A Dance of Sparks–112–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 112

تو یہ بات ہے۔۔۔ تھائی وانگ نے گہرا سانس لیا۔۔۔ کو شلیا کہاں ہے اب؟

معلوم نہیں ۔۔۔میں نے جواب دیا۔۔۔میں نے اسے روپوش  ہونے کا مشورہ دیا تھا کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ اگر ٹائیگر کو شبہ بھی ہو گیا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ میں نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ایک ہفتے بعد ماسٹر ہو چن سے فون پر رابطہ کرلے۔  میں نہیں کہہ سکتاوہ اس وقت کہاں ہوگی۔

تھائی وانگ کچھ کہنا چاہتی تھی کہ نرس شینو چائے لے کر ندر داخل ہوئی ۔ اس نے ایک چھوٹی ٹرے میں دو مگ رکھے ہوئے تھے ایک مگ مجھے دے دیا اور ٹرے تھائی وانگ کے سامنے بیڈ پررکھ دی۔

اگر میری ضرورت نہ ہو تو میں جاؤں۔ مجھے نیند آرہی ہے۔۔۔نرس شینو  تھائی وانگ اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ اسکی نکھوں میں سرخی تیر رہی تھی۔

ہاں۔ ٹھیک ہے۔ تم جاؤ۔ آرام کرو۔۔۔ میں اُس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

 تھائی وانگ اور میں  نرس شینو کے جانے کے بعد ہم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے دیر تک باتیں کرتے رہے۔ تھائی وانگ جما ہیاں لینے لگے اور میرا سر بھی نیند سے بو جھل سا ہو رہا تھا۔ میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آیا اور بسترپر لیٹتے ہی مجھے نیند آگئی۔ صبح تھائی وانگ نے مجھے جھنجوڑ کر جگا دیا۔ اس وقت آٹھ بجے تھے میں چار بجے کے لگ بھگ سویا تھا۔ چار گھنٹوں میں نیند پوری نہیں ہو سکی تھی۔ اس طرح جگائے جانے پر دماغ میں سنسناہٹ سی ہورہی تھی۔

کیا ہوا۔ کیا بات ہے؟۔۔۔  میں تقریباً چیخ اٹھا تھا۔

 یہ دیکھو۔ یہ کیا ہے؟۔۔۔  تھائی وانگ بولی۔ اس کے لہجے میں تھرتھراہٹ  تھی۔

میں چند لمحے آنکھیں ملتا رہا۔ نظروں کے سامنے کچھ دھندسی تھی ،  تھائی وانگ کے ہاتھ میں دو اخبار تھے۔ ان اخباروں کی ہیڈ لائنز پڑھ کر میں  اچھل پڑا۔ میرے دماغ میں دھماکے سے ہونے لگے ۔مہاتما بدھ کے مجسمے سے سونے کی چوری کی خبر رات ہی کو جنگل  کی آگ  کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی تھی۔ لوگوں کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا،  کہ یہ واردات ٹائیگر نے اپنے بعض نا معلوم ساتھیوں کے ساتھ مل کری تھی۔ لوگوں نے رات ہی کو ہنگامے شروع کردیئے  تھے ایسے تین نائٹ کلب جلا دیے گئے تھے جن بارے  میں شبہ تھا کہ وہ ٹائیگر کی ملکیت ہیں۔ پولیس اور شرپسندوں میں رات بھر جھڑ پیں ہوتی رہی تھیں جن میں تین آدمی مارے گئے تھے اور کئی زخمی ہوئے تھے۔

ہنگاموں کے علاوہ بدھ کے مجسمے سے سونے کی چوری کی خبریں بھی نمایاں طور پر شائع کی گئی تھیں۔ میری تصویریں بھی چھپی تھیں۔ میں اپنی تصویر کو دیر تک دیکھتا رہا۔ اخبار نے میرے بارے میں بہت کچھ لکھا تھا۔ مجھے ہیرو قرار دیا گیا تھا۔ اگر میں ذہانت سے کام نہ لیتا تو ٹائیگر اور اس کے ساتھی مجسمے سے سارا سونا نکال کر لے جاتے۔ اخبار کی اطلاع کے مطابق ٹائیگر اور اس کے ساتھی مجسمے میں سے تقریباً دس کلو سونا نکال لے گئے تھے۔

دیکھا ۔۔دیکھا تم نے۔ ۔۔ تھائی وانگ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ تم اسے چوری کی معمولی واردات سمجھتے تھے۔ رات کو ہنگاموں میں تین آدمی مارے گئے ہیں۔ یہ ہنگا ہے اور بڑھیں گئے اور لوگ مارے جائیں گے۔ لوگ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ٹائیگر اور اس کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتار دیتے۔

اصل لوگ ہاتھ نہیں آئیں گے اور بے گناہ مارے جائیں گے۔۔۔ میں نے کہتے ہوئے اخبار ایک طرف رکھ دیا اور بستر سے اٹھ گیا۔

اس کے تقریباً ایک گھنٹے بعد میں تھائی وانگ کے ساتھ بیٹھا ناشتا کر رہا تھا۔ ناشتے کے دوران میں بھی ہماری گفتگو کا موضوع یہی تھا۔ اسی دوران میں مجھے یہ اطلاع ملی کہ شہر میں اس وقت بھی ہنگامے ہو رہے تھے۔ مہاراج اور دوسرے بڑے بڑے راہب لوگوں کو ہنگاموں سے روکنے کے لیے پورے شہر میں پھیل گئے تھے۔ ایک طرف شہر میں ہنگامے ہو رہے تھے اور دوسری طرف ایک اور دلچسپ صورت حال دیکھنے میں آئی۔ میں اس وقت تھائی وانگ کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ واٹ کے مرکزی دروازے کی طرف سے شور کی آواز سنائی دی۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد کرونگ دوڑتا ہوا ہمارے کمرے میں آگیا۔ اس کے ہاتھ میں آٹو میٹک رائفل تھی اور چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔

کیا بات ہے۔ یہ شور کیسا ہے؟ ۔۔۔میں نے کرونگ سے پوچھا۔

واٹ کے سامنے سیکڑوں لوگ جمع ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے اس محسن کو دیکھنا چاہتے ہیں جس نے لارڈ بدھا کو لٹنے سے بچایا تھا۔۔۔کر دنگ نے کہا ۔۔میرے ساتھ چلو۔ تمہیں شو فانگ نے بلایا ہے۔

شوفانگ اس واٹ کا مہتمم تھا۔ میں نے تھائی وانگ کی طرف دیکھا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ تھائی وانگ بھی میرے ساتھ جانے کو تیار ہو گئی۔ ہم اندرونی دروازے سے ہوتے ہوئے شو فانگ کے کمرے میں پہنچ گئے۔ شو فانگ کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ اس کے انداز میں بے چینی اور اضطراب نمایاں تھا۔ اس نے پہلے مجھے اور پھر تھائی وانگ کی طرف دیکھا۔ اس کی نظروں اور چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اسے یہ صورتِ حال پسندنہیں آئی تھی۔

با ہر کچھ لوگ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔۔۔  اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔  وہ تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے دیوتا بننے کی ضرورت نہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ یہاں کچھ اور خرافات شروع ہو جائیں۔ تم صرف دو منٹ ان کے سامنے رکو گے اور واپس چلے آؤ گے اور ان کے سامنے کوئی بھاشن دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ امید ہے تم میری باتوں کا خیال رکھو گے۔۔۔ شوفانگ کی یہ باتیں میرے لیے خلاف توقع نہیں تھیں۔

 جب مجھے اس خانقاہ میں بھیجا گیا تھا، اس سے اگلے ہی روز میں نے شوفانگ کا رویہ محسوس کر لیا تھا۔ یہاں میری تقرری کو شاید وہ اپنے معاملات میں مداخلت سمجھتا تھا لیکن میں نے ان باتوں پر کبھی توجہ نہیں دی تھی اور میرے خیال میں شوفانگ کے دل میں میرے بارے میں کوئی خدشات تھے تو وہ بے بنیاد تھے۔ اتنا عرصہ خانقاہوں میں اور بھکشوؤں کے ساتھ رہتے ہوئے ایک بات میری سمجھ میں آئی تھی کہ یہاں بھی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں ہوتی رہتی تھیں۔ ہر شخص اپنا درجہ بڑھانے اور دوسرے کو گرانے کے چکر میں رہتا تھا لیکن میرا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں نہ تو کوئی بھکشو تھا اور نہ ہی اس حیثیت سے کوئی مذہبی مقام حاصل کرنے کی خواہش تھی، مگر شو فانگ شاید یہ سمجھتا تھا کہ میں اس کی جگہ لینا چاہتا ہوں لیکن میرے دل میں ایسی کوئی تمنا نہیں تھی۔ میں تو ایک غریب الوطن اور بے سہارا آدمی تھا جو اپنے آپ کو دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہا تھا،  اور یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے مہاراج جیسے شخص کا سہارا مل گیا تھا۔ میں صرف اپنے آپ کو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا چاہتا تھا۔ اس کے سوا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

میں نے تھائی وانگ کو اشارہ کیا اور کرونگ کے ساتھ شوفانگ کے کمرے سے نکل گیا۔ مختلف راہداریوں میں گھومتے ہوئے جب ہم مرکزی ہال سے نکل کر کمپاؤنڈ میں آئے تو سامنے کا منظر دیکھ کر میرے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ آگئی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page