A Dance of Sparks–121–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 121

میں بالکل خوف زدہ نہیں تھا اور نجانے مجھے یہ یقین کیوں تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔

میرے ہاتھ کرسی کی پشت پر بندھے ہوئے تھے اور میں اپنی کلائیوں کو مسلسل حرکت دے رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ ہا تھوں کو اس طرح حرکت دینے سے نائیلون کی رسی ڈھیلی ہو جائے گی اور مجھے کچھ کرنے کا موقع مل جائے گا۔

اس میں بھی شبہ نہیں کہ شوفانگ شیطان سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ جو شخص راہب بن کر اپنے دھرم کو دھوکا دے سکتا ہے اس سے کسی بھی بات کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس نے ٹرالی کے نچلے حصے میں رکھے ہوئے وی سی آر پر ایک ویڈیو کیسٹ لگا کر ٹی وی آن کر دیا۔ اسکرین پر چند لمحے ذرات سے جھلملاتے رہے اور پھر فلم شروع ہو گئی۔

جذبات کو بھڑکانے والی نہایت سیکسی فلم تھی۔ مرد اور عورت شہوت کا  کھیل کھیل رہے تھے۔ میں نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کرلیں۔ وہ تھائی وانگ کی کرسی کی پشت پر پہنچ کر رک گیا اور پشت پر بندھے ہوئے اس کے ہاتھ کھولنے لگا۔ وہ تھائی وانگ کو بانہوں کے شکنجے میں جکڑ کر آگے لے آیا اور دھکا دے کر بیڈ پر گرا دیا ۔ تھائی وانگ نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو شوفانگ نے اسے گرفت میں لے لیا۔ شو نانگ اس سے کہیں زیادہ طاقت ور تھا مگر تھائی وانگ مزاحمت کرتی رہی۔ اس مزاحمت میں اس کی قمیص پھٹ کر جسم سے الگ ہو گئی۔ وہ اوپر سے بالکل برہنہ ہو گئی تھی۔ تھائی وانگ پہلے بھی کئی دفعہ میرے سامنے برہمنہ ہوئی تھی لیکن اس طرح مکمل اُس کے مموں کو میں نے کبھی ننگا نہیں دیکھا تھا ۔ اس وقت مجھے شوفانگ پر بہت غصہ آرہاتھا لیکن تھائی وانگ  کے ننگے ممے دیکھ کر مجھے اچھا بھی محسوس ہورہاتھا۔ اور یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ کہ کیوں ۔ تھائی وانگ تو ہر وقت میری درسترس میں ہی رہی تھی لیکن کبھی بھی اُس کو دیکھ کر میرے جذبات نہیں بڑھکے ۔ خیر اس وقت تو میں اپنے ہاتھوں کو مسلسل حرکت دے رہا تھا لیکن رسی کی گرہیں کسی طرح ڈھیلی ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ رسی کی رگڑ سے میری کلائیوں میں تکلیف ہونے لگی تھی لیکن میں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ میرا جسم پسینے میں تر ہو رہا تھا۔ تھائی وانگ شوفانگ کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔ اس نے اچانک ہی شوفانگ کی ٹانگوں کے بیچ میں ضرب لگائی۔ شوفانگ بلبلاتا ہوا بیڈ پر الٹ گیا۔ تھائی وانگ اسے دھکیلتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔ وہ جیسے ہی بیڈ سے اتری شوفانگ نے لپک کراسے پکڑ لیا۔

میرے ہاتھ اگر چہ کرسی کی پشت پر بندھے ہوئے تھے مگر پیر آزاد تھے اور یہ رنگوٹی کی بہت بڑی غلطی تھی کہ اس نے میرے پیر کرسی کے پایوں کے ساتھ نہیں باندھے اور اب میں نے اس کی اس غلطی سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ میں اس طرح اٹھ کر کھڑا ہو گیا کہ میری کمر دہری تھی۔ میں قریب پہنچا تو شوفانگ مجھے دیکھ کر میری طرف لپکا۔ میں بڑی تیزی سے گھوم گیا۔ کرسی کا پایہ اس کے گھٹنے کی ہڈی پر لگا۔ وہ بلبلا اٹھا۔ میں نے اسے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر ایک اور وار کیا۔ اس مرتبہ کری کا پایہ اس کے دائیں بازو گی کہنی پر لگا۔ انسانی جسم کے یہ دو ایسے پریشر پوائنٹ تھے کہ ان پر لگنے والی معمولی سی چوٹ بھی تڑپا دیتی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ تھائی وانگ نے گھٹنے کی ایک اور ضرب اس کی ٹھوڑی پر لگا دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف لیکی شوفانگ کو صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہو گیا تھا۔ وہ اپنی تکلیف بھول کر تھائی وانگ کی طرف لپکا لیکن میں اس کے راستے میں آگیا۔ میرے ہاتھ کرسی کی پشت پر بندھے ہوئے تھے اور کرسی میری پشت پر تھی جس سے میری کمر د ہری ہو رہی تھی لیکن میری ٹریننگ کام آرہی تھی۔ کمر دہری ہونے کے باوجود مجھے تکلیف کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ میں ایک بار پھر پوری قوت سے گھوم گیا۔ اس مرتبہ کرسی کا پایہ اس زور سے اس کے کولھے پر لگا کہ پایہ بھی ٹوٹ گیا۔ شوفانگ بلبلاتا ہوا منہ کے بل گرا ۔ وہ اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر تھائی وانگ کو اس مرتبہ ڈریسنگ ٹیبل تک پہنچنے کا موقع مل گیا۔ اس نے بڑی عجلت میں دراز کھول کر پستول نکال لیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے دراز میں رکھا ہوا ایک خنجر بھی اٹھالیاتھا۔

شوفانگ اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تھائی وانگ نے اس کے منہ پر زور دار ٹھو کر ماری۔ وہ پیچھے الٹ گیا۔ تھائی وانگ اچھل کر میری پشت پر پہنچ گئی اور میری رسی  کاٹنے لگی۔ دو دھاری خنجر خاصا آبدار تھا۔ ایک ہی جھٹکے میں رسیاں کٹ گئیں۔ میں نے رسیوں اور کرسی کو اپنے جسم سے الگ کیا اور کلائیاں مسلنے لگا۔ تھائی وانگ نے پستول میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ شوفانگ اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا مگر خنجر بدست تھائی وانگ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں دہشت سی ابھر آئی اور وہ قالین پر گھنٹتا ہوا آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے  لگا۔

بس ! شوق پورا ہو گیا ۔۔۔ تھائی وانگ اس کے سامنے رک گئی ۔۔۔ابھی تو کھیل شروع بھی نہیں ہوا تھا۔ دیکھو۔ کتنا خوب صورت ہے میرا جسم مجھے دیکھ کر تمہارے دل میں گدگدی ہونے لگتی ہے نا۔ اب پیچھے کیوں ہٹ رہے ہو۔ آؤ۔ کھیلونا میرے جسم ہے۔ ڈر کیوں رہے ہو۔ آؤ میرے عاشق ۔۔ میں تمہارے سامنے ہوں۔ پیچھے مت ہو۔ اپنی حسرت پوری کر لو۔

 شوفانگ کی آنکھیں خوف و دہشت سے پھٹی پڑ رہی تھیں اور پھر اچانک ہی وہ چیخ چیخ کر رنگوٹی اور کو مو وغیرہ کو پکارنے لگا۔ تھائی وانگ نے ٹی وی کا فل والیوم کھول دیا تاکہ اس کے چیخنے کی آواز تہ خانے سے باہر نہ جاسکے۔

میں تھائی وانگ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ وہ جنونی کیفیت مبتلا ہو رہی تھی۔ وہ جو کچھ کرنے جارہی تھی، میں اسے نہیں روک  سکتا تھا۔ شوفانگ نے جیسے ہی اٹھنے کی کوشش کی تھائی وانگ  اُس پر چیل کی طرح جھپٹی۔ دو دھاری خنجر شو فانگ کے پیٹ میں پیوست ہو گیا۔ وہ ذبح ہوتے ہوئے بکرے کی طرح بلبلا اٹھا۔ تھائی وانگ نے خنجر کھینچا تو پیٹ سے خون کی دھار بھی بہہ نکلی۔

 تمہیں جان سے نہیں ماروں گی۔ وہ غرائی ۔۔۔ میں تمہیں اس قابل بھی نہیں چھوڑوں گی کہ اپنے آپ کو زندوں  میں شمار کر سکو۔

وہ جنونی انداز میں اس کے بازو اور ٹانگوں پر پے درپے خنجر کے وار کرتی رہی۔ شوفانگ کے جسم سے خون کی دھار یں بہہ رہی تھیں  اور وہ چیختا رہا اور پھر تھائی وانگ نے جب اس نچلے حصے پر بندھا ہوا کپڑا کھینچ کر الگ کیا تو میری سمجھ میں نہیں آیا  کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے لیکن دو سرے ہی لمحے میں کانپ اُٹھا ، تھائی وانگ نے ایک ہاتھ سے اُس کا لنڈ پکڑکر  خنجر کے ایک ہی وار سے جڑسے اُس کا لنڈ کاٹ کر  پھینک دیا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page