A Dance of Sparks–145–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 145

اور میں نیچے گر کر کسی نا ہموار ڈھلان پر لڑھکتا چلا گیا تھا اور پھر شاید میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں کتنی دیر تک بے ہوش رہا تھا مگر میرے چاروں طرف بکھری ہوئی گمبھیر تاریکی بتا رہی تھی کہ یہ رات ہی کا کوئی حصہ تھا مگر یہ کون سی جگہ ہے اور یہ آدمی کون ہے جس نے مجھے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے؟؟ گرفت دوستانہ تھی اور تھوڑی دیر پہلے اس نے میرے کان میں جو سرگوشی کی تھی اس سے بھی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ میرا کوئی ہمد رد ہے جو مجھے دشمنوں سے بچاناچاہتا ہے ۔

 اچانک میرے ذہن میں رام پرساد کا خیال ابھرا۔ میں اس کا نام لینا چاہتا تھا مگر میرے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔

اے … اس طرف ۔۔۔ایک چیختی ہوئی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ شخص مجھ سے صرف چند گز کے فاصلے پر موجود ہو۔

 یہاں کسی کی موجودگی کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس طرف چلو۔ دریا کے پل کی طرف وہ ادھر سے نکلنے کی کوشش کریں۔۔۔اُس نے دوبارہ سے کہا۔

میں اپنی اکڑتی ہوئی ٹانگ کو حرکت دینا چاہتا تھا لیکن یہ آواز سن کر بے حس و حرکت ہو کر رہ گیا۔ تاریکی میں دوڑتے ہوئے قدموں کی آوازیں سنائی دیں اور پھر یہ آوازیں بتدریج گھور اندھیرے میں مدغم ہوتی چلی گئیں۔

میرے منہ سے ہاتھ ہٹالیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک گہرا سانس لینے کی آواز بھی سنائی دی تھی۔

پرساد۔۔۔ میرے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی۔

ہاں۔ یہ میں ہوں باس۔۔۔  جواب میں سرگوشی سنائی دی ۔۔۔ا بھی خاموش رہو اور آرام سے پڑے رہو۔ وہ لوگ زیادہ دور نہیں گئے۔ پلٹ کر آبھی سکتے ہیں۔

اس مرتبہ میں نے بات نہیں کی البتہ دائیں ٹانگ کو سمیٹنے کی کوشش کی تھی جو لکڑی کے تختے کی طرح اکڑی جارہی تھی۔ میرے منہ سے بے اختیار کراہ ہی نکل گئی۔

کیا ہوا ؟۔۔۔ را من پرساد نے پوچھا۔

بہت تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔ میں پھر کراہا۔۔۔میرے بازو اور ٹانگ میں گولیاں لگی ہیں۔ یہ اذیت اب نا قابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔

برداشت کرو۔۔۔  پرساد نے کہا۔۔۔ تم ایک بہادر اور باہمت نوجوان ہو۔ یہ تو معمولی سی تکلیف ہے۔ تھوڑی دیر برداشت کرد۔ وہ لوگ ابھی زیادہ دور نہیں ہیں۔ موقع دیکھ کر یہاں سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔

یہ کون سی جگہ ہے ؟۔۔۔ میں نے پوچھا۔

مجھے بھی معلوم نہیں۔۔۔  پرساد نے جواب دیا ۔۔۔میں نے تمہیں چیخ کر دیوار سے کرتے اور ڈھلان پر لڑھکتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ جب میں تمہارے قریب پہنچا تو تم بے ہوش ہو چکے تھے۔ میں تمہیں وہاں سے اٹھا کر بھاگ نکلا تھا۔ مجھے چھپنے کے لیے یہی جگہ نظر آئی تھی۔ اب تک تو یہ جگہ ہمارے لیے محفوظ ہی رہی ہے۔ وہ لوگ چند قدم کے فاصلے پر ہمارے قریب سے  گزر گئے ہیں لیکن ہماری موجودگی کا پتا نہیں چلا۔ ہم ابھی خطرے سے باہر نہیں ہوئے۔ ہمیں کچھ دیر اور انتظار کرنا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ ہم خاموشی سے بیٹھے رہیں تاکہ اگر وہ دوبارہ اس طرف نکل آئیں

تو۔۔۔

وہ یکا یک خاموش ہو گیا۔ دور سے فائر کی ایک اور آواز سنائی دی تھی۔

انہوں نے غالباً خاصے بڑے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔۔۔  پرساد نے سرگوشی کی ۔۔۔ہمیں یہاں سے نکلنے میں مشکل تو پیش آئے گی مگر ظاہر ہے ہم رات بھر یہاں بیٹھے بھی نہیں رہ سکتے بہر حال ہمیں کچھ اور انتظار کرنا پڑے گا لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور بات بھی میرے ذہن کو الجھا رہی ہے۔

وہ کیا ..؟۔۔۔ میں نے پوچھا۔

یہاں سے نکل کر ہم جائیں گے کہاں؟۔۔۔ را من پرساد نے کہا ۔۔۔ مجھے تمہاری فکر ہو رہی ہے باس۔ تمہیں طبی امداد کی ضرورت ہے۔ اگر بروقت کوئی طبی امداد نہ ملی تو زخم بگڑ جانے کا اندیشہ ہے جس سے تمہاری زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ہمیں یہاں آئے ہوئے کتنی دیر ہوئی ہے؟۔۔۔  میں نے پوچھا۔

 تقریباً ایک گھنٹا تو ہو چکا ہے۔۔۔ اس نے جواب دیا ۔۔۔ بھی تھوڑی دیر بعد میں یہاں سے نکل کر دیکھوں گا کہ کیا صورت حال لیکن سوال پھر وہی ہے کہ یہاں سے نکل کر ہم جائیں گےکہاں؟

 اس کی تم فکر مت کرو۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔ ضرورت صرف یہاں سے بچ کر نکلنے کی ہے۔ دریا کے پار وانگ ونگ پائے روڈ پر ایک ایسی محفوظ جگہ ہے جہاں ہم پناہ لے سکتے ہیں اور مجھے میڈیکل ایڈ بھی مل سکتی ہے لیکن ہم دریا کی دوسری طرف کیسے جائیں گے ان کے آدمی تو برج پر بھی موجود ہوں گے اور کوئی شخص ان کی نظروں سے بچ کر نہیں جاپائے گا۔

 صورت حال کا اندازہ لگانے کے بعد میں کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لوں گا۔۔۔ پر ساد نے جواب دیا

اور پھر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولا ۔۔۔ تم یہیں رکو۔ میں صورت حال کا جائزہ لے کر آتا ہوں۔

 میرا سر پرساد کی گود میں رکھا ہوا تھا۔ اس نے مجھے آہستگی سے اٹھا دیا ۔ تاریکی میں اب بھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہم زمین پر تھے یا پاتال میں… ایسی گہری اور دبیز تاریکی ۔۔میں نے اندھوں کی طرح ٹٹول کر دیکھا تو پتا چلا کہ ہم ایک بہت بڑے پتھر کی آڑ میں تھے اور وہ جگہ کچھ زیادہ کشادہ بھی نہیں تھی۔ ہمارے سروں کے اوپر چھت نما کوئی چیز بھی تھی جو زیادہ اونچی نہیں تھی۔ میرا ہاتھ چھت کو چھو گیا تھا۔ پرساد رینگتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا۔ میں نے پتھر سے پشت ٹکا کر ٹانگیں پھیلائی تھیں۔ بازو اور ٹانگ سے درد کی شدید ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور یہ درد پورے جسم میں پھیل رہا تھا۔ تکلیف کی شدت کو کم کرنے کے لیے میں نے بڑی سختی سے دانت بھینچ رکھےتھے۔

مجھے یہاں پڑے ہوئے ایک گھنٹا ہو چکا تھا اور اس ایک گھنٹے  میں میرے زخموں سے اچھا خاصا خون بہہ چکا تھا اور اب میں اپنے آ پ میں نقاہت سی محسوس کرنے لگاتھا، مجھے فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت تھی ورنہ زخم بگڑ جائے گا اور میری جان خطرے میں پڑ جائے گی۔ را من پرساد کو یہ بھی پریشانی تھی کہ یہاں سے نکل کر ہم کہاں جائیں گے اور میں نے فوری طور پر اسے اپنے ساتھ گھر لے جانے فیصلہ کرلیا تھا۔

 ہاں۔۔۔۔ وہ گھر ہی تو تھا جہاں میں اور تھائی وانگ رہ رہے تھے۔ رامن پر ساد قابل اعتماد اور بھروسے کا آدمی ثابت ہوا تھا۔ اس نے میری خاطر اپنی زندگی بھی خطرے میں ڈال دی تھی۔ ان لوگوں کے ہاتھ لگ جانے کی صورت میں وہ پرساد کو بھی اذیتیں دے کر ہلاک کر ڈالیں گے۔ اس لیے میں نے اسے بھی اپنے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اگر خود غرض ہوتا تو وہاں جھگڑا شروع ہونے کے بعد صورت حال کی نزاکت کا اندازہ لگاتے ہی مجھے چھوڑ کر بھاگ نکلتا لیکن اس نے اپنی جان کی پروا نہیں کی تھی اور مجھے ان درندوں سے بچا لایا تھا۔ اس جیسے وفادار اور جاں نثار کو اس طرح چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔

تقریباً پندرہ منٹ بعد سرسراہٹ کی ایسی آواز سنائی دی جیسے کوئی زمین پر رینگ رہا ہو۔ چند سیکنڈ بعد ہی پر ساد کی سرگوشی سنائی دی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page