A Dance of Sparks–146–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 146

باس۔۔۔

یس پر ساد۔۔۔ میں نے بھی سرگوشی میں جواب دیا۔ وہ رینگتا ہوا میرے قریب آگیا۔

سڑک یا کسی اور راستے سے نکلنے کا کوئی چانس نہیں ہے باس۔۔۔ پرساد نے کہا۔۔۔انہوں نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ہمارے لیے صرف ایک ہی راستہ باقی بچا ہے۔

اوروہ راستہ  کون سا ہے؟۔۔۔ میں نے دریافت کیا۔

 دریا ۔۔۔ پرساد نے جواب دیا ۔۔۔کیا تم تیرنا جانتے ہو باس ؟

 اس کی بات سن کر میں کانپ اٹھا۔ پیرا کی تو مجھے آتی تھی اور یہ پیرا کی میں نے سنگا پور کے ایک سوئمنگ کلب میں سیکھی تھی لیکن سوئمنگ پول اور دریا میں بہت فرق ہوتا ہے۔ پول کے ٹہرے ہوئے پانی میں تیرنا اور بات ہے اور دریا کے گہرے اور بہتے ہوئے پانی میں تیرنا دوسری بات۔۔۔ اور پھر اس وقت میری حالت ؟ بازو اور ٹانگ میں گولیاں لگی تھیں۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے میں کمزوری محسوس کر رہا تھا لیکن بھیانک موت نے چاروں طرف گھیرا ڈال رکھا تھا اور موت کے اس حصار کو توڑنے کا وہی ایک راستہ تھا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

ٹھیک ہے۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ یہ رسک لینا ہی پڑے گا۔

 تو ٹھیک ہے۔ اس طرف چلو۔۔۔ لیکن کچھ دور تک رینگنا ہی پڑے گا۔۔۔ پر سار نے کہا۔

ممکن  ہے اس نے ہاتھ سے کوئی اشارہ بھی کیا ہو لیکن دبیز اندھیرے میں تو میں اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتا تھا اس کا ہاتھ کیا نظر آتا۔ پرساد کے رینگنےسے سرسراہٹ کی جو ہلکی سی آواز پیدا ہورہی تھی میں اسے فالو کرتے ہوئے اس کے پیچھے رینگتا رہا۔ میرے زخمی بازو اور ٹانگ میں تکلیف کی شدت بڑھ گئی تھی۔ میں بڑی مشکل سے اپنے آپ کو گھسیٹ رہا تھا۔ تقریباً پانچ منٹ بعد ہم اس تنگ سی جگہ سے نکل کر کھلی جگہ پر آگئے۔ چہرے سے ٹکرانے والی تازہ ہوا بڑی خوشگوار لگی تھی۔ اس جگہ اگر چہ روشنی نہیں تھی لیکن سامنے دریا کے دوسرے کنارے پر روشنیاں جگمگارہی تھیں اور ان سے اندھیرے کی گھٹن کا احساس بھی ختم ہو گیا تھا۔

رامن پر ساد اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا اور جب میں نے اٹھنے کی کوشش کی تو منہ سے بے اختیار کراہ نکل گئی۔ میری زخمی ٹانگ نے بوجھ اٹھانے سے صاف انکار کر دیا تھا اور معمولی سا بوجھ پڑنے سے زخم سے جو ٹیسں اٹھی تھی وہ میرے پورے وجود میں پھیلتی چلی گئی۔

پرساد فورا ہی میری طرف متوجہ ہو گیا۔ اس نے میرا سیدھا بازو اپنی گردن میں حمائل کر لیا اور مجھے سہارا دے کر آہستہ آہستہ چلانے لگا۔ میرا دایاں پیر زمین پر گھسٹ رہا تھا۔ گولی میری پنڈلی کی پچھلی طرف لگی تھی اور اندر ہی رہ گئی تھی جس وجہ سے مجھے زیادہ تکلیف ہو رہی تھی۔ پوری ٹانگ میں شدید تناؤ اور کھنچاؤ تھا۔ چند قدم چلنے کے بعد ہم رک گئے بلکہ میں تو گر سا گیا تھا۔ میں نے تکلیف ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا۔ وہ گیسٹ ہاؤس بائیں طرف تقریباً تین سو گز کے فاصلے پر تھا۔ اس سے پرے ہوٹل شنگریلا کا جگمگاتا ہوا نیون سائن نظر آرہا تھا۔ میں نے گردن گھما کر اس طرف دیکھا جہاں سے ہم نکل کر آئے تھے۔ اس جگہ کو دیکھ کر مجھے اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ یہ کسی پل کا ابتدائی حصہ تھا۔ ہو سکتا ہے پہلے یہاں دریا پر پل بنانے کا منصوبہ بنا ہو لیکن فنی وجوہات کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کر کے وہاں سے تقریباً ہزار گز آگے پل تعمیر کیا گیا تھا۔ اس جگہ زمین سے پل کی بنیادیں اور سائڈ کی دیواریں اٹھا کر شروع کے حصے میں کنکریٹ کی بھرائی کی گئی تھی اور آگے کچھ حصے پر کنکریٹ کے دیو قامت گارڈر ڈال کر چھت یا سڑک کا کچھ حصہ بھی بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اسے نامکمل چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس چھت کے نیچے بڑے بڑے پتھر اور ملبے کے ڈھیرا ایسے ہی پڑے رہ گئے تھے اور پر ساد مجھے اس کے آخری حصے میں ایک ایسے ہی بڑے پتھر کے پیچھے لے گیا تھا جس کی وجہ سے ہم تلاش کرنے والوں کی نظروں سے محفوظ رہےتھے۔

یہاں رکنا خطرے سے خالی نہیں ہے باس۔۔۔ پر ساد کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔۔۔ اگر وہ لوگ دوبارہ اس طرف نکل آئے تو ہمارے پاس چھپنے کی کوئی اور جگہ بھی نہیں ہے۔

اس نے مجھے دوبارہ سہارا دے کر اٹھا دیا اور میں اس کے ساتھ گھسٹنے لگا۔ ہمارا رخ دریا کی طرف تھا۔ بنکاک والوں نے شہر کے وسط میں بہتے ہوئے اس دریا سے خوب فائدہ اٹھایا تھا۔ کئی یاٹ کلب تھے۔ دریا کے ساتھ بڑے بڑے ہوٹلوں نے بھی کناروں تک کی جگہ گھیر رکھی تھی جہاں چھوٹی چھوٹی جیٹیاں تعمیر کر کے اپنے مہمانوں کے لیے بوٹنگ کی سہولتیں فراہم کر رکھی تھیں۔ بعض لوگوں نے ویسے ہی جگہ گھیر کر چھوٹے چھوٹے گھاٹ بنا رکھے تھے جہاں دریا کی سیر کے لیے آنے والوں کو کرائے پر کشتیاں فراہم کی جاتی تھیں لیکن بہت سی جگہیں ایسی تھیں جو اب بھی ویران پڑی تھیں۔ ان جگہوں پر آس پاس تو گہرے کھڈ تھے یا کسی اور وجہ سے انہیں نظر انداز کر دیا گیا تھا۔

اس وقت ہم جس جگہ پر موجود تھے وہاں سے بائیں طرف تقریباً تین سو گز کے فاصلے پر تو وہ گیسٹ ہاؤس تھا اور دوسری طرف تقریباً پانچ سو گز تک ویرا نہ تھا۔ اس سے آگے روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ بیچ کے اس ویرانے میں جھاڑیاں پھیلی ہوئی تھیں۔

میرا خیال ہے اس طرف کنارے پر ہمیں کوئی ایسی جگہ مل جائے گی جہاں سے ہم دریا میں اتر سکیں۔۔۔ رامن پرساد نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

مگر پر ساد۔۔۔ میں کراہ اٹھا ۔۔۔مجھ سے تو قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ بازو بھی بُری طرح اکڑا ہوا ہے۔ دریا میں کیسے تیر سکوں گا؟

 فکر نہ کرو باس ۔۔۔پرساد بولا ۔۔۔ میں صرف موٹر مکینک ہی نہیں ہوں۔ ایک بہت اچھا پیراک بھی ہوں۔ پتایا کے گہرے ساحل پر پیراکی کے کئی خطرناک مقابلے جیت چکا ہوں۔ تم میری پشت پر سوار ہو جانا۔ میں تمہیں بڑی آسانی سے دو سرے کنارے تک لے جاؤں گا۔ راستے میں تمہارے کپڑے تک گیلے نہیں ہونے دوں گا۔ بس ہمیں دریا میں اترنے کے لیے مناسب جگہ مل جائے۔

را من پرساد مجھے سہارا دے کر جھاڑیوں میں گھسیٹتا رہا۔ اس طرح چلنے سے میری ٹانگ کی تکلیف بڑھتی جارہی تھی لیکن میں جانتا تھا کہ رانا اور شوچائی کے آدمی شکاری کتوں کی طرح آس پاس کے علاقے میں ہماری بو سونگتے پھر رہے تھے۔ وہ کسی لمحے اس طرف بھی آسکتے تھے۔

ہم اس جگہ سے کافی دور نکل آئے تھے۔ آس پاس جھاڑیاں اگر چہ خاصی اونچی تھیں مگر زیادہ گنجان نہیں تھیں۔ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے آسانی سے راستہ مل رہا تھا اور پھر اچانک ہم ٹھنک کر رک گئے۔

ہم سے تقریباً پندرہ گز آگے ایک شعلہ سا چکا تھا۔ میں نے غور سے اس طرف دیکھا تو کانپ کر رہ گیا۔ وہاں قدرے اونچی جگہ پر ایک آدمی کھڑا تھا جس نے سگریٹ سلگانے کے لیے دیا سلائی جلائی تھی۔ اس کا رخ دوسری طرف تھا۔ دیا سلائی کی روشنی میں اس کا چہرہ تو نظر نہیں آیا تھا

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page