A Dance of Sparks–148–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 148

وہ چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔۔۔ تمہیں فوری طور پر طبی امداد کی ضرورت ہے۔ اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو میں اپنے آپ کو معاف نہیں کر سکوں گا۔ گھر پہنچ کر کسی ڈاکٹر کو بلانے میں دیر لگے گی اور یہ بھی ممکن ہے وہ ڈاکٹر تمہاری حالت دیکھ کر کوئی ٹریٹ منٹ دینے سے انکار کردے۔ میں نے مین روڈ کی طرف ایک اسپتال کا نیون سائن دیکھا ہے۔ اگر کہو تو میں تمہیں اسپتال لے چلوں۔ ہم پولیس کو بھی ان لوگوں کے بارے میں اطلاع کر دیں گے۔

نہیں پر ساد۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔تم ان لوگوں کو نہیں جانتے۔ وہ انسان نہیں درندے ہیں۔ پورے بنکاک کی پولیس آج تک ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ تم میری حالت کی پروا مت کرو۔ مجھے گھر لے چلو۔ ڈاکٹر کا انتظام ہو جائے گا۔

وہ میری حالت دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ چلنا میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس نے ایک بار پھر مجھے اپنے اوپر لاد لیا اور تیزی سے چلنے لگا۔ میں اسے راستہ بتاتا جا رہا تھا اور بالآخر تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم مطلوبہ گلی میں پہنچ گئے۔

گیٹ کے سامنے پہنچ کر اس نے مجھے نیچے اتار دیا۔ میں ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ پر ساد نے کال بیل کا بٹن دبا دیا۔ صرف ایک منٹ بعد گیٹ کا ذیلی دروازہ کھل گیا۔ وہ تھائی وانگ تھی اور نجانے کب سے میرے انتظار میں برآمدے میں بیٹھی تھی اور کال بیل کی آواز سنتے ہی گیٹ پر پہنچ گئی تھی لیکن دروازہ کھولتے ہی میرے بجائے ایک اجنبی کو دیکھ کر وہ حواس باختہ ہی ہو گئی۔

کون ہو تم۔ میں تمہیں نہیں جانتی۔ چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔اس نے دھڑ سے دروازہ بند کر دیا۔

 میں ہوں تھائی۔ دروازہ کھولو۔۔۔ میں نے کمزوری آواز میں کہا۔

دروازہ ایک دم کھل گیا۔ تھائی نے گردن نکال کر باہر جھانکا اور پھر مجھے ستون کے ساتھ کھڑے دیکھ کر بد حواس سی ہو گئی۔

کیا ہوا تمہیں۔ اس طرح کیوں کھڑے ہو۔

 میں زخمی ہوں تھائی۔ مجھے اندر لے چلو۔۔۔ میں نے کہا۔

پرساد نے جھک کر مجھے گود میں اٹھا لیا۔

یہ ۔۔۔ یہ کون ہے؟۔۔۔ تھائی بولی۔

“میرا دوست ہے۔ گھبراؤ نہیں۔۔۔ میں نے کہا۔

 تھائی وانگ راستے سے ہٹ گئی۔ پر ساد کے اندر داخل ہونے کے بعد اس نے گیٹ بند کر دیا اور تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی ہمارے ساتھ چلنے لگی۔ برآمدے کی بتی بھی بجھی ہوئی تھی لیکن کمرے میں داخل ہونے کے بعد میری حالت دیکھتے ہی تھائی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔

 یہ کیا ہوا تمہیں ۔۔ کس نے کی ہے تمہاری یہ حالت میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گی۔ تھائی وانگ چیخ رہی تھی۔

اس دوران میں پر ساد نے مجھے کمرے میں لا کر بستر پر لٹا دیا تھا۔

میں زندہ ہوں تھائی۔ میں زندہ ہوں۔ اپنے جو اس قابو میں رکھو۔۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ مجھے گولیاں لگی ہیں۔ خون بہت ضائع ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ میری حالت زیادہ بگڑ جائے ، جانکی دیوی کو فون کر کے بلالو۔ اسے بتا دینا ایک گولی ابھی تک میری پنڈلی کے اندر موجود ہے۔ جاؤ تھائی۔ دیر نہ کرو۔

تھائی دوڑتی ہوئی ٹیلی فون کے قریب پہنچ گئی۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور نمبر ملا کر جانکی کو صورت حال سے آگاہ کرنے لگی پھر ریسیور رکھ کرواپس آگئی۔

ہوا کیا۔ تمہیں کیسے گولی لگی اور یہ کون ہے ؟۔۔۔ تھائی نے کہا اور پرساد کی طرف دیکھنے تھی۔

کچھ خطرناک لوگوں سے آمنا سامنا ہو گیا تھا۔۔۔ میں نے جواب دیا ۔۔اور یہ ۔۔۔ میں نے پرساد کی طرف دیکھا ۔۔۔یہی مجھے موت کے منہ سے نکال کر لایا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو آج کی رات میری  زندگی کی آخری رات ثابت ہوتی۔ مجھے تو اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے۔

اس میں شکریہ ادا کرنے کی کیا بات ہے باس۔ میں نے تو حق دوستی ادا کیا ہے۔۔۔ پرساد نے کہا اور چند لمحوں کی خاموشی کے بعدبولا ۔۔۔اب میں جاؤں باس؟

نہیں۔ تم یہیں رہو گے۔۔۔ میں نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

تھائی وانگ کی عجیب حالت ہو رہی تھی۔ اس کی کیفیت بیان کرنے کے لیے بھی میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ہونٹوں پر بڑ بڑا ہٹ تھی۔ میرا خون آلود لباس دیکھ کر بار بار اس کی مٹھیاں بھینچ جاتیں۔ غالباً اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ جانکی دیوی تقریباً چالیس منٹ بعد وہاں پہنچی تھی۔ میری حالت دیکھ کر وہ بھی گڑ بڑا گئی۔ میری حالت اب غیر ہو رہی تھی۔ مسافر جب منزل پر پہنچتا ہے تو تھکن سے نڈھال ہو کر گر پڑتا ہے میری بھی شاید کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔ میں موت کو دھکے دیتا ہوا اپنوں میں پہنچ گیا تھا اور میرا حوصلہ پست ہو گیا تھا۔ ہمت اور قوت برداشت جواب دے رہی تھی۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اب غنودگی سی طاری ہونے لگی تھی اور میرے لیے اپنے آپ کو ہوش میں رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ تھائی وانگ نے پہلے ہی پانی گرم کر رکھا تھا۔ جانکی دیوی نے پہلے پرساد کی مدد سے میرے کپڑے اتروا کر خون سے تھڑا ہوا جسم صاف کروایا اور آپریشن کی تیاری شروع کردی۔

 پہلے میرے بازو کی ڈریسنگ کی گئی۔ یہاں گولی گوشت کو چیرتی ہوئی نکل گئی تھی۔ بازو کی ڈریسنگ مکمل کرنے کے بعد وہ میری ٹانگ کی طرف متوجہ ہوئی۔ جانکی نے ٹانگ پر لوکل انستھیسیا دے کر آپریشن شروع کر دیا۔ اس وقت تک میں مکمل طور پر غنودگی کی لپیٹ میں آچکا تھا اور مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہورہا تھا۔

کئی گھنٹے بے ہوش رہنے کے بعد میری آنکھ کھلی تو کمرے میں کھڑکی کے راستے آنے والی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ بیڈ کے قریب دائیں طرف تھائی وانگ ایک کرسی پر بیٹھی اونگھ رہی تھی۔ میرے ہونٹوں سے ہلکی سی کراہ خارج ہوئی تو وہ ہر بڑا کر اٹھ گئی۔ میری نظروں کے سامنے دھندسی پھیلی ہوئی تھی جو رفتہ رفتہ صاف ہوتی چلی گئی۔ میں نے پہلے تھائی وانگ کی طرف دیکھا اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ بیڈ کے ساتھ ہی ایک اسٹینڈ پر خون کی بوتل ٹنگی ہوئی تھی جس کا خون غیر محسوس رفتار سے میری رگوں میں منتقل ہو رہا تھا۔ تھائی وانگ میرے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔ اس نے میری پیشانی پر بوسہ دیا اور کچھ کہے بغیر میری طرف دیکھتی رہی۔ میں اس کی اندرونی کیفیت کو سمجھ رہا تھا۔

چندمنٹ  بعد جانکی دیوی بھی آگئی۔ اس نے مسکرا کر میری طرف تھا۔ میری پیشانی پر ہاتھ رکھا اور خون کی بوتل کو چیک کرنے لگی۔ اس نے تقریباً پندرہ منٹ میرے معائنے پر لگا دیے۔

ا ب خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ وہ تھائی وانگ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔بخار تیز ہے ۔اسے  شام تک اتر جانا چاہئے۔

وہ بھی قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ اس وقت دن کے گیارہ بج رہے تھے۔ جانکی دیوی رات کو یہاں آنے کے بعد گھر واپس نہیں گئی تھی۔ میرے لیے خون کا بندوبست اس نے کیا تھا۔ گزشتہ رات میری ٹانگ سے گولی نکالنے کے بعد اس نے زخم کی ڈریسنگ  تو کردی تھی لیکن خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ میرے لیے خاصی پریشان تھی۔ اس نے تھائی کو دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ میرے لیے خون کا بندوبست ہونا بہت ضروری تھا۔ اگر خون نہ ملا تو میری زندگی خطرے میں پڑ سکتی تھی اور پھر رات ہی کو وہ ایک سرنج میں میرا خون لے کر چلی گئی تھی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page