A Dance of Sparks–117–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 117

چی کی یہ پراسرار قوت ہر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے اسے حاصل کرنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہ پراسرار قوت  کیری میں بھی تھی لیکن کیری کو اس کے لیے کوئی محنت نہیں کرنی پڑی۔ اسے یہ قوت خود بخود حاصل ہو گئی تھی اور اس کا انکشاف محض اتفاق سے ہوا تھا۔ اس روز وہ اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی چائے پی رہی تھی ۔ اس سے تھوڑی دیر پہلے وہ اپنی ماں کے ہاتھوں بری طرح پھٹ چکی تھی ، چائے پیتے ہوئے کیری کے دل میں خواہش ابھری کہ کاش اس کی ماں کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹ جائے اور اس کے نئے کپڑوں کا بیڑا غرق ہو جائے۔ اس نے کپ کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی لمحے چائے کا کپ ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور اس کے نئے کپڑوں کا ستیا ناس ہو گیا۔

کیری چونک گئی۔ اس کی خواہش پوری ہو گئی۔ اسے احساسی ہو گیا کہ اس کی آنکھوں میں کوئی ایسی قوت موجود ہے جس سے وہ  اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکتی ہے۔ وہ اس قوت کو ابھارنے کے لیے پریکٹس کرنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں اتنی قوت ہو چکی تھی کہ وہ اپنی نظروں سے بھاری سے بھاری چیز کو اس کی جگہ  سے حرکت دے سکتی تھی۔ وہ کھانے کی میز کو اس کی جگہ سے کئی فٹ اوپر اٹھا دیتی۔ بھاری مسہری کو ہاتھ لگائے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتی۔ اور پھر کیری کو اپنے اندر موجود ایک اور پراسرار قوت کا احساس ہوا ۔ یہ قوت اس کے دماغ میں تھی۔ وہ اپنی سوچ سے ایسے کام لے سکتی تھی جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایک روز ماں سے ڈانٹ پڑی تو اس نے اپنی سوچ سے کام لے کر اپنے مکان کی چھت پر پتھروں کی بارش کروا دی۔ لطف کی بات تو یہ تھی کہ پڑوس کے کسی مکان پر ایک پتھر بھی نہیں گرا تھا۔ کیری کی یہ صورت حال لوگوں سے چھپی نہیں رہ سکی۔کیری کے بارے میں عجیب و غریب افواہیں پھیلنے لگیں۔ نفسیات اور مختلف علوم کے ماہرین چیمبر لین نامی اس قصبے میں پہنچ گئے،  اُس کے  طبی معائنے اور نفسیاتی تجزیے ہوتے رہے لیکن ماہرین کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ کیری جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی ، اس کی اس پراسرار قوت میں  بھی اضافہ ہوتا گیا۔ بد صورت ہونے کی وجہ سے اس کے دوست اس کا مذاق اڑاتے۔ اسکول میں بھی وہ اس مذاق کا نشانہ بنتی،  جس سے اس کے دل میں دوسروں کے لیے نفرت بڑھتی رہی ۔ ۱۹۷۹ء میں اسکول کی سالانہ تقریب تھی۔ بہت بڑے ہال میں سینکڑوں لوگ جمع تھے۔ کیری اسٹیج پر تھی۔ اسے اسکول کی طرف سے بہت بڑا اعزاز ملنے والا تھا۔ دوست اس کا مذاق اڑا رہے تھے اور جب ایک لڑکے نے اس پر رنگ کی بالٹی انڈیل دی تو اس کی برداشت جواب دے گئی۔ کیری نے اپنے اندر کی اس پراسرار  قوت کو بھر پور انداز میں استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے خیال میں اب وقت آگیا تھا کہ قصبے کے لوگوں سے اپنی توہین کا

بدلا لیا جائے۔

ہال  میں لاتعداد آرائشی برقی قمقمے لگے ہوئے تھے۔ کیری نے نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا۔ بجلی کے تار ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے۔ ایک کونے میں آگ لگی تو کھلبلی مچ گئی۔ لوگ بدحواس ہو کر دروازوں  کی طرف دوڑے لیکن تمام دروازے بند ہو گئے۔ آگ پیل رہی تھی۔ چیختے چلاتے ہوئے لوگ بدحواسی میں ایک دوسرے پر گرنے لگے۔

گیری ایک دروازے کے سامنے پہنچی تو دروازہ خود بخود کھل گیا۔ اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی باہر آگئے لیکن پھر فورا ہی دروازہ  بند ہو گیا۔ ہال میں آگ پھیلتی جارہی تھی۔ آگ نے عمارت کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیا۔ لوگ دروازے اور کھڑکیاں توڑ کر با ہر نکل رہے تھے۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں سائرن بجاتی ہوئی اس کی طرف دوڑ رہی تھیں۔ کیری کی نفرت نقطہ عروج پر تھی۔ اس کی نظریں اور دماغی قوت پوری طرح کام کر رہی تھی۔ اسکول کی عمارت کے آس پاس تمام ہائیڈرنٹ ٹوٹ گئے تھے۔ پانی سڑکوں پر پھیل رہا تھا۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو آگ بجھانے کے لیے پانی نہیں مل سکا۔ آگ دوسری عمارتوں تک پھیل گئی تھی۔

پورے قصبے میں بجلی کے تار ٹوٹ کر گر رہے تھے۔ پانی کی پائپ لائنیں پھٹ گئی تھیں۔ آگ اور پانی۔۔۔ قصبے کی سڑکوں پر پانی تھا اور آگ عمارتوں کو لپیٹ میں لے رہی تھی۔ قیامت صغرا کا منظر تھا۔ چیختے چلاتے ہوئے لوگ پناہ کی تلاش میں ادھر اُدھر دوڑ رہے تھے۔ اس پاس کے قصبوں سے  فائر بریگیڈ کی گاڑیاں طلب کرلی گئی تھیں مگرآگ  پھیلتی گئی۔

چیمبرلین قصبہ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ ساٹھ افراد موت کا شکار ہوئے تھے اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ قصبے سے کچھ دور ایک ٹیلے پر کیری کی لاش بھی ملی تھی۔ اس کی موت دماغ کی نسیں پھٹ جانے سے واقع ہوئی تھی۔

چی کی قوت بڑی خوف ناک ہے۔۔۔ پکولا کہہ رہا تھا کیری میں یہ قوت خود بخود ابھر کر آئی تھی لیکن اس نے اسے منفی انداز میں استعمال کیا۔ جس نے ایک قصبے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا لیکن اگر اس قوت کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو اس سے بڑے بڑے کام لیے جاسکتے ہیں۔

میری تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔ جب میں سانس روک کر بیٹھتا تو بعض اوقات یوں لگتا جیسے پھیپڑے پھٹ جائیں گے۔ اب میں پینتیس چالیس منٹ تک بالکل سیدھا بیٹھ سکتا تھا۔ اس دوران میں مجھے یہ بھی اطلاع ملی کہ شو فانگ کو واٹ سے نکال دیا گیا تھا۔ وہ اس واٹ کا مہتمم تھا۔ یہاں لاکھوں ڈالر کے نذرانے جمع ہوتے تھے اور ان سب کا حساب رکھنا اس کی ذمے داری تھی۔ واٹ میں رونما ہونے والے ان واقعات کے بعد واٹ کا حساب بھی چیک کیا گیا تو بڑی بے قاعد گیوں کا انکشاف ہوا ۔ جس بنا پر اسے واٹ سے نکال دیا گیا تھا۔ مزید ایک ہفتہ گزر گیا۔ تھائی وانگ اب پوری طرح صحت یاب ہو چکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں پہلے جیسی چمک اور رخساروں پر سرخی آگئی تھی۔

اس روز شام کے کچھ دیربعد ہم برآمدے کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کہ گھاٹی والے راستے سے دو آدمی اوپر آگئے۔ ان کے حلئے بھی ہمارے ان دو آدمیوں سے مختلف نہیں تھے جو پہلے سے یہاں موجود تھے۔ ان میں سے ایک کو میں نے پہچان لیا۔ وہ رنگوٹی تھا۔ اسے میں نے عرصہ پہلے مہاراج کے جمنازیم میں دیکھا تھا۔

 مہاراج نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو فوری طور پر یہاں سے ہٹا کر دوبارہ بنکاک پہنچا دیا جائے۔۔۔ رنگوٹی نے مجھے بو کرتے ہوئے کہا۔

آج صبح فون پر مہاراج سے بات ہوئی تھی۔ انہوں نے تو ایسا کوئی پروگرام نہیں بتایا تھا۔۔۔ میں نے الجھی ہوئی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

 یہ پروگرام اچانک ہی بنا ہے۔۔۔ رنگوٹی نے جواب دیا۔۔۔  دراصل ٹائیگر کو تمہارے اس ٹھکانے کا پتا چل گیا ہے۔ وہ آج رات کسی وقت یہاں حملہ کر سکتے ہیں اس لیے تم لوگوں کو یہاں سے ہٹانا بہت ضروری ہے۔ اگر تمہیں مجھ پر کوئی شبہ ہو تو فون پر مہاراج سے تصدیق کر سکتے ہو۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page