رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر- 21
اس وقت چانگ کو زخمی حالت میں اپنے سامنے دیکھ کراس نے صورت حال کا جو اندازہ لگایا تھا، وہ بالکل درست ثابت ہو تھا۔ چانگ کی بزدلی کی وجہ سے تھانگ چو کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ لیکن اسے ان دونوں کی موت کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ اسے افسوس تو اس بات کا تھا کہ اس کا شکار اس کے ہاتھ نہیں لگ سکا تھا اور شمشیر سنگھ سے دشمنی الگ ہو گئی۔ وہ شمشیر سنگھ کو جانتا تھا۔ وہ ایک بزنس مین تھا۔ اس کے تعلقان بہت اوپر تک تھے۔ کئی پولیس آفیسروں سے تو اس کی ذاتی دوستی تھی اور یہ اتفاق تھا کہ اس کیس کو چیانگ شو ہینڈل کر رہا تھا اور شمشیر سنگھ کی چیانگ شوسے بڑی گہری دوستی تھی۔ چیانگ شو کو بھی وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ بہت گھاگ پولیس آفیسر تھا۔ جس کے پیچھے لگ جاتا، اسے سلاخوں کے پیچھے پہنچائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا تھا۔
لیکن اس وقت شوچائی کے لیے مسئلہ نہ تو شمشیر سنگھ تھا اور نہ انسپکٹر چیانگ شو۔ سب سے بڑا مسئلہ تو رانا کا تھا۔ وہ اسے کیا جواب دے گا۔ شوچائی کی اس ناکامی سے رانا اس سے بد دل ہو سکتاہے ۔ اور رانا کے بددل ہونے کا مطلب یہ ہوتا کہ اس کا مستقبل تاریک ہو جاتا۔
یہ سب کچھ سوچتے ہوئے شوچائی کا ذہن ایک بار پھر الجھنے لگا۔ وہ رات بھر کا جاگا ہوا تھا۔ اب آنکھوں میں جلن ہو رہی تھی اور کنپٹیاں بھی سلگنے لگی تھیں۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ ساڑھے پانچ بج رہے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور تھوڑی ہی دیر بعد وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے بیٹھے سو گیا۔
ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز سے وہ جاگ گیا۔ اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو یوں لگا جیسے مٹھی بھر مرچیں آنکھوں میں جھونک دی گئی ہوں۔ بڑی شدید جلن ہو رہی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر گھڑی کی طرف دیکھا۔ ساڑھے سات بج رہے تھے۔ وہ صرف دو گھنٹے سویا تھا۔ دل چاہ رہا تھا دوبارہ آنکھیں بند کرلے اور صوفے پر لیٹ کر سو جائے لیکن ٹیلی فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ اس نے بادل نا خواستہ ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔
چی فانگ بول رہا ہوں مسٹر شوچائی۔۔ اس کی ہیلو کے جواب میں ایک بھاری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
چی فانگ ۔۔شوچائی کے دماغ کو جھٹکا سا لگا۔۔ کیا بات ہے۔ تم اس وقت کہاں ہو اور فون کیوں کیا ہے۔
میں کلب میں ہوں۔۔ چی فانگ نے جواب دیا ۔۔مسٹررانا اس وقت یہاں موجود ہے اور وہ فوری طور پر تم سے ملنا چاہتا ہے۔
رانا۔۔ شوچائی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔ رانا کا نام سن کر اس کے دماغ میں دھماکے سے ہونے لگے تھے۔ بالآ خر رانا کو بھی اس کی ناکامی کی اطلاع مل گئی تھی اور وہ اس کے نائٹ کلب پہنچ گیا تھا۔ رانا سے اب تک جتنی ملاقاتیں ہوئی تھیں، وہ اس کے نائٹ کلب والے دفتر ہی میں ہوئی تھیں۔
کیا وہ دفتر میں بیٹھا ہوا ہے؟۔۔شوچائی نے پوچھا
نہیں۔ میں نے اسے نیچے استقبالیہ روم میں بٹھا دیا ہے۔ میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ تم کہاں ہو۔۔ چی فانگ نے جواب دیا۔
ٹھیک ہے۔ اس سے کہو انتظار کرے میں آرہا ہوں۔۔شوچائی نے کہتے ہوئے ریسیور رکھ دیا۔
اس کا دل چاہ رہا تھا سو جائے لیکن وہ رانا کو ملاقات سے انکار کر کے اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ چند لمحے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا پھر اٹھ کر ہاتھ روم میں گھس گیا۔ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹوں سے حواس کچھ بحال ہونےکے بعد دو سرے کمرے میں آکر وہ ایک لمحے کو رکا پھر میز کی دراز سے سائلنسر لگا پستول نکال کر جیکٹ کی جیب میں ڈال لیا اور باہر آکر دروازہ بند کر دیا ۔
اس کی کار کمپاؤنڈ میں کھڑی تھی۔ اس نے پہلے باہر کا گیٹ کھولا۔ کار اسٹارٹ کر کے اسے باہر نکالا اور نیچے اتر کر گیٹ بند کرنے لگا۔ اسے اپنے نائٹ کلب تک پہنچنے میں چالیس منٹ لگے تھے۔ رات پچھلے پہر تین بجے تک تو کلب میں زندگی کے ہنگامے جاری رہتے تھے لیکن اس وقت یہاں الو بول رہے تھے۔
وہ کار سے اتر کر اندر آ گیا۔ رانا کلب کے استقبالیہ میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے دوسرے صوفے پر چی فانگ بھی بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ وہ کلب ہی میں ایک کمرے میں رہتا تھا۔ رات تین بجے کلب بند ہونے کے بعد نوکروں کے ذریعے کام سمیٹتے ہوئے چار بج جاتے۔ اس کے بعد وہ سونے کے لیے چلا جاتا اور دن کے گیارہ بجے سے پہلے کبھی نہیں اٹھا تھا اور آج رانا نے اسے صبح سویرے ہی جگا دیا تھا۔
رانا کے چہرے پر بھی بیزاری کے تاثرات تھے اور آنکھوں میں سرخی بھی تیر رہی تھی جس کا مطلب تھا کہ وہ بھی رات بھر نہیں سویا تھا۔
مسٹر شوچائی !۔۔ رانا خشمگیں نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔میں نے تمہاری آزمائش کے لیے تمہیں ایک کام دیا تھا لیکن تم ابھی تک کچھ بھی نہیں کر سکے۔
کچھ کیوں نہیں کر سکا۔ ۔شوچائی نے جواب دیا ۔۔تمہاری خاطر میں نے دو مرڈر کیے۔ میرا اپنا ایک آدمی گزشتہ رات مارا گیا اور دو سرا لاپتا ہے اور تم کہتے ہو، میں نے تمہارے لیے کچھ نہیں کیا۔
تم نے کہا تھا کہ آج اس لڑکے کو میرے حوالے کر دو گے لیکن وہ لڑکا تو اپنے گھر میں سکون کی نیند سو رہا ہے۔ البتہ تمہارے دو آدمی مارے گئے۔ ایک شمشیر سنگھ کے گھر میں اور دوسرے کی لاش بھی پولیس کو مل گئی ہے۔ گزشتہ رات کے واقعے سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ تم نے احمقوں کی فوج پال رکھی ہے۔
رانا چند لمحوں کو خاموش ہوا پھر بات جاری رکھتے ہوئے بولا ۔۔ میں نے کہا تھا کہ شمشیر سنگھ کو نہیں چھیڑنا لیکن تم نے اس کا ایک بندہ مار دیا اور دو سرا زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم اس موقع پر کسی کی دشمنی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ روحان شمشیر سنگھ کا بیٹا نہیں ہے۔ اسے اغوا کر لیا جائے یا مار دیا جائے تو اس کی صحت پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ دو چار دن چیخ چلا کر خاموش ہو جاتا ۔لیکن اپنے آدمیوں کے قتل پر وہ چین سے نہیں بیٹھے گا۔ اس طرح ہمارے لیے نئے مسئلے کھڑے ہو جائیں گے۔ جبکہ اس لڑکے کی صورت میں خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔
شوچائی خاموشی سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ جیب سے پستول نکالے اور رانا کی کھوپڑی کے پرخچے اڑا دے لیکن وہ سب کچھ خاموشی سے سنتا رہا اور جب رانا خاموش ہوا تو اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے بولا۔
مسٹر رانا۔ گزشتہ رات میرے آدمیوں سے واقعی حماقت ہو گئی۔ یہ سب کچھ دراصل ایک غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اگر وہ غلط فہمی نہ ہوتی تو وہ لڑ کا اس وقت ہمارے قبضے میں ہو تا ۔
اگر تم یہ کام نہیں کرسکتے تو اب بھی منع کردو۔ میں یہ ذمے داری البرٹ کو سونپ دوں گا۔۔ رانا نے کہا۔
البرٹ کے نام پر شوچائی چونکے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ وہ دوغلی نسل کا تھا۔ باپ انگریز اور ماں چینی۔ باپ بھی جرائم پیشہ آدمی تھا جو پولیس کے ہاتھوں مارا گیا اور اب البرٹ جرائم کی دنیا میں قدم جمانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ کام البرٹ کو سونپ دینے کا مطلب یہ ہو تا کہ شوچائی کے لیے چانس ختم ہو جاتا۔
مجھے ایک موقع اور دو مسٹر رانا ۔۔ شوچائی اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔ تین دن کے اندر اندر وہ لڑکا تمہارے پاس ہو گا۔
وہ لڑکا اب مجھے نہیں چاہیے ۔۔ رانا نے کہا۔۔ میں تمہیں ایک موقع اور دے رہا ہوں۔ ختم کر دوا اسے۔ اگر وہ تین دن کے اندر ختم نہ ہوا تو میرا اور تمہارا معاہدہ ختم۔ اب میں چلتا ہوں۔ تین دن بعد تم سے ملاقات کروں گا۔
رانا کمرے کا دروازہ کھول کر باہر چلا گیا اور شوچائی اپنی جگہ پر بے حس و حرکت بیٹھا دروازے کو گھورتا رہ گیا۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
