A Dance of Sparks–116–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 116

میں نےہال کی  ایک  دیوار پر لگی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا۔ صبح کے پانچ بجنے والے تھے۔

جو کمرا پسند آئے قبضہ کر لو۔۔۔ گانگ نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

میں نے ایک کمرے کا دروازہ کھولا۔ اندر بیڈ پر ایک ادھیڑ عمر عورت سورہی تھی۔ میں نے وہ دروازہ بند کر دیا اور دوسرے کمرے میں آگیا اور اپنا بیگ ایک کرسی پر پھینک دیا۔ تھائی وانگ اور شینو نے بھی ایک ایک کمرے پر قبضہ کر لیا تھا۔ صبح میری آنکھ دیر سے کھلی۔ تب پتا چلا کہ گانگ اور چیانگ ہمیں یہاں چھوڑنے کے تھوڑی ہی دیر بعد واپس چلے گئے تھے۔ لبتہ دو دو سرے آدمی دکھائی دیے تھے۔ ان میں سے کسی کی عمر بھی تیس  سال سے زیادہ نہیں تھی۔ ایک کلین شیو تھا۔ دوسرے کی مونچیں چوہے کی دُم کی طرح ہونٹوں کے کناروں سے لٹکی ہوئی تھی،  دونوں کے بال بے تحاشا بڑھے ہوئے تھے۔ ایک نے ناقاعدہ  چٹیا بنا رکھی تھی اور دوسرے کے بال گردن پر بکھرے ہوئے تھے،  پیشانی پر بالوں کو روکنے کے لیے ہیٹر بینڈ لگایا ہوا تھا۔ دونوں نے دھاری دار ٹی شرٹس اور جینز پہن رکھی تھیں۔ اپنے حلیوں سے وہ سڑک چھاپ غنڈے ہی لگتے تھے۔ میں جب سے مہاراج کی پناہ  میں آیا تھا ایسے ہی لوگوں سے واسطہ پڑتا رہا تھا اور میں جانتا تھا کہ اس قسم کے لوگ بڑے خطر ناک ہوتے ہیں۔

مسں بٹر فلائی کے ساتھ دوسری ادھیڑ عمر عورت میں بھی بڑی کشش تھی۔ ہمارے لیے ناشتا اسی نے بنایا تھا۔ مجھے یہ اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ انہیں ہمارے بارے میں پہلے ہی سے بتا دیا گیا تھا۔ باہر بیٹھے ہوئے ان دونوں آدمیوں کے بارے میں تو میں سمجھ گیا تھا کہ انہیں ہماری حفاظت کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن مسں بٹر فلائی اور مس رتانا نے اپنے بارے میں بتانے سے گریز  کیا تھا۔

وہ  میدان فٹ بال گراؤنڈ کے برابر تھا۔ وہ مکان بھی خاصا بڑا تھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر دو یا تین کمروں پر مشتمل ایک اور کا ٹیج تھا۔ اس میدان کے چاروں طرف گنجان درخت تھے جو گویا چار دیواری کا کام دے رہے تھے۔ ایک راستہ وہ تھا جس طرف سے ہم آئے تھے اور دوسرا راستہ اس چٹان کے دوسری طرف تھا۔ یہ راستہ خاصا کشادہ تھا اور اس سے گاڑی بھی آسکتی تھی۔ اوپر لوہے کے پائیوں کا گیٹ لگا ہوا تھا۔ اس قسم کا گیٹ چٹان کے دامن میں بھی تھا تا کہ کوئی غیر متعلق گاڑی اس راستے پرنہ آسکے۔ چٹان کے دوسری طرف نشیب میں تقریباً دو میل کے فاصلے پر دور تک چان بوری شہر پھیلا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سمندر کا ساحل تھا جو خم کھاتا ہوا اس چٹان کے دوسری طرف تقریباً دو سو گز کے فاصلے سے جنوب کی طرف چلا گیا تھا۔ بڑی خوب صورت جگہ تھی اور محفوظ بھی۔ مہاراج نے اسی لیے صرف دو آدمیوں کو یہاں بھیجا تھا۔ بجلی کے علاوہ یہاں ٹیلی فون کی لائن بھی موجود تھی۔ اس روز ناشتا کرنے کے بعد ہم اِدھر اُدھر گھومتے رہے۔ دونوں محافظ اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے رہے تھے۔ ان میں سے کسی نے ہمارے پیچھے آنے کی کوشش نہیں کی تھی البتہ ان کی نظریں ہمارا تعاقب کرتی رہی تھیں۔

دو پہر سے کچھ دیر بعد ایک بوڑھا آدمی بھی وہاں پہنچ گیا۔ میرے خیال میں اس کی عمر ساٹھ کے لگ بھگ رہی ہوگی۔ دُبلا پتلا سا۔ ٹھوڑی پر چند بال جنہیں داڑھی کہا جا سکتا تھا۔ چند بال ہونٹوں کے کناروں پر بھی تھے جن پر مونچھوں کا شائبہ ہوتا تھا۔ اس کا نام پکولا تھا اور یہ عجیب سا نام تھا۔ جبکہ حلئے کے اعتبار سے میرے خیال میں اس کا نام نیولا ہونا چاہیے تھا۔ وہ اس تنگ سے راستے سے آیا تھا جس راستے سے رات کو ہم آئے تھے۔ چٹان پر چڑھتے ہوئے ہمارا تو سانس پھول گیا تھا لیکن وہ بالکل تازہ دم لگ رہا تھا جیسے اس بلندی کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا ہو۔ پکولا کو مہاراج نے یہاں بھیجا تھا تاکہ میری تربیت کا اگلا مرحلہ مکمل ہو جائے اور وہ مرحلہ تھا چی کی پریکٹس کا۔  اور اگلے روز میری پریکٹس شروع ہو گئی۔ مجھے صبح سویرے ہی جگا دیا گیا اور پکولا مجھے چی کے بارے میں لیکچر دینے لگا۔

چی ہر جاندار کے اندر وہ پوشیدہ قوت ہے جسے اگر دریافت کر لیا جائے تو نادیدہ قوت کا ایسا خزانہ حاصل کیا جاسکتا ہے جس کی خواہش سب ہی لوگ کرتے ہیں۔ ایک کمزور ترین آدمی اپنے سے کئی گنا طاقت ور آدمی کی ہڈیوں کا سرمہ بنا سکتا ہے۔ آنکھوں میں وہ پُراسرار قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ نظروں کے اشارے پر بڑی سے بڑی اور وزنی چیز کو اس کی جگہ سے ہلایا جاسکتا ہے۔ دماغی قوت ایسے ایسے کارنامے انجام دیتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن آج تک دنیا میں بہت کم لوگ اپنے اندر چی کی یہ پراسرار قوت بیدار کر سکے ہیں کیونکہ اس کے لیے بڑی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔

چی کی قوت کا اندازہ سانپ سے لگایا جاسکتا ہے۔ سانپ۔۔۔ زمین پر رینگنے والا معمولی سا کیڑا ۔ جس کا جسم اس قدر کمزور ہوتا ہے کہ اسے آسانی سے مسلا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے اندر چی کی یہ پراسرار قوت موجود ہے اور وہ اس سے کام لیتا ہے۔ سانپ کے زہر سے قطع نظر، سانپ اگر بھاری بھر کم اور طاقت ور پہلوان کی ٹانگ سے لپٹ جائے تو ٹانگ کی ہڈی توڑ دیتا ہے۔ انسان میں بھی چی کی یہ پراسرار قوت بدرجہ اتم موجود ہے لیکن ننانوے فی صد لوگ اس سے واقف ہی نہیں ہیں اور جو واقف ہیں، وہ اسے بیدار کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور جو کوشش کرتے ہیں ان میں لاکھوں میں ایک ایسا ہوگا جسے کامیابی نصیب ہوتی ہو۔

پکولا مجھے بتا رہا تھا کہ چی کی اس پراسرار قوت کو کس طرح اندر سے ابھارا جاتا ہے۔ اس نے مجھے یوگا کے ایک اسٹانس میں بٹھا دیا ۔ آلتی پالتی مار کر دونوں ہاتھ سامنے گھٹنوں پر اور کمر بالکل سیدھی گردن اکڑی ہوئی۔ وہ خود بھی اسی پوسچر میں تھا اور مجھے مخصوص انداز میں سانس لینے کو بتا رہا تھا۔ مارشل آرٹس کی تربیت کے دوران میں بہت ہی کٹھنائیاں برداشت کر چکا تھا لیکن اس پوزیشن میں تو آدھے گھنٹے سے زیادہ نہیں بیٹھ سکا۔ میری تختے کی طرح اکڑی ہوئی کمر خود بخودجھکنے لگی۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ ابھی میری یہی تربیت جاری تھی۔ ابھی میرا پو سچر پرفیکٹ نہیں ہو سکا تھا۔ اس سے میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ آگے چل کر یہ تربیت کس قدر کٹھن ثابت ہوگی۔ اس روز شام کو ٹرینگ ختم ہونے کے بعد میں نے ایک سوال کیا تو پکولا نے جواب دیتے ہوئے کہا۔

 آج کے دور میں تو میں کسی کے بارے میں نہیں جانتا۔ اٹھارہ بیس سال پہلے امریکا کے چیمبرلین نامی قصبے میں کیری نام کی ایک ایسی لڑکی موجود تھی جو اس قسم کی پراسرار قوتوں کی مالک تھی۔۔۔ وہ چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر کیری کے بارے میں بتانے لگا۔

کیری کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ باپ جرائم پیشہ شرابی اور جواری تھا۔ ماں کٹر قسم کی مذہبی عورت تھی۔ کیری کے باپ کا  انتقال ہوا تو وہ اس وقت صرف تین سال کی تھی۔ بدصورت ہونے کے ساتھ اسے دوسری محرومیوں کا بھی احساس تھا،  جس نے اس چھوٹی سی عمر میں ہی اسے چڑ چڑا بنا دیا تھا۔ماں اس سے زیادہ بد مزاج اور چڑچڑی تھی۔ وہ معمولی معمولی باتوں پر کیری کو پیٹ کر رکھ دیتی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page