A Dance of Sparks–142–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 142

اگر تم اس گیٹ اپ میں میرے سامنے آتے تو شاید میں بھی تمہیں نہ پہچان سکتی۔ ویسے اس وقت تو تم واقعی چھٹے ہوئے بد معاش لگ رہے ہو۔۔۔تھائی وانگ نے کہا اور اپنے بیگ میں سے نوٹوں کا ایک بینڈل نکال کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔۔۔ ویسے تو غنڈے اور بدمعاش قسم کے لوگ جیب سے پیسہ خرچ کرنے کے بجائے لوگوں سے چھین جھپٹ کر ہی کھاتے ہیں لیکن میں چاہتی ہوں تم اپنی جیب سے خرچ کرو۔

کا ٹیج سے نکل کر میں پیدل چلتا ہوا مین روڈ پر آگیا اور وہاں سے ٹک ٹک میں بیٹھ کر سب سے پہلے اسی ریسٹورنٹ میں پہنچا جہاں گزشتہ رات لڑائی ہوئی تھی۔ وہاں اس وقت بھی مہاراج کے کیمپ سے تعلق رکھنے والے دو تین لڑکے موجود تھے جو مجھے روحان  کی حیثیت سے اچھی طرح جانتے تھے اور میں نے انہی کی میز پر بیٹھ کر کافی پی تھی۔ وہ مجھے نہیں پہچان سکے تھے۔ دراصل یہاں آنے کا میرا مقصد بھی یہی تھا۔ میں یہ اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ میرے گیٹ اپ میں کوئی خامی تو نہیں رہ گئی تھی۔ ریسٹورنٹ سے نکل کر میں ایک ٹیکسی پر سوار ہوا اور سو کھم وٹ روڈ پہنچ گیا۔ یہاں بڑے بڑے ہوٹل اور نائٹ کلب تھے۔ میں غنڈوں والے اس حلئے میں کسی بڑے نائٹ کلب یا ہوٹل میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ ایسی کوئی کوشش بھی کرتا تو مجھے روک دیا جاتا۔ میری منزل تو وہ نائٹ کلب تھا جہاں نچلے درجے کے لوگ اورمجھ  جیسے غنڈے ہی آسکتے تھے۔

میری لینڈ نائٹ کلب ٹائیگر کی ملکیت تو نہیں تھا لیکن اس کی نگرانی میں چل رہا تھا۔ یہاں عورتوں کے کک باکسنگ کے مقابلے بھی ہوتے تھے۔ یہ مقابلے شام آٹھ بجے ہی شروع ہو جاتے اور رات دو بجے تک جاری رہتے تھے۔ سوئے فائیو پر فیڈرل ہوٹل سے کچھ فاصلے پر واقع میری لینڈ نائٹ کلب میں اس وقت زیادہ رش نہیں تھا۔ کئی میزیں خالی پڑی تھیں۔ اسٹیج پر کک باکسنگ کا مقابلہ جاری تھا۔ دو ادھیڑ عمر عورتیں تھکی ہوئی بلیوں کی طرح ایک دوسرے پر جھپٹ رہی تھیں۔ ان کے جسموں پر اگرچہ  لباس برائے نام ہی تھے لیکن ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو تو شاید ان سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے وہاں بیٹھے ہوئے ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک آدمی بڑی بے تکلفی سے میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کی عمر تئیس چوبیس سال رہی ہوگی۔ کسی قدر دراز قامت بال چڑیا کے گھونسلے کی طرح بکھرے ہوئے، کلین شیو گلے میں سیاہ ڈوری اور سامنے کا ایک دانت ٹوٹا ہوا۔ اس نے جینز اور بغیر آستین کی دھاری دار بنیان پہن رکھی تھی۔ اس کا جسم گٹھا ہوا اور بازووں کے مسل ابھرے ہوئے تھے۔ وہ کچھ تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔

هیلو باس ۔۔۔ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا ۔

ہیلو۔۔۔  میں نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔

 پہلے تو میں اسے اپنی میز پر بیٹھتے دیکھ کر چونکا تھا لیکن اب مجھے احساس ہونے لگا کہ اس شخص سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔

لگتا ہے تمہارا دھندا خوب چل رہا ہے۔۔۔  وہ میرا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔۔۔  یہاں دھندا تو سب کا ہی چل رہا ہے۔ ایک میں ہی ٹھوکریں کھا رہا ہوں۔

کیا کام کرتے ہو ؟۔۔۔  میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

کوئی بھی کام ملے کر سکتا ہوں۔۔۔ اس نے جواب دیا ۔۔۔ ویسے میں موٹر مکینک ہوں۔ پتایا میں اچھا خاصا کام چل رہا تھا۔ ایک دوست کے بہکانے پر یہاں آگیا۔ وہ سالا چوری کے جرم میں پکڑا گیا اور میں دردر کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں۔

شاید تمہیں واپسی کا کرایہ چاہیے۔۔۔ میں نے کہا۔ بہت سے ہڈ حرام قسم کے لوگ پیسے بٹورنے کے لیے دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو مظلوم بنا کر پیش کرتے ہیں۔

نہیں۔۔۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔میں اپنے ساتھ ناکامی اور نامرادی کی داستان لے کر واپس نہیں جانا چاہتا۔

چائے یا کافی پیو گے۔ ۔۔ میں نے پوچھا۔

 میں نے کل رات سے کھانا نہیں کھایا ۔۔۔ اس کے لہجے میں ندامت بھی تھی اور افسردگی بھی۔ میں نے ایک بار پھر غور سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی باتوں میں اور اس کے چہرے پر سچائی کی جھلک نظر آرہی تھی۔

 ویٹریس آرہی ہے۔ جو کھانا چاہو منگوالو۔ ۔۔ میں نے کہا۔

یہاں نہیں۔ ۔۔  اس نے کہا ۔۔۔یہ نائٹ کلب ہے تو تھرڈ کلاس مگر یہاں کے ریٹ زیادہ ہیں۔ ادھر ایک ریسٹورنٹ ہے۔۔وہاں سستا  کھانا ملتا ہے۔

 میں ایک لمحے کو ٹھٹکا۔ وہ مجھے یہاں سے اٹھا کر کہیں اور لے جانا چاہتا تھا۔ کسی گڑبڑ کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن میں نے بہر حال رسک لینے کا فیصلہ کر لیا اور ہم میری لینڈ نائٹ کلب سے نکل کر ایک درمیانے درجے کے ریسٹورنٹ میں آگئے اور پھر مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس نے نہایت سستے قسم کے کھانے کا آرڈر دیا تھا۔ حالانکہ ایسے موقع پر جب بل  دوسرے کی جیب سے ادا ہونا ہوتو ا چھی سے اچھی اور مہنگی چیز منگوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں نے ویٹریس کو بلا کر اس کا آرڈر کینسل کر دیا اور بڑھیا قسم کے کھانے کا آرڈر دے دیا۔ کھانا کھانے کے بعد کافی بھی پی گئی۔ وہ میرا بے حد احسان مند نظر آرہا تھا۔

 میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ اگر آج بھی مجھے کھانا نہ ملتا تو شاید۔۔۔

میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔ میں نے اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔کسی کو ایک وقت کا کھانا کھلا دینا کوئی ایسی بات نہیں ہوتی۔

میں تو اسے احسان سمجھتا ہوں اور ہمت ہوئی تو کبھی اس بوجھ کو اتارنے کی کوشش کروں گا۔۔۔ اس نے کہا۔

میرے ذہن میں اچانک ہی ایک اور خیال گزرا۔ ماسٹر کے رنگ سے باہر بھی مجھے کسی ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو قابل بھروسا ہو اور باہمت بھی اور مجھے یہ شخص پسند آیا تھا اور اس مختصر سی ملاقات میں، میں نے اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کی تھی۔ اگر اسے مناسب طریقے سے ڈیل کیا جائے تو یہ میرے لیے جان بھی دے سکتا تھا۔

تمہارا نام کیا ہے۔ کہاں رہتے ہو؟ ۔۔۔میں نے پوچھا۔

 نام رامن پر ساد ہے اور رہائش فٹ پاتھ پر ۔۔۔ اس نے جواب دیا۔ اس کے ہونٹوں پر زخمی سی مسکراہٹ آگئی تھی ۔۔۔ ایک مہینہ پہلے پتایا سے یہاں آیا تھا۔ دو چار دن ہوٹل میں رہا پھر فٹ پاتھ پر آگیا۔

د دستی کرو گے ؟۔۔۔ میں نے اس کے چہرے پر نظریں جما دیں۔

 دوستی ۔۔۔  اس کی آنکھوں میں چمک سی ابھر آئی ۔۔۔اس کا مطلب سمجھتے ہو؟

اس کا اندازہ تم اس بات سے لگا سکتے ہو کہ میں نے تمہیں پہچانے میں غلطی نہیں کی۔ تم ایک سچے اور کھرے انسان ہو۔۔۔ میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔

اس نے بڑی گرمجوشی سے میرا ہاتھ تھام لیا۔

 دوستی کے نام پر جان بھی چلی جائے تو مجھے افسوس نہیں ہوگا۔۔۔ اس نے کہا۔

 رامن پر ساد بدھ کا پیروکار تھا۔ اسے دھرم سے زیادہ لگاؤ نہیں تھا۔ وہ ایک سیدھا سادہ آدمی تھا جس نے زندگی  کے چند اصول واضع کر رکھے تھے۔ جن پر وہ عمل پیرا تھا۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page