A Dance of Sparks–13–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔

رقصِ آتش قسط نمبر- 13

شمشیر سنگھ کو حملہ آوروں کے بارے میں اندازہ لگانے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی تھی۔ وہ یقیناً  رانا کے آدمی تھے جو ہر قیمت پر روحان کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے تھے تاکہ ان کے جرم کا واحد عینی گواہ اس دنیا میں موجود نہ رہے لیکن اسے حیرت تو اس بات پر تھی کہ وہ دونوں پولیس والے کہاں گئے تھے جنہیں مکان کی حفاظت پر تعینات کیا گیا تھا۔ سوتر سنگھ اور دوسرا باڈی گارڈ  دربار سنگھ مکان کی چھت پر ڈیوٹی دیا کرتا تھے۔ چھت پر سے کسی قسم کی آوازئیں سن کر ہی وہ چونکا تھا۔ اس نے برآمدے والے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے سو تر سنگھ کو آوازئیں بھی دی تھیں۔ اس  کی طرف سے تو کوئی جواب نہیں ملا تھا البتہ اس پر فائرنگ شروع ہو گئی تھی۔ اسے اس بات پر بھی حیرت تھی کہ گیٹ کی بتیاں کیوں بجھی ہوئی تھیں۔

اس پر فائرنگ سامنے سے کی گئی تھی جس کا مطلب تھا کہ فائرنگ کرنے والا سامنے ہی کسی جگہ موجود تھا لیکن تاریکی میں وہ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ شمشیر سنگھ دیدے گھماتا ہوا تاریکی میں گھور رہا تھا اور پھر اچانک وہ چونک گیا۔ ایک سیاہ ہیولا سامنے والی دیوار کے قریب حرکت کرتا ہوا نظر آیا۔ شمشیر سنگھ نے بڑی احتیاط سے پستول والا ہاتھ گملوں کے بیچ میں سے آگے نکالا اور ٹریگر دبا دیا۔ اس کا نشانہ خطا گیا۔ گولی کمپاؤنڈ کی دیوار میں لگی۔ سیاہ ہیولا برق رفتاری سے اچھل کر درخت کی آڑ میں چلا گیا تھا اور پھر دوسرے ہی لمحے شمشیر سنگھ پر گولیوں کی بارش ہونے لگی۔ گولیاں گملوں  پر اور برآمدے کے ستون پر لگ رہی تھیں۔ شمشیر سنگھ گملوں کے پیچھے دبکا ہوا تھا۔

فائرنگ ایک لمحے کو رکی تھی اور اس ایک لمحے سے فائدہ  اٹھاتے ہوئے شمشیر سنگھ نے ایک بار پھر سر اٹھا کر گملوں کے اوپر سے دیکھا۔ درخت کے پیچھے دبکا ہوا سیاہ ہیولا اب آہستہ آہستہ دیوار کے ساتھ سرک رہا تھا۔ شمشیر سنگھ نے فورا ہی ٹریگر دبا دیا۔ فائر کی آواز کے ساتھ ہی ایک انسانی چیخ گونج اٹھی اور پھر وہ ہیولا اس طرح اچھل کر دیوار پر چڑھا جیسے اس کے پیروں میں اسپرنگ لگے ہوئے ہوں۔

 شمشیر سنگھ نے ایک بار پھر ٹریگر دبا دیا۔ وہ دیوارکے دوسری طرف چھلانگ لگا چکا تھا۔ گولی دیوار پر لگی تھی۔ شمشیر سنگھ ایک جھٹکے سے اٹھ گیا۔ وہ اس سیاہ ہیولے کے پیچھے گلی میں جانا چاہتا تھا لیکن مکان کے اندرسے روحان کی چیخ سن کر چونک گیا۔ اس نے باہر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور پلٹ کر برآمدے کے دروازے کی طرف لپکا۔

روحان اس کے بیڈ روم میں سویا کرتا تھا۔ شمشیر سنگھ کا خیال تھا کہ فائرنگ سے اس کی آنکھ کھل گئی تھی اور وہ ڈر کر چیخا تھا۔ وہ اپنے بیڈ روم کی طرف دوڑا ۔ روحان کے چیخنے کی آوازیں اب بھی سنائی دے رہی تھیں۔ شمشیر جیسے ہی اپنے بیڈ روم کے دروازے پر پہنچا، اس طرح ٹھٹک کر رک گیا۔ جیسے زمین نے اس کے پیر پکڑ لیے ہوں۔

ایک دبلا پتلا سا چینی کمرے میں کھڑا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں پستول تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس نے روحان کی گردن دبوچ

رکھی تھی۔ شمشیر سنگھ نے پستول والا ہاتھ اوپر اٹھایا لیکن گولی نہیں چلائی۔ روحان اس چینی کے قبضے میں تھا۔

 تم پستول پھینک دو شمشیر سنگھ۔۔۔ چینی نے اپنے پستول کی نال روحان کی کنپٹی سے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔اگر کوئی چالاکی دکھایا تو ہم اس لڑکے کا کھوپڑی اُڑا دے گا۔

صورت حال انتہائی نازک تھی۔ لڑکے کی زندگی خطرے میں تھی۔ شمشیر سنگھ اس وقت کوئی چالا کی نہیں دکھا سکتا تھا۔ اس چینی کی انگلی کی معمولی سی حرکت روحان کی زندگی کا خاتمہ کر سکتی تھی۔ اس نے پستول پھینک دیا ۔

تم بچ کر نہیں جا سکو گے۔ ۔۔وہ چینی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔تمہارا ایک ساتھی میرے ہاتھوں زخمی ہو کر بھاگ گیا ہے۔ با ہر دو پولیس والے اور میرے دو گارڈ مکان کی چھت پر موجود ہیں۔ تم یہاں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بہتر ہے اس لڑکے کو چھوڑ دو اور اپنے آپ کو میرے حوالے کرو۔

یہ  لڑکا اس وقت میرا زندگی کا ضمانت ہے۔ ۔۔چینی نے کہا۔۔۔ میرا زندگی کا ضمانت بھی اور دس ہزار ڈالر کا چیک بھی۔ میں اس لڑکے کو زندہ لے جائے گا تو میرے کو دس ہزار ڈالر ملنے کا ہے اور تمہارے گارڈز۔۔۔ وہ ایک لمحے کو خاموش ہوا پھر بولا۔۔۔ ہمارے جانے کا بعد تم چھت سے ان کالاشیں اٹھالینا۔

شمشیر سنگھ چونک گیا۔

میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا سوں رب دی۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا۔۔۔اس لڑکے کو چھوڑ دو۔

ا بھی تم میرا راستے سے ہٹ جاؤ۔۔۔ چینی نے پستول سے اشارہ کیا۔۔۔ اس طرف آجاؤ۔ کمرے کے اندر۔

 ادھر شمشیر سنگھ ابھی تک دروازے ہی میں کھڑا تھا۔ وہ اندر آگیا۔ چینی روحان کو گردن سے پکڑے اسے کھینچتا ہوا دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ پستول سے اس نے شمشیر سنگھ کو زد میں لے رکھا تھا۔ خوف کی شدت سے روحان کا چہرہ بالکل سفید ہو رہا تھا لگتا تھا اس کے جسم کا سارا خون نچڑ گیا ہو۔ چینی اسے اپنے ساتھ کھینچتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا۔ شمشیر سنگھ بھی محتاط انداز میں

چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا دروازے سے باہر آگیا تھا۔

 چینی روحان کو گرفت میں لیے راہداری میں الٹے قدموں چلتا ہوا عقبی دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ مکان کے پچھلی طرف وسیع لان تھا۔ کوئی کمپاؤنڈ وال نہیں تھی بلکہ دوسرے مکانوں کے لان ساتھ ملے ہوئے تھے۔ شمشیر سنگھ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ جب وہ مکان کے سامنے والے رخ پر دوسرے حملہ آور سے نبرد آزما تھا، اس وقت یہ چینی کسی طرح عقبی دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا تھا۔ اسے یہ بھی اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی تھی کہ حملہ آور صرف دو ہی تھے۔ ایک وہ جو شمشیر سنگھ کے ہا تھوں زخمی ہو کر بھاگ گیا تھا اور ایک یہ جو چھت پر اس کے دونوں محافظوں سے نمٹنے کے بعد عقبی دروازے سے اندر داخل ہوا تھا اور اب اسی راستے سے واپس جا رہا تھا۔ چینی روحان کو گرفت میں لیے آہستہ آہستہ الٹے قدموں پیچھے ہٹ رہا تھا۔ اس کے پستول کا رخ اب بھی شمشیر سنگھ کی طرف تھا اور شمشیر سنگھ بھی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ ہر قیمت پر اس چینی کو روکنا چاہتا تھا ۔ لیکن ابھی تک کوئی بات اس کی سمجھ نہیں آئی تھی اور پھر وہ چینی کے پیچھے دیکھتے ہوئے اچانک ہی  چیخا۔

 نہیں آفیسر گولی مت چلانا ۔

اس کا یہ نفسیاتی حربہ سو فی صد کامیاب رہا تھا۔ چینی بڑی  تیزی سے پیچھے مڑا تھا۔ شمشیر سنگھ کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ وہ کسی  طاقتور اسپرنگ کی طرح اپنی جگہ سے اچھلا اور ہوا میں اڑتا ہوں چینی کے اوپر جا گرا۔ چینی بد حواس ہو گیا۔ روحان کی گردان پر اس کی گرفت چھوٹ گئی البتہ دوسرے ہاتھ میں پستول موجود تھا۔ شمشیر سنگھ اسے لیے ہوئے ساتھ گرا تھا۔ اس نے سب  سے پہلے چینی کے پستول والے ہاتھ پر ہاتھ ڈالا تھا۔ اس نے چینی  کی کلائی اس طرح مروڑ دی کہ پستول کا رخ دیوار کی طرف ہو گیا۔ ہاتھ پر دباؤ پڑنے سے ٹریگر دب گیا۔ گولی دیوار میں پیوست ہو گئی ۔

روحان بھاگ جاؤ۔ کمرے میں جا کر دروازہ بند کرلو۔شمشیر سنگھ چیخا۔

 روحان بھی اس چینی کے ساتھ ہی فرش پر گرا تھا۔ وہ اٹھ کے کمرے کی طرف دوڑا اور اندر گھس کر دھڑ سے دروازہ بند کر لیا ۔ شمشیر سنگھ کے نیچے دبا ہوا چینی اپنی کلائی چھڑانے کی کو شش کر رہا تھا لیکن شمشیر سنگھ کی گرفت بڑی مضبوط تھی۔ وہ اس کی کلائی کو مروڑتا چلا گیا۔ پستول کا رخ اب چینی کے سر کی طرف ہو گیا تھا اور بالآخر پستول کی نال اس کی کنپٹی سے لگ گئی۔ چینی کی آنکھوں میں وحشت سی ابھر آئی۔ وہ ٹریگر سے انگلی ہٹانے کوشش کرنے لگا۔  لیکن شمشیر سنگھ نے اس کے ہاتھ کو اس طرح  گرفت میں لے رکھا تھا کہ وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں  ہوسکا۔ شمشیر سنگھ نے اس کے ہاتھ پر دباؤ ڈالتے ہوئے زور دار جھٹکا دیا ۔ ڈز کی آواز ابھری اور پستول کی نال سے نکلنے والی گولی اس  چینی  کی کنپٹی میں سوراخ کرتی ہوئی دوسری طرف نکل گئی۔ خون کے چھینٹے شمشیر سنگھ کے چہرے پر پڑے۔

تیرا ستیا ناس۔۔۔ شمشیر سنگھ نے بڑ بڑاتے ہوئے اسکے  ہاتھ کو ایک اور جھٹکا دیا ۔ چینی کے جسم میں پیدا ہونے والی تڑپ  سے ٹریگر ایک مرتبہ پھر دب گیا۔ یہ گولی بھی کھوپڑی ہی میں پیوست ہوئی تھی۔

شمشیر سنگھ اسے چھوڑ کر ایک جھٹکے سے اٹھ گیا۔ اپنے  کرتے کے دامن سے اپنے چہرے سے خون کے چھینٹے پونچھے ہوئے اُس نے  چینی کی طرف دیکھا۔ اس کی کھوپڑی سے بہنے والا خون راہداری  کے فرش پر بچھے ہوئے قالین کو تر کر رہا تھا۔ پستول اب بھی اس کے ہاتھ  میں دبا ہوا تھا۔ شمشیر سنگھ مڑ کر بیڈ روم کی طرف دوڑا۔

 روحان پتر۔ دروازہ کھول۔۔۔ وہ دروازہ بجاتے ہوئے بولا۔

چند سیکنڈ کے بعد دروازہ کھل گیا۔ روحان سامنے کھڑاخوف سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ شمشیر سنگھ نے اسے پکڑ کر اپنے ساتھ

لپٹا لیا۔

اب ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔ وہ روحان کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے بولا۔ ۔۔ ختم ہو گیا وہ ، میرے ہوتے ہوئے تمہیں کچھ  ہو سکتا ہے ؟ ، تو تو بڑا بہادر لڑکا ہے۔

 اس نے قالین پر پڑا ہوا اپنا پستول اٹھا کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا

 اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ تو اندر سے دروازہ بند کرلے اور اگر کوئی آجائے تو اڑا دینا اسے گولی سے۔ ویسے آئے گا کوئی نہیں۔ ایک بھاگ گیا۔ ایک مرگیا۔ ڈرنا مت۔ میں ابھی آتا ہوں۔

تم کہاں جا رہے ہو چاچا۔۔۔ روحان بولا۔ اس کے لہجے میں ہلکی سی تھر تھراہٹ تھی۔

میں چھت پر سوتر سنگھ کو دیکھنے جا رہا ہوں۔ دروازہ بند کرلے۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا۔

 اس کے باہر نکلتے ہی روحان نے کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔

شمشیر سنگھ برآمدے میں آگیا۔ اس نے بلب جلا دیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا، دیواروں پر گولیوں کے کئی نشان تھے۔ ایک دو گملے بھی ٹوٹ گئے تھے۔ وہ بر آمدے سے اٹھ کر باہر والے دروازے کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ دونوں پولیس والوں میں سے کوئی بھی نظر نہیں آیا۔ وہ دروازہ بند کرکے اوپر جانے والی سیڑھیوں کی طرف لپکا۔

اس کے دونوں گارڈز چھت پر پڑے ہوئے تھے۔ اس نے دونوں کو ہلا جلا کر دیکھا۔ دربار سنگھ ختم ہو چکا تھا۔ اس کی گردن کی ہڈی توڑ دی گئی تھی۔ البتہ سو تر سنگھ زندہ تھا لیکن بے ہوش پڑا تھا۔ شمشیر سنگھ دوڑتا ہوا نیچے آگیا اور لاؤنج میں رکھے ہوئے فون کا ریسیور اٹھا کر پولیس کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔ پولیس کو وہاں پہنچنے میں پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے۔ اسے بتایا گیا کہ گلی میں رہنے والے ایک اور شخص نے پولیس کو فون پر فائرنگ کی اطلاع دے دی تھی اور پولیس پہلے ہی روانہ ہو چکی تھی ۔

شمشیر سنگھ فون کا ریسیور رکھ کر باہر آگیا۔ پولیس پارٹی کا انچارج انسپکٹر چیانگ شو تھا۔ اس نے آتے ہی چند پولیس والوں کو گلی میں پھیلا دیا۔ تین پولیس والوں کو اس نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔

شمشیر سنگھ اسے بتا رہا تھا کہ کس طرح وہ مکان کی چھت پر اٹھا پٹخ  کی آوازیں سن کر کمرے سے باہر نکلا تھا اور جب وہ اپنے باڈی گارڈ سوتر سنگھ کو آواز دیتا ہوا برآمدے والے دروازے سے باہر آیا تو اس پر زبردست فائرنگ شروع کر دی گئی۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ وہ بچ گیا تھا۔ اگر وہ بروقت گملوں کے پیچھے چھلانگ نہ لگا دیتا تو وہ چھلنی ہو چکا ہوتا۔

حملہ آور روحان کو اغوا کر کے لے جانا چاہتے تھے۔۔۔ شمشیر سنگھ انسپکٹر کو بتا رہا تھا۔۔۔اگر اسے قتل کرنا مقصود ہو تا تو وہ چینی اسے ساتھ لے جانے کی کوشش کرنے کے بجائے گولی مار کر ہلاک کر دیتا۔ جس کا اسے موقع بھی حاصل تھا لیکن وہ اسے زندہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ اس کے بدلے اسے دس ہزار ڈالر ملنے کی توقع تھی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page