A Dance of Sparks–14–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔

رقصِ آتش قسط نمبر- 14

تمہیں کیسے معلوم کہ اسے دس ہزار ڈالر ملنے والے تھے۔۔۔انسپکٹر چیانگ شو نے اسے گھورا۔

 اس نے خود کہا تھا۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا۔۔۔ مجھے اس کے الفاظ اچھی طرح یاد ہیں۔ اس نے کہا تھا کہ یہ لڑکا نہ صرف یہاں سے نکلنے کے لیے اس کی زندگی کی ضمانت ہے بلکہ دس ہزار ڈالر کے چیک کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ وہ زندہ اسے ساتھ لے جائے گا تو اسے دس ہزار ڈالر ملیں گے۔

تمہارے خیال میں حملہ آور کون ہو سکتے ہیں۔ میرا مطلب ہے ان کا تعلق کس سے ہو گا؟۔۔۔ انسپکٹر چیانگ شو نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

رانا۔۔۔  شمشیر سنگھ نے بلا جھجک جواب دیا۔۔۔ اس کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے۔ روحان اپنے والدین کے قتل کا چشم  دید گواہ ہے۔ رانا اسے ہر قیمت پر ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ بھی چاہتا ہوگا کہ روحان کو اس کے سامنے قتل کیا جائے تاکہ اسے اطمینان ہو جائے کہ اب اس کے جرم کا چشم دید گواہ زندہ نہیں رہا اور غالباً اس لیے اس نے روحان کو اغوا کرانے کے لیے ان چینی قاتلوں کی خدمات حاصل کی تھیں لیکن اس کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔

 بات سمجھ میں آتی ہے۔۔۔ انسپکٹر چیانگ شو نے گردن ہلائی۔۔۔  تم نے بتایا تھا کہ تم نے چھت پر دھینگا مشتی کی آواز یں دو بجے کے قریب سنی تھیں ، کیا تم اس وقت سو چکے تھے یا جاگ رہے تھے ؟

 میں اس وقت سونے کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا ۔۔۔بات دراصل یہ ہے کہ رات دس بجے کے قریب ہم نے ہوٹل سے کھانا منگوا کر کھایا تھا ۔ پھر روحان تو تھوڑی دیر بعد سو گیا تھا لیکن میں اپنے بستر پر لیٹا ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ وہ کتاب خاصی دلچسپ تھی۔ میں نے اسے ختم کر کے ہی چھوڑا ۔ کتاب رکھ کر میں نے گھڑی دیکھی تھی، اس وقت دو بج چکے تھے۔

 شمشیر سنگھ خاموش ہو کر باہر والے دروازے کی طرف دیکھنے گا۔ فرقان  کی ڈائری کا تذکرہ وہ دانستہ طور پر گول کر گیا تھا

 اور ہاں۔۔۔ وہ چند لحوں کی خاموشی کے بعد بولا۔۔۔ ایک اور اہم بات بتانا تو میں بھول ہی گیا۔

وہ کیا؟۔۔۔ انسپکٹر بولا۔۔۔کیا اس بات کا اس واقعے سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟

بہت گہرا تعلق ہے انسپکٹر ۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا۔۔۔ گزشتہ روز ہم ہوٹل سے کھانا کھا کر واپس آرہے تھے تو ٹریفک سگنل کی وجہ سے ہمیں ایک چورا ہے پر گاڑی روکنی پڑی تھی۔ روحان میرے ساتھ کار کی اگلی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی ایک موٹر سائیکل ہماری کار کے قریب آکر رکی جس پر دو چینی سوار تھے۔ روحان نے ان میں سے ایک کو پہچان لیا۔ وہ اس کے ماں باپ کے قاتلوں میں سے ایک تھا۔ اس نے پا بھو پر خنجر سے وار کر کے اسے ہلاک کیا تھا۔ روحان نے چیخ کر مجھے اس کے بارے میں بتایا تو میں جلدی سے گاڑی سے اتر آیا۔ ان چینیوں نے بھی روحان کے چلانے کی آواز سن لی تھی اور غالباً اس شخص نے بھی روحان کو دیکھ لیا تھا۔ اس نے موٹر سائیکل ایک زور دار جھٹکے سے آگے بڑھادی اور سگنل توڑتے ہوئے نکل گئے۔ ہم نے ان کا پیچھا کرنے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہو سکے۔

کیا تم نے ان کے چہرے دیکھے تھے ؟؟ ۔۔۔انسپکٹر نے پوچھا۔

 میں ان میں سے کسی کا چہرہ اچھی طرح نہیں دیکھ سکا تھا،  لیکن لڑکے نے انہیں پہچان لیا تھا۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا۔

لڑکا کہاں ہے؟ ۔۔۔انسپکٹر نے پوچھا۔

اندر کمرے میں۔۔۔ شمشیر سنگھ نے اشارہ کیا۔

 ٹھیک ہے۔ میں اس سے ملتا ہوں لیکن پہلے ادھر کا معائنہ کرلیں۔ ۔۔انسپکٹر چیانگ شو نے کہا۔

وہ سب سے پہلے زینے پر سے ہوتے ہوئے چھت پر آگئے۔ دو کانسٹیبل انسپکٹر کے ساتھ تھے۔ انسپکڑ نے جھک کر ٹارچ کی روشنی میں پہلے دربار سنگھ کو دیکھا، وہ ختم ہو چکا تھا، وہ سو تر سنگھ کی طرف متوجہ ہو گیا۔

یہ زندہ ہے۔۔۔ وہ بڑبڑایا پھر کا نسٹیبلوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ ا سے نیچے لے چلو اور ہوش میں لانے کی کوشش کرو۔

 دونوں کانسٹیبلوں نے جھک کر سو تر سنگھ کو اٹھالیا اور نیچے لے آئے۔ انسپکڑ اور شمشیر سنگھ بھی نیچے آگئے اور اندر داخل ہو کر راہداری میں اس چینی کی لاش کے قریب رک گئے جس کی کھویزی کے پر خچے اڑ چکے تھے۔ چہرہ خون سے تر ہو رہا تھا۔

یہ کیسے مرا تھا۔ کیا تم نے  ؟

نہیں بادشا ہو۔۔۔ شمشیر سنگھ نے اس کی بات کاٹ دی یہ اپنے ہی پستول سے اپنے ہی ہاتھوں مرا ہے۔ پستول ابھی تک اس

کے ہاتھ میں ہے۔

انسپکٹر چیانگ شو جھک کر لاش کا معائنہ کرنے لگا۔ اس نے لباس کی تلاشی بھی لی تھی۔ سگریٹ کا ایک پیکٹ لائٹر اور کچھ رقم

بر آمد ہوئی تھی۔ ایسی کوئی چیز نہیں ملی تھی جس سے اس کی شناخت ہو سکتی۔

شمشیر سنگھ نے دستک دے کر بیڈ روم کا دروازہ کھلوالیا تھا۔ روحان  پستول ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر اب بھی خوف کے سائے رقص کر رہے تھے۔

پولیس آگئی ہے۔ اب ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ لاؤ پستول مجھے دے دو۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا ۔

 روحان نے پستول اس کے حوالے کر دیا اور خود بھی اس سے لپٹ گیا۔ شمشیر سنگھ اس کا کندھا تھپ تھپانے لگا۔ کچھ دیر بعد انسپکٹر کمرے میں داخل ہوا۔ وہ روحان سے پوچھ گچھ کرنے لگا اور شمشیر سنگھ بستر کی چادر اٹھا کر باہر نکل گیا۔ اس نے چادر راہداری میں پڑی ہوئی چینی کی لاش پر ڈال دی تھی۔ انسپکٹر چیانگ شو اس چینی کے بارے میں روحان سے مختلف سوالات کرتا رہا۔ روحان اب بڑی حد تک اپنی کیفیت پر قابو پا چکا تھا اور بڑے پر اعتماد لہجے میں اس کے سوالوں کا جواب دے رہا تھا۔ اس دوران میں شمشیر سنگھ دوبارہ کمرے میں آگیا۔

 ٹیلی فون کہاں ہے؟۔۔۔ انسپکٹر نے شمشیر سنگھ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

دوسرے کمرے میں۔ میرے ساتھ آؤ۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا۔

ان کے ساتھ ہی روحان بھی لاونج میں آگیا۔ انسپکٹر نے فون کا ریسیور اٹھا کر پولیس اسٹیشن کے نمبر ڈائل کیے اور ایمبولینس اور فوٹوگرافر کو بھیجنے کی ہدایت دے کر فون بند کر دیا۔

ایک بات میری سمجھ میں نہیں آسکی انسپکڑ۔۔۔ شمشیر سنگھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔یہاں ڈیوٹی دینے والے تمہارے دونوں کانسٹیبل کہاں غائب ہو گئے۔

یہ بات میری سمجھ میں بھی نہیں آسکی۔۔۔ انسپکڑ نے جواب دیا ۔۔۔ا نہیں سختی سے ہدایت تھی کہ وہ ڈیوٹی کے دوران میں غفلت نہ برتیں۔ اگر وہ ڈیوٹی چھوڑ کر کہیں چلے گئے ہیں تو اس بے پروائی پر انہیں سخت ترین سزا دی جائے گی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان سے اس قسم کی کوئی غلطی ہوئی ہوگی۔ ضرور کوئی گڑ بڑ معلوم  ہوتی ہے۔

 اور پھر اس کی تصدیق بھی ہو گئی۔ شمشیر سنگھ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے آگے بڑھ کر ریسیور اٹھا لیا۔ ایک لمحہ

بات کی پھر ریسیور انسپکٹر کی طرف بڑھا دیا۔تمہارے لیے کال ہے۔

 یسں۔ انسپکٹر چیانگ شو۔۔۔ انسپکٹر ریسیور کان میں لگاتے ہوئے بولا۔

فون پر بات کرتے ہوئے انسپکٹر چیانگ شو کے چہرے کے تاثرات بدل گئے تھے۔ شمشیر سنگھ گہری نظروں سے اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ انسپکٹر تقریباً پانچ منٹ تک چینی زبان میں بات کرتا رہا پھر اس نے ریسیور رکھ دیا اور شمشیر  کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔

میرا اندازه درست نکلا۔ گڑ بڑ کی تصدیق ہو گئی ہے۔ وہ دونوں کانسٹیبل ڈبلن روڈ پر بے ہوش پڑے پائے گئے ہیں۔ ابھی کچھ دیر میں وہ یہاں آجائیں گے ان سے صورت حال کا اندازہ ہو جائے گا۔

میں نے فون پر تمہاری باتوں سے کچھ اندازہ لگا لیا تھا۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا ۔ وہ طویل عرصے سے سنگا پور میں رہ رہا تھا۔ چینی زبان اگر چہ وہ روانی سے نہیں بول سکتا تھا لیکن سمجھتا اچھی طرح تھا۔

سوتر سنگھ ابھی تک ہوش میں نہیں آسکا تھا۔ شمشیر سنگھ کو اس کے بارے میں بھی تشویش تھی کہ وہ کہیں بے ہوشی کی حالت میں ہی اگلے جہاں کو نہ سدھار جائے۔ اس نے انسپکٹر چیانگ شو سے اپنی تشویش کا اظہار کیا تو انسپکٹر نے سو تر سنگھ کو اپنی جیپ میں ڈال کر دو کانسٹیبلوں کے ساتھ اسپتال بھجوا دیا۔ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد ایمبولینس آگئی اور فوٹو گرافر بھی پہنچ گیا۔ رات کا  اگر چہ پچھلا پہر تھا لیکن کچھ لوگ گھروں سے نکل کر گلی میں آگئے تھے۔ کچھ لوگ تو فائرنگ کی آوازیں سن کر جاگ گئے تھے لیکن اس وقت مارے ڈر کے کوئی اپنے گھر سے باہر نہیں نکلا تھا اور اب پولیس کے آنے کے بعد کچھ لوگ صورت حال معلوم کرنے کے لیے گھروں سے باہر آگئے تھے۔

انسپکڑ چیانگ شو اپنی نگرانی میں مختلف زاویوں سے لاشوں کی تصویریں کھنچوا رہا تھا۔ چینی کی لاش کی تصویریں کھنچوانے کے بعد اس نے لاش کے ہاتھ میں دیا ہوا پستول نکال لیا اور اسے رومال میں لپیٹ کر ایک کانسٹیبل کے حوالے کر دیا اور لاشیں اٹھانے کا حکم دے دیا۔ تقریباً اسی وقت پولیس کی ایک جیپ ان دونوں کانسٹیبلوں کو بھی لے کر آگئی۔

ان کا نسٹیبلوں کا بیان بڑا دلچسپ تھا۔ ان کے کہنے کے مطابق ڈیڑھ بجے کے قریب ایک کا روہاں آکر رکی تھی جس میں تین پولیس والے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آرچرڈ روڈ پر لکی پلازا کے قریب ایک ایمر جنسی کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ پولیس نفری کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ ہم ان کے ساتھ چلیں۔

 چنگ نامی کا نسٹیبل نے کہا ۔۔۔میں نے انہیں کہا بھی تھا کہ ہماری ڈیوٹی یہاں لگائی گئی ہے۔ ہم کہیں نہیں جاسکتے لیکن ان میں سے ایک نے کہا کہ انسپکٹر چیانگ نے انہیں فوری طور پر طلب کیا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ٹیلی فون پر اس کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس وقت رات کا ڈیڑھ بجا تھا۔ سردار صاحب شاید سوچکے تھے۔ چھت پر ان کے باڈی گارڈز بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ بھی شاید اونگھ گئے تھے۔ یہاں سے ٹیلی فون کرنے کے لیے سردار صاحب کو جگانا پڑ تا ہے میں نے مناسب نہیں سمجھا۔ کار میں آنے والی پولیس پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ ہم چوراہے پر لگے ہوئے فون بوتھ سے بات کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنے ساتھی سے مشورہ کیا اور کار میں بیٹھ گیا۔ انہوں نے میرے ساتھی کو بھی کار میں بھٹا لیا۔ ان میں سے ایک تو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور دوپچھلی سیٹ پر ہمارے دائیں بائیں۔ ہم ان دونوں کے درمیان دب کر رہ گئے۔ کار اسٹارٹ ہوتے ہی ان میں سے ایک آدمی نے ہمیں سگریٹ دیے۔ ہم سگریٹ کے کش لگاتے رہے۔ ان میں سے ایک نے ہمیں باتوں میں لگائے رکھا اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ شاید اس سگریٹ میں کوئی نشہ آور چیز ملی ہوئی تھی کیونکہ میرا دماغ بو جھل ہو رہا تھا۔ اعضا ڈھیلے پڑ رہے تھے اور ذہن پر غنودگی سی طاری ہو رہی تھی۔میرے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص نے میری را ئفل لینا چاہی تو ایک لمحے کو میں چونک سا گیا۔ اس وقت مجھے یہ احساس بھی ہوا تھا کہ ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ میں نے اس وقت مزاحمت کرنے کی کوشش کی تو اس شخص نے جیب سے پستول نکال کر میرے سر پر دستے سے ضرب لگائی۔ سگریٹ کا نشہ پہلے ہی اپنا کام دکھا رہا تھا۔ پستول کی ضرب سے میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا اور پھر مجھے کچھ ہوش نہیں رہا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page