A Dance of Sparks–147–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 147

لیکن بکھرے ہوئے بال اور دھاری دار ٹی شرٹ سے مجھے اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آئی کہ وہ کون ہو سکتا ہے۔ وہ یقینا رانا ہی کا کوئی گر کا تھا جو نگرانی کے لیے وہاں کھڑا تھا۔ را من پرساد نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ مجھے آہستگی سے جھاڑیوں کی آڑ میں زمین پر بٹھا دیا اور جھاڑیوں کی آڑ لے کر جھک کر تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ میں اپنی جگہ پر بے حس و حرکت بیٹھا سامنے دیکھ رہا تھا۔ پر ساد میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تھا مگروہ آدمی اپنی جگہ پر کھڑا اطمینان سے سگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔ سگریٹ غالباً  بہت ہی گھٹیا قسم کا تھا۔ ہوا کا رخ ہونے کی وجہ سے اس کی ناگوار سی بو یہاں تک آرہی تھی۔ اور پھر اس شخص کے عقب میں چند قدم کے فاصلے پر پر سار کو نمودار ہوتے دیکھ کر میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور میں دل ہی دل میں اس کی کامیابی کی دعائیں مانگنے لگا۔ پر ساد بہت آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا اور پھر شاید اس کا پیر کسی جھاڑی میں الجھ گیا تھا۔ وہ لڑکھڑا گیا۔ آواز سن کرده شخص تیزی سے پیچھے پلٹا۔ اس نے سگریٹ پھینک دیا اور پرساد کی طرف لپکا۔ پرساد سنبھل گیا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو گئے۔ دونوں زمین پر گرے پھر اٹھ گئے۔ میں کسی قدر نشیب میں تھا اور وہ دونوں اونچی جگہ پر تھے۔ آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کی روشنی کے پس منظر میں مجھے ان دونوں کے ہیولے تو نظر آرہے تھے مگر یہ اندازہ لگانا دشوار تھا کہ ان میں پرساد کون سا ہے اور وہ غنڈا کون سا۔ وہ ایک بار پھر زمین پر گرے۔ اب وہ مجھے نظر نہیں آرہے تھے لیکن جھاڑیوں کے چٹکنے کی آوازوں سے میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور پھر ایک خوف ناک چیخ فضا میں ابھری۔ یہ چیخ پر ساد کی بھی ہو سکتی تھی۔ یہ خیال آتے ہی میں اپنی جگہ سے گھسٹتا ہوا گنجان جھاڑیوں میں گھس گیا۔ دو منٹ گزر گئے اور پھر دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی۔ ایک ہیولا ٹھیک اس جگہ پر آکر رک گیا جہاں تھوڑی دیر پہلے میں موجود تھا۔

باس۔۔۔یہ پرساد کی آواز تھی۔

میں یہاں ہوں پر سادہ۔۔۔ میں نے اسے آواز دی۔

وہ ختم ہو گیا باس۔۔۔ پر ساد تیز تیز قدم اٹھا تا ہوا میرے قریب آگیا میں نے اس کی گردن مروڑ دی ہے۔ وہاں ایک چھوٹی سی جیٹی  پر دو کشتیاں بھی کھڑی ہیں باس۔ ۔۔ اس نے ایک طرف اشارہ کیا۔۔۔ اس مردود کی چیخ سناٹے میں دور تک پھیلی ہوگی۔ اس سے پہلے کہ اس کا کوئی ساتھی اس طرف پہنچ جائے، ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے۔

 میں اٹھ نہیں سکتا۔ مجھے سہارا دو پر ساد۔۔۔ میں نے اپناتندرست  ہاتھ اوپر اٹھا دیا۔ میں اس وقت کچھ زیادہ ہی نقاہت محسوس کرنے لگا تھا۔

پرساد نیچے جھکا اور سہارا دینے کے بجائے مجھے پشت پر اُٹھا لیا۔ میرے منہ سے ہلکی سی چیخ بھی نکل گئی۔ اس کا ایک ہاتھ میری ٹانگ کے زخم پر پڑا تھا۔

پرساد مجھے اٹھا کر تیزی سے ایک طرف دوڑنے لگا۔ تقریباً پچاس گز کا فاصلہ طے کر کے اس نے مجھے جیٹی پر اتار دیا ۔ یہاں دریاکے کنارے پر ایک پختہ چبوترہ بنا ہوا تھا اور ایک تنگ سی گھاڑی اس چبوترے کے ساتھ ہی اندر کو نکلی ہوئی تھی۔ یہاں دو چھوٹی کشتیاں تھیں جن کی رسیاں ایک آہنی پائپ کے ساتھ بندھی ہوئی تھیں۔ یہ چپووں والی کشتیاں تھیں۔ پرساد نے مجھے اٹھا کر ایک کشتی میں ڈال دیا اور پائپ کے ساتھ بندھی ہوئی رسی کھول کر چپو سنبھال لیے۔ وہ کشتی کو کھاڑی سے نکال کر دریا میں لے آیا اور اسے دوسرے کنارے کی طرف کھیلنے لگا۔

میں کشتی کے فرش پر نڈھال سا بیٹھا تیز تیز سانس لے رہا تھا۔ کمزوری بہت بڑھ گئی تھی۔ زخمی ٹانگ اور بازو تختے کی طرح اکڑ گئے تھے اور درد نے مجھے نڈھال کر رکھا تھا اور میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ بھی سکوں گا یا نہیں۔

اب پریشانی کی کوئی بات نہیں باس۔۔۔ پرساد نے شاید میرے خیالات پڑھ لیے تھے۔۔۔ دریا کا پانی بہت پر سکون اور ہموار  ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ میں دوسرے کنارے پر پہنچ جائیں گے۔ وہاں سے ہمیں کتنی دور جانا ہو گا ؟

 مجھے اس کی باتوں سے حوصلہ مل رہا تھا۔ وہ واقعی وفادار تھا۔ میری وجہ سے اس نے ایک انسان کے خون میں ہاتھ بھی رنگ لیے تھے۔ چند گھنٹے پہلے جب میں نے اس کی طرف دوستی کا اتھ بڑھایا تھا تو اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں دوستی کا مفہوم جانتا ہوں یا نہیں۔ اگر چہ ہماری دوستی کی عمر چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس نے خود ہی مجھے دوستی کا مفہوم سمجھا دیا تھا۔

 میری بات کا جواب نہیں دیا باس۔۔۔ پرساد نے دوبارہ کہا ہمیں کتنی دور جانا ہو گا؟

 تقریباً ایک میل ۔۔۔ میں نے سنبھل کر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔ کنگ ٹاکسن کے مجسمے سے ذرا آگے۔

اچھا۔ وانگ ونگ پائے ریلوے اسٹیشن کے قریب؟۔۔۔ اس نے کہا

نہیں۔ اس کی مخالف سمت۔۔۔ میں نے جواب دیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔

 دریا کا پانی واقعی پر سکون تھا اور اسے کشتی کھیلنے میں کوئی  دشواری پیش نہیں آرہی تھی۔ دریا کے دونوں طرف دور دور تک رنگ برنگی روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ اس وقت شاید بارہ بجنے و الے ہوں گے۔ میں تھائی وانگ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں شام کا اندھیرا پھیلنے کے تھوڑی دیر بعد گھر سے نکلا تھا اور تھائی سے کہا تھا کہ دو تین گھنٹوں میں واپس آجاؤں گا۔ اب مجھے تقریباً چار گھنٹے ہو چکے تھے۔ وہ یقیناً پریشان ہو رہی ہوگی۔ کہیں اس نے گھبرا کر ماسٹر ہو چن کو فون نہ کر دیا ہو۔

دوسرے کنارے تک پہنچنے میں تقریباً دسں منٹ لگے تھے۔ را من پرساد نے کشتی ایک ویران جگہ پر روکی تھی۔ کشتی کو کنارے سے لگا کر اس نے مجھے اپنے اوپر لاد لیا اور کشتی کے کنارے پرکھڑے ہو کر چھلانگ لگادی۔

مجھے نیچے اتارو۔ میں تمہارا سہارا لے کر چلنے کی کوشش کروں گا۔۔۔ میں نے کہا۔

نہیں باس۔۔۔ پرساد نے جواب دیا ۔۔۔ ہو سکتا ہے ان کا کوئی آدمی  اس طرف بھی موجود ہو اور کشتی کو آتے ہوئے دیکھ لیا گیا ہو۔ کچھ دور تک تو تم میرے اوپر ہی سواری کرتے رہو۔ کسی محفوظ جگہ پر پہنچ کر میں تمہیں اتار دوں گا ۔

رامن پرساد کا خیال غلط نہیں ہو سکتا تھا لیکن ہمیں بڑی سڑک تک کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ سڑک پار کر کے ہم ایک گلی میں داخل ہو گئے۔ پرساد نے مجھے نیچے اتار دیا ۔ زمین پر پیر رکھتے ہی میرے ہونٹوں سے کراہ سی خارج ہو گئی۔

باس۔۔۔پرساد نے میرا تندرست بازو اپنی گردن پر ڈال لیا۔۔۔ مجھے معلوم ہے تمہاری حالت بہت نازک ہو رہی ہے۔ تمہارا جسم بھی تپنے لگا ہے۔ تمہارے زخموں سے خون بہت بہہ چکا ہے مگر تم واقعی ایک حوصلہ مند نوجوان ہو۔ کوئی اور ہوتا تو ہمت ہار چکا ہوتا۔۔۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page