A Dance of Sparks–118–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 118

میں چند لمحے الجھی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر اس کمرے میں آگیا جہاں فون رکھا ہوا تھا۔ میں نے ریسیور اٹھا کر نمبرملانا چاہا تو پتا چلا کہ فون ڈیڈ ہے۔ میں نے دو تین مرتبہ کریڈل پمپ کیا لیکن لائن میں جان پیدا نہیں ہوئی۔ میں ریسیور رکھ کر باہر آگیا اور پھر تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم رنگوٹی کے ساتھ اس تنگ سے چٹانی راستے پر اتر رہے تھے۔ وہ نیلے رنگ کی بندوین تھی جس کے شیشوں پر سیاہ شیٹس لگی ہوئی تھیں۔ وین کے اندر سے ہم تو باہر دیکھ سکتے تھے لیکن باہر سے اندر نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ ڈرائیونگ سیٹ پر ایک اور آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ رنگوٹی کا ساتھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور رنگوٹی پچھلے حصے میں ہمارے ساتھ ۔

وین چان بوری شہر سے ہوتے ہوئے ہائی وے پر آگئی اور پھر ہائی وے تھری پر مڑکر تیز رفتاری سے بنکاک کی طرف دوڑنے لگی۔

تقریباً دو گھنٹے بعد ہم بنکاک شہر میں داخل ہو چکے تھے۔ وین وکٹری مونومنٹ کے قریب سے ہوتی ہوئی رو تھن روڈ کی طرف مڑگئی اور پھر کچھ ہی دیر بعد سوئے ایری ون پر گھوم کر ایک کاٹیج کے سامنے رک گئی۔ ہارن بجانے پر گیٹ کھل گیا اوروین اندر آکرپورچ میں رک گئی۔

وین سے اترتے ہوئے مجھے کچھ عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ رنگوٹی کے دونوں ساتھی باہر ہی رک گئے تھے جبکہ رنگوٹی ہمیں لے کر ایک کمرے میں آگیا۔ یہ وسیع و عریض کمرا قیمتی فرنیچر سے آراستہ تھا۔ فرش پر دبیز قالین بچھا ہوا تھا۔ ایک دیوار پر بڑے سے فریم میں نیم عریاں عورت کی تصویر آویزاں تھی۔ اس تصویر کو دیکھ کر میرے دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا اور جسم پر چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ مہاراج کا تعلق کسی ایسی جگہ سے نہیں ہو سکتا تھا جہاں اس طرح کا پُر آسائش وقیمتی فرنیچر ہو اور کسی عورت کی ایسی عریاں تصویر لگی ہوئی ہو۔ جسے دیکھتے ہی پسینہ آنےلگے۔

 تم لوگ آرام سے بیٹھو۔۔۔ رنگوٹی نے باری باری ہم تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ ماسٹر ہو چن یہاں موجود ہے میں اسے بلا کر لاتا ہوں۔

رنگوٹی کمرے سے نکل گیا۔ میں نرس شینو اور تھائی وانگ کی طرف دیکھنے لگا۔ شینو کو تو شاید کچھ اندازہ نہیں تھا لیکن تھائی وانگ کی آنکھوں میں الجھن کے تاثرات نمایاں تھے۔ شاید وہ بھی وہی کچھ سوچ رہی تھی جو میرے ذہن میں تھا۔

تقریباً دس منٹ بعد راہداری میں قدموں کی آواز سنائی دی۔ دروازہ کھلا اور تین آدمی اندر داخل ہوئے۔ ایک رنگوٹی تھا دوسرا اس کا وہی ساتھی تھا جو ہمارے ساتھ آیا تھا اور تیسرے کو دیکھ کر میں اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ وہ خانقاہ کا معزول مہتمم ۔۔ شوفانگ تھا۔

میرے خدشات درست ثابت ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ دھوکا ہوا تھا بلکہ میں دھوکا کھا گیا تھا۔ رنگوٹی کو عرصہ پہلے میں نے مہاراج کے جمنازیم میں دیکھا تھا اور پہاڑی والے مکان پر اسے دیکھ کر یہی سمجھا تھا کہ وہ اب بھی مہاراج کے کیمپ میں ہے لیکن یہ بھول گیا تھا کہ یہاں وفاداریاں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی پیسے کے لیے لوگ اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں۔ شوفانگ نے بڑی ہوشیاری کا ثبوت دیا تھا۔ اس نے ایک ایسے آدمی کو بھیجا تھا جس پر شبہ نہ کیا جاسکے اور اس سے پہلے ٹیلی فون کی لائن کہیں سے کاٹ دی گئی تھی۔ رنگوٹی نے بڑے اعتماد سے کہا تھا کہ ٹیلی فون پر مہاراج سے تصدیق کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ٹیلی فون پر رابطہ نہیں ہو سکتا تھا۔

میں اپنے آپ میں اس وقت سے کچھ بے چینی سی محسوس کرنے لگا تھا جب ہم ان کے ساتھ پہاڑی والے مکان سے روانہ ہوئے تھے، اور تھائی وانگ بھی غالباً کسی ایسی ہی کیفیت میں مبتلا رہی تھی ،اور اب شوفا نگ ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے جسم پر لباس تو وہی بھکشوؤں  والا تھا۔ پیلے کپڑے کے تین ٹکڑے۔ ایک جسم کا نچلا حصہ ڈھانپنے کے لیے دو سرا در میانی حصے کے لیے۔ تیرا جسم کے اوپر والے حصے کو چھپانے کے لیے،  وقت ضرورت سر کو بھی ڈھانپ سکے۔ بھکشو عام طور پر بہت سستی قسم کا کپڑا استعمال کرتے ہیں لیکن شو فانگ اور بعض دوسرے بھکشوؤں کے جسم پر میں نے ہمیشہ قیمتی کپڑا دیکھا تھا۔ جو تا یا چپل وغیرہ استعمال کرنا بھی بھکشوؤں کے لیے ممنوع تھا لیکن شوفانگ کے پیروں میں اس وقت سیاہ مخمل کے خوب صورت سلیپر نظر آرہے تھے۔

اُس کے چہرے پر کھردری سی مسکراہٹ اور چہرے پرخباثت تھی۔ میں اسے دیکھتے ہی  ایک جھٹکے سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ شینو اور تھائی وانگ نے بھی میری تقلید کی تھی۔ ان دونوں کے چہروں پر خوف کے تاثرات نمایاں تھے۔ شینو کو بھی اب صورت حال کی سنگینی کا احساس ہو گیا تھا۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں سی اڑ رہی تھیں۔

مہاراج کے چہیتے ۔۔۔شوفانگ میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ اس کے لہجے میں زہر بھرا ہوا تھا ۔۔۔تم اپنے آپ کو بہت ہوشیار سمجھتے تھے اور وہ مہاراج ۔۔ وہ تو اپنے آپ کو واقعی مہاراج سمجھ بیٹھا ہے۔ چند غنڈوں کو اپنے ارد گرد جمع کر کے وہ اپنے آپ کو بہت طاقت ور سمجھنے لگا ہے۔ شاید وہ بھول گیا ہے کہ نہلے پر دہلا بھی ہوتا ہے۔ لیکن آج کے بعد اس کا راج پاٹ ختم ہو جائے گا۔ میں اسے اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردوں گا اور تم۔۔۔ تمہیں توایسی سزا ملے گی کہ نہ مرسکو گے اور نہ ہی جی سکو گے۔

 تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے شوفانگ۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔تم یہ سمجھتے تھے کہ میں تمہاری جگہ لینا چا ہتا ہوں لیکن میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں بھکشو نہیں ہوں۔ میرا تو تمہارے مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسی صورت میں، میں تمہاری جگہ کیسے لے سکتا تھا۔ مجھے تو یہاں صرف بھکشوؤں کی مارشل آرٹ کی ٹرینگ کے لیے بھیجا گیا تھا۔ میرا واٹ کے معاملات سے کیا تعلق ہو سکتاہے۔

یہی تو افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسے شخص کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کا ہمارے دھرم سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ شوفانگ نے کہا ۔۔۔ میں جانتا ہوں۔ مہاراج کو بھی اس دھرم سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ وہ ہماری دھرمی کو نسل پر حاوی ہو رہا ہے تاکہ بنکاک کی تمام خانقاہوں پر قبضہ کر سکے۔ یہ خانقا ہیں عبادت گاہیں نہیں سونے کی کانیں ہیں۔ یہاں روزانہ کروڑوں بھات کے نذرانے چڑھائے جاتے ہیں اور مہاراج سونے کی ان کانوں پرقبضہ کرنا چاہتا ہے۔ میں نے اگر اس میں سے تھوڑا سا حصہ وصول کر لیا تو اسے ناگوار گزرا اور دھرمی کونسل کے ذریعے مجھے بر طرف کروا دیا۔ یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا۔ اگر تم نہ ہوتے تو میرا یہ سلسلہ چلتا رہتا اور وہ منصوبہ بھی نا کام نہ ہو تا جس پر میں نے بڑی محنت کی تھی مگر تمہاری مداخلت سے ساری محنت پر پانی پھر گیا۔

کون سا منصوبہ؟۔۔۔ میں چونکے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page