A Dance of Sparks–154–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 154

اور میں نیچے لیٹے لیٹے ہی شاور کے پانی کا اُس کے ریشمی جسم پر اٹکیاں کرتے اور پھسلتے ہوئے  نظارہ کرنے لگا۔تھوڑی دیر بعد اُس نے اپنی آنکھیں کھولی اور میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھادیا ۔ تو میں بھی اُس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا ہوا اور ہم دنوں شاور کے نیچے کھڑے ہوکر ایک دوسرے کے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک دوسرے کو نہلا دھلاکر صاف کیا اور پھر تھائی نے ٹاول اُٹھا کر مجھے خشک کیا اور دھکا دے کر واشروم سے باہر نکلنے کا اشارہ کیا تو میں بھی مسکراتا ہوا باہر نکلا۔ اور بیڈ کے پاس آکر اپنا شورٹ اور شرٹ پہنا اور بیڈ پر نیم دراز ہوکر لیٹ گیا۔

واشروم کا دروازہ کھلنے کی آواز سُن کر میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو تھائی بھی ایک شرٹ اور لوئر پہن کر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باہر نکلی اور تھوڑی دیر کھڑی ہوکر پھر سے آہستہ سے قدم اُٹھایا تو اُس کے چہرے پر ہلکے سے درد کا تاثر جھلکا تو میں جلدی سے اُٹھ کر اُس کی طرف بڑھا اور اُس کو اپنے ساتھ لگا کر چلاتا ہوا بیڈ پر لا کر لیٹا دیاوہ بھی دھیمی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ ہی بیڈ پر لیٹ گئی اور مجھے بھی اپنے ساتھ لٹا دیا۔

تھائی ۔۔آج کیا ہوگیا تھا تمہیں ۔۔۔میں نے دھیرے سے کہا۔۔۔آج تو تم نے کچھ نیا ہی کردیا۔

کیوں ۔۔کیا مزہ نہیں آیا۔۔۔تھائی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔مہاراج نے تو تمہیں جسمانی اور لڑائی کی تربیت میں ماہر کردیا ۔ اب میں تمہیں سیکس کی تربیت دوں گی۔۔اور جو بھی تمہارے نیچے آئے گی ۔۔وہ تمہاری دیوانی ہوجائے گی۔

تھائی کی بات سُن کر میں بس اُس کے چہرے کو ہی دیکھتا رہ گیا۔

حیران کیوں ہورہے ہو۔۔۔تھائی نے اُسی طرح سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ میں بہت اچھے سے سمجھتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں بہت سی لڑکیاں آنے والی ہیں ۔۔اور اگر تم اُن کو سیٹیسفائی نہ کرسکوں تو پھر یہ میری کمبختی ہوگی۔ اس لیئے میں تمہیں وہ سب کچھ سیکھاؤں اور بتاؤں گی جو بھی مجھے آتا ہے یا میں نے دیکھا اور سُنا ہے ۔ اور اُسی کی وجہ سے تم ایک شاندار مرد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زبردست قسم کے سیکس پارٹنر بھی بن جاؤ گے۔

تھائی کی بات سُن کر مجھے شینو کی باتیں یاد آگئی کہ ۔۔مجھے سیکس کے لیئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ بہت سی لڑکیاں اسی جلن میں میری دشمن ہوسکتی ہیں اگر میں اُن کے ساتھ سیکس نہ کر کے اُن کی خواہشات کو پورا نہ کیا تو۔۔۔ لیکن تھائی کو میں یہ نہ بتا سکا اور اُس کو کہا

نہیں تھائی ۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔ میں تمہارے ساتھ ہی خوش ہوں ۔۔۔ مجھے کسی اور کے ساتھ سیکس کرنے ایک تو ضرورت نہیں ہے اور دوسرا مجھے اس کی خواہش بھی نہیں ہے ۔

نہیں روحان۔۔۔تھائی نے میرے چہرے پر کس کرتے ہوئے کہا۔۔۔ یہ تمہاری غلط فہمی ہے ۔۔تم اب جس زندگی میں قدم رکھ رہے ہو وہاں قدم قدم پر تمہارا ایسی عورتوں سے پالا پڑے گا ۔ جن سے تم نے کام لینا ہوگا ۔۔اور وہ تم سے اپنی خواہشات کے لیئے ملنا چاہیں گی ۔ تو اگر تم اُن کی خواہشات پر پورے نہ اُترے تو وہ تمہیں کہیں بھی پھنسا سکتی ہیں ۔ ۔اور اگر تم ان کو اچھی طرح سے سیٹیسفائی کر کے اُن کو بے دھم کردو گے تو وہ تمہاری غلام بن جائے گی۔ پھر جو تم اُن کو کہوگے وہ  ہرقیمت پر کرنے کے لیئے تیار رہیں گی۔

ہمممم۔۔۔میں نے ہنگارہ بھرا۔۔۔ لیکن

بس لیکن ویکن کچھ نہیں ۔۔تھائی نے میرے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔۔۔بس  جب بھی جیسا بھی ۔۔اور جس کے ساتھ بھی میں کہوں تم نے بغیر کچھ کہے میری بات ماننی ہے ۔ ۔ کیونکہ تم اپنے اناڑی پن کی وجہ سے ان کاموں میں مارکھاسکتے ہو۔

پھر ہم ایسے ہی لیٹے رہے اور ہم دونوں سیکس کی تھکن  کی وجہ سے نیم عنودگی میں چلے گئے۔شاید میں سو جاتا لیکن ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز سے میں چونک گیا۔ گہری خاموشی میں وہ آواز بم کے دھماکے سے کم ثابت نہیں ہوئی تھی۔ میرے برابر میں لیٹی  ہوئی تھائی بھی اچھل پڑی۔ کئی روز سے ٹیلی فون اسی کمرے میں رکھا ہوا تھا۔ تھائی نے متوحش نظروں سے پہلے میری طرف دیکھا اور پھر سرہانے کی طرف ایک سائڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے ٹیلی فون کی طرف دیکھنے لگی۔

اس وقت … کس کا فون ہو سکتا ہے ؟ وہ کچھ نروس سی نظرآرہی تھی ۔

شاید جانکی دیوی ہو۔ اس کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔۔۔ میں نے کہا۔

تھائی وانگ نے ریسیور اٹھالیا۔ وہ ریسیور کان سے لگائے خاموش رہی۔ اس نے ہیلو بھی نہیں کہا تھا اور جب دوسری طرف سے ہیلو کہا گیا تو وہ بولی۔

ہیلو۔ کون ہو تم ۔۔ کس سے بات کرنی ہے ؟

اور پھر دوسری طرف کی آواز سن کر تھائی کے چہرے پر طمانیت سی آگئی۔ اس نے رامن پرساد کا نام لیتے ہوئے ریسیور میری طرف بڑھا دیا۔

ہیلو پر سادہ کہاں غائب ہو۔ خیریت تو ہے؟۔۔۔ میں نے ماؤتھ پیس میں کہا۔ سوری باس ۔۔ اتنے دن تک تمہیں اطلاع نہیں دے سکا۔۔۔ ریسیور پرساد کی آواز سنائی دی ۔۔۔دراصل کچھ ایسی صورت حال میں پھنس گیا تھا کہ مجھے تم سے فون پر بھی رابطہ کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ میرے پاس کچھ دلچسپ اور سنسنی خیز اطلاعات ہیں۔ اگر تم جاگ رہے ہو تو میں آجاؤں۔

تم اس وقت کہاں سے بول رہے ہو ؟ میں نے پوچھا۔

وانگ و نگ پائے ریلوے اسٹیشن کے ایک پبلک فون ہو تھ سے۔۔۔ پرساد نے جواب دیا۔۔۔مجھے وہاں پہنچنے میں چند منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے۔

ٹھیک ہے۔ آجاؤ۔ میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔ میں نے کہہ کر ریسیور تھائی وانگ کی طرف بڑھا دیا جسے اس نے کریڈل پر رکھ دیا ۔

وہ وانگ و نگ پائے ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے۔ چند منٹ میں پہنچ جائے گا۔۔۔ میں نے تھائی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

 وانگ ونگ پائے ریلوے اسٹیشن کنگ ٹاکسن کے مجھے والے چوراہے سے ذرا آگے تھا۔ ہمارے گھر کا فاصلہ آدھے میل سے زیادہ نہیں تھا اور میرے خیال میں رامن پرساد کو زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ میں پہنچ جانا چاہیے تھا۔ میرا خیال درست نکلا۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد کال بیل کی آواز سنائی دی۔ تھائی نے اس وقت سلینگ سوٹ پہن رکھا تھا۔ اس نے ٹیبل پر رکھی ہوئی پھل کاٹنے والی چھری اٹھائی اور میری طرف دیکھتے ہوئے باہر نکل گئی۔ چند منٹ بعد وہ رامن پرساد کے ساتھ اندر داخل ہو رہی تھی۔

رامن پر ساد نیلے رنگ کی بیل بائم پتلون اور سفید شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ کلین شیو اور سلیقے سے بنے ہوئے بال۔ وہ خاصا اسمارٹ لگ رہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر پہلے مجھ سے ہاتھ ملایا پھر پیشانی پر بوسہ دیا اور بیڈ کے قریب بیٹھ کر میری خیرو عافیت دریافت کرنے لگا۔

کہاں غائب رہے ؟۔۔۔ بالآخر میں نے پوچھا ۔۔۔ اور وہ دلچسپ اور سنسنی خیز خبریں کیا ہیں جن کا تم نے ٹیلی فون پر ذکر کیا تھا۔

 ان چند دنوں کے دوران میں، میں یہ جان چکا ہوں کہ شوچائی اور رانا کون ہیں اور وہ تمہارے دشمن کیوں ہیں۔۔۔ رامن پرساد نے کہا

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page