A Dance of Sparks–156–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 156

 ہاں۔ یہ بات ہو سکتی ہے۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔ عورت کی فطرت بڑی عجیب ہوتی ہے۔ وہ جب کسی مرد کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیتی ہے تو اسے اپنی ملکیت سمجھ لیتی ہے اور جب وہ مرد کسی اور عورت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ اسے پسند نہیں کرتی اور بعض اوقات تو وہ ایسا بھیانک انتقام لیتی ہے کہ دیکھنے والے کانپ اٹھتے ہیں۔ اب تمہیں کرنا یہ ہے کہ باتوں کا جال بچھا کر پا میلا کو اپنی گرفت میں لے لو،  اور کسی طرح اس سے سنگا پور کے ان تینوں آدمیوں کے نام وغیرہ معلوم کرنے کی کوشش کرو جو رانا  کی سینڈیکیٹ کے عہدے دار ہیں۔ یہ کام تمہیں بڑی ہوشیاری سے کرنا ہو گا۔ اگر اسے ذرا بھی شبہ ہو گیا تو تمہاری زندگی کا چراغ گل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی تمہیں ایک اور کام بھی کرنا ہو گا۔

وہ کیا؟۔۔۔ پرساد نے پوچھا۔۔۔ چائنا ٹاؤن کے علاقے میں ایک مختصر سا فلیٹ کرائے پر لے لو تاکہ تمہارے پاس ایک عارضی ٹھکانا ہو جائے۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔اگر تمہیں مزید پیسوں کی ضرورت ہو تو ۔۔۔

میرے پاس اتنے پیسے ہیں کہ میں مزید ایک مہینہ آرام سے گزار سکتا ہوں۔۔۔ پرساد نے جواب دیا۔۔ تو ٹھیک ہے۔ اب میں چلتا ہوں۔

ر کو گے نہیں ؟۔۔۔ میں نے پوچھا۔

نہیں۔۔۔ پر ساد نے نفی میں سرہلایا۔۔۔ اگر رات بھر غائب رہا تو کہیں پا میلا کو کسی قسم کا شبہ نہ ہو جائے۔

 اد کے۔ وش یو گڈ لک۔۔۔ میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا

سیم ٹویو۔۔۔ پر ساد نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا۔

 اس کے جانے کے بعد تھائی گیٹ بند کر کے آئی تو وہ سیٹی پر لیٹنے کے بجائے کرسی پر بیٹھ گئی۔ میری طرح شاید اب اس کی نیند بھی غائب ہو گئی تھی۔

سوری روحان۔ مجھے اس لڑکے کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔ تھائی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

 تو۔۔ آج تو میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں سوچنے لگا تھا۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر ہم پر سادہی کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔

پرساد نے مجھے مایوس نہیں کیا تھا۔ میں نے اسے صرف ایک وقت کا کھانا کھلایا تھا اور وہ میرا زر خرید غلام بن گیا تھا۔ میرا اس پر کوئی دباؤ نہیں تھا لیکن وہ دوستی کے نام پر میرے لیے اپنی جان تک لٹانے کو تیار ہو گیا تھا۔ وہ واقعی ایک سچا اورکھرا آدمی تھا۔ اگر وہ نہ ملتا تو رانا کے بارے میں یہ تمام معلومات حاصل نہ ہو تیں۔ مجھے پتا ہی نہ چلتا کہ وہ سنگا پور میں سینڈیکیٹ قائم کر چکا تھا۔ اس کا پاکستان سے سنگاپور آنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ وہاں ہیروئن کی اسمگلنگ کا اڈا بنانا چاہتا تھا،  لیکن میرے باپ کو وہ اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتا تھا۔ اس نے میرے باپ کو تو راستے سے ہٹا دیا تھا لیکن میں موجود تھا۔ میں نے طے کرلیا تھا کہ دارا کو اس کے گھناؤنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔

 ایک ہفتہ اور گزر گیا۔ رامن پرساد پھر گدھے کے سرسے سینگوں کی طرح غائب ہو گیا تھا،  لیکن اب مجھے اس کی طرف سے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ وہ ایک دلیر اور ذہین نوجوان ہے اور ہر قسم کی صورت حال کا مقابلہ کرنا جانتا ہے اور اس کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ میں اب کسی سہارے کے بغیر چلنے لگا تھا۔ زخموں سے خون بہہ جانے سے میرے اندر جو کمزوری پیدا ہوئی تھی وہ بتدریج دور ہو رہی تھی۔ جانکی دیوی کی دی ہوئی دوائیں بڑی تیزی سے اپنا اثر دکھا رہی تھیں اور سب سے بڑھ کر تھائی وانگ کی تیمارداری اور محبت ،  مجھے اس عورت پر حیرت ہو رہی تھی۔ اس نے میرے لیے دن رات ایک کر دیا تھا۔ وہ اس طرح میری دیکھ بھال کر رہی تھی کہ کوئی ماں اپنے بچے کی دیکھ بھال بھی نہ کرتی ہوگی لیکن وہ مجھے اپنا بچہ تو بہرحال نہیں سمجھتی تھی۔ ہم دونوں کے جسمانی تعلق کے بعد یہ رشتہ تو ختم ہی ہوچکا تھا، ویسے  میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس نے ذہنی طور پر مجھ سےجو  رشتہ وابستہ کر رکھا تھا، اس کا مستقبل کیا ہوگا ،  لیکن اس رشتے کی گہرائی کا اندازہ بہر حال میں لگا سکتا تھا۔

جانکی دیوی اب روزانہ نہیں دو تین دن کے وقفے سے آتی تھی۔ مجھے اس تیزی سے روبہ صحت ہوتے دیکھ کر وہ بھی حیران تھی۔ اس رات وہ مجھے دیکھنے کے لیے آئی تو میں حسب معمول  لان میں ٹہل  رہا تھا۔ تھائی لان کے بیچ میں کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی اُس  نے میری ایکسر سائز میں بھی ناغہ نہیں ہونے دیا تھا،  اور میرا خیال  ہے، یہ تھائی وانگ ہی تھی جس کی وجہ سے میں اس وقت چل پھر رہا  تھا۔ اگر وہ نہ ہوتی تو میں اب تک شاید بستر پر ہی پڑا ہوتا، لیکن  تھائی نے میرے اندر اتنی ہمت پیدا کی تھی اور اب تو وہ مجھے ایک ایک گھنٹے تک واک اور ہلکی پھلی ایکسرسائز  اپنی نگرانی میں ہی کرواتی  رہتی تھی۔

اس وقت رات کے ساڑھے دس بجے تھے۔ مجھے واک کرتے ہوئے  آدھا گھنٹا ہو چکا تھا۔ کبھی میں رک کر تھائی سے باتیں کرنے لگتا اور کبھی پھر چلنے لگتا۔ اسی دوران میں ایک کارگیٹ کے سامنے اگر اس طرح رکی کہ اس کی ہیڈلائٹس کی روشنی گیٹ کی جھریوں سے اندر آنے لگیں۔ میں لان کے اس حصے کی طرف چلا گیا جہاں پودوں کی بہتات تھی۔ پودوں کے پیچھے دیوار کے ساتھ چلتا ہوامیں گیٹ کے قریب پہنچ کر پودوں کے پیچھے رک گیا۔ تھائی ابھی تک کرسی پر ہی  بیٹھی ہوئی تھی اور جب کال بیل کی آواز سنائی دی تووہ اُٹھ کر گیٹ  کی طرف چلنے لگی۔ میں بھی تیار کھڑا تھا کہ اگر کوئی گڑ بڑ ہو توکوئی کارروائی کر سکوں۔ تھائی نے میری طرف دیکھا اور گیٹ کولنے سے پہلے اونچی آواز میں پوچھا۔

 کون ہے۔۔ با ہر کون ہے؟

میں ہوں۔ جانکی۔۔

یہ آواز سن کر میرے منہ سے بھی گہرا سانس نکل گیا۔ تھا ئی نے گیٹ کھول دیا اور جانکی اندر آگئی۔ اس نے ایک  باسکٹ  بھی اٹھا رکھی تھی جس میں ضرورت کی اور چیزوں کے علاوہ پھل وغیربھی تھے۔

جانکی دیوی بھی کچھ دیر ہمارے ساتھ وہاں بیٹھی رہی اور پرہم اندر آگئے۔ جانکی نے خود ہی باسکٹ سے چیزیں نکال کر میز پر رک دیں اور دو سیب پلیٹ میں کاٹ کر لے آئی۔

مجھے توقع نہیں تھی کہ تم اتنی جلدی بستر سے اٹھ کر اس طرح چلنے پھرنے لگو گے۔۔۔ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ میں تمہارے حوصلے اور قوتِ ارادی کی داد دیتی ہوں۔ بعض لوگ تو معمولی سی تکلیف پر بھی مہینوں بستر سے لگے پڑے رہتے ہیں اور تمہاری طرح مضبوط قوت ارادی کے مالک لوگ بیماری کی حالت  میں بھی بستر پر لیٹنا پسند نہیں کرتے۔

اس میں قوت ارادی کا دخل تو ہے لیکن۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔میرے اس طرح چلنے پھرنے میں تھائی کی کوششوں کا زیادہ دخل ہے۔ اگر یہ نہ ہوتی تو میں اب تک واقعی بستر پر پڑا ہوتا۔

ہاں میں تھائی کی ہمت  کے ساتھ ساتھ اُس کی قسمت کی بھی داد دوں گی۔ ۔۔جانکی نے معنی خیز انداز میں کہا ۔۔۔اچھا۔ باقی باتیں بعد میں  اب تم اپنا بازو دکھاؤ۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page