A Dance of Sparks–15–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔

رقصِ آتش قسط نمبر- 15

مجھے ہوش آیا تو میں پولیس اسٹیشن میں تھا اور ایک پولیس والا منگ کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے ہوش میں آنے کے بعد ہمیں یہاں لے آیا گیا۔

مسٹر شمشیر سنگھ۔۔۔ انسپکڑ نے کا نسٹیبل چنگ کے خاموش ہونے پر شمشیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔اس سے اندازہ ہوتا ہے یہ کارروائی باقاعدہ پلاننگ کے تحت کی گئی تھی اور ان کی تعداد پانچ تھی۔ تین آدمی دھوکے سے میرے کانسٹیبلوں کو یہاں سے ہٹالے گئے اور دو نے اس لڑکے کو اغوا کرنے کی کوشش کی لیکن ان میں سے ایک زخمی ہو کر بھاگ گیا اور دوسرا موت کا شکار ہو گیا۔

میرا ایک بندہ مارا گیا اور دوسرے کے بارے میں ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ سردار شمشیر سنگھ نے کہا۔۔۔ لیکن کیا تمہارے آدمی اتنے بے وقوف ہیں کہ تصدیق کیے بغیر ان لوگوں کے ساتھ چل پڑے جو پولیس کی وردیاں پہن کر آئے تھے۔ کیا یہ لوگ اپنے اسٹیشن کے پولیس والوں کو نہیں پہچانتے؟۔

 اس سلسلے میں انکوائری ہوگی اور ان دونوں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔ بہرحال۔

 وہ چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر بولا ۔۔۔میں دوسرے کانسٹیبل یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں اور ہاں۔( وہ روحان کی طرف متوجہ ہو گیا) بیٹا۔ یہ وہی آدمی تو نہیں تھا جس نے تمہاری ماں کو قتل کیا تھا ؟ ۔۔اس کا اشارہ اس چینی کی طرف تھا۔ جس کی لاش اب اٹھائی جاچکی تھی۔

نہیں۔ یہ وہ نہیں تھا۔۔۔ روحان نے نفی   میں سرہلا دیا۔

ٹھیک ہے ، شمشیر سنگھ۔ ۔۔انسپکٹر نے کہا۔۔۔امید ہے ملزموں کا  سراغ مل جائے گا اور ہم بہت جلد انہیں گرفتار کر لیں گے۔

دیکھیں جی۔ کیا ہوتا ہے۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا۔۔۔ویسے سوں رب دی۔ اگر وہ میرے ہاتھ لگ گئے تو انہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔

بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ اگر ان میں سے کوئی نظر آجائے تو خود کوئی کارروائی کرنے کے بجائے پولیس کو مطلع کر دینا۔ ۔۔ انسپکٹر چیانگ شو نے کہا۔

پولیس رخصت ہو گئی۔ اس وقت صبح کے چار بجنے والے تھے۔ پولیس کے جاتے ہی گلی میں کھڑے ہوئے کچھ لوگ شمشیر سنگھ کے پاس آگئے اور حملہ آوروں کے بارے میں معلوم کرنے لگے۔

اگر اتنا پتا ہو تا کہ وہ کون لوگ تھے تو اب تک ان سب کو چن چن کر ٹھکانے لگا چکا ہو تا۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا ۔

 آدھا گھنٹا لوگوں کے سوال و جواب میں گزر گیا۔ لوگ ہمدردی جتا رہے تھے اور شمشیر سنگھ کو الجھن ہو رہی تھی۔ اس کا ایک بندہ مرچکا تھا اور دو سرا اسپتال میں تھا۔ اس کے بارے میں اطلاع نہیں ملی تھی کہ وہ ہوش میں آیا تھا یا نہیں۔ وہ روحان کو اکیلے چھوڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتا تھا اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ اس کی جان کے دشمن موقع کی تاک میں تھے

اور شمشیر سنگھ نہیں چاہتا تھا کہ روحان کو کوئی نقصان پہنچے کمرے میں آکر اس کی نظر بیڈ سائڈ ٹیبل پر رکھی ہوئی  فرقان  کی ڈائری پر پڑگئی۔  اس نے ڈائری اٹھا کر میز کی سب سے نچلی دراز میں بھرے ہوئے کاغذوں کے نیچے رکھ دی۔

مجھے ڈر لگ رہا ہے چاچا۔۔۔ شمشیر سنگھ، روحان کی آواز سن کر چونک گیا۔ وہ اس کے قریب ہی کھڑا تھا۔

ڈر کس بات کا پتر۔ ۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا۔۔۔ چلو اب تم اپنے بستر پر لیٹ کر سو جاؤ۔ مجھے ابھی کچھ کام کرنے ہیں۔ ڈرنے کی کیا بات ہے۔ میں تمہارے پاس ہوں۔

 روحان اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ اس کے چہرے پر خوف کے تاثرات نمایاں تھے لیکن بہر حال تھوڑی دیر بعد وہ سو گیا۔ پلنگ کی پٹی پر بیٹھا ہوا شمشیر سنگھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اس چھوٹی سی عمر میں وہ کتنے سنگین اور خوفناک حالات سے گزر رہا ہے۔ پہلے اس نے اپنے ماں باپ کا خون ہوتے دیکھا اور اب اس کے سامنے دو خون اور ہوئے تھے۔ شمشیر سوچ رہا تھا کہ جب روحان کی کنپٹی پر پستول رکھا گیا تھا تو اس کی کیا حالت ہوئی ہوگی۔ اس نے مڑکر ایک بار پھر روحان کی طرف دیکھا اور پھر اٹھ کر لاؤنج میں آگیا۔ بیڈ روم کا دروازہ اس نے کھلا ہی چھوڑ دیا تھا۔ فون کا ریسیور اٹھا کر اس نے اپنے ایک دوست کا نمبر ملایا۔ کال تقریباً ایک منٹ بعد ریسیو کی گئی تھی۔ ایک آدمی کی خوابیدہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

رب بھلا کرے۔ کون ہے بھئی تڑ کے تڑکے؟

 میں شمشیر  بول رہا ہوں دلدار ۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا۔۔۔ یہ سونے کا ویلا نہیں ہے۔ تم جلدی سے بستر سے اٹھو اور میرے گھر آجاؤ۔ پا بھو کو بھی ساتھ لیتے آنا۔ یہاں اس کی ضرورت بھی پڑے گی۔

پر ہوا کیا ہے؟۔۔۔ دلدار سنگھ نے پوچھا ۔۔۔ سریندر کور کی ضرورت کیوں پڑے گی۔ تڑ کے تڑکے تمہیں کیا ہو گیا ہے؟

 بڑا ہی غضب ہو گیا ہے یار۔ ۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا۔۔۔ چینی غنڈے فرقان  کے پتر روحان کو اغوا کرنے آئے تھے۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے مگر دربار سنگھ ان کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ سو تر سنگھ کی حالت بھی نازک ہے۔ وہ اسپتال میں ہے۔ تم دونوں جلدی سے یہاں آجاؤ۔

تم تو ٹھیک ہونا !۔۔۔ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔

 او  میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ہٹا کٹا۔ مجھے کچھ نہیں ہوا۔ بس تم لوگ آجاؤ۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا۔

ہم آرہے ہیں تھوڑی دیر میں۔۔۔ دوسری طرف سے کہا گیا اور پھر لائن بے جان ہو گئی۔

شمشیر سنگھ نے کریڈل دبا کر اسپتال کا نمبر ملایا اور سوتر سنگھ کے بارے میں دریافت کرنے لگا۔

وہ ابھی تک ہوش میں نہیں آسکا۔ ۔۔ایک ڈاکٹر نے جواب دیا۔۔۔ ہوش میں آنے کے بعد ہی اس کے بارے میں کوئی بات کہی

جاسکتی ہے۔

ویسے وہ بچ تو جائے گا نا ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ شمشیر سنگھ نے پوچھا۔ اس کے لہجے  میں تشویش نمایاں تھی۔

میں نے کہا ناکہ ہوش میں آنے کے بعد ہی کوئی بات کی جاسکتی ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے جواب دیا ۔

 شمشیر سنگھ نے ریسیور رکھ دیا اور لاؤنج سے نکل کر برآمدے میں آکر کھڑا ہو گیا۔ اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ گلی میں رہنے والے جو لوگ صورت حال معلوم کرنے آئے تھے، وہ اپنے گھروں کو جاچکے تھے۔ گیٹ کے باہر جو دو  پولیس والے کھڑے تھے وہ آپس میں  چینی زبان میں باتیں کر رہے تھے جنہیں انسپکٹر چیانگ شو چھوڑ گیا تھا۔

 شمشیر سنگھ ان چینی غنڈوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جنہوں نے یہ کارروائی کی تھی۔ ان کی تعداد پانچ تھی۔ ان میں سے تین دھوکے سے پولیس والوں کو لے گئے تھے اور دونے مکان پر ہلہ بول دیا تھا۔ ان میں سے ایک زخمی ہو کر بھاگ گیا تھا اور دوسرا مارا گیا تھا۔  لیکن شمشیر کو حیرت تو اس بات پر تھی کہ سوتر سنگھ اور دربار سنگھ اتنی آسانی سے ان کے قابو میں کیسے آگئے تھے۔ وہ دونوں چھ چھ فٹ کے گبرو جوان تھے۔ لڑائی میں تو دو چار آدمیوں کے قابو میں نہیں آسکتے تھے لیکن دربار سنگھ کس قدر خاموشی سے اپنی گردن تڑوا بیٹھا تھا اور سوتر سنگھ ابھی تک بے ہوش پڑا تھا۔

ظاہر ہے ان چینی غنڈوں کی خدمات کرائے پر حاصل کی گئی تھیں۔ اور ان کی پشت پر رانا کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا۔ رانا جو اس کے لیے اجنبی تھا۔ اس کی دشمنی فرقان  سے تھی اور وہ فرقان کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔ اس نے فرقان اور اس کی بیوی کو ختم کر دیا تھا اور اب ان کے بیٹے کو ختم کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ اس کے جرم کا چشم دید گواہ تھا۔ صرف روحان ہی اسے شناخت کر سکتا تھا اور روحان کی گواہی اسے پھانسی کے تختے پر پہنچا سکتی تھی۔ وہ ہر صورت میں روحان کو ختم کرنا چاہتا تھا اور اس چکر میں اس نے شمشیر سنگھ سے بھی دشمنی مول  لی تھی۔ شمشیر سنگھ کا ایک بندہ مارا گیا تھا اور دوسرا زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔

تمہیں میری دشمنی مہنگی پڑے گی رانے۔۔۔ وہ مٹھیاں بھینچ کر بڑبڑایا۔۔۔ میں دنیا کے آخری کونے تک تمہارا پیچھا کروں گا۔ پاتال میں بھی نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔

رانا کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ دانت کچا چانے لگا۔اُس کے  جبڑوں کے مسل ابھر آئے تھے۔ پہلے تو وہ اپنے جگری دوست فرقان  اور اس کی بیوی کے قتل کا انتقام لینا چاہتا تھا لیکن اب اس میں ذاتی انتقام کا عنصر بھی شامل ہو گیا تھا اور اب اس نے واقعی طے کر لیا تھا کہ وہ رانا کا پیچھا دنیا کے آخری کونے تک کرے گا۔ باہر کسی گاڑی کے رکنے کی آواز سن کر اس کے خیالات منتشر ہو گئے۔ اس نے چونک کر گیٹ کی طرف دیکھا۔ گیٹ بند تھا لیکن اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ دلدار سنگھ آیا ہو گا۔ دلدار سنگھ کی رہائش ریور ویلی روڈ پر تھی۔ عام حالات میں زیادہ سے زیادہ دس منٹ میں پہنچا جا سکتا تھا لیکن اُسے سوتے سے جگایا گیا۔ تیار ہونے میں کچھ وقت لگا ہو گا۔ اب بیس پچیس منٹ ہو چکے تھے۔ انہی کی گاڑی ہوگی اور پھر دلدار سنگھ کی آواز سن کر اس کی تصدیق ہو گئی۔ گیٹ پر متعین پولیس والے اسے روک کر سوال و جواب کر رہے تھے۔ شمشیر سنگھ نے آگے بڑھ کر گیٹ کھول دیا ۔

نہیں اندر آنے دو کانسٹیبل۔ ۔۔اس نے ایک کانسٹیبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

 وہ دونوں اندر آگئے۔ شمشیر سنگھ نے گیٹ بند کر دیا۔

کیا ہو گیا بھایا ۔۔۔ دلدار سنگھ آگے بڑھتے ہوئے بولا۔

 ہونا کیا ہے۔ وہ شیطان ہاتھ دھو کر اس معصوم کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔۔۔ شمشیر سنگھ نے ان کے ساتھ چلتے ہوئے کہا ۔۔۔آج بھی وہ اسے اٹھانے آئے تھے لیکن جب تک شمشیر سنگھ زندہ ہے،  وہ اس بچھو نگڑے پر آنچ نہیں آنے دے گا۔

کہاں ہے وہ ؟۔۔۔ سر یندر کور نے پوچھا۔

اندر کمرے میں سو رہا ہے۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا

کتنا معصوم سا بچہ ہے یار۔ اس پر کیسے کیسے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اس روز اس کی نظروں کے سامنے اس کے ماں باپ کو  بے دردی سے قتل کر دیا اور آج اس کی کنپٹی پر پستول رکھ دیا۔ کیا حالت ہوئی ہوگی اس معصوم کی۔ اور دربار سنگھ کیسے مرا۔ سو تر سنگھ کیسا ہے؟ ۔۔۔دلدار سنگھ نےایک ساتھ سارے سوال پوچھے۔ وہ باتیں کرتے ہوئے لاونج میں آگئے تھے۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اپنی گردن کی ہڈی کیسے تڑوا بیٹا۔ سو تر سنگھ بھی ابھی تک بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ میں اسپتال جانا چاہتا تھا لیکن اس لڑکے کو نہ تو یہاں اکیلے چھوڑ سکتا تھا اور نہ ہی ساتھ لے جاسکتا تھا۔ اسی لیے میں نے تم لوگوں کو بلوالیا ہے پا بھو۔

وہ سریندر کور کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔ تم کچن میں جاکر چائے بنالو۔ آنکھوں میں جلن اور دماغ میں دھماکے سے ہو رہے ہیں۔ ایک کپ چائے پی لوں تو پھر اسپتال جا کر سوتر سنگھ کا پتا کروں۔ ساری چیزیں کچن میں موجود ہیں دودھ کی بوتل بھی فریج میں رکھی ہوئی ہے۔

سریندر کو رکچن میں چلی گئی۔ وہ تینتیس چونتیس سال کی ایک بھر پور جوان عورت تھی۔ قد لمبا اور حسن بھی اوپر والے نے اسے جی بھر کے دیا تھا۔ وہ اس وقت شلوار قمیص پہنے ہوئے تھی۔ دلدار سنگھ کی عمراڑتیس  سال تھی۔ وہ بھی صحت مند جسم اور لمبے قد کا مالک تھا۔ وہ سلیپنگ سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ سر پر پگڑی نہیں تھی۔ بال سفید نیٹ میں کھوپڑی پر جوڑے کی طرح پھنسے ہوئے تھے۔ سیاہ گول داڑھی اس کے چہرے پر بڑی بھلی لگ رہی تھی۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page