A Dance of Sparks–141–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 141

رات ااختتام پذیر تھی۔ مجھ پر غنودگی کی طاری ہو رہی تھی۔ تھائی کی آواز میری  سماعت سے ٹکرا رہی تھی۔ یہ آواز کسی کنوئیں کی گہرائی سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور پھر میں نیند کی آغوش میں پہنچ گیا۔

میری آنکھ کھلی تو کھڑکی سے دھوپ اندر آرہی تھی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تھائی وانگ میرے سینے پر سر رکھے سو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر بڑی طمانیت اور بڑی معصومیت تھی۔ میں نے بڑی آہستگی سے اُسے  ہٹا کر اس کے سر کے نیچے تکیہ رکھ دیا اور اٹھ کر سیٹنگ روم میں آگیا۔ اس وقت دوپہر کے بارہ بج چکے تھے۔ میں ایک کرسی پر بیٹھا اونگھتے ہوئے ذہن سے سوچ رہا تھا کہ کیا میری زندگی کا صرف یہی ایک مقصد رہ گیا ہے۔ چھپ چھپ کر زندہ رہنا تو کوئی زندگی نہیں تھی۔ میں کتنا بھی بہادر سہی مجھے یہ اعتراف بہر حال کرنا ہی پڑا کہ میرے دل میں وہ خوف اب بھی موجود تھا جس نے مجھے پابند کر رکھا تھا۔ اگر کوئی خوف نہ ہوتا تو آزادی سے گھومتا پھرتا کوئی کام کرتا۔ اپنی تعلیم جاری رکھتا اور زندگی کی رنگینیوں میں دلچسپی لیتا۔

میں کرسی پر شاید بیٹھا یہ سب کچھ سوچ رہا تھا کہ پیروں کی ہلکی سی آہٹ سن کر چونک گیا۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا۔ وہ تھائی وانگ تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور آنکھوں میں سرخی تھی۔ مجھے اس پر ترس  اور پیار ایک ساتھ آنے لگا۔ میری وجہ سے یہ بھی اپنا سب کچھ کھو بیٹھی تھی اور اس کی آزادی بھی سلب ہو گئی تھی۔

تھائی چند لمحے وہاں کھڑی میری طرف دیکھتی رہی ، میں نے کھڑے ہوکر اپنی باہیں پھیلائی تو وہ کسی مقناطیس کی طرح آکر میرے سینے سے چپک گئی اور سر اُٹھا کر میرے گال پر کس کردیا ، میں نے بھی اُس کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا اور اُس کے  ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر بہت پیار سے چوسا مارا، پھر اس نے خود کو مجھ سے چھڑایا اور بالوں کو سمیٹ کر جوڑا بنایا اور کچن میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد وہ چائے بنا کر لے آئی۔ وہ دن بھی اسی طرح گزرا۔ کبھی ہم ایک دوسرے کو پیار کرتے ،  کبھی باتیں کرتے ہوئے اور کبھی اسکریبل اور ڈرافٹ جیسے گیم کھیلتے ہوئے۔ اس دن بھی ہم نے دو بار ایک دوسرے کو خوب  رگڑ کر چودائی کی ، جس کی وجہ سے مجھے پر کئی نئے انکشافات ہوئے کہ سیکس کرنے کے کتنے طریقے ہیں اور کیسے کیسے لڑکی اور لڑکا سیٹیسفائی ہوتے ہیں اور مزہ کرتے ہیں ۔

میں اس شام بھی گھر سے نکلنا چاہتا تھا مگر ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ وگ سے میرا حلیہ بدل گیا تھا اور اب میں اس حلئے میں بھی باہر نہیں جاسکتا تھا۔ مجھے ایک نئے گیٹ اپ کی ضرورت تھی مگر یہاں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے میں اپنا حلیہ بدل سکتا۔ اتفاق سے پانچ بجے کے قریب جانکی دیوی کا فون آگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آج کے اخبارات میں کوشلیا کے قتل اور چائی روڈ پر ایک ریسٹورنٹ میں ہنگامے کی خبر شائع ہوئی تھی۔ پولیس کو ان دو ہیپیوں  کی تلاش تھی جو مقتولہ کو شلیا کی بہن شانتی کے ساتھ اس کے فلیٹ پر آئے تھے اور بعد میں ریسٹورنٹ میں ہونے والے ہنگامے میں بھی یہی دونوں ملوث تھے۔ جھگڑا انہی کی وجہ سے ہوا تھا لیکن بعد میں یہ دونوں غائب ہو گئے۔

کیا شانتی کا بھی کوئی بیان اخبار میں چھپا ہے اور کیا اس کے بیان میں میرا نام بھی شامل ہے ؟۔۔۔ میں نے جانکی دیوی سے پوچھا۔

بیان تو شائع ہوا ہے مگر تمہارا نام نہیں ہے۔ ۔۔جانکی دیوی نے جواب دیا ۔۔۔اس نے صرف یہ کہا ہے کہ وہ اسٹور سے چھٹی کرکے  نکل رہی تھی کہ ایک ہیپی  نوجوان اور ایک عورت اسے مل گئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں انہیں رات گزارنے کے لیے جگہ کی ضرورت ہے۔ اس ہیپی  عورت نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ رات کو فٹ پاتھ یا کسی پارک میں سوئیں تو پولیس یا غنڈے اور بد معاش انہیں پریشان کریں گے۔ شانتی کے بیان کے مطابق وہ محض انسانی ہمدردی کی بنا پر ان ہیپیوں  کو اپنے فلیٹ پر لے آئی تھی مگر کو شلیا کی لاش دیکھ کر وہ خوف زدہ ہو گئے تھے اور بتائے بغیر وہاں سے چلے گئے تھے۔ شانتی کے بیان میں کہیں بھی تمہارا ذکر نہیں ہے۔

میں جانکی دیوی سے اخبار میں شائع ہونے والی خبروں کے حوالے سے کچھ اور باتیں پوچھتا رہا اور پھر اسے ان چیزوں کے بارے میں بتا دیا جن کی مجھے ضرورت تھی۔

جانکی دیوی رات گیارہ بجے کے قریب آئی تھی۔ وہ میری مطلوبہ چیزوں کے علاوہ کچھ اور چیزیں بھی لے آئی تھی جن کی مجھے کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی تھی۔

اگلے روز شام کو جب میں تیار ہونے لگا تو تھائی وانگ بھی میرے ساتھ جانے کو تیار ہونے لگی لیکن میں نے اسے منع کر دیا۔

 آج میں اکیلا ہی جاؤں گا۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کرمسکراتے ہوئے کہا۔

تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔۔۔ اس نے مجھے گھورا اگر کسی مصیبت میں پھنس گئے تو ؟

 وہ مصیبت تم سے زیادہ بڑی نہیں ہوگی۔۔۔ میں نے جواب دیا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بدستور تھی۔

میں ۔ میں مصیبت ہوں۔۔۔ وہ چیخی اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سوچ سکتا وہ چیل کی طرح مجھ پر جھپٹی۔ میں اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے اپنا دفاع نہیں کر سکا۔ تھائی نے مجھے کرسی سے گھسیٹ کر قالین پر گرا دیا اور میرے سینے پر سوار ہو کر پنجے میرے چہرے کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔

میں تمہارا منہ نوچ لوں گی۔ سچ بتاؤ کیا میں واقعی تمہارے لیے مصیبت ہوں۔

ہاں۔ بہت بڑی مصیبت ۔۔۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔ دیکھو یہ مصیبت کس طرح میرے سینے پر سوار ہے۔

میں نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر ہونٹوں سے لگا لیے۔ اور اُسے کھینچ کر اپنے سینے پر گراتے ہوئے اُس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنے لگا۔تھوڑی دیر بعد جب میں نے اُس کو چھوڑا تو وہ میرے سینے سے اتر گئی ۔

بات یہ ہے تھائی۔۔۔  میں نے اٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔اگر تم میرے ساتھ ہوگی تو میں آزادی سے نقل و حرکت نہیں کر سکوں گا اور اس طرح

ہو سکتا ہے ہم واقعی کسی مصیبت میں پھنس جائیں۔

بات شاید تھائی کی سمجھ میں آگئی تھی۔

میں تمہارے لیے فکر مند رہوں گی۔۔۔  وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

میں محتاط رہوں گا۔۔۔  میں نے اٹھتے ہوئے کہا اور تیاری کرنے لگا۔

اس مرتبہ میں نے اپنا جو حلیہ بنایا وہ سڑک چھاپ غنڈوں جیسا تھا۔ گردن پر بکھرے ہوئے بال جنہیں پیشانی پر سے ہٹانے کے لیے الاسٹک کا ہیٹر بینڈ لگا لیا تھا۔ الاسٹک کا سیاہ رنگ کا تین انچ چوڑا ایک بینڈ میری دائیں کلائی پر بھی تھا۔ دائیں رخسار پر زخم کا ایک نشان بھی بنالیا تھا اور ناک کے قریب بائیں طرف ایک تل بھی نظر آرہا تھا۔ جسم پر نیلے رنگ کی کھلے پائنچوں کی پتلون اور چمڑے کی بغیر آستین کی جیکٹ تھی جس کے اوپر کے دو بٹن میں نے کھلے رکھے تھے تاکہ میرے گلے میں پڑی ہوئی سنہری چین واضح طور بر نظر آسکے۔ دائیں پنڈلی پر میں نے چمڑے کے فیتے سے خنجر بھی باندھ لیا تھا۔ یہ حلیہ بدلنے میں تھائی وانگ نے بھی میری بڑی مدد کی تھی اور چند قدم دور ہٹ کروہ گہری نظروں سے میرا تنقیدی جائزہ لینے لگی ۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page