رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر- 16
ولدار سنگھ سے شمشیر کی دوستی بڑی پرانی تھی۔ شہر میں چلنے والی تین درجن ٹیکسیاں اور تقریباً چالیس ٹریشا اس کی ملکیت تھے۔ وہ یہ گاڑیاں کرائے پر چلاتا تھا۔ تقریباً بیسں سال پہلے جب وہ سنگا پور آیا تھا تو اس نے کرائے پر ٹریشا لے کر چلانا شروع کیا تھا۔ وہ اس وقت اٹھارہ سال کا نوجوان تھا۔ کام اور محنت کا جذبہ تھا۔ وہ یہ آرزو لے کر سنگا پور آیا تھا کہ محنت کرے گا اور کمائے گا۔ اس نے واقعی محنت کی اور کمایا ۔ ایک سال کی محنت سے اس نے ایک سیکنڈ ہینڈ ٹریشا خرید لیا پھر دوسرا پھر تیسرا۔ ٹریشا کے ساتھ اس نے ٹیکسیوں پر بھی ہاتھ ڈال دیا اور اب بیس سال گزرنے کے بعد وہ ٹریشا اور ٹیکسیوں کے حوالے سے سنگا پور کی سب سے بڑی پارٹی تھی۔ دوسرے ممالک خاص طور پر ہندوستان سے روزگار کی تلاش میں آنے والے لوگ جب ہر طرف سے مایوس ہو جاتے تو دلدار سنگھ کے پاس آجاتے۔ وہ انہیں بغیر کسی ضمانت یا سیکورٹی کے ٹیکسی یا ٹریشا کرائے پر دے دیتا۔ ویسے اس کے زیادہ تر ڈرائیور مستقل ہی تھے۔ دلدار سنگھ کی روزانہ کی آمدنی ہزاروں میں تھی۔
اس نے ریور ویلی روڈ پر ایک شان دار بنگلا بنا رکھا تھا۔ اس کی شادی بھی سنگا پور میں رہنے والی ایک سکھ فیملی میں ہوئی تھی اور یہ رشتہ کرانے میں شمشیر سنگھ کا بھی ہاتھ تھا۔ سریندر کور حسین ہونے کے ساتھ بڑی سگھڑ اور تعلیم یافتہ تھی لیکن اوپر والے نے ان دونوں کو ابھی تک اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رکھا تھا۔ مگر وہ مایوس نہیں تھے۔ دلدار سنگھ کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن اوپر والا ان کی جھولی بھی بھر دے گا۔
سر یندر کو ر چائے بنا کر لے آئی۔ ایک کپ اس نے شمشیر سنگھ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ دوسرا اپنے شوہر کو دیا اور تیسرا خود سنبھال کر صوفے پر بیٹھ گئی۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ باتیں بھی کر رہے تھے۔
یہ پتا نہیں چلا کہ وہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے فرقان اور اس کی بیوی کو قتل کیوں کیا اور وہ ان کے بیٹے کو کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟۔۔۔ دلدار سنگھ نے شمشیر سنگھ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
کوئی پرانی دشمنی ہے۔۔۔ شمشیر سنگھ نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے جواب دیا۔۔۔انہوں نے فرقان اور اس کی بیوی اور بیٹے کو لاہور میں بھی قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بھاگ کر یہاں آگیا۔ یہ بارہ سال پہلے کی بات ہے۔
وہ چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر فرقان کی کہانی سنانے لگا۔ سونے والی بات وہ گول کر گیا تھا۔ آخر میں وہ کہہ رہا تھا۔۔۔بارہ سال تو سکون سے گزر گئے۔ فرقان کا خیال تھا کہ وہ لوگ اسے بھول گئے ہوں گے لیکن موت کسی کو نہیں بھولتی۔ وہ دونوں تو ختم ہو گئے لیکن میں اس معصوم کو ان درندوں کے ہاتھ نہیں لگنے دوں گا۔ انہوں نے میرے گھر پر حملہ کر کے اور میرے بندے کو مار کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اب وہ میرے انتقام سے نہیں بچ سکیں گے۔
اس نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور خالی کپ میز پر رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا
اپنی گاڑی کی چابی مجھے دو۔ میں اسپتال جا رہا ہوں اور پا بھو۔ تم ذرا کا کے کا خیال رکھنا۔ میں نے تر کے تڑکے تمہیں بھی تکلیف دی۔
نہیں بھاجی۔ ۔سریندر کو ر نے جواب دیا ۔۔ تکلیف کیسی۔ بندہ ہی تو بندے کے کام آتا ہے۔
دلدار سنگھ بھی سلیپنگ سوٹ کی شرٹ سے چابیوں کا کا گچھا نکالتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے چابیوں کا گچھا شمشیر سنگھ کی
طرف بڑھا دیا اور خود بھی اس کے ساتھ ہی چل پڑا۔ شمشیر سنگھ اس کی مرسڈیز کار میں بیٹھ کر رخصت ہو گیا تو اس نے گیٹ بند کر دیا اور اندر آگیا۔
پانچ بج چکے تھے۔ رات کی تاریکی دن کے اجالے میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ سڑکوں پر ابھی صرف دودھ والوں کی گاڑیوں کی آمد و رفت شروع ہوئی تھی یا کوئی اکاد کا کار نظر آجاتی۔ شمشیر سنگھ کو سڑکیں زیادہ تر خالی ہی ملی تھیں لیکن اس کے باوجود وہ گاڑی متوسط رفتارسے چلا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مقررہ حد سے تیز گاڑی چلانا جرم تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کوئی نہ کوئی سارجنٹ کہیں نہ کہیں ضرور چھپا کھڑا ہو گا۔ تیز رفتار گاڑی کو دیکھتے ہی وہ اپنی موٹر سائیکل پر تعاقب شروع کر دے گا۔ جس کے نتیجے میں چالان تو ہو گا ہی کچھ وقت بھی ضائع ہو جائے گا۔ حالانکہ وہ اڑ کر اسپتال پہنچ جانا چاہتا تھا لیکن اس نے گاڑی کی رفتار قابو میں رکھی تھی۔ ٹینگن روڈ پر واقع اسپتال پہنچنے میں اسے پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے۔ انکوائری کاؤنٹر سے پتا چلا کہ سوتر سنگھ کو تیسری منزل پر ایک کمرے میں رکھا گیا ہے۔ شمشیر سنگھ کمرے کا نمبر دریافت کر کے تیسری منزل پر پہنچ گیا۔ وہ جیسے ہی ایک راہداری میں مڑا چند گز آگئے دو پولیس والوں کو دیکھ کر سمجھ گیا کر اس کا مطلوبہ کمرا وہی ہے جس کے سامنے پولیس والے کھڑے تھے ۔ ان پولیس والوں نے اسے کمرے میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
اوئے وہ میرا متر ہے۔ تم مجھے اندر جانے سے کیسے روک سکتے ہو۔۔۔ شمشیر سنگھ نے پولیس والے کو گھورتے ہوئے کہا۔
انسپکٹر چیانگ شو کی اجازت کے بغیر تم اندر نہیں جاسکتے۔۔۔کا نسٹیبل نے جواب دیا ۔
کہاں ہے انسپکٹر چیانگ شو۔ اسے بتاؤ سردار شمشیر سنگھ آیا ہے۔۔۔ شمشیر نے کہا۔
کانسٹیبل نے پہلے اسے گھور کر دیکھا پھر دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ اس نے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر دیا تھا۔ اس کی واپسی میں دو منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے۔ اس نے شمشیر سنگھ کو اندر جانے کا اشارہ کر دیا۔
کمرے میں انسپکٹر چیانگ شو کے علاوہ سادہ لباس میں ہومی سائیڈ کا ایک آفیسر بھی موجود تھا۔ بیڈ کے دوسری طرف ایک ڈاکٹر کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک نرس بھی تھی۔
سوتر سنگھ بیڈ پر پڑا ہوا تھا۔ وہ ہوش میں تھا مگر اس کی آنکھوں میں عجیب سی وحشت تھی۔ اسے دیکھ کر شمشیر سنگھ جلدی سے آگے بڑھا مگر انسپکٹر چیانگ شو نے اسے روک لیا اور ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ شمشیر سنگھ تڑپ کر رہ گیا۔ وہ بیڈ کے قریب سو تر سنگھ کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔ سوتر سنگھ نے اس کی طرف دیکھا بھی تھا لیکن اس کی آنکھوں میں وحشت تھی۔ شناسائی کی رمق بھی نظر نہیں آئی تھی۔ بیڈ پر جھکا ہوا ڈاکٹر سو تر سنگھ سے بار بار کچھ پوچھ رہا تھا لیکن اس نے کسی بات کا جواب نہیں دیا بلکہ وحشت زدہ نظروں سے باری باری ان سب کی طرف دیکھتا رہا۔
سوری آفیسر ۔۔۔ ڈاکٹر سیدھا ہوتے ہوئے بولا۔۔۔ ابھی تم اس کا بیان نہیں لے سکتے۔ مجھے اندیشہ ہے اس کی یادداشت اور قوتِ گویائی متاثر ہوئی ہے۔
کیا؟۔۔۔ شمشیر سنگھ کانپ اٹھا اور پھر وہ ڈاکٹراد رانسپکٹر کی پروا کیے بغیر آگے بڑھا اور سوتر سنگھ کو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا
تم بولتے کیوں نہیں سو تر سنگھ۔ میری طرف دیکھو۔ مجھے پہچانوں میں شمشیر سنگھ ہوں۔ دیکھو۔ مجھے غور سے دیکھو، پہچانو۔
سو تر سنگھ کے چہرے پر کرب کے تاثرات ابھر آئے۔ شمشیر نگھ نے اسے بری طرح جھنجوڑ ڈالا تھا۔ اس نے شمشیر سنگھ کی طرف دیکھا لیکن اس کی آنکھوں میں اجنبیت تھی۔ اس کے ہونٹوں کو بھی حرکت نہیں ہوئی تھی۔
انسپکٹر چیانگ شو نے آگے بڑھ کر شمشیر سنگھ کو بازو سے پکڑ کرپیچھے ہٹا لیا۔ اب شمشیر سنگھ ، سوتر سنگھ کو اس طرح خاموشی سے دیکھ رہا تھا جیسے اس کی اپنی قوت گویائی سلب ہو گئی ہو۔ سو تر سنگھ کے بارے میں ڈاکٹر کے سنسنی خیز انکشاف سے اس کے حواس پر بجلی سی گری تھی۔
مسٹر شمشیر سنگھ۔۔۔ انسپکٹر چیانگ شو نے اسے بازو سے پکڑ کر جھنجوڑ دیا۔۔۔ہوش میں آؤ شمشیر سنگھ۔ ہو سکتا ہے شدید صدمے کی وجہ سے وقتی طور پر اس کے حواس معتل ہو گئے ہوں اور بولنے کی سکت نہ رہی ہو۔ تم اپنے آپ کو سنبھالو۔
کیا یہ ٹھیک ہو جائے گا ڈاکٹر !۔۔۔ شمشیر سنگھ نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا ۔۔۔کیا انسپکٹر ٹھیک کہہ رہا ہے؟
ہاں۔ تمہارے آنے سے پہلے ہم یہی بات کر رہے تھے۔۔۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔۔۔یہ تقریباً ایک گھنٹا پہلے ہوش میں آیا ہے۔ عین ممکن ہے کچھ وقت گزرنے کے بعد اس کی قوت گویائی اور یادداشت بحال ہو جائے۔ بہر حال ، چند ٹیسٹ ہوں گے۔ اس کے بعد ہی کوئی حتمی بات بتائی جا سکے گی۔
اس کی زندگی کو تو کوئی خطرہ نہیں ؟۔۔۔ شمشیر سنگھ نے پوچھا۔
نہیں۔ اس کی زندگی محفوظ ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
لیکن اس زندگی کا کیا فائدہ۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا ۔۔۔ نہ یہ بول سکے گا نہ کسی کو پہچان سکے گا۔ اسے تو اپنی پہچان بھی نہیں رہے گی۔ اسے تو یہ بھی پتا نہیں ہو گا کہ یہ خود کون ہے۔
مایوس نہ ہوں مسٹر شمشیر۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا۔۔۔ ہم پوری کوشش کریں گے کہ اس کی قوت گویائی اور یادداشت لوٹ آئے۔
میں اس کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں ڈاکٹر۔ میں اپنی ساری دولت لٹا دوں گا۔ اسے بس آپ ٹھیک کردیں۔
حوصلہ رکھو مسٹر شمشیر۔ ۔۔ انسپکٹر چیانگ شو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔یہاں کھڑے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آؤ
باہر چلیں۔
ہومی سائیڈ آفیسر بھی ان کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھا
کوئی اِمپروومنٹ ہو تو مجھے فورا اطلاع دینا ڈاکٹر۔
انسپکٹر چیانگ شو نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور شمشیر سنگھ کے ساتھ کمرے سے باہر آگیا۔ اس نے دروازے پر متعین پولیس کانسٹیبلوں کو سختی سے ہدایت کی کہ اس کی اجازت کے بغیر کسی بھی غیر متعلق شخص کو کمرے میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔
وہ اسپتال کی عمارت سے باہر آکر لان میں کھڑے دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس وقت دھوپ نکل آئی تھی۔ شمشیر سنگھ کی آنکھوں میں جیسے مرچیں ہی بھر گئی تھیں اور دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے۔
اب تم گھر جاؤ شمشیر سنگھ ۔ ۔۔ انسپکٹر چیانگ شو اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔۔۔ میرا خیال ہے دربار سنگھ کی آخری رسومات بھی تمہیں ہی ادا کرنی ہوں گی اور اس سلسلے میں تمہیں انتظامات بھی کرنے ہیں۔
میرے سوا ان کا یہاں ہے بھی کون۔۔۔ شمشیر سنگھ گہرا سانس لیتے ہوئے افسردہ لہجے میں بولا۔۔۔ ان دونوں کے خاندان تو ہندوستان میں ہیں۔ میں ٹیلی فون پر دربار سنگھ کے گھر والوں کو اطلاع دے دیتا ہوں۔ اس کی ڈیڈ باڈی امرتسر بھجوانی ہو گی۔
ٹھیک ہے۔ میں پولیس کی طرف سے کاغذات تیار کر کے کسی کا نسٹیبل کے ہاتھ بھجوا دوں گا۔ تم اسپتال سے ڈیڈ باڈی منگوا لینا اور اپنا خیال رکھنا۔ تم پر بہت سی ذمے داریاں آن پڑی ہیں۔ تمہیں اس بچے کا بھی خیال رکھنا ہو گا جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ میں اس کی حفاظت کے لیے مزید انتظامات کروں گا۔ جاؤ اب تم گھر جاؤ۔
شمشیر سنگھ چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا ۔
اب کوئی مائی کا لعل کا کے تک نہیں پہنچ سکے گا۔۔۔ وہ انسپکٹر چیانگ شوسے ہاتھ ملا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور انجمن اسٹارٹ کر دیا ۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
