رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ کہانی بھی آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر- 25
ہاں لیکن فی الحال تم سارے معاملات مجھ پر چھوڑ دو۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا ۔۔۔ ناشتا کرو اور اپنی کتابیں لے کر پڑھنے کے لیے بیٹھ جاؤ۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ میں جلدی واپس آجاؤں گا۔
ڈیڈی کی دکان کا کیا ہو گا چاچا۔ کئی روز سے بند پڑی ہے۔۔۔روحان نے کہا۔
اس کا بھی بندوبست کرتے ہیں پتر۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہا۔۔۔پرنام سنگھ تمہارے باپ کا پرانا ملازم ہے۔ دیانتدار اور قابل اعتماد ہے۔ میں اپنا ایک آدمی اس کے ساتھ لگا دیتا ہوں۔ وہ دونوں دکان سنبھال لیں گے۔
اور چاچا ۔۔۔ روحان نے اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے۔۔۔ ڈیڈی نے ڈائری میں لکھا ہے کہ انہوں نے ملک نوازش کے آدمیوں سے پانچ کروڑ روپے کا سونا چھین کر کنوئیں میں پھینک دیا تھا۔ کیا وہ سونا اب بھی وہاں موجود ہو گا۔ پانچ کروڑ بہت بڑی رقم ہوتی ہے نا ؟
ہاں بہت بڑی اور اب تو اس سونے کی مالیت تقریباً دگنی ہو گئی ہوگی۔۔۔ شمشیر سنگھ نے جواب دیا ۔۔۔تمہارے باپ کی ڈائری پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کی موت کی وجہ وہ سونا ہی تھا۔ زمین کا مقدمہ چل رہا تھا اور چلتا رہتا لیکن تمہارا باپ تو ان کی دوسری غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی رکاوٹ بن گیا تھا۔ اس نے ملک نوازش کے آدمیوں سے سونا چھین کر کنوئیں میں پھینک دیا تھا۔ وہ یقیناً بعد میں پولیس یا کسی اور کو ملک نوازش کی غیر قانونی سرگرمیوں اور اس سونے کے بارے میں اطلاع دینا چاہتا ہو گا ۔ لیکن ملک کے آدمیوں نے اسے چین سے بیٹھنے کا موقع نہیں دیا اور اسے اپنی اور تم لوگوں کی جانیں بچا کر ملک سے بھاگنا پڑا۔ لیکن۔۔ یہ اسمگلر جو ہوتے ہیں نا۔ بہت ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ انہیں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ ان کا دھرم صرف اور صرف دولت ہوتی ہے۔ انسانی زندگی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ وہ دولت کے لیے دوسروں کو بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور پھر پانچ کروڑ تو بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے وہ سونا اب بھی وہاں موجود ہو لیکن اس کے بارے میں بعد میں سوچا جائے گا۔ فی الحال تو ہمیں یہاں رانا اور اس کے کرائے کے ٹٹوں سے نمٹنا ہے۔ اچھا۔ اب میں چلتا ہوں۔ ایک دو گھنٹے میں آجاؤں گا۔۔۔ شمشیر سنگھ ناشتے کی میز سے اٹھ گیا۔
اپنے کمرے میں جا کر اس نے لباس تبدیل کیا اور باہر آکر پولیس والوں کو ہدایات دیتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اس کی اپنی گاڑی کئی روز سے کام کے سلسلے میں ورکشاپ میں کھڑی تھی۔ اس نے اپنے دوست دلدار سنگھ کی مرسیڈیز مستعار لے لی تھی۔ اس گاڑی کو وہ باہر گلی میں ہی کھڑی کیا کرتا تھا۔
مرسیڈیز ڈرائیو کرتے ہوئے وہ محتاط نظروں سے اطراف میں دیکھ رہا تھا۔ پہلے اس نے سوچا تھا کہ پولیس اسٹیشن جا کر انسپکٹر چیانگ شو کو اس دھمکی آمیز فون کال کے بارے میں آگاہ کرے گا لیکن پھر اس نے ارادہ بدل دیا اور کار کا رخ اپنے دفتر کی طرف موڑ دیا ۔
وہ کئی روز بعد دفتر آیا تھا۔ بہت سارے کام اس کی توجہ کے منتظر تھے لیکن اس نے اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لیا فون پر انسپکٹر چیانگ شو سے رابطہ کر کے اسے اس ٹیلی فون کال کے بارے میں بتانے لگا۔
گڈ۔۔۔ انسپکٹر چیانگ شو نے کہا۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ وہ رات نو بجے تم سے دوبارہ فون پر رابطہ کرے گا لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں سی آئی ڈی کے کچھ آدمی تمہارے مکان کے اطراف میں پھیلا دیتا ہوں۔ ہم فون ٹیپ کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ کال کہاں سے کی گئی ہے اور وہ کون ہے؟۔
مجھے کیا کرنا ہو گا؟۔۔۔ شمشیر سنگھ نے پوچھا۔
کچھ نہیں۔۔۔ انسپکٹر چیانگ شو نے جواب دیا۔۔۔ تم گھر پررہو گے۔ اگر موقع ملا تو اس وقت میں خود بھی تمہارے پاس موجود رہوں گا۔ اگر کوئی اور ایمر جنسی۔۔ آن پڑی تو اپنا آدی بھیج دوں گا۔
ٹھیک ہے۔ میں رات کو انتظار کروں گا۔۔۔ شمشیر سنگھ نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا اور اٹھ کر دروازہ کھول دیا ۔
وہ دو پہر تک اپنے کام میں مصروف رہا پھر منیجر کو ہدایات دیتا ہوا اٹھ گیا۔ راستے میں ایک ہوٹل سے اس نے دولنچ بکس لیے اور پھر سیدھا گھر پہنچ گیا۔ مکان پر ڈیوٹی دینے والے پولیس اہلکاروں کے کھانے پینے کا بندوبست بھی اس کے ذمے تھا۔ وہ ان پولیس والوں کو پیسے دے دیا کرتا تھا اور وہ اپنا ایک آدمی بھیج کر کسی قریبی ہوٹل سے کھانا لے آتا تھا۔ شمشیرسنگھ گھر پہنچا تو دو بج رہے تھے۔ کمرے میں روحان کے ساتھ سامنے والے بنگلے میں رہنے والی مسزفائے بھی موجود تھی۔ وہ شمشیر سنگھ کو دیکھ کر مسکرا دی۔
مسز فائے کی عمر تیسں کے لگ بھگ رہی ہوگی۔ خاصی حسین ، شگفتہ زندہ دل عورت تھی۔ وہ اکثر ان کے ہاں آیا کرتی تھی۔کیونکہ اُسکے شمشیر سنگھ سے سیکس تعلقات بھی تھے ، لیکن وہ سیکس کے معاملے میں بہت موڈی ، جب اس کا موڈ بنتا تھا تو وہ ایسی جنونی ہوجاتی کہ شمشیر سنگھ کے بھی چکے چھڑادیتی ۔لیکن جب ٹھنڈی رہتی تو مہینوں مہینوں اُس کو پروا ہی نہیں ہوتی کہ سیکس نام کی کوئی چڑیا بھی ہوتی ہے۔ اور اگر کبھی شمشیر سنگھ کا موڈ بھی بن جاتا اور وہ اُس کو کس کرتا یا اُس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتا ، تو وہ صاف منع کردیتی کہ میرا موڈ نہیں ہے۔ مٹھ مارلو۔
اس لیئے اب شمشیر سنگھ بھی اُس کے موڈ کو سمجھ گیا تھا تو چیڑچھاڑ کر کے خود کو ڈسٹرب نہیں کرتا جب تک وہ خود پھدی کی آگ سے جلتی ہوئی نہ آجاتی۔ویسے وہ کبھی کبھار ایسے ہی گپ شپ کرنے بھی آجاتی تھی اُس کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا ۔ اور اب جب سے روحان یہاں رہنے لگا تھا تو وہ اُس کے پاس بھی ملنے آجاتی اور کافی دیر بیٹھی روحان سے باتیں کرتی رہتی ۔
میں نے سوچا روحان اکیلا گھبرا رہا ہو گا اس لیے میں یہاں آگئی تھی۔۔۔ اس نے شمشیر سنگھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
بہت اچھا کیا تم نے۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا۔۔۔ اس بچے کو کمپنی ضرورت ہے۔ میں تو کچھ مصروف رہتا ہوں۔ بہتر ہو گا کہ تم روزانہ کچھ دیر کے لیے اس کے پاس آجایا کرو۔
فائے آنٹی بہت اچھی خاتون ہیں شمشیر چاچا ۔۔۔ روحان نے ان کی باتوں میں مداخلت کرتے ہوئے کہا۔۔۔ بڑے مزے مزے کی باتیں کرتی ہیں۔
ہاں پتر۔۔۔ شمشیر سنگھ بولا اور معنی خیز نظروں سے مسز فائے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ تم نے دیکھا نہیں یہ خود بھی کتنے مزے کی ہیں۔ کبھی کبھی ملنے آ جاتی ہیں تو ان سے باتیں کر کے واقعی مزہ آجاتا ہے۔ بہرحال، تم منہ ہاتھ دھولو۔ میں کھانا لے آیا ہوں۔ آج تمہاری یہ فائے آنٹی بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا ئیں گی۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
