رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر- 12
تین آدمی کار سے اتر کر ایک طرف دوڑے۔ قدو قامت کی وجہ سے فرقان نے ان میں سے ایک کو پہچان لیا۔ وہ رانا تھا۔
تم لوگ چاروں طرف سے گھیرے جاچکے ہو۔ ہتھیار پھینک دو۔۔۔ فرقان چیخا۔
فرقان کا خیال تھا کہ وہ لوگ ٹریپ میں آجائیں گے لیکن وہ لوگ اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے کھیتوں میں ایک طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ فرقان نے بھی ایک دو فائر کر دیے۔ فرقان دوڑ کر کار کے قریب پہنچ گیا۔ اس نے جھانک کر اندر دیکھا۔ کار کی پچھلی سیٹ پر دو کینوس کے بڑے بڑے تھیلے پڑے ہوئے تھے۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا۔ رانا اور اس کے ساتھی دوڑتے ہوئے وہاں سے بہت دور جا چکے تھے۔ فرقان دروازہ کھول کر اسٹیئرنگ کے سامنے بیٹھ گیا اور انجن اسٹارٹ کر کے اسے کھیتوں میں موڑ دیا۔ ایک ٹائر برسٹ ہونے کی وجہ سے کار گھسٹ کر چل رہی تھی۔
اکبر ڈیرے پر نہیں تھا۔ وہ فائرنگ کی آواز سن کر کہیں بھاگ گیا تھا۔ فرقان نے کار کی پچھلی سیٹ پر رکھے ہوئے کینوس کے تھیلے کھول کر دیکھے۔ اس کی آنکھوں میں چمک سی ابھر آئی۔ دونوں تھیلیوں میں سونے کے بسکٹ بھرے ہوئے تھے۔
فرقان نے کار سے اتر کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر دونوں تھیلے باہر نکال لیے جو خاصے وزنی تھے۔ اس وقت ایک بار پھر فائرنگ کی آوازئیں سنائی دینے لگیں۔ یہ آوازئیں لمحہ بہ لمحہ قریب آتی جارہی تھیں ۔ غالباً رانا اور اس کے ساتھی سمجھ گئے تھے کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے اور وہ فائرنگ کرتے ہوئے اس طرف آرہے تھے۔ فرقان نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان تھیلیوں کو کہاں چھپایا جائے اور بالآخر ایک جگہ اس کی سمجھ میں آگئی۔ اس نے دونوں تھیلیوں کے زپ اچھی طرح بند کر دیے اور انہیں رہٹ والے کنوئیں میں پھینک دیا ۔ رانا اور اس کے ساتھی قریب آرہے تھے۔
فرقان اپنی موٹر سائیکل کی طرف دوڑا۔ رانا نے اسے دوڑتے ہوئے دیکھ لیا اور اس پر فائرنگ شروع کر دی۔ فرقان نے کک لگا کر موٹر سائیکل کا انجن اسٹارٹ کیا اور اسے گیر میں ڈال کر ایکسیلیٹر پوری طرح گھما دی۔ موٹر سائیکل اچھل کر آگے نکلی ۔ رانا اور اس کے ساتھی پیچھے دوڑتے ہوئے فائرنگ کر تے آرہے تھے۔ گولیاں فرقان کے آس پاس سے گزر رہی تھیں لیکن فرقان ان سے محفوظ ہی رہا۔ موٹر سائیکل اچھلتی ہوئی کھیتوں میں دوڑتی رہی۔ سڑک پر آکر اس نے موٹر سائیکل راوی کی طرف موڑ دی۔ یہ سڑک سیدھی راوی کے پل تک چلی گئی تھی۔ شہر میں اپنے گھر پہنچنے کے لیے فرقان کو ایک طویل چکر کاٹنا پڑا تھا۔
جب وہ گھر پہنچا تو صبح کے پانچ بجنے والے تھے۔ بد حواسی اور نجانا سا خوف فرقان کے چہرے پر نمایاں تھا۔ شمیم آراء اسے دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ وہ اس سے کچھ پوچھنے کی کوشش کرتی رہی لیکن فرقان نے اسے ٹال دیا ۔
اس کے تین دن بعد رانا اور اس کے ایک ساتھی نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ وہ آدھی رات کے قریب اس کے گھر میں گھس آئے تھے۔ ان دونوں کے پاس پستول تھے۔ وہ فرقان سے سونے کے ان دو تھیلیوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا جو اس نے غائب کیے تھے۔ اس کے کہنے کے مطابق کار میں سونے کے چھ تھیلے تھے۔ چار ڈگی میں اور دو پچھلی سیٹ پر پچھلی سیٹ والے تھیلے غائب تھے۔ رانا کے مطابق ان دو تھیلوں میں تقریباً پانچ کروڑ روپے مالیت کا سونا تھا۔ اگر فرقان وہ تھیلے ان کے حوالے کر دے تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا لیکن فرقان لاعلمی کا اظہار کرتا رہا۔ اسے تو اس بات کا افسوس ہو رہا تھا کہ اسے ڈگی کا خیال کیوں نہیں آیا تھا۔ اس وقت اسے ڈگی کا خیال آجا تا تو وہ باقی چار تھیلے بھی کنوئیں میں پھینک دیتا۔
رانا انسان نہیں درندہ ثابت ہوا تھا۔ اس نے فرقان کو مار مار کر ادھ موا کر دیا۔ شمیم آراء کو بھی اس نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ فرقان اور شمیم آراء کی چیخیں فضا میں گونجتی رہیں لیکن کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا ۔ گلشن راوی ان دنوں نیا نیا آباد ہوا تھا۔ بہت سے مکان تھے۔ آباد مکان ایک دوسرے سے خاصے دور تھے۔
فرقان کا مکان بھی کسی قدر الگ تھلگ تھا اس لیے کوئی ان کی مدد کو نہ آسکا۔ ان کی چیخوں کی آوازیں یقیناً سنی گئی تھیں لیکن کس کو پڑی تھی کہ آدھی رات کو اپنے گھر سے نکلتا۔ فرقان کی ہمت جواب دینے لگی۔ بالآ خر جان بچانے کے لیے اس نے رانا کو بتایا کہ دونوں تھیلے اس نے راوی میں پُل کے دوسرے ستون کے قریب پھینک دیے تھے۔ رانا نے اسے یہ دھمکی دی تھی کہ اگر اس جگہ دریا میں تھیلے نہ ملے تو وہ اسے زندہ نہیں چھوڑے گا۔
فرقان نے صبح ہونے سے پہلے پہلے وہ مکان چھوڑ دیا ۔ وہ اپنی بیوی اور دو ماہ کے بچے کو لے کر فیروز پور روڈ پر اچھرہ کے ایک مکان میں آگیا لیکن تین دن بعد رانا نے انہیں یہاں بھی ڈھونڈ نکالا۔ اس رات فرقان غافل نہیں تھا۔ اس نے رانا اور اس کے ساتھیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ رانا اور اس کے ساتھی مکان میں داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے مکان کو آگ لگادی۔
مکان میں آگ بھڑک رہی تھی۔ رانا اور اس کے ساتھی باہر کھڑے قہقہے لگا رہے تھے۔ کسی نے پولیس کو اطلاع دے دی۔ پولیس کے آجانے سے رانا اور اس کے ساتھی بھاگ نکلے اور لوگوں نے پولیس کی مدد سے فرقان اس کی بیوی اور بچے کو تو بچا لیا تھا مگر وہ مکان جل کر راکھ ہو گیا تھا۔
فرقان کو اپنے ایک دوست کے ہاں پناہ ملی ۔وہ جانتا تھا کہ اس کی وجہ سے ملک نوازش کو پانچ کروڑ روپے کا نقصان پہنچا تھا۔ وہ اسے کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑے گا۔ یہاں کوئی جگہ اس کے لیے محفوظ نہیں تھی۔ فیصل آباد میں اس کے رشتے دار تھے۔ اس نے سوچا وہاں چلا جائے لیکن اسے یقین تھا کہ ملک نوازش کے آدمی اسے وہاں سے بھی ڈھونڈ نکالیں گے۔ اس کے دوست نے اسے ملک چھوڑ دینے کا مشورہ دیا ۔ وہ خود انہیں لے کر کراچی پہنچ گیا۔ یہیں سے انہوں نے پاسپورٹ بنوائے اور سنگا پور آگئے۔
شمشیر سنگھ نے ڈائری بند کر دی۔ اس کے منہ سے بے اختیار گہرا سانس نکل گیا تھا۔
فرقان جب سنگا پور آیا تھا تو اس نے شمشیر سنگھ کو اپنے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا لیکن پانچ کروڑ روپے مالیت کے سونے والی بات نہیں بتائی تھی۔ البتہ چند روز پہلے مرنے سے تھوڑی دیر قبل اس نے سونے کے بارے میں انکشاف کیا تھا۔ ڈائری پڑھنے کے بعد شمشیر سنگھ کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ رانا اسے تلاش کرتا ہوا یہاں اسی لیے آیا ہے کہ سونے کے بارے میں معلوم کر سکے۔
اچانک شمشیر سنگھ کے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔ ہو سکتا ہے ملک نوازش سب کچھ بھول چکا ہو اور رانا اپنے طور پر سونا حاصل کرنا چاہتا ہو اور وہ فرقان کو تلاش کرتا ہوا یہاں تک پہنچ گیا اور ملک نوازش کو اس کا پتا بھی نہ ہو۔ ایسا ہو سکتا تھا۔
رانا کے بارے میں فرقان نے جو کچھ بھی بتایا تھا اور ڈائری میں جو کچھ بھی پڑھا تھا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ راناجیسے آدمی کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اس سے کچھ بھی بعید نہیں۔
فرقان کی ڈائری پڑھنے کے بعد پورا پس منظر شمشیر سنگھ کے سامنے آگیا۔ فرقان اور اس کی بیوی شمیم آراء ایک طرح کی نفرت اور انتقام کا شکار ہو گئی تھی لیکن افسوس کی بات تو یہ تھی کہ یہ قصہ یہں پرختم نہیں ہو گیا تھا۔ روحان فرقان ہی کا بیٹا تھا اور بد قسمتی سے اپنے ماں باپ کے قتل کا واحد چشم دید گواہ تھا۔ مزید بد قسمتی یہ تھی کہ قاتل وہی لوگ تھے جنہوں نے روحان کے ماں باپ کو اپنی ہی سرزمین پر چین سے نہیں رہنے دیا تھا اور بارہ سال پہلے انہیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا اور بالآخر موت کا شکار ہو گئے تھے۔ اس طرح یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہو گیا تھا بلکہ مزید دراز ہو گیا تھا۔
روحان نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ماں باپ کو بے دردی سے قتل ہوتے دیکھا تھا۔ رانا کے بارے میں اس نے اپنے ماں باپ کو باتیں کرتے ہوئے بھی سنا تھا اور جب وہ اپنے باپ کی ڈائری پڑھے گا تو اس کی نفرت دو چند ہو جائے گی اور وہ مجسم انتقام بن جائے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اسے اپنے ماں باپ کے قاتلوں کو موت کے گھاٹ اتارنے سے نہیں روک سکے گی۔ شمشیر سنگھ نے یہ سب کچھ سوچتے ہوئے ڈائری بند کر کے تکئے کے نیچی رکھ دی اور سامنے دیوار گیر کلاک کی طرف دیکھنے لگا۔ دو بج چکے تھے۔ اس نے گردن گھما کر روحان کی طرف دیکھا۔ وہ گہری نیند سو رہا تھا۔
شمشیر بھی سیدھا ہو کر بستر پر لیٹ گیا لیکن دوسرے ہی لمحے اسے چونک جانا پڑا ۔ چھت پر ایسی آوازیں آرہی تھیں جیسے اُٹھاپٹخ ہو رہی ہو۔ اس نے تکئے کے نیچے سے پستول نکالا اور چپل پہنے بغیر تیزی سے کمرے سے باہر آگیا۔ لاؤنج میں پہنچ کر چھت پر اٹھاپٹخ کی آوازیں زیادہ واضح سنائی دینے لگیں۔
سوتر سنگھ اوئے سو تر سنگھ ! کیا ہو رہا ہے۔ کہاں ہو تم؟۔۔۔۔اس نے دو تین مرتبہ سو تر سنگھ کو پکارا لیکن کوئی جواب نہیں ملا
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر آگیا لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے دائیں طرف چھلانگ لگا دی۔ اگر اسے ایک لمحے کی بھی تاخیر ہو جاتی تو اس کا جسم گولیوں سے چھلنی ہو جاتا۔ سامنے سے اس پر گولیوں کی بوچھار کر دی گئی تھی۔ موت شمشیر سنگھ کے بہت قریب سے گزری تھی۔ اگر اسے چھلانگ لگانے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر ہو جاتی تو اس کا جسم گولیوں سے چھلنی ہو چکا ہوتا۔ لاؤنج والے اس دروازے کے سامنے کشادہ بر آمدہ تھا جس کے فرش اور سیڑھیوں پر ماربل کے ٹکڑے لگے ہوئے تھے۔ برآمدے کی چھت کو سہارا دینے کے لیے دو ستون تھے ان پر بھی سفید سنگ مرمر کے ٹکڑے لگے ہوئے تھے۔
برآمدے میں دیواروں کے ساتھ اور فرش کے کناروں پر موزائک سے بنے ہوئے بڑے بڑے گملے رکھے ہوئے تھے جن میں پھولوں کے پودے تھے۔ ستونوں کے ساتھ ٹکے ہوئے دو گملوں میں باریک پتیوں والی بیلیں تھیں جو ستون پر بل کھاتی ہوئی اوپر چھت تک چلی گئی تھیں۔ شمشیر سنگھ روزانہ صبح سویرے اٹھ کر ان گملوں میں پانی ڈالا کر تا تھا اور اب یہی گملے اس کی زندگی کے ضامن بن گئے تھے۔
گولیوں کی بوچھار ہوتے ہی اس نے ایک طرف چھلانگ لگا دی تھی اور فرش پر گرتے ہی ان بڑے بڑے گملوں کی آڑ میں لیٹ گیا تھا۔ یہ غنیمت تھا کہ بر آمدے کی بتی نہیں جل رہی تھی اگر روشنی ہوتی تو اسے دیکھ لیا جاتا۔ تاریکی کی وجہ سے وہ حملہ آوروں کی نظروں سے محفوظ ہو گیا تھا۔ چھلانگ لگاتے ہوئے اس کا پستول بھی ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا لیکن یہ پستول تلاش کرنے کا وقت نہیں تھا۔ سامنے سے فائرنگ ہو رہی تھی اور گولیاں برآمدے والے دروازے سامنے والی دیوار اور ستونوں پر لگ رہی تھیں۔ آٹو میٹک رائفل یا سب مشین گن سے ہونے والی فائرنگ بہت شدید تھی۔
شمشیر سنگھ گملوں کے پیچھے بے حس و حرکت لیٹا روحان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ کی آواز سے اس کی بھی آنکھ کھل گئی ہوگی اور شمشیر سنگھ دل ہی دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ کہیں وہ بستر سے اٹھ کر باہر آنے کی کوشش نہ کرے۔ ایسی صورت میں اس کا بچنا مشکل ہو جاتا ۔
فائرنگ بند ہو گئی۔ شمشیر سنگھ نے ایک لمحے کو انتظار کیا اور پھر بڑی احتیاط سے دونوں ہاتھ پھیلا کر آس پاس فرش کو ٹٹولنے لگا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ پستول اسے قریب ہی فرش پر پڑا ہوا مل گیا ۔ اس نے بڑی آہستگی سے سیفٹی کیچ ہٹایا اور سامنے دیکھنے لگا۔ اب تک اس کی آنکھیں کسی حد تک تاریکی سے مانوس ہو چکی تھیں۔ گلی میں اگر چہ اسٹریٹ لائٹ جل رہی تھی لیکن گنجان شاخوں والے ایک درخت کی وجہ سے وہ روشنی شمشیر سنگھ کے مکان کے صحن تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تاریکی میں گھور رہا تھا۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
