نے باپ کا چھوڑا ہوا تمام ناجا ئز کاروبار بھی سنبھال لیا تھا۔ اس کے تعلقات پولیس سے بھی تھے اور دو سرے بڑے بڑے لوگوں سے بھی جو اسمگلنگ جیسے گھناؤنے کاروبار میں اس کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ علاقے کے اسمبلی کے ممبر اس پر مہربان تھے۔ ہر الیکشن کے موقع پر نوازش ان کی انتخابی مہم چلا تا جس پر اس کا لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا اور اس کا فائدہ وہ کروڑوں کی صورت میں اٹھا رہا تھا۔ اس طرح اسے اسمگلنگ میں بارسوخ لوگوں کی بھی بھرپور حمایت  حاصل تھی۔

مسئلہ تو فرقان کے لیے تھا۔ سرحدی پٹی والے کھیتوں پر قبضے کے بعد اس کے پاس چند کھیت باقی رہ گئے تھے جن پر صرف اتنا  اناج پیدا ہو تا تھا کہ بمشکل اس کا سال بھر کا گزارہ ہو پاتا تھا۔ اس آمدنی سے وہ عدالت کے اخراجات بھی پورے کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے باپ نے کہا تھا کہ خدا ہر انسان کو پولیس ، ڈاکٹر اور عدالت سے محفوظ رکھے۔ اس وقت یہ بات فرقان کی سمجھ میں نہیں آسکی تھی لیکن اب وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ اس کا مطلب کیا تھا۔ وہ اس چکر میں اس طرح پھنسا تھا کہ نکلنے کی صرف ایک ہی صورت تھی کہ وہ اس مقدمے سے دستبردار ہو جائے اور دستبرداری کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنی اراضی پر فاتحہ پڑھ لے اور اس پر ملک نوازش کا قبضہ تسلیم کرلے۔ اور وہ یہ نہیں چاہتا تھا۔ وہ اپنے باپ دادا کی اراضی سے اس طرح دستبردار نہیں ہو سکتا تھا۔

فرقان کی رہی سہی زمین بھی تھوڑی تھوڑی کر کے بکتی رہی لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس مقدمے کچہری میں کچھ نئے لوگوں سے اس کے تعلقات بھی استوار ہوئے۔ ان میں سلطان پور کا ایک زمیں دار چوہدری برکت بھی تھا۔ وہ پیسے والا آدمی تھا۔ اس کی تعلیم صرف آٹھویں تک محدود تھی لیکن اسے سیاست کا چسکا تھا۔ پچھلی مرتبہ وہ الیکشن میں کھڑا ہوا تھا لیکن ملک شوکت سے ہار گیا تھا۔ برکت علی کو کسی نے مشورہ دیا تھا کہ اگلے الیکشن میں وہ خود کھڑا ہونے کے بجائے کسی ایسے آدمی کو کامیاب کروائے جو اس کی مٹھی میں رہے۔ چوہدری برکت کو یہ مشورہ پسند آیا تھا اور اس کی نظر انتخاب فرقان پر پڑی تھی۔ الیکشن آنے والے تھے۔ چوہدری برکت نے فرقان کو آمادہ کر لیا تھا کہ وہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر اس علاقے سے ملک شوکت  کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے۔

 فرقان تعلیم یافتہ تھا۔ اسے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن چوہدری برکت  نے اسے یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر کامیاب ہو گیا تو وہ نہ صرف اپنے باپ کی زمین واپس حاصل کرلے گا بلکہ مزید اراضی بھی خرید سکے گا۔

فرقان کو مزید اراضی کا لالچ نہیں تھا۔ وہ صرف اپنے باپ کی زمین حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ویسے بھی ایک بات اس کی سمجھ میں آگئی تھی کہ زندہ رہنے اور اپنا حق لینے کے لیے طاقت ضروری ہے۔ اسے ایک موقع مل رہا تھا۔ چوہدری برکت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ الیکشن کے تمام تر اخراجات خود برداشت کرے گا۔ اس کے عوض اسے یہ تحریر لکھ کر دینا ہوگی کہ کامیابی کے بعد چوہدری برکت کے کیا کیا مطالبات پورے کرے گا۔ فرقان کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس نے تحریر لکھ کر دے دی اور چوہدری برکت نے اسے اپنے امیدوار کی حیثیت سے متعارف کرانا شروع کر دیا ۔

یہ خبر ملک نوازش کے لیے تشویش ناک تھی۔ پہلے وہ ملک شوکت کے لیے انتخابی مہم چلایا کرتا تھا لیکن اس مرتبہ اس نے خود الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ دو سروں کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرتا تھا اور پھر بھی ان کا محتاج رہتا تھا۔ اگر وہ خود کامیاب ہو گیا تو تمام فائدے خود ہی اٹھائے گا اور فرقان جیسے لوگوں سے بھی نمٹ لے گا۔ کچھ ہی عرصہ بعد الیکشن کی گہما گہمیاں شروع ہو گئی تھیں۔ ہر علاقے میں انتخابی مہم زوروں پر تھی۔ گاؤں دیہاتوں میں تو میلوں کا سماں تھا۔ فرقان کے حلقے سے چار امیدوار کھڑے ہوئے تھے۔ اس روز پولنگ ہوئی اور رات تک رزلٹ بھی سامنے آگیا۔ فرقان کو اگرچہ ملک نوازش  سے زیادہ ووٹ ملے تھے لیکن کامیاب وہ بھی نہیں ہو سکا تھا۔ وہ تیسرے نمبر پر رہا تھا۔ دوسرے نمبر پر ملک شوکت کو ووٹ ملے تھے اور عبدالرشید نامی  ایک ایسا امیدوار چند سو ووٹوں کی اکثریت سے جیت گیا تھا جس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔

ووٹ بٹ جانے کی وجہ سے ملک شوکت  پہلی مرتبہ الیکشن ہارا تھا۔ وہ اس کا ذمے دار نوازش  کو ٹھہرا رہا تھا اور ملک نوازش  اپنی شکست کا باعث فرقان کو سمجھ رہا تھا۔ اس کے خیال میں اگر فرقان اس کے مقابلے پر کھڑا نہ ہوتا تو وہ ضرور کامیاب ہو جاتا۔

ہارا فرقان بھی تھا لیکن اسے اپنی شکست کا کوئی افسوس نہیں تھا وہ سیاست کا آدمی نہیں تھا۔ اس نے اپنی شکست کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا تھا۔ وہ تو ایک خاص مقصد کے لیے کسی کے اکسانے پر الیکشن میں کھڑا ہوا تھا۔جیت جاتا تو اس کا مقصد پورا ہو جاتا۔ ہارنے  سے اُسے کوئی دُکھ نہیں ہوا تھا۔ لیکن ملک نوازش  نے اس شکست کو اپنی آنا کا مسئلہ  بنا لیا تھا۔

نوازش  اور فرقان میں دشمنی کی جڑیں کچھ گہری  ہو گئیں۔ فرقان کو صرف اپنے باپ دادا کی اراضی کے  حصول سے ہی دلچسپی  تھی۔ جبکہ نوازش  نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر کے  بہت کچھ داؤ پر لگا دیا تھا اور وہ بہت کچھ ہار گیا تھا۔ ملک شوکت  نے اس کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا تھا کیونکہ وہ اس کے مقابلے میں کھڑا ہوا تھا۔

ملک نوازش  کا بہر حال اپنا ایک حلقہ تھا۔ اس کا اسمگلنگ  کا بزنس اس شکست سے متاثر ضرور ہوا تھا لیکن رُکا نہ تھا۔ اسمگلنگ کے حوالے سے اسے اب بھی ان لوگوں کی سرپرستی حاصل تھی جو پہلے بھی اس کے سر پرست تھے۔

 الیکشن سے پہلے تو ملک نوازش   اور فرقان کی د شمنی مقدمے بازی تک محدود تھی ۔مگر اس سیاست کے کھیل نے اُنہیں  ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیا تھا۔ فرقان بھی سر اُٹھانے لگا تھا۔ سلطان پور کا چوہدری برکت  اس کی پشت پر تھا  جس سے اس کا حوصلہ کچھ بڑھ گیا تھا۔

رکھاں والی کا علاقہ چوہدری برکت  کے لیے بھی اہمیت  رکھتا تھا اور اسی لیے وہ فرقان کی پشت پناہی بھی کر رہا تھا۔ الیکشن  میں فرقان کی شکست پر اسے بھی کوئی افسوس نہیں ہوا تھا لیکن اس نے جس حساب سے ووٹ لیے تھے۔ اس سے چوہدری پُر یقین تھا کہ اگلے  الیکشن میں فرقان ضرور کامیاب ہوگا۔یہی وجہ  تھی کہ وہ فرقان کو اپنے قریب رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مزید قریب لانے اور اسے قابو میں رکھنے کے لیے اس کے ذہن میں ایک اور ترکیب آئی تھی۔

شمیم آراء اس کے ایک دور کے رشتے دار کی بیٹی تھی۔ سلطان پورہی کے ہائی اسکول سے اُس نے میٹرک کا امتحان پاس کیاہوا تھا۔ وہ نہ صرف حسین تھی بلکہ بڑی خوش اخلاق اور سلجھے ہوئے  مزاج کی لڑکی تھی۔ چوہدری برکت  نے فرقان  کو اس پر آمادہ کر لیا اور چند مہینوں کے اندراندران کی شادی بھی کردی ۔

والدین کے انتقال کے بعد فرقان اکیلا ہی رہتا تھا۔شمیم آراء کے آجانے سے گھر میں رونق  آگئی،  لیکن دوسری طرف فرقان کے لیے الجھنیں بڑھ رہی تھیں۔ ملک نوازش  بھی اپنے باپ کی طرح اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا تھا۔ ان دنوں رانا کو فرقان نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ ہٹا کٹا آدمی تھا۔ ملک نوازش اسے نجانے کہاں سے  لے کر آیا تھا۔ لیکن رکھاں والی میں آتے ہی رانا نے ایک طوفان بد تمیزی  برپا کر دیا  تھا۔ وہ گاؤں  میں اور زمینوں پر دندناتا پھرتا۔ گاؤں  کے مزارعوں سے مار پیٹ اس کا روز کا معمول بن گیا تھا۔

لوگ ملک نوازش  کے پاس اس کی شکایت لے کر جاتے اور ملک مسکراکر  رہ جاتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر رانا نے گاؤں کے لوگوں  پر غنڈا گردی کا رعب جما لیا تھا۔ اب کسی کو اس کے سامنے سر اُٹھانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔

دوسرے مہینے رانا نے فرقان کے ایک مزارع   کی ٹانگ  توڑدی۔ پولیس میں رانا کے خلاف رپورٹ لکھوائی گئی۔ پولیس آئی   اور ملک نوازش  کی حویلی میں دعوت اڑانے کے بعداُس  مزارع کے بھائی اور باپ کو گرفتار کر کے لے گئی۔ فرقان  تلملا کر رہ گیا۔ وہ کچھ بھی تو نہیں کر سکتا تھا۔ فرقان  کی شادی کو دس مہینے ہو گئے تھے۔ شمیم آراء ماں بننے والی  تھی۔ گاؤں میں شہر جیسی سہولتیں نہیں تھیں۔ فرقان شمیم آراء کو لاہور شہر والے مکان میں لے گیا۔ اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک عورت بھی ساتھ آگئی تھی۔ شمیم آراء نے بیٹے کو جنم دیا تو ان کی زندگی میں بہار آگئی ۔ روحان ان کے گلشن کا پہلا پھول تھا۔ دونوں بہت خوش تھے۔ بچے کی پیدائش  کے بعد شمیم آراء نے صاف کہہ دیا تھا کہ اب وہ گاؤں میں نہیں  بلکہ مستقل طور پر شہر میں رہے گی۔ فرقان  نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔

فرقان  بھی شہر ہی میں رہنے لگا۔ وقتاً فوقتاً وہ گاؤں  کا چکر بھی لگا آتا ۔ اس نے موٹر سائیکل لے لی تھی جس سے اُسے  آمد و رفت کے لیے سہولت ہو گئی تھی۔

اس روز وہ دوپہر کے کچھ دیر بعد گاؤں آیا تھا۔ فرقان   نے شمیم آراء کو کہہ دیا تھا کہ وہ رات کو واپس آجائے گا۔ وہ سیدھا گاؤں میں داخل ہونے کے بجائے کھیتوں کی طرف نکل گیا جہاں اس کا چھوٹا سا ڈیرا تھا۔ مویشی بھی اسمیں بندھے ہوتے تھے اور  ایک آدمی بھی  یہاں رہتا تھا۔ فرقان  پگڈنڈی پر موٹر سائیکل چلا کر اس ڈیرے پر آیا تھا۔ وہ تقریباً ایک گھنٹے تک یہاں بیٹھا  مزارع اکبر سے باتیں کرتا رہا پھر موٹر سائیکل ڈیرے پر چھوڑ کر  گاؤں آگیا۔

رات کا کھانا اس نے گاؤں ہی میں کھایا  اور  وہ واپسی   کے لیے دوبارہ ڈیرے پر آگیا۔ اس وقت اکبر نے اسے ایک بات بتائی جسے سن کر فرقان  چونکے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ اکبرنے اُسے بتایا  کہ اسے بڑے خفیہ طریقے سے یہ پتا چلا ہے کہ ملک نوازش کے  آدمی آج سونے کی ایک بھاری کھیپ لے کر سرحد پار کر کے دوسری  طرف جانے والے ہیں۔

 اکبر کو یہ اطلاع کیسے ملی تھی ؟ اس سے فرقان کو  کوئی غرض نہیں تھی لیکن وہ اتنا جانتا تھا کہ ملک نوازش غیرقانونی سونے کی اسمگلنگ کر رہا ہے۔ فرقان  نے رات وہیں رہنے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ آج وہ ان کی اس اسمگلنگ کی کوشش کو ناکام بنا دے گا۔

وہ ڈیرے کے آس پاس ٹہلتا رہا۔ وہ ایک پرانے کنوئیں کے  پاس رک گیا۔ اس کنوئیں پر پہلے رہٹ لگا ہوا تھا لیکن ایک سال سے کچھ فاصلے پر بورنگ کر کے ٹیوب ویل لگوا لیا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ کنواں متروک ہو گیا تھا۔ کنوئیں پر بہر حال رہٹ کے باقیات اب بھی موجود تھے۔ فرقان رہٹ کی لکڑی پر بیٹھ گیا اور وقت گزرنے کا انتظار کرنے لگا۔ اکبر نے اسے بتایا تھا کہ وہ لوگ آدھی رات کے بعد اس طرف سے گزریں گے۔

فرقان  انتظار کرتا رہا۔ رات تین بجے کے لگ بھگ اسے کسی گاڑی کے ہیڈ لیمپس کی روشنیاں نظر آئیں۔ وہ کوئی کار تھی جو سڑک سے ہٹ کر کھیتوں کی طرف آرہی تھی۔ فرقان  اپنی جگہ سے اٹھ کر ایک طرف دوڑنے لگا اور تقریباً دو سو گز دور کھیتوں کے درمیان اس کچے راستے پر رک گیا جہاں سے اس گاڑی کو گزرنا تھا۔ وہ راستے کے قریب ہی پودوں میں چھپ گیا۔ اس نے جیب سے پستول نکال لیا اور گاڑی کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔ یہ پستول اس نے چند مہینے پہلے اپنی حفاظت کے لیے خریدا تھا اور اس کے پاس اس کا لائسنس بھی موجود تھا۔ وہ جب بھی گاؤں آتا تھا پستول کو اپنی جیب میں ڈالنا نہیں بھولتا تھا۔

وہ کارہی تھی۔ ہیڈ لیمپس کی روشنیاں بجھ گئیں۔ فرقان  پودوں میں چھپا کار کے قریب آنے کا انتظار کرتا رہا اور پھر جیسے ہی کار اس کے سامنے پہنچی، اس نے فائر کر دیا ۔ اس کی گولی ٹھیک نشانے پر بیٹھی اور کار کا اگلا ٹائر ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔ کار لہرا کر ایک کھیت میں گھس کر رک گئی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page