رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ کہانی بھی آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر- 28
گاڑی تیز چلاؤ۔۔۔ آنگ کانگ غرایا۔
اس نے سی آئی ڈی کے اس آدمی کو بنگلے کی طرف دوڑتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ فوراً ہی شمشیر سنگھ نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی اور آنگ کانگ کی ہدایات پر عمل کرتا ہوا گاڑی کو او کسلے رئز کی طرف لے آیا۔
اگلے موڑ پر گاڑی کو او کسلے روڈ پر اور وہاں سے الائیڈ روڈ کی طرف موڑ لینا ۔ رفتار بڑھاؤ ۔۔۔ آنگ کانگ دہاڑا۔
نجانے کیا بات تھی کہ اب اس پر گھبراہٹ سی طاری ہونے لگی تھی۔ اس نے پستول کی نال روحان کے پہلو سے لگا رکھی تھی۔ شمشیر سنگھ نے مرسیڈیز کی رفتار بڑھا دی اور پھر رفتار کم کیے بغیر اس نے اگلے موڑ پر گاڑی او کسلے روڈ کی طرف گھما دی۔ اس نے موڑ پر ٹریفک کے ایک سارجنٹ کی موٹر سائیکل دیکھ لی تھی۔ اسے دیکھ کر شمشیر سنگھ نے گاڑی کی رفتار مزید تیز کر دی تھی کہ ٹریفک سارجنٹ اس کی طرف متوجہ ہو جائے۔ ابھی تو ساڑھے نو بجے تھے۔ سڑک پر ٹریفک کی آمد ورفت بھی جاری تھی۔ شمشیر سنگھ بڑی مہارت سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ ٹریفک سارجنٹ کی موٹر سائیکل بھی بڑی تیز رفتاری سے اس کے پیچھے آنے لگ گئی تھی۔ آنگ کانگ نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔
اس موٹر سائیکل سے پیچھا چھڑاؤ۔۔۔ آنگ کانگ چیخا۔۔۔ گاڑی کو الائیڈ گارڈنز کی طرف موڑ لو۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ موٹر سائیکل قریب آرہی تھی اور پھر موٹر سائیکل سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے پستول والا ہاتھ اوپر اٹھا کر ٹریگر دیا دیا۔ گولی عقبی وینڈ اسکرین توڑتی ہوئی موٹر سائیکل سوار سارجنٹ کے پیر پر لگی تھی۔ موٹر سائیکل بے قابو ہو کر سڑک پر لڑھک گئی۔
روحان خوف زدہ تھا لیکن آنگ کانگ نے جیسے ہی اس کے پہلو سے پستول ہٹایا ، اس کے دماغ میں جھما کا سا ہوا اور اس نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی اس سے توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ موٹر سائیکل سوار پر گولی چلا کر آنگ کانگ ابھی پیچھے کی طرف ہی جھکا ہوا تھا کہ روحان نے دونوں ہاتھوں سے اس کے پستول والے ہاتھ کی کلائی پکڑی اور دانت اس کے بازو میں گاڑ دیے۔ آنگ کانگ بلبلا اٹھا۔ وہ بازو کو زور زور سے جھٹکے دینے لگا۔ انگلی سے پستول کا ٹریگر دب گیا۔ پستول کا رخ چھت کی طرف تھا۔ گولی چھت میں سوراخ کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔ شمشیر سنگھ نے یہ صورت حال دیکھی تو لمحہ بھر کو بد حواس ہو گیا۔ اسی بدحواسی میں کار بے قابو ہو گئی۔ اس نے بریک پیڈل دیا دیا اور اسٹیئرنگ چھوڑ کر سیٹ کے اوپر سے پیچھے جھک گیا اور آنگ کانگ کی گردن میں بازو ڈال کر اسے پوری قوت سے پیچھے کی طرف کھینچنے لگا۔ پستول سے ایک اور گولی نکلی۔ یہ گولی عقبی اسکرین توڑتی ہوئی نکل گئی تھی۔ روحان نے دانتوں سے انگ کانگ کا بازو بھنبوڑ ڈالا۔ پستول آنگ کانگ کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گرا۔ اس کے بازو سے خون بہہ رہا تھا۔ روحان اسے بری طرح دانتوں سے بھنبوڑ رہا تھا۔ دوسری طرف شمشیر سنگھ نے اس کی گردن کو بازو کی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اسے سانس گھٹتا ہوا سا محسوس ہونے لگا۔
مرسیڈیز سڑک پر لہرا رہی تھی۔ وہ سامنے سے آنے والے ایک ٹرک سے ٹکراتے ٹکراتے بچی اور لہراتی ہوئی سڑک سے اتر کر ایک درخت سے ٹکرا گئی۔
آنگ کانگ نے تکلیف کے باوجود بازو کو زور زور سے جھٹکے دیئے۔ روحان نے ایک مرتبہ پھر زور سے بھنبوڑا اور پھر اس کے بازو سے دانت ہٹا لیے۔ اس کے منہ میں خون بھر گیا تھا اور وہ متلی سی محسوس کرنے لگا تھا۔ آنگ کانگ کے بازو سے بوٹی لٹک گئی تھی اور خون کی دھار بہہ نکلی تھی۔ وہ اب اپنے آپ کو شمشیر سنگھ کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ شمشیر سنگھ نے اس کی گردن کو آہنی شکنے کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اچانک وہ چونک گیا۔ پیچھے سے ایک کار بڑی تیز رفتاری سے اس طرف آرہی تھی۔ گولیاں چلنے کی آواز بھی شمشیر سنگھ کے کانوں سے ٹکرائی۔ یہ پولیس نہیں ہو سکتی تھی۔ پولیس گولیاں نہیں چلاتی ، سائرن بجاتی ہے۔ اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ آنگ کانگ کے ساتھی تھے۔
کا کے ! ۔۔۔وہ چیخا ۔۔۔گاڑی سے اتر کر بھاگ جا۔ وہ لوگ آرہے ہیں۔
میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا چا چا ۔۔۔ روحان بولا۔۔۔میری پروا مت کر بھاگ جا یہاں ہے۔ مجھے کچھ نہیں
ہو گا۔ بھاگ جا یہاں سے۔ کسی بھی محفوظ جگہ پر چلا جا۔ میں تلاش کرلوں گا۔ بھاگ جا۔ وہ لوگ آگئے تو تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ بھاگ جا کا کے۔ جلدی کر۔۔۔ شمشیر چیخا۔
روحان نے ایک لمحے کو سوچا اور کار کا دروازہ کھول دیا۔ آنگ کانگ نے ٹانگ آگے کر کے اسے روکنے کی کوشش کی تھی مگر روحان نے اس کی ٹانگ پر بھی دانتوں سے کاٹ لیا اور کار سے اتر کر ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
اس نے ایک مرتبہ مڑ کر دیکھا۔ گولیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ وہ تیز رفتار کار مرسیڈیز سے چند گز پیچھے رک گئی۔ روحان مڑ کر تاریکی میں دوڑنے لگا۔ اس کا رخ لائیڈ گارڈنر کی طرف تھا۔
روحان تاریکی میں اندھا دھند دوڑا جارہا تھا۔ اس کا سانس پھول گیا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ، تعاقب میں کوئی نہیں تھا۔ وہ رک گیا اور پھولے ہوئے سانس پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس کے منہ میں اب بھی خون کا ذائقہ بھرا ہوا تھا اور پھر دفعتاً اسے یوں محسوس ہوا جیسے خون کا کوئی لوتھڑا اس کے حلق میں پھنس گیا ہو۔ اسے متلی محسوس ہونے لگی۔ وہ اپنی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا مگر کامیاب نہیں ہو سکا اور قے کرنے لگا۔ اس کے پورے سینے میں آگ سی لگ گئی۔ بڑی شدید جلن ہو رہی تھی۔ پیٹ میں آنتیں جیسے کٹی جارہی تھیں۔ وہ پیٹ پکڑ کر د ہرا ہوا جا رہا تھا۔ اگر چہ وہ بہت بڑی الٹی کر چکا تھا۔ کھایا پیا سب کچھ نکل چکا تھا مگر لگتا تھا جیسے اب بھی حلق میں کچھ اٹکا ہوا ہو، وہ پیٹ کو دباتے ہوئے ابکائیاں لیتا رہا۔
اس کی آنکھوں اور ناک سے بھی پانی بہہ نکلا تھا۔ منہ میں خون کا ذائقہ بھی ابھی تک محسوس ہو رہا تھا اور بالاآخر وہ اپنی کیفیت پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس لمبی چوڑی الٹی کی وجہ سے وہ نڈھال سا ہو گیا تھا۔ وہ پانی پینا چاہتا تھا مگر پانی کہاں سے ملتا۔ وہ گھاس پر بیٹھ گیا اور سانس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔ اگر دن کا وقت ہو تاتو شاید اس علاقے کو پہچان لیتا مگر رات کے اندھیرے میں اس کی سمجھ میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ جس جگہ بیٹھا ہوا تھا اس کے آس پاس قد آدم جھاڑیاں تھیں اور دائیں طرف تقریبا دو سو گز کے فاصلے پر درختوں کے تاریک ہیولے نظر آرہے تھے دوسری طرف بہت فاصلے پر کچھ روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ اچانک ہی دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سن کر وہ چونک گیا۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ کافی فاصلے پر دو انسانی ہیولے دوڑتے ہوئے اسی طرف آرہے تھے۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
