رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر- 19
ہوں۔۔۔ دراز قامت مسٹر شوچائی چانگ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ، اس کی بھویں سکڑ گئی تھیں ۔۔۔ تمہاری حالت تم لوگوں کی ناکامی کی داستان سنا رہی ہے۔ تھانگ چو کہاں ہے؟
اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں مسٹرشوچائی۔۔۔ چانگ نے کراہتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔ہمارا اندازہ غلط نکلا۔ مکان کے اندر تین چار آدمی تھے جنہوں نے ہم پر فائر کھول دیا ۔ مجھے پتا نہیں تھانگ چو زندہ ہے یا مارا گیا۔ مجھے گولی لگی ہے۔ پلیز! ڈاکٹر کو بلاؤ مسٹر شوچائی۔
ڈاکٹر کو بلانے کی ضرورت نہیں۔ تمہارا علاج تو میں بھی کر سکتا ہوں۔ شاید تم بھول گئے ہو کہ میں بھی ایک کوالیفائڈ فریش اورسرجن ہوں۔ ایک غیر قانونی آپریشن کی وجہ سے مجھے اسپتال کی ملازمت سے نکال دیا گیا ، لیکن اسپتال سے نکالے جانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے اندروہ تمام صلاحیتیں ختم ہو چکی ہوں گی۔ تمہارا علاج میں زیادہ بہتر طور پر کر سکتا ہوں لیکن پہلے مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا ؟۔۔۔ مسٹر شوچائی نے اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
ہم پروگرام کے مطابق ڈوئے تھا نگ وغیرہ کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہاں پہنچے تھے۔۔۔ چانگ نے کراہتے ہوئے جواب دیا۔۔۔ پولیس والوں کو اگرچہ وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن ہمیں معلوم تھا کہ شمشیر سنگھ کے دو گارڈز چھت پر بیٹھے رہتے ہیں۔ میں مکان کے سامنے والے رخ سے آگے بڑھا اور تھانگ چو مکان کے پچھلی طرف چلا گیا تھا۔ تقریباً دس منٹ بعد اس نے مجھے مکان کی چھیت پر سے سگنل دیا۔ وہ گارڈز پر قابو پا چکا تھا۔ میں دیوار پر چڑھ کر کمپاؤنڈ کے اندر پہنچ گیا۔ پروگرام کے مطابق مجھے سامنے والے رخ سے اور تھانگ چو کو مکان کے عقبی دروازے سے اندر داخل ہونا تھا۔ ہمارے خیال میں اب مکان کے اندر شمشیر سنگھ اور اس لڑکے کے سوا کسی کو نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن ہمارا اندازہ غلط نکلا۔ مکان کے اندر شمشیر سنگھ کے علاوہ کم از کم دو آدمی اور تھے۔ انہیں کسی طرح ہماری موجودگی کی خبر ہو گئی۔ ایک آدمی نے بر آمدے والے دروازے سے فائرنگ شروع کردی جواب میں میں نے بھی فائر کھول دیا ۔ میں اس وقت درخت کی آڑ میں تھا۔ اپنی پوزیشن بدلنے کے لیے درخت کی آڑ سے نکلا تو ایک گولی کی زد میں آگیا۔ شاید ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ میں بڑی مشکل سے وہاں سے نکل سکا ہوں۔
تم صرف اپنی جان بچا کر بھاگے۔ ۔۔مسٹر شوچائی نے اسے گھورا اور کمرے میں رکھی ہوئی میز کے پیچھے کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ تمہارا ساتھی کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے تو اسے تمہاری مدد کی ضرورت ہوگی۔ میں نے کہا تھا کہ مجھے ہر قیمت پر وہ لڑکا چاہیے لیکن تم اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکے اور بزدلوں کی طرح وہاں سے بھاگ آئے اور اب ایک جھوٹی کہانی سنا کر مجھے دھوکا دینا چاہتے ہو۔ جانتے ہو مجھے جھوٹ سے سخت نفرت ہے۔ میں ایسے لوگوں کو کبھی پسند نہیں کرتا جو اپنی کمزوریاں چھپانے کے لیے اپنے ساتھیوں کو بھی دھوکے میں رکھنے کی کوشش کریں۔
م۔۔۔ میں نے جھوٹ نہیں بولا مسٹر شوچائی !۔۔۔ چانگ کا چہرہ دھواں ہوگیا۔۔۔ وہاں واقعی تین چار آدمی تھے جن کی وجہ سے مجھے زخمی ہو کر پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
تم جانتے ہو میں پلاننگ کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا۔۔۔مسٹر شوچائی نے اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔۔۔میں نے آج پورا دن ان لوگوں کی نگرانی کرائی تھی۔ وہ لڑ کا گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ ایک آدمی شمشیر سنگھ کی نگرانی کر رہا تھا۔ اس سے ایک حماقت ہو گئی تھی۔ وہ سمجھا تھا کہ میں شمشیر سنگھ کو اٹھوانا چاہتا ہوں۔ وہ موقع پا کر شمشیر سنگھ کی گاڑی میں چھپ گیا اور اس نے پستول کے زور پر شمشیر سنگھ کو اغوا کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا اور اسے اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ اس کے بعد شمشیر سنگھ سیدھا اپنے گھر گیا تھا۔ انہوں نے کھانا بھی ہوٹل سے منگوا کر گھر ہی میں کھایا تھا۔ اس کے بعد نہ ان میں سے کوئی گھر سے باہر گیا تھا اور نہ ہی کوئی ان کے ہاں آیا تھا اور تم بتا رہے ہو کہ مکان کے اندر شمشیر سنگھ کے علاوہ بھی دو تین آدمی موجود تھے۔ تم جھوٹ بول کر اپنے آپ کو نہیں بچا سکتے مسٹر چانگ۔۔۔ مسٹر شوچائی نے خاموش ہو کر میز کی دراز کھولی اور اس میں رکھا ہوا پستول نکال لیا۔ پستول کی نال پر سائلنسر لگا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر چانگ کانپ اٹھا۔
م میں سچ کہتا ہوں مسٹر شوچائی۔۔۔ چانگ کھگیا یا ۔۔۔ تم تھانگ چوسے پوچھ لینا۔ وہ میری بات کی تصدیق کر دے گا۔
وہ زندہ ہو گا تو تمہاری بات کی تصدیق کرے گا نا۔۔۔مسٹر شوچائی نے کہا۔۔۔اگر وہ زندہ ہو تا تو تم سے پہلے یہاں پہنچ چکا ہوتا۔ شمشیر سنگھ اتنا بے وقوف نہیں ہے۔ اس نے تھانگ چو کو بھی ٹھکانے لگا دیا ہو گا اور تم ۔۔۔۔۔ تمہارے لیے اب میرے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ تم جیسے جھوٹے اور بزدل آدمی کی تو اس دنیا ہی میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
مجھے معاف کردو مسٹر شوچائی۔۔۔ چانگ گڑ گڑا یا ۔۔۔ڈاکٹر کو بلا دو پلیز میں ٹھیک ہو جاؤں تو اپنی اس کو تاہی کی تلافی کردوں گا۔
میں نے کہا تھا نا کہ میں تمہارا علاج کسی اور ڈاکٹر سے بہترکر سکتا ہوں۔۔۔مسٹر شوچائی نے کیا اور پستول والا ہاتھ اوپر اٹھا دیا ۔
چانگ اب بھی گڑ گڑا رہا تھا۔ مسٹر شوچائی نے ٹریگر دبا دیا۔ سٹک کی ہلکی سی آواز ابھری اور پستول سے نکلنے والی گولی چانگ کی پیشانی میں پیوست ہو گئی۔ چانگ کے منہ سے نکلنے والی چیخ بڑی خوف ناک تھی۔ وہ کھڑے کھڑے لہرایا اور پھر دھڑام سے نیچے گر گیا۔ اس کی پیشانی سے بہنے والی خون کی دھار اس کے چہرے اور گردن کو تر کرتی ہوئی قالین میں جذب ہونے لگی۔
تمہیں اتنی جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا مسٹر شوچائی۔۔۔ ڈوئے تھانگ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ چانگ کا انجام دیکھ کر اس کے چہرے پر بھی خوف کے تاثرات ابھر آئے تھے
تھا نگ چوسے اس کی بات کی تصدیق تو کر لیتے۔
کیا تم مجھے بے وقوف سمجھتے ہو۔۔۔ مسٹر شوچائی نے اسے گھورا۔۔۔میری اس بات کا یقین کرلو کہ تھانگ چو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اگر تم چاہو تو خود وہاں جا کر اس امر کی تصدیق کر سکتے ہو اور ہاں ۔۔۔ اس کی لاش کو اٹھا کر یہاں سے دور کسی ویرانے میں پھینک آؤ۔ لاش اٹھانے سے پہلے اس کے لباس کی تلاشی لے لینا۔ جیبوں میں ایسی کوئی چیز نہیں ہونی چاہیے جس سے اس کی شناخت ہو سکے اور تم لوگ بھی اپنے اپنے ٹھکانوں تک محدود رہو گے۔ مجھے کسی وقت تم لوگوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اس نے پستول میز کی دراز میں رکھ دیا اور اندرونی دروازے میں داخل ہو کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
ڈوئے تھانگ نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھا پھر دونوں نے جھک کر چانگ کی لاش اٹھائی اور باہر چلے گئے۔ مسٹر شوچائی دوسرے کمرے میں آکر ایک صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔ اس کے چہرے پر تھکن اور بیزاری کے آثار نظر آرہے تھے۔ اس کا سارا منصوبہ ناکام ہو گیا تھا۔ اس نے رانا سے اس لڑکے کو اغوا کرانے کے پچاس ہزار ڈالر لیے تھے لیکن چانگ اور تھانگ چو کی کسی حماقت کی وجہ سے اس کا یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ نجانے اسے یہ یقین کیوں تھا کہ تھانگ چو بھی زندہ نہیں بچا ہوگا۔
مسٹر شوچائی سوچ رہا تھا کہ اگر اس کا یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا ہوتا تو اس کے لیے آگے کے راستے کھل سکتے تھے۔ رانا سے اس کی ملاقات اگر چہ چند روز سے زیادہ پرانی نہیں تھی لیکن ان چند دنوں میں ہی اس نے رانا کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کرلی تھیں۔ رانا یہاں کی ایک اور پارٹی سے مل کر پاکستان سے سنگا پور کے راستے سفید پاؤڈر کی اسمگلنگ کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ وہ پانی کی طرح دولت بہا رہا تھا۔ دوسری پارٹی مقامی ہی تھی۔ شوچائی ، مسٹر ہوئے کوٹے کو بھی اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بظا ہر ایک نائٹ کلب کا مالک تھا لیکن اس کا اصل برنس منشیات کی اسمگلنگ تھا۔
کچھ عرصہ پہلے تک شوچائی کے بھی گولڈن ٹرائی اینگل کی ایک دو پارٹیوں سے تعلقات تھے جن کی شراکت سے اس نے بہت کمایا تھا لیکن چند مہینے پہلے وہ دوسری پارٹی کے ایک ایجنٹ کے ہمراہ بنکاک میں پولیس کے نرغے میں آگیا تھا۔ اس وقت ان کے پاس تقریباً دو ملین ڈالر کا مال تھا۔ دوسری پارٹی کا ایجنٹ پولیس کے ہاتھوں مارا گیا اور شوچائی بال بال بچا تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی تھی۔ اسے دو ملین ڈالر کا وہ مال بہر حال چھوڑنا پڑا تھا۔ اس واقعے کے بعد دوسری پارٹی کے سربراہ سے اس کے تعلقات بگڑ گئے تھے۔ وہ امریکن ڈرگ مافیا کا ایک بہت بڑا ڈان تھا۔ اس کا خیال تھا کہ شوچائی نے مال ہضم کرنے کے لیے یہ ڈراما کھیلا تھا۔ شوچائی خود بھی بے حد خطرناک اور سفاک آدمی تھا لیکن ڈان کے خوف سے وہ چھپتا پھر رہا تھا۔ اس نے ایک اور آدمی کو بیچ میں ڈالا جس نے امریکی ڈان کو یہ یقین دہانی کرا دی کہ اس معاملے میں شوچائی بالکل بے قصور تھا۔ وہ خود بڑی مشکل سے اپنی جان بچا کر بھاگا تھا۔ امریکی مافیا کے ڈان نے اپنے طور پر بھی اس معاملے کی تحقیقات کرائی تھیں۔ یہ تو ثابت ہو گیا تھا کہ شوچائی نے اس کے خلاف کوئی سازش نہیں کی تھی لیکن وہ سمجھتا تھا کہ اسے دو ملین ڈالر کا یہ نقصان شوچائی کی غفلت اور بے پروائی کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس نے شوچائی کو معاف تو کر دیا لیکن اس سے کاروباری تعلقات ختم کر لیے تھے۔ اس واقعے کے بعد شوچائی اکیلا رہ گیا۔ اس کی ساکھ ختم ہو گئی تھی۔ اس پر لوگوں کا اعتماد ڈانواں ڈول ہو گیا۔ بڑی پارٹیاں اس سے دور ہی رہنے لگیں۔ چھوٹی پارٹیوں سے اتنا پیسہ نہیں مل رہا تھا۔ شوچائی جرائم کی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگا۔ وہ چھوٹے چھوٹے کام کرنے لگا اور پھر اسے ایک مڈل مین کے ذریعے رانا کے بارے میں معلوم ہوا۔ وہ مڈل مین بمبئی کا ایک ہندو نارائن پر کاش تھا۔ شوچائی اسے بہت عرصے سے جانتا تھا۔ اس کا ہیڈ کوارٹر اگرچہ بمبئی ہی تھا لیکن وہ اکثر و بیشتر سنگا پور آتا رہتا تھا۔ تقریباً تین ہفتے پہلے شوچائی سے اس کی ملاقات ہوئی تھی اور اس نے اسے رانا سے ملا دیا تھا۔
رانا کی باتوں سے شوچائی کو اندازہ ہو گیا کہ وہ اس کے لیے اُوپر چڑھنے کا ایک زینہ ثابت ہو سکتا ہے۔ رانا آسٹریلیا کو مال سپلائی کرنے کے لیے سنگا پور کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنانا چاہتا تھا اور یہاں اُسے شوچائی جیسے آدمیوں کی ضرورت تھی۔
لیکن اس سے پہلے میں تم سے ایک اور کام لینا چاہتا ہوں۔ ۔۔ رانا نے کہا تھا۔
وہ کیا ؟۔۔۔ شوچائی نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
ہمارا ایک پرانا دشمن ہے جو آج کل سنگا پور میں موجود ہے۔۔۔ رانا نے کہا۔۔۔بارہ سال پہلے وہ پاکستان سے بھاگ کر یہاں آگیا تھا۔ اس کی وجہ سے ہمیں کروڑوں روپے کا نقصان اٹھاناپڑا تھا۔ ہم اسے تلاش کرتے رہے لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں ملا، اب معلوم ہوا ہے کہ وہ سنگا پور میں موجود ہے۔اور یہاں اس کی موجودگی ہمارے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اس لیے کام شروع کرنے سے پہلے اسے راستے سے ہٹانا ضروری ہے اور یہ کام تم کرسکتے ہو۔
وہ کون ہے اور کہاں رہتا ہے؟ شوچائی نے پوچھا۔
رانا نے اسے فرقان ، اس کی بیوی اور بچے کے بارے میں بتا دیا پھربولا۔۔۔ ان تینوں کا ختم ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی بچ گیا تو ہمارے لیے مستقل خطرہ بنا رہے گا۔
ٹھیک ہے۔ ۔۔شوچائی نے کہا ۔۔۔تم چند روز میں ان کے بارے میں سن لوگے کہ اب اس دنیا میں ان کا وجود نہیں رہا ۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
