A Dance of Sparks–20–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔

رقصِ آتش قسط نمبر- 20

اور پھر شوچائی نے دو چار آدمی جمع کرلیے۔ ایک آدمی کے ذریعے وہ فرقان  کی نگرانی کراتا رہا۔ اس کے معمولات کا جائزہ لینے کے بعد وہ موقع کی تاک میں رہنے لگا اور پھر اِس روز وہ رانا کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا کہ اس کے ایک آدمی نے اطلاع دی کہ فرقان  اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ ہوٹل ہالی ڈے ان میں بیٹھا کھانا کھا رہا ہے۔ شوچائی فورا ہی اٹھ گیا۔

میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا۔ ۔۔ رانا بھی تیار ہو گیا ۔۔۔میں اپنے پرانے دشمن کو اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتے ہوئے دیکھنا

چاہتا ہوں۔

اور پھر وہ لوگ ایک کار میں بیٹھ کر ہوٹل ہالی ڈے ان کی طرف روانہ ہو گئے۔ کار میں ایک آدمی پہلے سے بیٹھا ہوا تھا۔ وہ آدمی یوریشین تھا۔

وہ لوگ ہوٹل کے باہر کار میں بیٹھے انتظار کرتے رہے اور جب فرقان اپنی بیوئی اور بیٹے کے ساتھ ایک ٹیکسی میں بیٹھا تو ان کی کار اس کے تعاقب میں لگ گئی اور جب فرقان  اپنے مکان کے سامنے ٹیکسی سے اتر کر ڈرائیور کو کرایہ ادا کر رہا تھا تو ان کی کار وہاں پہنچ گئی۔ رانا سب سے پہلے کارسے اترا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔ شوچائی اس وقت ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے  اپنی سیٹ پر بیٹھے رہنا ہی مناسب سمجھا۔ البتہ اس کے ساتھی نیچے اتر کر فرقان  اور اس کی بیوی پر جھپٹ پڑے تھے۔ اور جب ایک اور کار گلی میں داخل ہوئی تو وہ لوگ انہیں چھوڑ کر فرار گئے۔ شوچائی اور رانا کا خیال تھا کہ ان کے آدمیوں نے فرقان  اور اس کی بیوی کے ساتھ ان کے بچے کو بھی ختم کر دیا تھا۔

لیکن اگلے روز اخبار میں خبر پڑھ کر شوچائی سناٹے میں آگیا۔ فرقان کا بیٹا بچ گیا تھا۔ وہ اس واردات کا چشم دید گواہ تھا۔ اس نے انہیں دیکھا تھا۔ وہ ان میں سے کسی کو شناخت بھی کر سکتا تھا۔ اس لڑکے نے پولیس کو رانا کا نام بھی بتایا تھا۔ رانا  شوچائی پر برس پڑا۔

 اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو سکتی ہے۔۔۔ وہ چیخا۔۔۔وہ لڑکا میرے لیے مستقل خطرہ بنا رہے گا۔ اس نے پولیس کو میرا نام بھی بتا دیا ہے۔ اگر میرا چہرہ دیکھا ہو تا تو حلیہ بھی بتا دیتا۔

 وہ لڑکا صرف تمہارے لیے نہیں میرے لیے بھی خطرہ ہے۔ ۔۔شوچائی نے جواب دیا۔۔۔میں تو گاڑی میں بیٹھا رہا تھا۔ اس نے مجھے نہیں دیکھا لیکن اس نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ جس چینی نے اس کی ماں پر خنجر سے وار کیے تھے اسے دوبارہ دیکھے گا تو پہچان لے گا۔ اگر اس نے چی فانگ کو کہیں دیکھ کر پہچان لیا تو پولیس اس کے ذریعے مجھ تک بھی آسانی سے پہنچ جائے گی۔

 تو پھر ختم کردو اس سنپولئے کو۔۔۔ رانا چیخا۔۔۔ اس کی زندگی ہماری موت کا پیغام ہے۔ وہ جب تک زندہ ہے ہم یہاں اپنا کام بھی شروع نہیں کر سکتے۔ جتنی جلد ممکن ہو سکے ختم کر دوا سے۔

اس کے بعد  شوچائی روحان کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے ایک بار پھر موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔ پولیس نے اس کی حفاظت کا بندوبست کر رکھا تھا۔ دو مسلح  کا نسٹیبل چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ موجود رہتے تھے۔ شمشیر سنگھ کے دو گارڈز بھی سائے کی طرح اسکے ساتھ لگے رہتے تھے۔ شوچائی کو کوئی موقع نہیں مل رہا تھا۔ اور پھر اس نے وہ منصوبہ بنایا لیکن اس کے آدمی ہی بودے نکلے تھے۔ اسے یقین تھا کہ اگر وہ احتیاط اور عقل مندی سے کام لیتے تو یہ منصوبہ کامیاب ہو سکتا تھا۔ چانگ زخمی ہونے کے بعد بزدلوں کی طرح بھاگ کر یہاں آگیا تھا اور اس نے ایک جھوٹی کہانی سنا کر شوچائی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی لیکن شوچائی جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور اسے دھوکا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسا آدمی تو اس کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ جبکہ تھانگ چو کے بارے میں بھی اسے یقین تھا کہ وہ مارا جا چکا ہے۔

 شوچائی اس وقت یہی سب کچھ سوچ رہا تھا۔ اس کے شان دار مستقبل کا دارو مدار اس بات پر تھا کہ وہ فرقان کے بیٹے کو ختم کردے۔ بات اس لڑکے کو ختم کرنے کی ہوتی تو اسے دور سے بھی گولی ماری جاسکتی تھی یا اس مکان کو بم سے اڑایا جا سکتا تھا لیکن گزشتہ رات رانا نے کہا تھا کہ وہ اس لڑکے کو زندہ اپنے سامنے دیکھنا چاہتا ہے اور آج کا منصوبہ روحان کو اغوا کرنے کے لیے ہی بنایا گیا تھا جو نا کام رہا تھا۔

شوچائی کی ساری زندگی جرائم کے اندھیروں میں گزری تھی۔ ابتدا میں اس نے چھوٹے چھوٹے جرائم کیے تھے۔ اس میدان میں اس کے قدم جمتے چلے گئے۔ اس نے کرائے کے قاتل کی حیثیت سے بھی کام کیا تھا۔ اسے اب یاد نہیں تھا کہ وہ کتنے لوگوں  کو موت کے گھاٹ اتار چکا تھا۔  اس کا نام دہشت کی علامت بن گیا تھا پھر وہ منشیات کی اسمگلنگ کی طرف متوجہ ہوا۔ اس دھندے میں اس نے خوب کمایا تھا۔ بعض انٹر نیشنل گروہوں سے تعاقات بھی استوار ہو گئے تھے۔  لیکن بنکاک میں پیش آنے والے واقعے کے بعد اس کی ساکھ ختم ہو گئی تھی۔ وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا اور اب اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا موقع مل رہا تھا۔

شوچائی اچھی طرح جانتا تھا کہ گولڈن ٹرائی اینگل کے بعد منشیات کی پیداوار کے حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر پر تھا۔ یہاں منشیات کے چند ایسے اسمگلر بھی تھے جو امریکا کی ڈرگ مافیا سے بھی زیادہ طاقت ور تھے۔ ان کا مال دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا تھا۔ بعض نام تو ایسے تھے جنہوں نے امریکا جیسی سپر پاور کو بھی جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ امریکا کی بعض ایجنسیوں کے ایجنٹ ان کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ امریکا انہیں گرفتار کرنا چاہتا تھا لیکن امریکی ایجنٹ ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے تھے۔ ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا تھا کہ پاکستان کی حکومت بھی ان کے سامنے بے بس تھی۔

نارائن پر کاش کے بارے میں تو شوچائی بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بھی ایک انٹر نیشنل گروہ کا آدمی تھا اور اس کی باتوں سے بھی شوچائی نے اندازہ لگا لیا تھا کہ رانا کا تعلق بھی کسی بہت بڑی پارٹی سے ہے۔ جو لوگ سنگا پور کو بیس بنا کر آسٹریلیا کی منڈی تک اپنا مال پھیلانا چاہتے ہوں، وہ کوئی معمولی پارٹی نہیں ہو سکتی تھی اور شوچائی ہر صورت میں اس پارٹی میں اپنی جگہ بنانا چاہتا تھا۔ وہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو وہ ایک بار پھر اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔

شوچائی جیسے جیسے سوچ رہا تھا اس کا ذہن الجھتا جا رہا تھا۔ اس نے اٹھ کر الماری کھولی اور اس کے نچلے خانے میں سے پلاسٹک کا ایک ڈبا نکال کر اپنے سامنے کافی ٹیبل پر رکھ لیا۔ وہ چند لمحے گہری نظروں سے اس ڈبے کو دیکھتا رہا پھر ڈھکنا اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ اس میں پلاسٹک کی ایک لمبی سی نلکی، فورٹل کے چند چھوٹے چھوٹے ٹرے جو ہاتھ کی ہتھیلی سے زیادہ بڑے نہیں تھے ، اسٹیل راڈ کی تین ٹانگوں والا ایک چھوٹا سا اسٹینڈ اور ایک پلاسٹک کی تھیلی رکھی ہوئی تھی جس میں سفید پاؤڈر نظر آ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک لائٹر بھی تھا۔

شوچائی چند لمحے  ان چیزوں کو دیکھتا رہا پھر اس نے تین ٹانگوں والا اسٹینڈ نکال کر میز پر رکھ دیا۔ یہ اسٹینڈ ایک بالشت سے زیادہ اونچا نہیں تھا لیکن ساخت میں یہ اس اسٹینڈ جیسا تھا جو فوٹو گرافرز کیمرا رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ البتہ اس کے اوپر کی جگہ خالی تھی۔ شوچائی نے فورٹل کی ایک ٹرے ڈبے میں سے نکال کر اسٹینڈ پر رکھ دی۔ وہ اس جگہ با لکل فٹ آگئی تھی۔ اس نے پلاسٹک کی تھیلی میں سے چٹکی بھر سفید پاؤڈر فورٹل کی ٹرے کے عین وسط میں رکھ دیا اور پلاسٹک کی لمبی سے نلکی اٹھا کر میز کے قریب قالین پر بیٹھ گیا۔ اس نے لائٹر جلا کر اس کا شعلہ فورٹل کی ٹرے کے نیچے کر دیا۔ چند سیکنڈ بعد ٹرے میں رکھے ہوئے پاؤڈر سے دھواں اٹھنے لگا۔ شوچائی نے پلاسٹک کی نلکی کا ایک سرانتھنوں سے لگایا اور دوسرا سرا دھواں چھوڑتے ہوئے پاؤڈر سے ذرا اوپر رکھ کر سانس اندر کھینچنے لگا۔ پاؤڈر سے اٹھنے والا سارا دھواں اس نلکی کے ذریعے شوچائی کے پھیپڑوں میں منتقل ہوتا رہا۔ شوچائی اس وقت تک سانس کھینچتا رہا جب تک اس کے پھیپڑوں کی قوت نے اس کا ساتھ دیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک دم سرخی بھر گئی تھی اور پانی بہہ نکلا تھا۔ شوچائی نے لائٹر میز پر ڈال دیا ۔ پلاسٹک کی نلکی بھی ہاتھ سے چھوڑ دی اور بے سدھ سا ہو کر قالین پر دراز ہوگیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگا۔

منشیات فروخت کرنے والے خود منشیات استعمال نہیں کرتے۔ یہ زہر تو وہ دوسروں کے خون میں منتقل کرتے ہیں لیکن شوچائی منشیات کے دھندے میں آنے سے پہلے منشیات استعمال کرنے کا عادی بن گیا تھا لیکن اسے جلد ہی عقل آگئی اور اس نے اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کر لیا ۔ وہ اس سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر سکا تھا۔ تین چار مہینے بعد یا اس سے بھی طویل عرصے بعد جب وہ کسی ذہنی کرب میں مبتلا ہو تا تو اس طرح ایک کش لگالیا کرتا تھا۔ آج بھی وہ کچھ ایسے ہی ذہنی کرب میں مبتلا تھا۔ اس ایک کش سے اسے بڑا سکون ملا تھا۔ وہ تقریباً بیسں منٹ تک قالین پر پڑا رہا پھر اٹھ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔

اس وقت وہ اپنے آپ کو بڑا ہلکا پھلکا سا محسوس کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور وہ جانتا تھا کہ یہ سرخی صبح تک برقرار رہے گی۔ اس نے سامنے دیوار پر لگی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا۔ چار بجنے والے تھے۔ وہ ڈوئے تھانگ کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس سے کہا گیا تھا کہ چانگ کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے بعد صورت حال معلوم کر کے اسے اطلاع دے مگر ابھی تک اس کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔ اور پھر سوا چار بجے کے قریب صوفے کے قریب سائڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے فون کی گھنٹی بجی۔ وہ اٹھ کر صوفے کے دوسرے کنارے پر آگیا اور فون کا ریسیور اٹھا لیا۔

ڈوئے تھا نگ بول رہا ہوں مسٹر شوچائی۔۔ اس کی ہیلو کے جواب میں دوسری طرف سے آواز سنائی دی۔

ہاں۔ کیا رپورٹ ہے۔ کیا معلوم کیا تم نے ؟۔۔ شوچائی نے پوچھا۔

تھانگ چو مرچکا ہے۔ اس کے سر میں دو گولیاں لگی ہیں۔ میں نے اسپتال میں اس کی لاش دیکھی ہے۔ شمشیر سنگھ کا ایک گارڈ بھی مارا گیا ہے اور دوسرا گارڈ اسپتال میں بے ہوش پڑا ہے۔ اس کے بارے میں ابھی یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ زندہ بچ جائے گا یا وہ بھی ختم ہو جائے گا۔۔ ڈوئے تھانگ نے بتایا۔

 تھانگ چو کی موت کا مجھے پہلے ہی یقین ہو چکا تھا۔ میں صرف ایک بات جانا چاہتا ہوں۔

شوچائی چند لمحوں کو خاموش ہوا پھربولا۔۔  ان دو گارڈز کے علاوہ شمشیر سنگھ کے بنگلے میں کتنے آدمی تھے ؟

کوئی نہیں۔ بنگلے کے اندر شمشیر سنگھ اکیلا تھا۔۔ڈوئے تھانگ نے جواب دیا۔۔تھانگ چو چھت پر دونوں گارڈز سے نمٹنے  کے بعد عقبی دروازے سے بنگلے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس کی لاش راہداری میں ملی تھی۔ وہ غالباً شمشیر سنگھ کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ چانگ زخمی ہونے کے بعد فرا رنہ ہو تا تویہ  مشن کامیاب ہو سکتا تھا۔

 کامیاب ہو سکتا تھا۔۔ شوچائی نے اس کے الفاظ دوہرائے۔۔ لیکن چانگ بزدل نکلا گولی لگنے کے بعد وہ وہاں سے بھاگ نکلا اور ہاں  اس کے فرار ہی کی وجہ سے تھانگ چو کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اگر وہ دونوں ہوتے تو اس وقت وہ لڑکا ہمارے قبضے میں ہوتا اور ہم اپنی کامیابی کا جشن منا رہے ہوتے۔ بہر حال ہم نے چانگ سے نجات حاصل کرنے کا جو فیصلہ کیا وہ غلط نہیں تھا۔ ایسے بزدلوں کی میرے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔

 ہاں واقعی تمہارا وہ فیصلہ درست تھا مسٹر شوچائی۔۔ڈوئے تھانگ کی آواز سنائی دی۔۔ اب میرے لیے کیا حکم ہے؟

تم اپنے ٹھکانے پر چلے جاؤ۔ ضرورت پڑی تو فون کروں گا۔ ۔ شوچائی نے کہتے ہوئے ریسیور رکھ دیا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

رومانوی مکمل کہانیاں

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کالج کی ٹیچر

کالج کی ٹیچر -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

میراعاشق بڈھا

میراعاشق بڈھا -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

جنبی سے اندھیرے

جنبی سے اندھیرے -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

بھائی نے پکڑا اور

بھائی نے پکڑا اور -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more
رومانوی مکمل کہانیاں

کمسن نوکر پورا مرد

کمسن نوکر پورا مرد -- کہانیوں کی دُنیا ویب سائٹ کی جانب سے رومانوی سٹوریز کے شائقین کے لیئے پیش خدمت ہے ۔جنسی جذبات کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی مکمل بہترین شارٹ رومانوی سٹوریز۔ ان کہانیوں کو صرف تفریحی مقصد کے لیئے پڑھیں ، ان کو حقیقت نہ سمجھیں ، کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انجوائےکریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں ۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page