رقصِ آتش۔۔ ظلم و ستم کےشعلوں میں جلنے والے ایک معصوم لڑکے کی داستانِ حیات
وہ اپنے ماں باپ کے پُرتشددقتل کا عینی شاہد تھا۔ اس کے سینے میں ایک طوفان مقید تھا ۔ بے رحم و سفاک قاتل اُسے بھی صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔ وہ اپنے دشمنوں کو جانتا تھا لیکن اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ اس کو ایک پناہ گاہ کی تلاش تھی ۔ جہاں وہ ان درندوں سے محفوظ رہ کر خود کو اتنا توانا اور طاقتوربناسکے کہ وہ اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکیں، پھر قسمت سے ایک ایسی جگہ وہ پہنچ گیا جہاں اُس کی زندگی ایک نئے سانچے میں ڈھل گئی اور وہ اپنے دشمنوں کے لیئے قہر کی علامت بن گیا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ : ـــــــــ یہ داستان صرف تفریح کیلئے ہی رائیٹرمحنت مزدوری کرکے لکھتے ہیں۔۔۔ اور آپ کو تھوڑا بہت انٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔۔۔ یہ ساری رومانوی سکسی داستانیں ہندو لکھاریوں کی ہیں۔۔۔ تو کہانی کو کہانی تک ہی رکھو۔ حقیقت نہ سمجھو۔ اس داستان میں بھی لکھاری نے فرضی نام، سین، جگہ وغیرہ کو قلم کی مدد سےحقیقت کے قریب تر لکھنے کی کوشش کی ہیں۔ یہ کہانی بھی آگے خونی اور سیکسی ہے تو چلو آگے بڑھتے ہیں کہانی کی طرف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
-
میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا
April 17, 2025 -
کالج کی ٹیچر
April 17, 2025 -
میراعاشق بڈھا
April 17, 2025 -
جنبی سے اندھیرے
April 17, 2025 -
بھائی نے پکڑا اور
April 17, 2025 -
کمسن نوکر پورا مرد
April 17, 2025
رقصِ آتش قسط نمبر- 32
اتفاق سے روحان جس جگہ دیوار سے کو دا تھا اس سے چند گز کے فاصلے پر باربی کیو کی وہی دکان تھی جہاں وہ کوئلے کی بوریوں کے پیچھے چھپا تھا۔ اس وقت بھی دکان کے اس ملازم نے اسے دیوار سے کودتے ہوئے دیکھ لیا۔
اوئے۔ کون ہے تو ۔ بھاگ جا یہاں سے۔ وہ چینی تجھے مار دیں گے۔ ۔۔دکان کا ملا زم چیخا۔
روحان نے ایک طرف دوڑ لگا دی۔ کُوڑے سے لدا ہوا ایک ٹرک گلی سے نکل کر بائیں طرف مڑا تھا۔ روحان دوڑ کر اس ٹرک پر چڑھ گیا اور کُوڑے کے ڈھیر پر لیٹ گیا۔ اس نے ان دونوں چینیوں کو بھی اسکول کی دیوار پر چڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ ٹرک کی رفتار تیز ہو گئی۔ وہ دونوں دور رہ گئے اور روحان کے منہ سے بے اختیار گہرا سانس نکل گیا۔
روحان ٹرک میں بھرے ہوئے کوڑے کےاُوپر لیٹے لیٹے ٹرک کے کنارے سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ ٹرک اس سڑک پر جا رہا تھا جس پر او برائے امپریل واقع تھا۔ ہوٹل کا نیون سائن دور ہی سے نظرآرہا تھا۔
وہ ٹرک ابھی ہوٹل سے دور ہی تھا کہ ایک ٹریفک سارجنٹ کی موٹر سائیکل تیز رفتاری سے اس کے برابر آئی۔ سارجنٹ نے ٹرک کے ڈرائیور کو گاڑی سائڈ میں روک لینے کا اشارہ کیا کیونکہ اس طرح کھلے عام ٹرک پر کُوڑا لے جانا جرم تھا اور سارجنٹ نے اسی لیئے اسے روکا تھا۔
ٹرک کی رفتار جیسے ہی کم ہوئی روحان نے چھلانک لگادی وہ سڑک پر گرا لیکن دوسرے ہی لمحے اٹھ کر ہوٹل کی طرف دوڑنے لگا۔ ہوٹل کے سامنے کچھ رونق نظر آ رہی تھی۔ اور روحان کو یقین تھا کہ وہاں اسے پناہ مل جائے گی۔
روحان کی ٹانگیں دوڑتے دوڑتے شل ہو چکی تھیں پھیپڑے پھٹے جا رہے تھے۔ سامنے فٹ پاتھ پر کچھ لوگ آرہے تھے۔ روحان کا رخ انہی کی طرف تھا۔ قریب پہنچ کر اسے کسی چیز سے ٹھو کر لگی اور وہ لڑکھڑاتا ہوا سامنے سے آنے والے ایک شخص کے قدموں میں گر گیا۔ روحان کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ منہ سے کف بہ رہاتھا ۔ اس کے دونوں ہاتھ سامنے کھڑے ہوئے شخص کے پیروں کے قریب تھے۔ اس نے آہستہ آہستہ سراٹھا کر دیکھا اور پھراُس شخص کو دیکھ کر اپنا سانس رکھتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
وہ رانا تھا۔وہ انسان نہیں موت کا فرشتہ تھا جسے دیکھ کر روحان کی روح تک کانپ اٹھی تھی۔
راناگردن کو ذرا ساخم کئے اپنے قدموں پر گرے ہوئے لڑکے کو دیکھ رہا تھا۔ جس کی تلاش میں اس نے چینی غنڈوں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں اور اب تک ہزاروں ڈالر خرچ کرچکا تھا۔ روحان اس کے جرم کا چشم دید گواہ تھا اور وہ اسے ہر قیمت پر موت کے گھاٹ اتارنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے قدم قدم پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔اور اس وقت وہ پکے ہوئے پھل کی طرح اُس کے قدموں میں آن گرا تھا۔ رانا اپنی خوش بختی پر دل ہی دل میں مسکرا ا ُٹھا۔ ایسا تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ روحان اس طر ح بھی اس کے سامنے آجائے گا۔
روحان اس کے لئے ڈیتھ وارنٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا دل چاہا تھا کہ ذرا سا نیچے جھکے اور اس لڑکے کی گردن مروڑکر فٹ پاتھ کے ساتھ کیاری میں لگے ہوئے پودوں کے پیچھے پھینک دے ۔ لیکن وہ بڑی مشکل سے اپنی اس خواہش پر قابو پا سکا تھا۔ جگہ ویران اور سنسان نہیں تھی۔ ایک بارونق بلے وارڈ تھا ، اگرچہ اس وقت بارہ سے اوپر کا وقت تھا لیکن سڑک پر اکا دوکا گاڑیوں کی آمدورفت بھی جاری بھی اور فٹ پاتھ پر لوگ بھی آ جارہے تھے۔ اس وقت کوئی معمولی سی غلطی بھی اس کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔
رانا نے گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھا۔ دو یورپین عورتیں اور ایک ادھیڑ عمر مردٹہلنے والے انداز میں اس کے پیچھے آرہے تھے۔ انہوں نے بھی اپنے سامنے ایک لڑکے کو دوڑتے ہوئے اور پھر گرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ تینوں تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے قریب پہنچ گئے۔ ان کی طرف دیکھتے ہوئے رانا کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ آگئی۔
یہ بچہ شاید کسی سے ڈر کر بھاگ رہا تھا۔۔۔ رانا نے قریب کھڑی ہوئی ادھیڑ عمر یورپی عورت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اِسے ہماری مدد کی ضرورت ہوگی۔ میں دیکھتا ہوں یہ کون ہے ؟
وہ آہستہ آہستہ نیچے جھکنے لگا جیسے روحان کو بانہوں سے پکڑ کر اٹھانا چاہتا ہو۔
ہیلو بوائے۔۔۔ وہ روحان کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے بولا۔۔۔ کیا بات ہے۔ کسی سے ڈر کر بھاگ رہے ہو۔ کیا کوئی بد معاش تمہیں پکڑنا چاہتا ہے؟
روحان کا ننھا سا دل خزاں رسیدہ پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔ رانا کے ہونٹوں پر اگر چہ مسکراہٹ تھی لیکن اس کی آنکھوں میں بے پناہ سرد مہری اور سفاکی تھی۔ روحان موت کو غنچا دے کر بھاگا تھا اور موت اس کے سامنے کھڑی تھی۔ ایک لمحے کو تو یوں محسوس ہوا جیسے اس کا دماغ بھی سُن ہو گیا ہو۔ اس نے سر کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیا اور زرا سی گردن گھما کر قریب کھڑے ہوئے اس یورپین مرد اور عورتوں کی طرف دیکھنے لگا۔ سامنے کافی فاصلے پر تین چار عورتوں پر مشتمل ایک اور ٹولی اس طرف آرہی تھی۔
روحان کے ذہن میں اچانک ہی ایک خیال آیا۔ وہ ان لوگوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ اس نے سوچا وہ شور مچا دے کہ یہ شخص اس کے ماں باپ کا قاتل ہے اور اسے بھی قتل کرنا چاہتا ہے لیکن اس میں اندیشہ اس بات کا تھا کہ رانا اسے فوراً ہی گولی مار دے گا اور اسے وہاں سے فرار ہونے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ اس وقت رانا سے بچنے کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ خود وہاں سے فرار کی کوشش کرے۔
آؤ بیٹا میرا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہو جاؤ اور بتاؤ کون بد معاش تمہارے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیں گے۔ ۔۔ رانا نے کہا۔
روحان چند لمحے اس کے چہرے کو دیکھتا رہا پھر اس نے اپنے آپ کو اس طرح حرکت دی جیسے اٹھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس نے دونوں ہاتھ رانا کے چمکتے ہوئے جوتوں پر رکھ دیے اور دونوں گھٹنے زمین پرٹیک دیے۔ وہ تینوں یورپین بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اٹھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ادھیڑ عمر عورت نے آگے جھکتے ہوئے اس کی طرف ہاتھ بڑھا دیا ۔
تم بہت دلیر لڑکے ہو ۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ہم تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیں گے۔
روحان نے اپنے آپ کو کچھ اور حرکت دی۔ اس نے دونوں ہاتھ جوتوں سے ہٹا کررانا کے ٹخنوں کے پیچھے رکھ دیے اور پھر اس نے وہ حرکت کی جس کے بارے میں رانا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ روحان نے رانا کے دونوں پیر پیچھے سے پکڑ کر اپنے جسم کی پوری قوت استعمال کرتے ہوئے ایک زوردار جھٹکا دیا ۔ رانا لڑکھڑا کر پشت کے بل فٹ پاتھ پر گرا۔ اس کے منہ سے گندی گالی نکل گئی تھی۔
اگلی قسط بہت جلد
مزید اقساط کے لیئے نیچے لینک پر کلک کریں
-
A Dance of Sparks–110–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–109–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–108–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–107–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–106–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025 -
A Dance of Sparks–105–رقصِ آتش قسط نمبر
April 10, 2025

میری بیوی کو پڑوسن نےپٹایا

کالج کی ٹیچر

میراعاشق بڈھا

جنبی سے اندھیرے

بھائی نے پکڑا اور
