A Dance of Sparks–29–رقصِ آتش قسط نمبر

رقصِ آتش - ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات

رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ : ـــــــــ  یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ  ساری  رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی   ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ  کہانی بھی  آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

رقصِ آتش قسط نمبر- 29

 اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ انجانا سا خوف اس کے دماغ کو اپنی گرفت میں لینے لگا۔ اس نے اِدھر اُدھر  دیکھا۔ اگر وہ اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کرتا تو ان کی نظروں میں آسکتا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اِدھر اُدھر دیکھا اور رینگتا ہوا جھاڑیوں میں گھس گیا اور ایک جگہ دبک کر بیٹھ گیا۔ جھاڑیاں خاصی گنجان تھیں۔ وہ انہیں دیکھ تو نہیں سکتا تھا لیکن قدموں کی آواز سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ قریب آرہے تھے۔ روحان کو سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی کہ وہ آنگ کانگ کے ساتھی تھے جو اس کی تلاش میں اس طرف آئے تھے۔

وہ اُسے قتل کرنا چاہتے تھے۔ اس سارے شیطانی کھیل کے پیچھے رانا کاہاتھ تھا ۔ اور وہ رانا کے جرم کا چشم دید گواہ تھا۔ رانا  کسی قیمت پر اُسے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ اس نے کرائے کے غنڈوں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں جو اسے ٹھکانے لگانے کے لیے موقع کی تاک میں تھے اور اس کی قسمت اچھی تھی کہ ہر مرتبہ وہ بچتا رہا تھا۔ قسمت نے آج پھر اس کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے ذہن میں شمشیر سنگھ کا خیال اُبھر آیا ۔ وہ اکیلا رہ گیاتھا۔ پتا نہیں اس کا کیا ہوا ہو گا۔

 دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز اس سے چند گز کے فاصلے پر رک گئی پھر ایک آدمی کی آواز سنائی دی۔ وہ چینی زبان میں بات کر رہا تھا۔ روحان کی پرورش اسی جزیرے پر ہوئی تھی جہاں کی آبادی میں چینیوں کی اکثریت تھی۔ وہ مینڈ رن زبان بولتے تھے۔ روحان اگرچہ  روانی سے یہ زبان نہیں بول سکتا تھا لیکن سمجھ لیتا تھا۔

 وہ شخص کہہ رہا تھا۔۔۔وہ اسی طرف آیا تھا۔ یہاں تو کہیں نظر نہیں آرہا۔ ممکن  ہے وہ پارک کی طرف نکل گیا ہو۔ وہاں چھپنے کی بہت سی جگہیں ہیں۔

 چھپنے کی جگہیں تو اس طرف بھی بہت ہیں۔ ان جھاڑیوں میں پوری فوج چھپ سکتی ہے۔ لیکن چلو۔ پارک ہی کی طرف چلتے ہیں۔ وہ اسی طرف گیا ہو گا۔ اسے وہاں کسی سے مدد ملنے کی توقع بھی ہوگی۔۔۔ دوسرے نے کہا۔

قدموں کی آواز دور ہوتی چلی گئی۔ چند سیکنڈ بعد روحان نے جھاڑیوں سے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ دونوں دائیں طرف والے درختوں کی طرف جا رہے تھے۔ اس کے منہ سے بے اختیار گہرا سانس نکل گیا۔ موت ایک بار پھر اس کے قریب سے گزر گئی تھی۔

وہ چند لمحے اپنی جگہ پر بیٹھا رہا پھر اٹھ کر جھاڑیوں سے باہر نکلنے کے بجائے اس طرف چلنے لگا جہاں روشنیاں دکھائی دے رہی تمھیں۔ روحان کا دل خوف سے کانپ رہا تھا لیکن وہ اپنے خوف پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے تیز تیز چلتا رہا۔ رات کے سناٹے میں جھاڑیوں کی سرسراہٹ کی آواز دور تک سنی جاسکتی تھی لیکن اس نے اپنی رفتار کم نہیں کی تھی۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دور نکل جانا چاہتا تھا۔ تقریباً دو سو گز دور جھاڑیوں سے نکل کر وہ کھلی جگہ پر آگیا۔ تیز تیز چلتے ہوئے اس کا سانس پھول گیا تھا۔ وہ اپنی کیفیت پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے ایک بار پھر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ وہ جھاڑیوں میں غلط سمت میں نکل آیا تھا۔ وہ روشنیاں اب دائیں طرف رہ گئی تھیں۔ آگے ایک ٹیلا سا تھا اور دبیز گھاس تھی۔ وہ ٹیلے پر چڑھنے لگا۔ تقریباً سو گز کا فاصلہ طے کر کے وہ ایک بار پھر رک گیا۔ ٹیلے کے دوسری طرف نشیب میں بھی روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے وہ پیچھے مڑا تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ دو انسانی ہیولے جھاڑیوں سے نکل کر اسی طرف آرہے تھے۔ یہ یقینا وہی تھے جو پارک کی طرف گئے تھے لیکن اُس طرف اس کی تلاش میں ناکام ہو کر اس طرف آگئے تھے۔ ان کے درمیان فاصلہ اگر چہ تین سو گز کے قریب تھا لیکن روحان بلندی پر ایسی جگہ کھڑا تھا جہاں نشیب سے اسے آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا اور پھر ایک چیختی ہوئی آواز سن کر وہ اچھل پڑا۔

وہ رہا۔ بھاگو بچ کر جانے نہ پائے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی فضا فائر کی آواز سے گونج اٹھی۔

 روحان نے دوسری طرف نشیب میں دوڑ لگا دی۔ ایک موقع پر اس کا پیر رپٹ گیا۔ وہ لڑ کھڑا کر گرا۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا اور کئی گز تک ڈھلان پر لڑھکتا چلا گیا۔ بالآخر وہ سنبھل گیا۔ اس نے مڑکر دیکھا وہ لوگ ابھی ٹیلے کی چوٹی پر نہیں پہنچے تھے۔ وہ ایک بار پھر دوڑنے لگا۔

فائر کی آواز ایک بار پھر سنائی دی۔ روحان دوڑتا رہا۔ وہ روشنیاں اب بھی تقریباً تین سو گز دور تھیں۔ روحان سوچ رہا تھا کہ اگر کسی طرح وہاں تک پہنچ جائے تو موت کے ان فرشتوں سے بچ سکتا تھا۔ وہ پوری قوت سے دوڑتا رہا اور بالآخر ایک درخت کی آڑ میں رک گیا۔ سامنے شاپنگ ایریا تھا۔ ایک عمارت پر جگمگاتا ہوا ایک جانا پہچانا نیون سائن دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ وہ ریور ویلی روڈ پر آگیا ہے۔ یہ علاقہ اس کا جانا پہچانا تھا۔ سائیکل پر کئی مرتبہ اس طرف آچکا تھا۔ اس علاقے میں چند بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز تھے اور بھی بہت سی دکانیں تھیں۔ چند فاسٹ فوڈ کے اسٹالز اور تین چار اسنیک بارز تھے۔

روحان ایک بار پھر دوڑنے لگا اور بالآخر ریور ویلی روڈ پر پہنچ گیا۔ بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹور بند ہوچکے تھے۔ البتہ چند چھوٹی دوکانیں ، ریسٹورنٹ اور فاسٹ فوڈ کے اسٹالر کھلے ہوئے تھے اور اس علاقے کی طرف زیادہ رونق تھی۔

روحان ایک ریسٹورنٹ سے کچھ فاصلے پر ایک کار کی آڑ میں رک گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ دنوں آدمی بھی نظر آگئے۔ ان میں سے ایک کو دیکھ کر روحان چونک گیا۔ یہ وہی چینی تھا جس نے خنجروں کے وار کر کے اس کی ماں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ اس کا نام اب بھی اس کے ذہن میں نہیں آرہا تھا لیکن اسے دیکھ کر وہ کانپ اٹھا تھا۔ اس کی سفاکی کا مظاہرہ وہ دیکھ چکا تھا۔

وہ دونوں ایک جگہ پر کھڑے ادھر ادھر دیکھتے رہے پھر آگے بڑھنے لگے۔ روحان متوحش نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ یہ جگہ اس کے لیے محفوظ نہیں تھی۔ کسی بھی وقت وہ اُن کی نظروں میں آسکتا تھا۔ وہ کاروں کے پیچھے چھپتا ہوا ایک تنگ سی گلی میں سے گزر کر اس طرف آگیا جہاں فاسٹ فوڈ کی دکانیں تھیں۔ سڑک اور دکانوں کے درمیان وسیع لان تھے جہاں میزیں اور کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔

اگلی قسط بہت جلد 

مزید اقساط  کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں

The essence of relationships –09– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more

The essence of relationships –08– رشتوں کی چاشنی قسط نمبر

رشتوں کی چاشنی کہانی رومانس ، سسپنس ، فنٹاسی سے بھرپور کہانی ہے۔ ایک ایسے لڑکے کی کہانی جس کو گھر اور باہر پیار ہی پیار ملا جو ہر ایک کے درد اور غم میں اُس کا سانجھا رہا۔ جس کے گھر پر جب مصیبت آئی تو وہ اپنا آپ کھو بھول گیا۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–98– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
گاجی خان

Gaji Khan–97– گاجی خان قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور داستان ۔۔ گاجی خان ۔۔ داستان ہے پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک طاقتور اور بہادر اور عوام کی خیرخواہ ریاست کے حکمرانوں کی ۔ جس کے عدل و انصاف اور طاقت وبہادری کے چرچے ملک عام مشہور تھے ۔ جہاں ایک گھاٹ شیر اور بکری پانی پیتے۔ پھر اس خاندان کو کسی کی نظر لگ گئی اور یہ خاندان اپنوں کی غداری اور چالبازیوں سے اپنے مردوں سے محروم ہوتا گیا ۔ اور آخر کار گاجی خان خاندان میں ایک ہی وارث بچا ۔جو نہیں جانتا تھا کہ گاجی خان خاندان کو اور نہ جس سے اس کا کوئی تعلق تھا لیکن وارثت اُس کی طرف آئی ۔جس کے دعوےدار اُس سے زیادہ قوی اور ظالم تھے جو اپنی چالبازیوں اور خونخواری میں اپنا سانی نہیں رکھتے تھے۔ گاجی خان خاندان ایک خوبصورت قصبے میں دریائے چناب کے کنارے آباد ہے ۔ دریائے چناب ، دریا جو نجانے کتنی محبتوں کی داستان اپنی لہروں میں سمیٹے بہتا آرہا ہے۔اس کے کنارے سرسبز اور ہری بھری زمین ہے کشمیر کی ٹھنڈی فضاؤں سے اُترتا چناب سیالکوٹ سے گزرتا ہے۔ ایسے ہی سر سبز اور ہرے بھرے قصبے کی داستان ہے یہ۔۔۔ جو محبت کے احساس سے بھری ایک خونی داستان ہے۔بات کچھ پرانے دور کی ہے۔۔۔ مگر اُمید ہے کہ آپ کو گاجی خان کی یہ داستان پسند آئے گی۔
Read more
سمگلر

Smuggler –224–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more
سمگلر

Smuggler –223–سمگلر قسط نمبر

کہانیوں کی دنیا ویب سائٹ کی ایک اور فخریا کہانی ۔۔سمگلر۔۔ ایکشن ، سسپنس ، رومانس اور سیکس سے پھرپور کہانی ۔۔ جو کہ ایک ایسے نوجون کی کہانی ہے جسے بے مثل حسین نوجوان لڑکی کے ذریعے اغواء کر کے بھارت لے جایا گیا۔ اور یہیں سے کہانی اپنی سنسنی خیزی ، ایکشن اور رومانس کی ارتقائی منازل کی طرف پرواز کر جاتی ہے۔ مندروں کی سیاست، ان کا اندرونی ماحول، پنڈتوں، پجاریوں اور قدم قدم پر طلسم بکھیرتی خوبصورت داسیوں کے شب و روز کو کچھ اس انداز سے اجاگر کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا جیسے اپنی آنکھوں سے تمام مناظر کا مشاہدہ کر رہا ہو۔ ہیرو کی زندگی میں کئی لڑکیاں آئیں جنہوں نے اُس کی مدد بھی کی۔ اور اُس کے ساتھ رومانس بھی کیا۔
Read more

Leave a Reply

You cannot copy content of this page