رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر- 18
وہ جھکتی جھکتی ٹوپے تک آئی۔۔۔ اس کے نشیلے ہونٹ ٹوپے پہ جمے اور اس نے ہلکا سا چوسا مارتے ہوئے سانسوں کو کھینچا ۔۔ اس کے چوسے سے شمشیر سنگھ کے بدن کو نشیلا جھٹکا لگا۔۔
اففف ۔۔۔ سریندر نے مستی سے سسکتےدوبارہ چوپا مارا۔۔۔ اس بار پورا ٹوپہ اس کے ہونٹوں کو رگڑتا منہ میں گھسا ۔
اففف اس کا گرم دھانہ ۔۔۔۔۔ اور اس کا جنونی چوپا۔۔۔۔ دونوں ہونٹوں سے صرف ٹوپے کو چوستے۔۔ٹوپے کے اوپر اوپر زبان کو گھماتے شمشیر سنگھ کے اندر آتش فشاں دھکاتی جا رہی تھی۔
شمشیر سنگھ نے مستی سے سر اُٹھا کر جائزہ لیا ۔۔۔ یہ کمال افت سین تھا۔۔ ٹوپے پہ ہونٹ جمائے۔۔ ٹوپے کو چوسنی کی طرح جھک کر چوستی سریندر کور کا گریبان سارے راز کھول رہاتھا۔
اس کی چھاتیوں کانظارہ آفت تھا۔۔ شمشیر سنگھ نے وحشت سے ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔ کھلے گریبان میں ہاتھ گھسایا ۔۔۔۔۔ پورے ہاتھ میں لٹکتی چھاتی کو جگڑ کر پوری مستی سے بھنچتے ہوئے مسلا۔
آااااسہ شش مم شمشیرے ۔۔۔ سریندر کور سسکتے ہوئے تھوڑا سا اوپر ہوئی۔۔۔ اس کی صراحی دار گردن کاخم ۔۔۔ مضبوط چمکتے شانے اور آفت چھاتیاں۔
سریندرکور نے بڑی ادا سے ہاتھ نیچے کر کے اپنی قمیض کو گھما کر سرکے اوپر سے نکال دی۔
قمیض کے اُترتے ہی ننگی تنی چھاتیاں ابھر کر سامنے آئیں اورسریندرکور جھکتی جھکتی پھر سے لن پر جھکی۔۔۔۔ دونوں چھاتیاں ٹوپے سےٹکرائیں۔۔ سریندر کور پوری موج میں چھاتیوں کو لن سے ٹکراتی منفرد نظارہ دے رہی تھی۔
یوں جھکنے سے اس کی اوپر کو پتلی کمر کے پیچھے چوتڑوں کاپھیلاو۔
اُفففففف ۔۔۔شمشیر سنگھ نے زور سے چوتڑوں پہ پنجا مارتے ہوئے مٹھی بھری۔
ااااہہہ شمشیرے ۔۔۔۔ سریندرکور مزے سے سسکی
اور شمشیر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے چوتڑوں کو دباتے ہوئے اس کے شلوار کو سرکانا چاہا۔۔۔ شمشیر سنگھ کی بے تابی پہ سریندرکور نےمستی سے سر جھٹکا۔۔۔یوں جھٹکنے سے دو انار ہل گئے۔۔اناروں کا ہلکورا شمشیر سنگھ کے اندر وحشت بھڑکا رہاتھا۔
شمشیر سنگھ اپنی کیفیت پہ تھوڑا سا حیران تھا۔۔۔ ایسی نشیلی کیفیت توپہلے کبھی اُس پر نہیں آئی تھی۔۔ نجانے سریندرکور آج کیا جادو کرنے پہ تلی ہوئی تھی۔ جو شمشیر سنگھ کو پگھلاتی جا رہی تھی۔
شمشیر سنگھ کی بے تابی کو دیکھتےہوئے۔۔وہ ناگن کی طرح لچکتی اوپر ہوئی۔۔اور بڑی ادا سے اپنی شلوار کو نیچے کرتے ہوئے شلوار پیروں کی طرف کسکاتی گئی ۔۔شلوار کسکتی گئی اور ۔۔ چمک دار چوتڑ اور نرم رانیں سامنے آئیں۔۔ اس کی کمر سے ایک باریک سنہری ڈوری بندھی تھی۔۔وہ آہستہ سے لہراتی اوپر ہوئی۔
شمشیرے ۔۔۔ سریندر کور کی نشیلی سرگوشی بھری۔
جبکہ شمشیر سنگھ کی نظریں اُس کی پھدی پر گڑیں تھیں۔۔۔۔ رانوں کے درمیان سریندر کی جلتی پھدی سامنے آئی۔۔۔۔افف اس کی پھدی کو دیکھ کرشمشیر سنگھ کے لن نے وحشت سے جھٹکا مارا۔۔۔ ۔ پھدی کے ہونٹ آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔پھدی کی لائن دیکھ کرشمشیر اُتاؤلا ہوچکا تھا۔۔
سریندرکور اٹھلاتی لہراتی نیچے کو بیٹھتی آئی۔۔۔۔۔ اس کی پھدی ٹوپے سے ٹکرائی۔۔۔۔ اور اس نے بے ساختہ جھر جھری لی۔
سسس اففف کیا آگ برساتا پھن ہے۔۔۔ سریندر کور کی نشیلی سسکاری نے شمشیر سنگھ کی وحشت کو چابک مارا۔
شمشیر سنگھ نے ہاتھ بڑھا کر لن کو جھٹکے سے آگے پیچھے کیا۔۔۔ جیسے کوئی ماہر ڈرائیور گئیر بدلے۔۔۔۔ بلکل ویسے اُسکا لن جھٹکے سے آگے پیچھے ہوا۔۔۔ ٹوپہ سانولی پنکھڑیوں پہ پھسلتا پنکھڑیوں کو کھولتا گیا۔۔۔
اااا بہہہ ۔۔شش شمشیرے۔۔۔۔ سریندر کور نے سسک کر پھدی کو ٹوپے پہ گھمایا
اس کا یہ گھمانا بھی آفت انگیز تھا۔۔ پتلی کمر کے نیچے بھاری چوتڑوں کا گھماؤ۔۔۔ اور پھدی کا دباؤ۔۔۔۔ ٹوپہ ہلکا سا اندر گھسا پھدی اپنی گرمی سے پھنک رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس کی پھدی کی پھڑکتی پنکھڑیاں۔۔۔۔۔ لن کے متواتر ٹکور سے پھدی اہستہ اہستہ چکناہٹ چھوڑتی بھیگتی جا رہی تھی۔
افففف ۔۔۔۔ آج تو میرا دن ہے ۔۔۔ سریندر کور سسکتے ہوئے بولی
وہ ٹوپے پہ پھدی گھماتی اپنی چھاتیوں کو شمشیر سنگھ کے ہونٹوں تک لائی۔
یہ اٹھے اٹھے دو جام ۔۔۔۔۔پکے اناروں جیسے تھے۔۔۔ اس کی چھاتیوں کے تنے نپلز۔۔۔ انار کی بور کی طرح شمشیر سنگھ کی پیاس کو بھڑکا گئے۔۔۔ شمشیر سنگھ نے پیاسے بلے کی طرح منہ مارا۔۔۔۔ شمشیر سنگھ کے ہونٹوں میں وہ شدت اور پیاس تھی جیسے کوئی انار کو ڈائرکٹ منہ لگا کر دانے دانے کو جوس جائے۔۔ شمشیر سنگھ کے بھرپور چوسے نے سریندرکور کو تڑپا کر رکھ دیا۔
ااااہہ ۔۔اُفففففف مائےےےےے ۔۔۔ اس نے تڑپ کرسسکی بھری
شمشیر سنگھ کے ہاتھ اس کے بدن پر پھسلتے پتلی کمر پہ رکے۔۔۔۔ پھدی میں دھنسا ٹوپہ اہستہ اہستہ ہل جل سے پھدی میں پوار پھنس چکا تھا۔۔۔ شمشیر سنگھ کی وحشت پوری طرح بھڑکی اور شمشیر سنگھ نے کمر پہ ہاتھ جما کر زورسے دھکا مارا۔۔۔۔ یہ پورے جوش والا دھکا تھا ٹوپہ نیزے کی طرح پھدی میں آدھے تک گھسا اور کمرہ سریندر کور کی سُریلی سسکاری سے گونج اٹھا۔
آااااہہہہ مممم ۔۔۔
آدھا لن اندر پھنس چکا تھا۔۔سریندر کور کی پھدی نرم گرم دلدل کی طرح لن کو بھنچ رہی تھی۔
افففف ہااااے ببہت کڑک ہے آج ۔۔وہ آدھا لن گھسائے جھکی سسک رہی تھی۔
شمشیر سنگھ کمر سے ہاتھ کھسکا کر چوتڑوں تک لایا ۔۔۔ اور پھر سے اچھالا مارا۔۔یہ اچھالا بڑا ماہرانہ تھا۔۔۔لن يهدى کو ڈرل کرتا جڑ تک اندر گھسا۔
بیبہہہہ ہہہاااائے ۔۔۔اُففففففففففف ۔۔سسسسسسی آہہہہہہہہہ
کرتے سریندرکور شمشیر سنگھ کے اوپر نڈھال بکھرتی گئی۔۔۔۔ جڑ تک وار نے اسے مزے کے سمندر میں ڈبودیا تھا ۔۔۔ شمشیر سنگھ نے آہستگی سے لن واپس کھینچا۔۔۔ آدھے تک روکا اور پھر سے دھکامارا
ااااہہہ ۔۔ہمممم ۔۔۔اُففففففففف۔۔۔ سریندر تڑپ کراچهلى
شمشیر سنگھ نے تین چار تیزجھٹکے مار کر سریندر کور کو پوری طرح ہلا ڈالا تھا۔
اُففففففففف
سریندرکور نے سسکتے ہوئے سرگوشی بھری۔
اور شمشیر سنگھ کے شانوں پہ ہاتھوں سے وزن ڈالتی تھوڑا اوپر ہوئی۔۔۔۔ کچھ دیر رکی اورپھر خود سے لن پہ بیٹھتی سسکتی گئی۔۔ آج سریندر کی چدائی بہت نشیلی تھی۔۔ شمشیر سنگھ کے دھکے بڑھتے جا رہے تھے اور اس کی نشیلی سسکیاں نشیلی کراہیں جلتی یہ پٹرول چھڑک رہی تھی۔۔ شمشیر سنگھ نے وحشت سے جڑ تک لن گھسا کر پلٹٰی ماری ۔۔۔وہ لن پہ گھومتی چارپائی پہ بچھی اور شمشیر سنگھ اُس کے اوپر آیا۔۔اس کی پوری ٹانگوں کو سیدھا اوپر کر کے۔۔۔۔ بھاری چوتڑوں پہ تھپڑ مارا ۔
آا وچ ۔۔۔وہ سسکی اور شمشیر سنگھ نے پھر سے لن گھسایا ۔
اوپر سے نیچے دو چارزبردست دھکے مارے ۔۔ سریندرکور پوری طرح مشتعل ہو چکی تھی۔۔اس کی نشیلی آہیں اور سکڑتی سمٹتی پھدی لن کا کچومر بنانے والی تھی۔
ااا افففف مممیں گگگئی۔۔۔ سریندرکورنے چیختے ہوئے جھٹکا مارا۔
اس کا جسم مچھلی کی طرح مچھلتا اچھلا۔۔۔ پھدی سے گرم پچکاری نکل کر ٹوپے سے ٹکرائی۔۔۔۔ پهدى کا بند کھل چکا تھا۔۔۔۔ اس کی پھدی لن کو بھنچتی اپنا رس چھوڑ رہی تھی۔۔۔ شمشیر سنگھ کا بھی ٹوکن ٹائم ہوچکا تھا اُس نے بھی آہستگی سے لن واپس کھینچا اور پورے جھٹکے سے دوبارہ اندر پھدی میں ڈالا۔۔اور اُس کے بعد اُس نے زور دار گھسے مارنے شروع کر دیئے چار پانچ زبردست گھسے مارنےکے بعد اُس کے لنڈ نے بھی سریندر کور کی پھدی کو سیراب کرنا شروع کردیا اور وہ سریندر کور کے سینے پر بے دھم ہوکر گرگیا۔
ااااف ہاااائےشمشیرے۔۔۔ سریندرکور آہستہ آہستہ سسکتی مدہوش ہوئی پڑی تھی۔
کچھ دیر وہ یونہی مدہوش پڑی رہی۔۔۔ اور پھر کسماتے ہوئےاٹھی۔ شمشیر سنگھ بے دھم ہوکر سائیڈ پر ڈھے گیا۔ تو سریندر کور نے اُس پر جھک کر اُس کو کس کیا اور اُس کےاُوپر چادر ڈال کر ۔خود واشروم میں گھس گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شہر کے مرکز سے دور صوفیہ روڈ کی ایک بغلی گلی میں واقع اس خوب صورت بنگلے کے ایک کمرے میں تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ تینوں چینی تھے۔ ان میں ایک تو بہت دبلا پتلا تھا۔ قد بھی چھ فٹ سے کچھ نکلتا ہوا تھا۔ انڈے کے چھلکے کی طرح با الکل صاف اور چکنا سر موٹی موٹی آنکھیں جن میں ہلکی سی نیلا ہٹ تھی۔ بھویں گہری خم دار اور درمیان میں آپس میں ملی ہوئی تھیں۔ وہ کلین شیو تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ اس کے چہرے پر قدرتی طور پر بال تھے ہی نہیں اور اسے کبھی شیو بنانے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ اس کے ہاتھ بہت دبلے پہلے اور انگلیاں لمبی اور مخروطی تھیں۔ ناک بھی کھڑی اور پتلی ہی تھی۔ ہونٹوں پر سرخی نظر آرہی تھی۔ وہ شخص اس قدر دبلا پتلا تھا کہ گمان ہو تا تھا جیسے بانس پر کھال منڈھ دی گئی ہو۔
دوسرے دونوں آدمی متوسط قدو قامت کے مالک تھے۔ ان میں ایک تو قدرے بھاری بھر کم تھا اور دوسرا پہلے آدمی کی طرح دبلا پتلا۔ ان کے نقوش بھی عام چینیوں جیسے ہی تھے۔ بھاری بھر کم آدمی کے سر کے بال قدرے لمبے تھے اور گردن پر بکھرے ہوئے تھے۔ الجھے ہوئے بالوں کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے کبھی کنگھا کرنا نصیب نہ ہواہو۔ ان دونوں نے جینز اور سینڈ وکٹ دھاری دار ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں۔ ان کا تیسرا ساتھی جو بانس کی طرح قد آور تھا براؤن چمڑے کی جیکٹ پہنے ہوئے تھا جس کے بٹن کھلے ہوئے تھے اور اس کا بالوں سے بے نیاز سینہ برہنہ ہو رہا تھا۔ اس نے براؤن رنگ ہی کی جینز پہن رکھی تھی جس کے تنگ پائنچے ٹخنوں سے چند انچ اوپر پنڈلیوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ اس کے بائیں ہاتھ کی کلائی میں اسٹین لیس اسٹیل کا ایک کڑا نظر آرہا تھا۔ اس وقت رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ چمڑے کی جیکٹ والا وه دراز قامت چینی بار بار دیوار پر لگی ہوئی گھڑی کو دیکھ رہا تھا۔
ایک گھنٹا ہو چکا ہے۔ اب تک انہیں آجانا چاہیے تھا۔۔۔ وہ شخص اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ انداز بڑ بڑا نے والا تھا۔
کوئی گڑ بڑ نہ ہو گئی ہو مسٹر شوچائی۔۔۔ فربہ اندام چینی نے کہا
تم لوگوں نے ان کا نسٹیبلوں کو کہاں چھوڑا تھا؟۔۔۔ دراز قامت شوچائی بولا۔۔۔ وہ بے ہوش بھی ہوئے تھے یا نہیں؟
بے ہوش تو وہ ایسے ہوئے تھے کہ صبح سے پہلے ہوش میں نہیں آسکیں گے۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا ۔۔۔انہیں ہم نے ڈبلین روڈ پر ایک خالی پلاٹ پر جھاڑیوں میں پھینک دیا تھا اور میرا خیال ہے وہ صبح سے پہلے کسی کی نظروں میں بھی نہیں آسکیں گے۔ ان کی طرف سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔
پولیس کی وردیوں کا کیا کیا تم نے ؟۔۔۔ مسٹر شوچائی نے پوچھا۔
وردیاں اتار کر ہم نے گاڑی ہی میں ڈال دی تھیں۔۔۔ اس نے جواب دیا۔۔۔وہ گاڑی ہم نے پلازا سنگا پور کے قریب سے چوری کی تھی۔ ہو فانگ وہ گاڑی چھوڑنے گیا ہے۔ وہ گاڑی کسی بھی ویران جگہ پر چھوڑ کر اپنے گھر چلا جائے گا۔ اس کی بیوی بیمار ہے۔ وہ تو ہمارے ساتھ جانے کو تیار ہی نہیں تھا لیکن بیوی کے علاج کے لیے اسے پیسوں کی ضرورت تھی اس لیے وہ آمادہ ہو گیاتھا۔
تمہارے خیال میں اگر سب ٹھیک ہے تو چانگ اور تھانگ جو ابھی تک کیوں نہیں آئے۔۔۔ شوچائی بولا ۔
ایسے کاموں میں تھوڑی بہت تاخیر تو ہو ہی جاتی ہے۔ مسٹر شوچائی۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔
وہ مزید کچھ کہنا چاہتا تھا کہ باہر کسی گاڑی کے رکنے کی آواز سنائی دی۔
میرا خیال ہے وہ لوگ آگئے۔۔۔ ڈوئے تھانگ نامی وہ بھاری بھر کم شخص اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔میں دیکھتا ہوں۔
ڈوئے تھانگ کمرے سے نکل کر راہداری میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا بر آمدے والا دروازہ کھول کر باہر آگیا۔ باہر کسی گاڑی کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ ڈوئے تھانگ تیزی سے آگے بڑھا اور اس نے باہر کا دروازہ کھول دیا لیکن دوسرے ہی لمحے اسے چونک جانا پڑا۔ کار سے اترنے والا چینی لڑکھڑاتا ہوا بنگلے کے گیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے دایاں ہاتھ بائیں کندھے پر ذرا نیچے رکھا ہوا تھا۔
اے چانگ۔ کیا ہوا۔ تھانگ چو کہاں ہے اور وہ لڑکا کہاں ہے۔ ۔۔ڈوئے تھانگ تیزی سے آگے بڑھا۔
گڑ بڑ ہو گئی۔۔۔ چانگ نے کراہتے ہوئے جواب دیا۔۔۔مجھے گولی لگی ہے۔ شاید ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ بڑی مشکل سے یہاں تک
پہنچا ہوں۔
ڈوئے تھانگ چانگ کو سہارا دے کر اندر لے آیا ۔ روشنی میں اس نے چانگ کی طرف دیکھا تو بری طرح بد حواس ہو گیا۔ چانگ کے کپڑے خون سے تر ہو رہے تھے۔ اس کا ہاتھ بھی خون سے لتھڑا ہوا تھا۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اس کے چہرے پر مردنی کے آثار تھے۔ ڈوئے تھانگ اسے سہارا دے کر کمرے کے اندر لے آیا۔ سامنے صوفے پر بیٹا ہوا مسٹر شوچائی اسے دیکھتے ہی اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا دوسرا ساتھی ہوانگ بھی ایک جھٹکے سے اٹھ گیا تھا۔ چیانگ کی حالت دیکھ کر اس کی آنکھوں میں وحشت سی ابھر آئی تھی۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025