A Dance of Sparks–157–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ بلکل فری ہے اس  پر موجود ایڈز کو ڈسپلے کرکے ہمارا ساتھ دیں تاکہ آپ کی انٹرٹینمنٹ جاری رہے 

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے وہ ایک ایسی جگہ  پہنچ گیا  جہاں زندگی کی رنگینیاں اپنے عروج پر تھی۔  تھائی لینڈ جہاں کی رنگینیوں اور نائٹ لائف کے چرچے پوری دنیا میں دھوم مچاتے ہیں ۔وہاں زندگی کے رنگوں کے ساتھ اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔ اور لڑکیوں کے دل کی دھڑکن بن کے اُبھرا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  اس طرح کی کہانیاں  آپ بیتیاں  اور  داستانین  صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹر لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ اور کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ آپ  کو ایکشن ، سسپنس اور رومانس  کی کہانیاں مہیا کر کے کچھ وقت کی   تفریح  فراہم کر رہی ہے جس سے آپ اپنے دیگر کاموں  کی ٹینشن سے کچھ دیر کے لیئے ریلیز ہوجائیں اور زندگی کو انجوائے کرے۔تو ایک بار پھر سے  دھرایا جارہا ہے کہ  یہ  کہانی بھی  صرف کہانی سمجھ کر پڑھیں تفریح کے لیئے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ شکریہ دوستوں اور اپنی رائے کا کمنٹس میں اظہار کر کے اپنی پسند اور تجاویز سے آگاہ کریں ۔

تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 157

میں جانکی دیوی کی بات سُن کر حیران نظروں  سے اُسے  ایکھنے لگا لیکن ساتھ ساتھ ہی میں نے شرٹ کی آستین اوپر اٹھادی۔ پٹی تو کئی روز پہلے اُتار دی تھی ، اب  زخم کی جگہ پر اور اس کے آس پاس سرخ نشان سارہ  گیا تھا تھا جس  پر یا قاعدی سے مرہم لگایا جا رہا تھا۔

جانکی نے سر ہلا دیا، اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

اب   اس صوفے پر لیٹ جاؤ۔ میں تمہاری پنڈلی کے زخم کا بھی معائنہ کرلوں۔

میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا۔

اب ٹھیک  ہے۔ ۔۔وہ میری ٹانگ کا معائنہ کرنے کے بعد بولی۔۔۔یہ دوائیں ابھی  استعمال کرتے رہو۔ صرف چند روز کی بات ہے اس کے بعد گھوڑے کی طرح دوڑنے لگو گے۔ اور سواری بھی اچھی کروں گے۔جانکی دیوی  معنی خیز انداز میں تھائی کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے بولی ۔ اور تھائی بھی اُس کے ساتھ ہنسنے لگی۔ اور اُس کی بات سُن کر جھینپ سا گیا ۔ اُس کا مطلب میں بخوبی سمجھ گیا تھا، وہ تھائی کی بیسٹ فرینڈ تھی اور تھائی نے لازمی ہمارے درمیان جو کچھ ہوچکا تھا اُس پورا نہیں تو اشاروں میں ہی سہی بتایا لازمی تھا۔

تھوڑی دیر بعد اپنی ہنسی روکھ کر جانکی باری  باری ہم دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔ اب تمہارے لیے میرے پاس ایک اور اطلاع ہے؟

کیا ہے ۔۔۔میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

کل  شام ایک بھکشو میرے کلینک پر آیا تھا۔۔۔ جانکی نے کہا ۔۔۔کسی بھکشو  کا کلینک پر آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سرکاری اسپتال کے باوجود یہ بھکشو لوگ اپنا علاج کرانے کے لیے جس کلینک میں چاہیں چلے  جاتے ہیں،  لیکن وہ بھکشو بیمار نہیں تھا۔

تو پھر؟ ۔۔۔میں نے الجھی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

وہ مجھے کسی عورت کو دکھانے کے لیے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔۔۔ جانکی نے کہا اور چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولی۔۔۔ اس وقت کلینک پر کچھ مریض موجود تھے۔ میں نے اسے ایک گھنٹے بعد آنے کو کہا ، اور ایک گھنٹے بعد جب میں کلینک بند کرنے کے لیے اُٹھی تو وہ بھکشو ایک طرف بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا۔  مجھے اس کے ساتھ  جانا پڑا۔ وہ بھکشو مجھے سیلوم روڈ کی ایک بغلی گلی میں واقع عمارت میں لے گیا جس کی  تیسری منزل پر واقع فلیٹ میں وہ مریض مو جود تھی۔ جسے وہ دکھانا چاہتا تھا۔

 وہ  عورت کون تھی ؟۔۔۔ میں نے پوچھا۔

 میں اسے نہیں جانتی۔ اس کا نام شائی وان ہے۔ بھکشو نے بتایا کہ یہ لڑکی اسے سڑک پر بڑی ابتر حالت میں پڑی ہوئی ملی تھی، تو وہ اُسے  اٹھا کر اپنے فلیٹ میں لے آیا۔ پڑوس کے فلیٹ میں رہنے والی عورت کی مدد سے اس کا حلیہ درست کروایا اور اس بلڈنگ میں رہنے والی ایک نرس کو بلالیا ، لیکن بات نرس کی سمجھ میں نہیں آئی یا جان بوجھ کر وہ پیچھے ہٹنا چاہتی تھی۔ اس نے مشورہ دیا  کہ اس  لڑکی کو اسپتال لے جایا جائے اور وہ بھکشو اسپتال لے جانے  کے بجائے میرے پاس آگیا۔

کیا نام بتایا تھا تم نے ؟ شائی وان؟۔۔۔ میں نے پوچھا۔

 بڑی خوب صورت سی لڑکی ہے۔۔۔ جانکی نے جواب دیا۔

بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ ۔۔ میں بڑ بڑایا ۔۔۔بھکشو تو عام طور  پر کونوں  قدروں یا پھر ٹمپل  ہی میں رہتے ہیں۔ اگر اسے ابتر حالت میں کوئی عورت سڑک پر پڑی  ہوئی مل گئی تھی تو وہ اسے کسی سرکاری اسپتال میں پہنچا دیتا،  لیکن فلیٹ میں۔۔۔۔

تم یہاں کے بھکشو وں کو نہیں جانتے۔۔۔ جانکی نے کہا ۔۔۔ یہ لوگ تو ہمارے مندروں کے پجاریوں سے بھی چا رہاتھ آگے ہیں۔ بعض لوگ تو محض اس لیے بھکشو وں  کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں کہ ان سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ ایسے بھکشو کرو ڑپتی ہوتے ہیں۔ وہ ناجائز ذرائع سے دولت سمیٹتے ہیں اور ایسے ایسے غیر قانونی دھندے کرتے ہیں جن کے بارے میں سن کر ہم جیسے لوگوں کی گردن شرم سے جھک جاتی ہے۔ میرا خیال ہے، تھائی نے تمہیں کوئی نہ کوئی ایسی کہانی ضرور سنائی ہوگی۔

 کہانی سنانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہے۔ ۔۔تھائی وانگ نے کہا۔۔۔شو فانگ کو تو تم نہیں بھولے ہوگے جس نے ہمیں پہاڑ والے کا ٹیج سے اغوا کروایا تھا۔ وہ بھی تو ایک بھکشو ہی تھا۔

میں اسے کیسے بھول سکتا ہوں۔۔۔ میرے منہ سے گہرا سانس نکل گیا ۔۔۔بہر حال تم کچھ بتا رہی تھیں۔ ویسے شائی وان کے نام سے ایک چہرہ میرے ذہن میں ابھر رہا ہے۔ پہلے تم اپنی بات پوری کرو پھر میں بتاؤں گا۔

میں نے شائی وان کا معائنہ کیا تو انکشاف ہوا کہ وہ ماں بننے والی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ ہیروئن کی عادی بھی ہے۔۔۔ جانگی نے کہا ۔۔۔میں نے تھنگ جو نامی اس بھکشو کو بتا دیا کہ میں اس کا علاج نہیں کر سکتی۔ وہ اسے سرکاری اسپتال لے جائے۔

 میں اچھل پڑا ۔ شائی وان اور پھر یہ نام تھنگ چو۔ میں نے جانکی سے اس کا حلیہ پوچھا ، تو میرے دماغ میں دھماکے سے ہونے لگے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ تنگ چو وہی بھکشو تھا جو جنگل والے کیمپ میں میرا حریف تھا ، اور جسے میں نے مہاراج کی موجودگی میں ایک مقابلے میں زبردست شکست دی تھی اور اس نے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے تھائی وانگ کو ہیروئن کا عادی بنا دیا تھا۔ میں نے تھائی کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات

بھی بدل گئے تھے۔

یہ وہی شیطان ہے۔۔۔ وہ چیخ اٹھی۔

اور شائی وان نامی یہ لڑکی بھی وہی ہے جو مجھے ایک ٹائٹ کلب میں ملی تھی اور ایک مکان میں لے آئی تھی جہاں مجھے اور اسے زندہ جلانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ تو گانگ کی تحویل میں تھی جسے پر شا سانگ کھرو روڈ کے ایک بنگلے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ وہ چی فانگ اور ٹائیگر کے خوف سے خود بھی وہاں سے نہیں جانا چاہتی تھی۔ لیکن ۔۔۔میں خاموش ہو کر تھائی وانگ کی طرف دیکھنے لگا

 لیکن شائی وان وہاں سے نکلی کیسے۔۔۔ تھنگ چو کے ہاتھ کیسے لگ گئی اور وہ بھی اس حالت میں کہ ۔۔۔میں نے ایک بار پھر خاموش ہو کر جانکی دیوی کی طرف دیکھا۔۔۔کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہارے گرد کوئی جال نہیں بنا جا رہا۔ تھنگ چو بہت خطرناک آدمی ہے۔ مجھ سے اپنی عبرت ناک شکست کا بدلہ لینے کے لیے اس نے تھائی کو ہیروئن کا عادی بنا کر موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی تھی۔ کہیں اسے شبہ تو نہیں ہو گیا کہ تمہارا ہم سے کوئی تعلق ہے۔ اور اس طرح تمہارے ذریعے وہ ہم تک پہنچنا چاہتا ہو؟

 یہ تو میں نہیں کہہ سکتی کہ اسے مجھ پر کوئی ایسا شبہ ہے یا نہیں لیکن اس طرف آتے ہوئے میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتی ہوں کہ میری نگرانی یا تعاقب تو نہیں ہو رہا۔ آج بھی میں نے اس بات کا خیال رکھا تھا۔۔۔ جانکی نے جواب دیا۔

اس کے بعد تھنگ چونے دوبارہ تم سے رابطہ نہیں کیا ؟۔۔۔میں نے پوچھا۔

نہیں۔۔۔ جانکی نے نفی میں سر ہلا دیا ۔

اب تم خود اس سے رابطہ کروگی۔ ۔۔ میں نے اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کیا۔۔۔ میرا مطلب ہے اس کے فلیٹ پر جاؤ گی اور شائی وان سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کردگی کہ وہ تنگ چو کے ہاتھ کیسے لگی اور اصل معاملہ کیا ہے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

Leave a Reply

You cannot copy content of this page